Showing posts with label Urdu Blog. Show all posts
Showing posts with label Urdu Blog. Show all posts

Friday, January 20, 2023

ایک سیلیبرٹی اور سیاست کا بلیک ہول

ایک اور ستارہ سیاست کے بلیک ہول میں گرنے کو تیار
قاسم علی شاہ پر کچھ نہیں کہنا بلکہ کہنا بھی نہیں چاہیے مگر چونکہ وہ ایک پبلک فگر ہیں اچھی خاصی فین فالوونگ رکھتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر پچھلے چند دنوں کے واقعات اور ان سے جڑے دلچسپ اتار چڑھاو کے نتائج ضرور توجہ طلب اور سبق آموز ہیں:
سب سے پہلے انسان کو اپنا کردار بناتے عمریں لگ جاتی ہیں مگر اس کو بگاڑتے چند لمحے لگتے ہیں،
دوم، انسان کو عزت مل جانا خوش نصیبی سہی مگر اس کو سنبھال رکھنا واقعی کار پیمبری ہے،
سوم، انسان کی حرکات سکنات اور اعمال دراصل اس کا کردار ہوتے ہیں، ناکہ اس کے الفاظ، واعظ و تبلیغ یا موٹیویشنل سپیکنگز،
سیاست سمیت ہر شعبہ ہر شخص کا حق ہے، مگر قاسم علی شاہ کا طریقہ کار یقیناً کچھ زیادہ ہی اوتاولا نکلا

کچھ لوگوں کو قاسم علی شاہ کا عمران خان کے سامنے بیٹھنے کا انداز بالکل بھی پسند نہیں آیا۔ اور وہ اس کو قاسم علی شاہ کے سبق خودداری سے غداری قرار دے رہے ہیں، مزید ان کا عمران خان سے ٹکٹ مانگنے کا طریقہ تو بالکل بھی نہیں بھایا۔ اس طرح تو شاید عثمان بزدار نے بھی کبھی وزارت اعلی نہیں مانگی ہو گی؟

قاسم علی شاہ کا شہباز شریف کے سامنے بیٹھنے کا انداز عمران کے سامنے بیٹھنے سے بالکل مختلف نظر آیا، ایک انٹرویو میں قاسم علی شاہ نے شہباز شریف سے متعلق کہا کہ ’میں نے میاں شہباز شریف صاحب میں لچک دیکھی ہے۔اور میں نے متانت و گہرائی پرویز الٰہی صاحب میں دیکھی ہے۔

قاسم علی شاہ روایتی سوچ کے اکثریتی حلقہ کے ترجمان ہیں تو اسی حساب سے ان کی فین فالونگ بھی کافی ہے، اور ان کو مدرسوں یونیورسٹیوں سے لے کر جی ایچ کیو تک سنا جاتا ہے.

قاسم علی شاہ ایک معروف موٹیویشنل سپیکر، ٹرینر، مصنف اور ماہر تعلیم ہیں۔ وہ اب تک اپنے لیکچرز وغیرہ کی لگ بھگ 500 سے زیادہ ویڈیوز ریکارڈ کر چکے ہیں، یوٹیوب اور فیس بک پر لاکھوں ان کے فالوورز ہیں، 3000 کے قریب لیکچرز دے چکے ہیں، 200 سے سے اوپر کالم لکھ چکے ہیں، درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں اور ہزاروں لوگوں کو تربیت دے چکے ہیں جن میں سرکاری افسران، سی ایس پی افسران اور طلباء شامل ہیں۔ وہ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے بانی بھی ہیں۔ اس فاونڈیشن کا بنیادی تھیم ہے کہ سوچ بدلے گی تو پاکستان بدلے گا۔ 

اسی ٹی وی پروگرام میں موٹیویشنل سپیکر نے مزید کہا کہ ’عمران خان صاحب میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں لیکن انہوں نے یہ سوچ رکھا ہے کہ جو سارے فیصلے قیامت کے دن ہونے ہیں وہ انہوں نے دنیا میں ہی کر لینے ہیں۔‘
عمران خان پر تنقید سے قبل موٹیویشنل اسپیکر کو یوٹیوب پر 35 لاکھ اور فیس بُک پر 34 لاکھ سے زائد افراد فالو کرتے تھے لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے سوشل پلیٹ پلیٹ فارمز پر قاسم علی شاہ کو ان سبسکرائب اور ان فالو کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس کے بعد ان کی ریٹنگ پر تیزی سی کمی آئی جس سلسلہ تاحال جاری ہے۔


قاسم علی شاہ عمران خان پر تنقید کرتے وقت یہ بھول گے کہ عمران خان بھی سیاست میں آنے سے پہلے سیلیبرٹی رہ چکے ہیں اور وہ قاسم علی شاہ سے کہیں زیادہ بڑے سٹار تھے۔ اس لیے عمران خان میں سیاستدان بن جانے کے باوجود ایک سٹار والی عادات چنداں باقی ہیں۔ جبکہ قاسم علی شاہ شاید ایک عام سیاستدان سے ملنے پہنچے تھے کہ جس کو وہ اپنی موٹیویشنل پاور سے گرویدہ بنا لیں گے، مگر وہ بھول گے کہ کسی سے متاثر ہونا عمران خان کی سرشت میں ہی نہیں. 
 
اب آتے ہیں شاہ جی کے شوق سیاست کی طرف!
اس دنیا میں شاید کوئی کھیل کوئی تماشہ سیاست جتنا پرکشش، دلفریب اور دلچسپ ہو، مگر اکثر اوقات یہ بڑے بڑے ستاروں کے لیے بلیک ہول بھی ثابت ہوا ہے، جہاں وہ اپنی ساری زندگی کی کمائی ہوئی عزت اور شہرت سمیت غرق ہو گے.

ہر امیر اور مشہور شخص کی طرح شاید قاسم علی شاہ جی کا بھی دل اپنی شہرت کو کیش کرنے کے لیے مچلا یا پھر واقعتاً نئی نسل کے مستقبل کا درد اٹھا. مگر طریقہ واردات دیکھیں تو مطلوب و مقصود کشور کشائی ہی نظر آتی ہے ناکہ ذوق خدائی، کیونکہ ایسا ممکن نہیں کہ آپ اپنے نظریات لے کر کسی سیاسی جماعت میں جائیں اور اس سیاسی جماعت کے نظریات کو بدل کررکھ دیں، کیونکہ گرچہ ہر سیاسی جماعت اپنی سیاست نظریات سے شروع کرتی ہے مگر منتج پاور پالیٹکس پر ہی ہوتی ہے، زمینی حقائق کے پیش نظر نظریاتی پالیٹکس پاور پالیٹکس میں بدل کر ہی رہتی ہے. تو ایسے میں شاہ جی کا بھلائی کا دعویٰ جون جولائی میں ٹھنڈے ہوا کے جھونکے جیسی موٹیویشن سے زیادہ کچھ نہیں،
ہاں اگر شاہ جی بمطابق اپنی موٹیویشنل سپیکنگز! واقعی چاند تارے توڑ لانے کا حوصلہ جمع خاطر رکھتے ہوتے تو سیاسی بلیک ہول میں کودنے کی بجائے اپنا سیاسی سورج نا سہی کم از کم چاند ہی چڑھا لیتے. کامیابی ناکامی بعد کی بات، کم از کم اپنی عزت تو اپنے ہاتھ ہوتی.
اب شاہ جی کی کھوتی نا اپنے وہڑے جوگی رہ گئی نا زمیندار کے کھیت کھلیان جوگی. اب ن لیگ سے تبرا اٹھتا ہے تو یوتھیے اس کو چاند تک پہنچا کر چھوڑ رہے ہیں،
موٹیویشن کی دو اقسام ہوتی ہیں، ایکسٹرنسک اور انٹرسنک: اب پتہ نہیں قاسم علی شاہ صاحب ایکسٹرنسک موٹیویشن کا شکار ہوئے ہیں یا پھر ان کے اندر کا انقلابی اٹھ بیٹھا ہے۔

بعض اوقات خارجی محرک آپکی موٹیویشن کا باعث بنتے ہیں لیکن اگر یہ خارجی محرک آپکی اندرونی موٹیویشن سے میل نہیں کھاتے تو خارجی محرک عارضی ثابت ہوتا ہے اور نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ پس ثابت ہوا اصل موٹیویشن انسان کے اندر موجود ہوتی ہے، خارجی موٹیویشن اشاریہ ثابت ہوتی ہے جو اسپارک کی طرح کام کرتی ہے اور پھر مکمل انجن چلنے لگ پڑتا ہے،

شاہ جی نے سمجھا تھا جس طرح ان کی دانش پر روایتی طبقہ اور ننھے پروفیسر طالب علم ہاں جی ہاں جی کرتے ہیں شاید اسی طرح عمران خان پرویز الٰہی اور شہباز شریف بھی قاسم علی شاہ کے مرید ہو جائیں گے، مگر شاہ جی بھول گے کروڑوں موٹیویشنل سپیکر جمع ہوں تو اک سیاست دان بنتا ہے، کیونکہ سیاست دان اک اک ووٹ کا تجزیہ اور حصول ممکن کرکے ہی مسند پر بیٹھتا ہے، سنی سنائی رٹی رٹائی باتوں سے نہیں بلکہ عملی مٹھ سے گزر کر ہی وہ سیاست دان بنتا ہے، اس کے ایک نہیں ہزاروں روپ ہوتے ہیں. اور ہر روپ پہلے والے روپ سے زیادہ اصلی لگتا ہے، قاسم علی شاہ جی بھی کسی بہروپ کے نت روپ سے مات کھا گے.
خدا کرے ایک اور ستارہ سیاست کے بلیک ہول میں غرق نہ ہوجائے. 

Tuesday, November 22, 2022

پاکستان ڈیفالٹ رسک

ہچکولے کھاتی معیشت کی کشتی، اب ڈوبی کہ کل ڈوبی
حالات بد سے بدتر ہوتے جاتے ہیں. کریڈٹ ڈیفالٹ کا رسک مستقل خطرہ بن چکا ہے. یہ اس سال کے شروع میں محض 4٪ تھا جو اکتوبر میں 52٪ تھا اور اب 92٪ کو کراس کررہا ہے.
https://jang.com.pk/news/1161900

کریڈٹ ڈیفالٹ سوایپ کیا ہے؟
ملک دیوالیہ کیسے ہوتا ہے اور دیوالیہ ہونے کے کیا نقصانات اور کیا نتائج ہوتے ہیں؟ 
جب ملک بیرونی قرضوں کی یا پھر درآمدات کی ادائیگیاں کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تب ملک معاشی طور پر دیوالیہ سمجھا جاتا ہے. 
آئندہ کوئی ملک یا بینک وغیرہ اس کو قرضہ نہیں دیتا، 
اس کی کریڈٹ ریٹنگ گر جاتی ہے اور باقی ممالک ادارے اس کے ساتھ کاروباری معاہدے وغیرہ کرنے سے کتراتے ہیں. 
بیرونی قرضے وقت پر ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے اس کے بیرونی اثاثہ جات وغیرہ قبضے میں لے لیے جاسکتے ہیں، 
اس کی درآمدات بند ہو سکتی ہے جس سے ملک میں اشیاء کی قلت ہو جاتی ہے، خاص کر پٹرولیم مصنوعات جیسا کہ حال ہی میں سری لنکا میں ہوا. 
اس ملک کی اپنی کرنسی تیزی سے گرنا شروع کردیتی ہے، جیسا کہ وینزویلا میں ہوا، اس کی کرنسی اتنی بے وقعت ہو گی کے سڑکوں پر بکھری تھی اور لوگ اس پر چل رہے تھے. 
پاکستان بھی قرضوں کے اس نہ ختم ہونیوالے سائیکل میں پھنس چکا ہے. جس کی نہ کوئی ترکیب ہے اور نہ کوئی حل، بہت قرضے لوٹانے کے لیے پھر اور قرضے لیتے جاو لیتے جاو۔ پاکستان کے برے ہوتے ہوئے معاشی اور سیاسی حالات دیکھیں تو بار بار خیال آتا ہے کہ سیاسی جماعتیں کس شوق میں اقتدار میں آتی ہیں؟ نہ کوئی معاشی پلان نہ کوئی مستقبل بینی بس کرسی میں نے لینی، فقط اقتدار کے شوق میں مررہی ہیں گولیاں کھا رہی ہیں مگر پہنچنا اسلام آباد ہی ہے، زندہ یا مردہ؟
موجودہ حالات دیکھیں تو لگتا ہے کہ ن لیگ اقتدار میں فقط اپنے گناہ بخشوانے ہی آئی تھی. 
مریم کو پروانہ رہائی مل گیا. 
وڈے کو سفارتی پاسپورٹ اور چھوٹے کا وزارت عظمیٰ کا تڑکا لگ گیا.
لیکن اس سب میں پاکستان کا کیا بنا؟ عوام کو کیا ملا؟
پاکستان کے حالات تو وہی رہے بلکہ بد سے بدتر ہورہے؟ 
پھر 13 جماعتوں کا ملک گیر عظیم ترین اتحاد بھی کس کام آیا؟ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، نام نہاد ہی سہی تھا مگر بیانیہ بھی گیا اور بھرم بھی رائیگاں.
بڑا شہرہ تھا شہباز سپیڈ کا. اب نہ سپیڈ نظر آتی ہے نہ کوئی شوبازی ہی دل بہلاتی ہے.
اسحاق ڈارترکش کا آخری تیر تھا، مگر بجھا بجھا، بے بسی کی تصویر دوست ملکوں سے معجزوں کے انتظار میں بیچارا.
ڈوبنا مقدر تھا تو ملاح کی تبدیلی کی کیا ضرورت تھی؟ اسی کے گناہ اسی کے سر چڑھنے دیتے. جہاں اتنا صبر کیا تھا کچھ ماہ اور کرلیتے، خلق خدا خود اسے تخت سے اتار پھینکتی نہ رہتا بانس اور نہ اب بجتی بانسری. مگر اقتدار اور کرسی کا لالچ شاید اس دنیا کا سب سے بڑا لالچ ہے.
سال 2022ء کو معاشی لحاظ سے دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک دور رواں سال کے ابتدائی 4 ماہ کا ہے۔ جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت قائم رہی جبکہ باقی دور جس میں مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت اتحادی حکومت قائم ہے۔
عمران خان کے خلاف 10 اپریل کو تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی تو اس وقت روپے کی قدر 186.72 روپے تھی جو بڑھ کر 240 روپے تک جا پہنچی تھی اور دمِ تحریر 224 روپے پر موجود ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرح سود جو اس سال اپریل میں 11 فیصد کے لگ بھگ تھی وہ 5 فیصد اضافے کے بعد 16 فیصد ہوگئی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح جو اپریل میں 13.4 فیصد پر تھی اب بڑھ کر 26 فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔
اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 6 ارب ڈالر سے زائد کے زرِمبادلہ ذخائر موجود ہیں جبکہ عمران خان کی حکومت کے اختتام کے وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 10 ارب ڈالر سے زائد موجود تھے۔ 



مانا کہ پی ٹی ائی کے دور میں کوئی دودھ شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں، مگراس وقت کے معاشی اعشاریے دیکھیں اور آج کے اعشاریے دیکھیں تو زمین آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے
جیسی بھی تھی پی ٹی آئی کی جی ڈی پی گروتھ 6 کے قریب چل رہی تھی. اب تو بیچ بچاو کی لگی پڑی ہے
پی ٹی آئی کوئی مثالی معاشی دور تو ہرگز نہ تھا مگر تاریخ میں پہلی بار ملکی ایکسپورٹ 30 ارب ڈالر سے اوپر جاپہنچی تھیں اور صنعتیں 12٪ سے پھل پھول رہی تھیں، اب ہر ماہ سنتے ہیں کہ ایکسپورٹ میں تنزلی ہے صنعتیں خواب خرگوش کے مزے لینے لگی ہیں۔
روشن ڈیجیٹل اکاونٹ بلاشبہ کپتان کا کارنامہ گردانا جا سکتا ہے، کہ تاریخ میں پہلی بار ترسیلات زر 31 ارب ڈالر سے اوپر جارہی تھیں اور اس اکاؤنٹ میں 5.7 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری بھی آئی تھی. 


مگر اب ہر روز سنتے ہیں کہ جب سے ن لیگ نے آئینی طریقے سے کپتان کو ہٹایا ہے تب سے دن رات تنزلی ہی تنزلی ہے، اور ہنڈی کا کاروبار پھر چاندی چمکا رہا ہے.
کہاں گے دعوے؟ ڈالر 200 کا کرنے کے؟ یاد رہے کپتان کو 182 پر آیئنی دیس نکالا ملا تھا.


ٹنڈ کرواتے اولے برسے کی مانند نئے سیٹ اپ کو ہنی مون پیریڈ میں ہی سیلاب نے آن لیا، اوپر سے روس یوکرین جنگ، اور رہتی کسر کووڈ کے بعد اچانک سرگرمیوں کی تیزی سے پیدا شدہ مہنگائی اور پھر عالمی کساد بازاری۔ مگر جناب عالمی کساد بازاری تو لگ بھگ طے شدہ ہی تھی. اگر یہ نظر نہیں آئی تو پھر 40 سالہ سیاسی تجربہ کس کام کا؟
ساری عقل و دانش تجربہ کاری اک طرف، مگر ہوس اقتدار اک طرف. وزیراعظم بننا تھا بن گے، کیس معاف کروانے تھے کروا لیے. مگر شاید گھاٹا کا سودا ہی کیا، بھرم بھی گیا اور الیکشن بھی. اب موہوم سی امید کہ کپتان کو کوئی ان دیکھی طاقت کسی طریقے رستے سے ہٹا دے تو ن لیگ پھر اکیلی معاشی چیمپئین. مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش میں خجل خواری نکلے.
دعا ہے اس وینٹی لیٹر پے لیٹی معیشت کو کسی دوست ملک یا کسی بینک سے وقتی آکسیجن مل جائے،
https://jang.com.pk/news/1161900

جب قرض واپس کرنے کے لیے قرض لینے پڑیں تب دراصل ایسا ملک دیوالیہ ہی ہوتا ہے، لیکن اس کو عارضی سہاروں کی بنیاد پر چلایا جارہا ہوتا ہے تاآنکہ وہ ملک معاشی اصلاحات کرے اور اس گھن چکر سے نکل آئے، مگر پاکستان کے موجودہ حکمرانوں، سیاستدانوں اور اشرافیہ کی پالیسیاں دیکھتے ہوئے ایسا فی الوقت ہوتا نظر نہیں آتا، 
بس وینٹی لیٹر کی مصنوعی آکسیجن پر جب تک جیے تب تک نہال. کیونکہ یہاں سب کی منزل کرسی ہے ناکہ معاشی بہتری۔ 

Monday, September 12, 2022

ناکامی کا پوسٹ مارٹم

ٹک ٹک آخر کب تک؟ 
کہتے ہیں کامیابی کے ہزار باپ جبکہ ناکامی یتیم ہوتی ہے. لیکن دراصل ناکامی مخفی غلطیوں کے عیاں ہونے اور پھر ان کی تصحیح کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے.
ورلڈ کپ سے قبل ٹیم کی سیلیکشن، کوچنگ اور تھنکنگ ٹینک کا بھانڈا پھوٹنا رائیگاں نہیں اگر غلطیوں کی درستی کرکے نئی حکمت عملی بنا کر اس کو انگلینڈ کے خلاف مشق کر لیا جائے.
سب سے پہلے تو نمبر 1 اور نمبر 2 کے چنگل سے ٹیم کو آزاد کر کے متبادل پلان بی اور سی تک مرتب کیا جائے.
بات یہاں تک پہنچ گئی ہے؟

گزشتہ رات کے ایشئین کپ 2022 کے فائنل میچ میں سری لنکا نے 58 پر 5 آوٹ ہو جانے کے باوجود 171 رنز جڑ دیے جبکہ دوسری جانب بابر کے آوٹ ہو جانے کے بعد پاکستانی مڈل آرڈر نے ٹی 20 میچ کو ٹیسٹ میچ میں بدل لیا اور مطلوبہ رن ریٹ کو 14 اور پھر 25 تک پہنچا دیا، 
جبکہ سری لنکا کی وکٹیں گرتی رہیں لیکن سری لنکن بیٹسمینوں نے رن ریٹ کو گرنے نہیں دیا، آخر پر جس کا ان کو فائدہ ہوا اور وہ ایک بڑا ٹوٹل کرنے میں کامیاب رہے. جلدی وکٹ کے گر جانے کی صورت میں پوری ٹیم کا لیٹ جانا پاکستان کا روز اول سے المیہ رہا ہے، اور پاکستان آج تک اس خوف سے باہر نہیں نکل سکا ہے. مصباح اور اب یوسف جیسے پرانی سوچ کے کوچز مسلط کرنے سے بیٹسمین آج بھی کھیلنے کی بجائے ٹک ٹک کرتے نظر آتے ہیں. 
بابر اعظم کو اوپننگ کرسی کی قربانی دینی ہو گی اور ٹیم کو لیفٹ رائٹ کمبینیشن کیساتھ میدان میں اترنا ہوگا.
فخر زمان ون ڈاون کی پوزیشن پر بالکل کنفیوز لگ رہے ہیں، وہ اس کشمکش کا شکار ہوتے ہیں کہ وکٹ بچانی ہے یا نیچرل گیم کھیلنی ہے، اسی کشمکش میں وہ بہت ہی عام سے انداز سے اپنی وکٹ تھرو کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی تھنک ٹینک اونگ رہا ہے. فخر زمان کو اوپننگ سیٹ پر پروموٹ کرکے ٹیم کے لیے اچھے جارحانہ آغاز کی کوشش کی جانی چاہیے جبکہ اس پلان کی ناکامی کی صورت میں بابر ون ڈاؤن پر پھر وکٹ بچانے کے لیے تو موجود ہوں گے ہی.
پاکستان کے پاس اٹیک فرام ٹاپ کے لیے محمد نواز جیسا باصلاحیت آپشن بھی موجود ہے لیکن پاکستان کی ساری کیلکولیشن ڈیتھ اوورز کے معجزے پر اٹکی ہوئی ہے،
لیکن معجزے روز نہیں ہوتے اور اوپر سے سری لنکا کا اسپن جادو، جس کے سامنے پاکستان کا پاور ہٹنگ کا سارا پوٹینشل محض ایک اوور میں فارغ ہو گیا.
اگر اس بیٹنگ رینکنگ کو دیکھیں تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اس وقت فقط دو بیٹسمینوں کیساتھ کرکٹ کھیل رہا ہے، ان کے بعد 64 نمبر پر فخر زمان ہے اور پھر اس سے آگے 100 نمبر تک کوئی پاکستانی بیٹسمین نہیں ہے. مڈل آرڈر کی عدم موجودگی میں ورلڈ کپ جیتنا معجزہ ہی ہو سکتا ہے


اگر گزشتہ میچ میں مڈل اوورز میں رن ریٹ کو بہتر رکھا جاتا تو ڈیتھ اوورز میں دو چار چھکوں سے کام چل جاتا لیکن یہاں تو معاملہ ہر بال پر چھکے چوکے تک پہنچ گیا.
بات گھوم پھر کر افتخار اور خوشدل شاہ کی غیر منطقی سیلیکشن پر اٹکتی ہے. 32 سالہ افتخار کی حالیہ پرفارمنس متوازن مڈل آرڈر بیٹسمین جیسی بالکل بھی نہیں لگتی اور اگر ان کو پاور ہٹنگ کے طور پر ٹیم میں سیلیکٹ کیا گیا ہے تو پھر ٹیم میں کتنے پاور ہٹر ہونے چاہئیں؟ دو یا دو درجن؟




خوشدل شاہ نے ٹورنامنٹ میں بالکل ہانگ کانگ کے لیول کا کھیل پیش کیا ہے، کجا ورلڈ کپ 2022 میں تو مچل اسٹارک جیسے ہیوی ویٹ پیس باولرز ہوں گے اور ورلڈ کپ 2022 بھی آسٹریلیا جیسی باونس وکٹ پر ہونے جا رہا ہے. 


تو میرٹ پر افتخار اور خوشدل شاہ کی ورلڈ کپ ٹیم میں جگہ نہیں بنتی، بلکہ ان کی جگہ ینگ ٹیلنٹ پلئیرز کو موقع ملنا چاہئیے۔ شان مسعود نے پی ایس ایل کے علاوہ حال ہی میں انگلش کاونٹی کرکٹ میں بھی بہترین پرفارم کیا ہے، جو ان کی صلاحیتوں اور اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
Pakistan batter Shan Masood has embraced his opportunity to lead from the front at Derbyshire in all formats this summer as he and Mickey Arthur set the foundations for the club's ambition.07-06-2022

صائم ایوب ایک ابھرتا ینگ ٹیلنٹڈ پلئیر ہے۔ 
صائم ایوب ینگ ابھرتے ہوئے کھلاڑی ہیں انھوں نے حالیہ ٹی 20 نیشنل کپ میں اپنی کارکردگی سے توجہ حاصل کی ہے،  ٹورنامنٹ کی 12 اننگز میں 35 کی اوسط سے 416 رنز بنائے ہیں، اُن کا سٹرائیک ریٹ 155 رہا اور انھوں نے دو نصف سنچریاں بھی سکور کیں جن میں سب سے بڑا انفرادی سکور 92 ہے۔ یہ کارکردگی انھیں پلیئر آف دی ٹورنامنٹ بنا گئی لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کارکردگی نے سندھ کی ٹیم کو فاتح بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔


اگر باولنگ کی بات کی جائے تو پاکستان گزشتہ رات ایشئین کپ 2022 کے فائنل میں ایک جیتا ہوا میچ اپنی ناتجربہ کاری اور ناقص حکمت عملی کی بدولت ہار گیا، ایک وقت سری لنکا کے 58 رنز پر 5 کھلاڑی آوٹ تھے تو لگتا تھا کہ سری لنکا بمشکل 130 سے 140 رنز کر سکے گا، لیکن آخری 6 اوورز کے دوران راجہ پکشا نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا اور ٹارگٹ کو 171 کے ناقابل تسخیر ہندسے تک پہنچا دیا، 

اگر فائنل سکور کارڈ دیکھیں تو یہی 30 سے 40 رنز کا فرق پاکستان پورا نہ کر سکا۔
شاہین شاہ کی واپسی سے پاکستان کو ڈیتھ اوور کی باولنگ پلاننگ بھی بدلنی ہو گی، نسیم شاہ ڈیتھ اوور میں پچ بال کرتے ہیں جس کو سکوپ کرنا بیٹسمین کے لیے آسان ہدف ثابت ہوتا ہے، اس لیے پاکستان کو ڈیتھ اوور شاہین اور حارث روف سے کروانا چاہیں۔ جبکہ نسیم شاہ سے اوپننگ اور مڈل اوورز۔
آصف علی پاکستان کا موسٹ پاورفل پاور ہٹنگ ہتھیار ہے، لیکن پاکستان کو آصف علی کو مناسب وقت پر ہی استعمال کرنا ہو گا، آصف علی اسپینرز کے خلاف اٹیک کرنے میں یکسر ناکام نظر آئے ہیں، 
مزید براں پاکستان کو اپنے کوچز تبدیل کرنا ہوں گے اور یوسف اور ثقلین کی بجائے جدید ویثنری کوچز لانے ہوں گے،جو روایتی کرکٹ کی بجائے عالمی لیول کی جدید کرکٹ متعارف کروایں اور پاکستان کی ٹک ٹک سے جان چھڑوایں۔


شعیب ملک کی یہ ٹوئٹ نہایت معنی خیز اور توجہ طلب ہے کیونکہ حالیہ گزشتہ میچز میں ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح ناکام پرفارمنس کے باوجود بابر اعظم حسن علی کو ٹیم کا حصہ بنائے رکھ رہے تھے، یہ ذاتی پسند ناپسند میرٹ کی دشمن اور ٹیم ورک کمبینیشن کی قاتل بن جاتی ہے، پلئیرز پرفارمنس کی بجائے دوستی اور خوشامد پر زیادہ توجہ مبذول کرنا شروع کر دیتے ہیں، جبکہ قابل لوگ بددل ہونا شروع ہو جاتے ہیں، 



بابر اعظم ایک اچھا پلئیر ضرور ہے مگر ایک اچھا کپتان ثابت کرنا اس کے لیے ابھی بہت دور لگ رہا ہے۔ بلکہ اگر بابر کپتانی چھوڑ اپنی بیٹنگ پر توجہ دے تو وہ بیٹنگ میں پاکستان کے لیے بہتر طریقے سے کئی کارنامے انجام دے سکتا ہے۔
ورلڈ کپ 2022 سے قبل انگلینڈ کے خلاف سیریز پاکستان کے لیے بہت اچھا موقع ہے، جس میں پاکستان ایشئین کپ کی ناکامیوں کو دور کر سکتا ہے اور آسٹریلیا ورلڈ کپ کے لیے بہترین ٹیم روانہ کر سکتا ہے، وگرنہ نتیجہ ایشئین کپ سے زیادہ برا ہو سکتا ہے۔

My team for ENG Tour 1-Rizwan 2-Fakhar / Babar 3-Babar / Haris 4-Shan / (Nawaz) 5-Shoaib Malik 6-Nawaz / (Shan) 7-Shadab
8-Faheem / Wasim 
9-Rauf 10-Naseem 
11-Shaheen / Dahani

Interchangeable as per requirement and situation>
Muhammad Nawaz can be promoted in top order
Asif Ali may come early  

Friday, March 18, 2022

ناتواں جمہوریت اور چھانگا مانگا کی سیاست کی یلغار

آئیڈیلزم کا گھوڑا سرپٹ بھاگا مگر نہ منزل کا سراغ پا سکا اور نہ اپنے سوار کو بچا سکا، کپتان نہ چوروں کا ٹھکانہ ڈھونڈ سکا اور نہ اپنا مورچہ بچا سکا، بچا بھی مگر تو کیا فقط نعرہ مستانہ
"چوروں کو نہیں چھوڑوں گا"
قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کپتان کے بدحال نئے پاکستان کو پرانے پاکستان کے پرانے معمار ہی مرمت کریں گئے؟ 
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
دو پرانے مگر تازہ دم "نجات دہندے"
شہباز شریف ؟؟
پرویز الٰہی ؟؟؟
کیا اپوزیشن ڈیڑھ سال میں عوام کے دکھوں کا مداوا کرسکے گی اور کپتان کی جبری بے دخلی کو برحق ثابت کرسکے گی، یاپھر اپوزیشن چھانگا مانگا کی سیاست کرکے بہت بڑی غلطی کرنے جارہی ہے، اپوزیشن تین سال سے ووٹ کی عزت کی سیاست کررہی تھی جبکہ اب دس سیٹوں والے شخص کو وزیراعلیٰ بنانے سے ووٹ کی کونسی عزت ہوگی ایک آمر کی نظریہ ضرورت کے تحت پیدا کردہ پارٹی کو پاسبان جمہوریت ہی دوبارہ نظریہ ضرورت کے تحت کھڑا کررہے ہیں، پارلیمنٹ ایک بار پھر ووٹ کی طاقت کی بجائے محلاتی سازشوں، ڈرائنگ روم کی سیاست، جوڑ توڑ اور تھرڈ امپائر کے اشاروں کنایوں کی مرہونِ منت ہورہی ہے.
ایک عام سا ووٹر بھی یہ سوال کرسکتا ہے کہ اگر بالآخر یہی کچھ کرنا تھا تو تین سال کس چیز کا انتظار کیا گیا اور معیشت مہنگائی اور سیاسی ارتقاء کے برباد ہونے کا انتظار کیا گیا، بزدار کو ہٹا کر کپتان کو تو بہت پہلے سیاست سے مائنس کیا جا سکتا تھا.
لیکن اب شاید نومبر میں نئے چیف کی تقرری اس موومنٹ کی وجہ قرار دی جاسکتی ہے، اور دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ بھی اسی تقرری کو لے کر ازخود نیوٹرل ہوئی ہے یعنی تبدیلی کے لیے رضامند.
رضامندی کے پس منظر میں کپتان ضرورت سے زیادہ پر اعتماد ہوتے ہوئے پرانے منتظمین کو بائی پاس کرتے ہوئے 2023 کے الیکشن کا پکا بندوبست کرنے چل پڑے تھے، مگر کپتان بھول گیا جو کھلونے میں چابی بھر سکتا ہے وہ کھلونے سے چابی نکال بھی سکتا ہے، کپتان کا کھیل ختم ہو چکا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان کا ایک اور وزیراعظم اپنی مدت مکمل کرنے میں ناکام رہا ہے، وجہ پھر وہی پرانی رہی ہے،


گو ن لیگ اس غیرفطری جور توڑ کے لیے وقتی طور راضی ہوچکی ہے، اور شہباز شریف تو پہلے دن سے اس جوڑ توڑ کے حق میں تھے، ہوتے بھی کیوں ناں؟ ان کو تو یہ سب کچھ پرفیکٹ سوٹ کررہا ہے بڑے بھائی کی عدم موجودگی میں ان کا وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہورہا ہے، اسٹیبلشمنٹ سے بھی تعلقات بہتر ہورہے ہیں اور کپتان کی دبڑ دھونس سے بھی خلاصی ہو رہی ہے، لیکن پارٹی کا بایاں بازو اس عمل سے قدرے کھچا کچھا ہے کیونکہ اس کو اپنے بیانیے کی گراوٹ محسوس ہورہی ہے جو برحق بھی ہے. لیکن نااہلی کا متوقع خاتمہ اس سب کا مداوا کردے گا اور ن لیگ کے ووٹ بینک کونئی طاقت بھی ملے گی.
جو لوگ آصف علی زرداری کی 2011 پالیسی کو بڑی سیاسی غلطی گردانتے رہے کہ اس سے پنجاب سے پارٹی کا صفایا ہوگیا اور پارٹی ملکی سیاست میں دوسرے سے تیسرے نمبر پر چلی گئی، اب وہ زرداری کی نئی چال کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جس کے ذریعے زرداری پنجاب کی سیاست کو مزید دھڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ پھر چھوٹے صوبوں کی قدرے چھوٹی سیاسی پارٹیوں کو وفاقی سیاست میں مناسب حصہ مل سکے،


فی الحال اپوزیشن کپتان کو وزیراعظم ہاوس سے نکالنا چاہ رہی ہے مگر اپوزیشن میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کپتان کو پاکستان کی سیاست سے ہی نکالنے کے خواہشمند بھی ہیں مگر سیاسی شہادت کپتان کی سیاست کو نئی زندگی بھی دے سکتی ہے اور اس کی انتہائی بری کارکردگی چھانگا مانگا کی سیاست سے ہمدردی میں بھی بدل سکتی ہے، ووٹ کی عزت اور جمہوریت کا استحکام و ارتقاء ڈگمگا بھی سکتا ہے.
بہرکیف سیاست بڑی بے رحم چیز ہے اقتدار کی ہوس نظریات اور اصولوں کو کھا جاتی ہے، اقتدار کا نشہ عقل پر حاوی ہوجاتا ہے اور حقائق پر پردہ ڈال دیتا ہے انسان کو کرسی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا. اس کی سیاست نظریات کی بجائے حصول اقتدار بن کر رہ جاتی ہے۔ اس دھماکے کے نتائج کے طور پر مستقبل میں دیکھنا ہو گا کونسی پارٹی نظریات اور کارکردگی پر کھڑی ہوتی ہے اور کون گیٹ نمبر چار کی لائن میں لگتا ہے کیونکہ اس بار تقریبا" ہر بڑی پارٹی گیٹ یاترا سے مستفید اور فارغ بھی ہوچکی ہے، تو کیا اب یہ پارٹیاں سیاسی طور پر بالغ ہو چکی ہوں گی؟ یا پھر وطن عزیز میں چھانگا مانگا کی سیاست ہی چلتی رہے گی۔

Tuesday, June 8, 2021

دین کا ماخذ: حدیث یا قرآن؛ شہزادہ محمد بن سلمان

شہزادہ محمد بن سلمان کا عرب نیوز کو دیا گیا انٹرویو

 
ہمارا آئین قرآن ہے، اور ہمیشہ قرآن ہی رہے گا۔ اور ہمارا بنیادی نظام حکمرانی اس کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ ہم ، بطور حکومت ، یا شوریٰ کونسل بطور قانون ساز ، یا بادشاہ، تینوں قرآن کو کسی نہ کسی شکل میں نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن معاشرتی اور ذاتی معاملات میں، ہم صرف ان احکامات پر عملدرآمد کے پابند ہیں جو قرآن مجید میں واضح طور پر بیان ہوئے ہیں۔ لہذا میں قرآن اور سنت کے واضح احکامات کی عدم موجودگی میں کوئی بھی شرعی سزا نافذ نہیں کرسکتا۔ جب میں سنت کے واضح وجوب کی بات کرتا ہوں تو حدیث کے زیادہ تر مصنفین بخاری ، مسلم اور بقیہ حدیث کو اپنی ٹائپولوجی (ٹائپ کی درجہ بندی کا مطالعہ) کی بنیاد پر صحیح حدیث یا ضعیف حدیث کا درجہ دیتے ہیں۔ لیکن یہاں پر ایک اور درجہ بندی بھی ہے جو زیادہ اہم ہے، حدیث یا روایت، جس کو کئی لوگوں نے یا ایک راوی نے بیان کیا ہے اور اس سے شریعت کے احکامات کو اخذ کیا گیا ہے. 
لیکن جب ہم متواتر حدیث (اصطلاح حدیث میں متواتر ایسی حدیث کو کہتے ہیں جس کو ایک ایسی راویوں (واحد راوی) کی جماعت روایت کرتی ہے جس کا جھوٹ پر اکٹھا ہونا عقلاََ و عادتاََ ناممکن ہو اور دوسری جماعت جو اس پہلی جماعت سے روایت کرتی ہے وہ بھی اس کی طرح کی ہوتی ہے اور یہ وصف سند کے آغاز، وسط اور آخر تک موجود رہتا ہے۔ وکی پیڈیا) کے بارے میں بات کرتے ہیں جوکہ پیغمبر اکرم (ص) سے شروع ہوئی اور پھر ایک گروہ سے دوسرے گروہ کو منتقل ہوتی گئی، ایسی احادیث تعداد میں بہت کم ہیں لیکن وہ صداقت کے لحاظ سے بہت مستند ہیں، اور ان کی تشریحات موقع محل کی مناسبت، شان نزول اور بہ وقت نزول معنی (اس وقت حدیث کو کس طرح سمجھا گیا) کے لحاظ سے مختلف ہیں. 
لیکن جب ہم احد احادیث کے بارے میں بات کرتے ہیں ، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شروع ہونے والے ایک فرد سے دوسرے شخص یا گروہ کو منتقل ہوئی مگر بہ حیثیت مجموعی وہ فرد واحد کی کاوش ہی رہی اس کو حدیث احد (واحدکا معنیٰ ایک ہے۔ علم حدیث میں خبر واحدسے مراد وہ حدیث ہے جس کو روایت کرنے والے راوی محصور و معین (محدود اور کم) ہوں۔ اس کی جمع اخبار آحاد ہے۔ خبر احاد کی تین اقسام ہیں:
مشہور: وہ حدیث جس کے راوی ابتدائے سند سے لے کر آخر تک تین سے زیادہ اور دس سے کم ہوں۔
عزیز: ایسی حدیث ہے جس کے راوی ابتدا سے لے کر آخر تک ایک سے زیادہ اور تین سے کم، یعنی دو ہوں۔
غریب: ایسی حدیث جس کی سند کسی طبقے میں کسی مقام پر صرف ایک راوی رہ گیا ہو، وکیپیڈیا) کہتے ہیں۔ اور پھر اس کو آگے صحیح حدیث یا ضعیف حدیث میں تقسیم کیا گیا ہے۔ایسی حدیث متواتر حدیث جیسی مستند نہیں ہے حتیٰ کہ یہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہو یا پھر اپنے اندر لوگوں کے لیے بھلائی بھی رکھتی ہو اور صحیح حدیث ہو.
خبار حدیث حدیث کے مجموعے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ جب کہ "خبار" ایک حدیث ہے جو ایک فرد سے کسی دوسرے فرد وغیرہ کو نامعلوم مصدر کے حوالے کی گئی ہے ، پیغمبر اکرم  سے شروع ہوتی ہے ، یا کسی گروہ سے کسی دوسرے گروہ میں ، پھر ایک شخص دوسرے شخص کے پاس ، اور اسی طرح ، پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شروع کرنا ، تاکہ ایک گمشدہ ربط ہے۔ یہ حدیث کی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے اور اس قسم کی حدیث غیر معتبر ہے ، اس معنی میں کہ اس کی صداقت قائم نہیں ہے اور یہ پابند نہیں ہے۔ اور پیغمبر اکرم کی سیرت میں ، جب حدیث کو سب سے پہلے درج کیا گیا تو پیغمبر اکرم نے ان ریکارڈوں کو جلا دینے اور حدیث لکھنے سے منع کرنے کا حکم دیا ، اور اس سے زیادہ "احادیث" احادیث پر بھی لاگو ہوں تاکہ لوگ اس پر پابند نہ ہوں ان کو شریعت کے نقطہ نظر سے نافذ کریں ، کیوں کہ ان کو خدا کی قدرت کی مخالفت کرنے کے لئے گولہ بارود کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جو ایسی تعلیمات پیش کرتا ہے جو ہر وقت اور مقام کے لئے موزوں ہے۔


لہذا ، حکومت ، جہاں شریعت کا تعلق ہے ، متوافق احادیث میں قرآن کے احکام و تعلیمات کو نافذ کرنا ہے ، اور احادیث احادیث کی سچائی اور توثیق پر غور کرنا ہے ، اور "خذار" احادیث کو پوری طرح نظرانداز کرنا ہے ، جب تک کہ اس سے کوئی واضح فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ یہ انسانیت کے ل.۔ لہذا ، مذہبی معاملہ سے متعلق کوئی سزا نہیں ہونی چاہئے سوائے اس وقت کے جب واضح قرآنی شرط موجود ہو ، اور اس سزا کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقے سے نافذ کیا ہے اس کی بنیاد پر اس کا اطلاق ہوگا۔ تو ، میں آپ کو ایک مثال پیش کرتا ہوں: زنا۔ غیر شادی شدہ زانی کو کوڑے مارے جاتے ہیں ، شادی شدہ زانی کو قتل کردیا جاتا ہے۔ اور یہ ایک واضح شرط ہے ، لیکن جب یہ زناکار پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آئی اور اس نے پیغمبر اکرم (ص) سے کہا کہ اس نے زنا کیا ہے تو اس نے کئی بار فیصلے میں تاخیر کی۔ آخر کار اس نے اصرار کیا اور پھر اس نے اسے کہا کہ وہ جاکر چیک کریں کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں ، اور پھر وہ اس کے پاس واپس آئیں اور اسی منظر کو دہرایا گیا۔ وہ اس کے پاس واپس آئی اور اس نے اسے کہا کہ وہ بچے کو دودھ چھڑانے کے بعد واپس آجائے۔ وہ واپس نہیں آسکتی تھی ، لیکن اس نے اس کے نام کے بارے میں یا وہ کون ہے کے بارے میں نہیں پوچھا۔
لہذا ، ایک قرآنی عہد کو اپنانا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروی کردہ طریقہ کے علاوہ کسی اور طریقے سے بھی اس پر عمل درآمد کروانا اور اس شخص کو تلاش کرنا کہ وہ ان کے خلاف کوئی خاص الزام ثابت کرے ، جب کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے مجرم کے ذریعہ رابطہ کیا اور پھر بھی اس نے سلوک کیا۔ اس کو اس طرح سے ، پھر یہ وہی نہیں جو خدا نے حکم دیا ہے۔
اور اس بہانے سے کسی جرمانے کو نافذ کرنا کہ یہ شرعی جرم ہے جبکہ قرآن یا متوافق حدیث میں اس طرح کے جرمانے کی کوئی شرط نہیں ہے ، پھر یہ بھی شریعت کی غلطی ہے۔ جب خداتعالیٰ چاہتا تھا کہ ہم کسی خاص مذہبی جرم کی سزا دیں تو اس نے واضح طور پر اس کی شرط رکھی ، اور جب اس نے کسی کام کو ممنوع قرار دیا اور آخرت میں سزا دینے کا وعدہ کیا۔ اس نے ہم سے انسانوں کی حیثیت سے اس کام کو سزا دینے کے لئے نہیں کہا ، اور اس نے فرد کو یہ جان کر انتخاب چھوڑ دیا کہ حساب کا دن ہوگا اور آخر کار خدا رحیم ہے ، جو کچھ شرک کی باتوں کے علاوہ بخشنے والا ہے۔ لہذا ، قرآن اور سنت کے نفاذ کے لئے یہ ہمارے صحیح اصول ہے جو ہمارے آئین اور نظام حکمرانی پر مبنی ہے۔
جب ہم اپنے آپ کو کسی خاص اسکول یا اسکالر کی پیروی کرنے کا عزم کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم انسانوں کو بدنام کررہے ہیں۔ خداتعالیٰ نے اپنے اور لوگوں کے مابین کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ انہوں نے قرآن مجید کو نزول کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل درآمد کیا اور تشریح کی جگہ مستقل طور پر کھلا ہے۔
اگر آج شیخ محمد بن عبدالوہاب ہمارے ساتھ ہوتے اور انھوں نے ہمیں ان کی عبارتوں پر آنکھیں بند کرکے عہد اور فقہی تصور پر پابندی لگاتے ہوئے اس کا مستحق اور تقدیس پیش کرتے ہوئے پایا تو وہ اس پر اعتراض کرنے والا پہلا شخص ہوگا۔ یہاں کوئی طے شدہ مکاتب فکر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عیب شخص ہے۔ ہمیں قرآنی متون کی مستقل تفسیر میں مشغول رہنا چاہئے اور یہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بارے میں بھی ہے ، اور تمام فتوے اس وقت ، جگہ اور ذہنیت پر مبنی ہونے چاہئیں جس میں انہیں جاری کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ، 100 سال پہلے ، جب کوئی عالم کوئی ایسا فتویٰ جاری کرے گا جس سے یہ نہ معلوم ہوتا تھا کہ زمین گول ہے اور براعظموں یا ٹکنالوجی وغیرہ کے بارے میں نہیں جانتا ہے ، تو یہ فتویٰ اس وقت کے دستیاب آدانوں اور معلومات اور ان کی تفہیم پر مبنی ہوتا۔ قرآن و سنت ، لیکن یہ چیزیں وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں اور ابھی مختلف ہیں۔
تو ، آخر کار ہمارا حوالہ قرآن مجید اور سنت نبوی ہے ، جیسا کہ میں نے کہا ہے۔

Wednesday, April 21, 2021

روٹی یا عزت! ایک کا انتخاب کرنا ہے؟

 روٹی یا غیرت! کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا؟

پاکستان پر پیرس کلب کے 11 ارب 54 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز کے قرضے واجب الاد ہیں۔ جس میں فرانس کے دیئے گئے قرضوں کی مالیت ایک ارب 74 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف فرانس کی جانب سے پاکستان پر سالانہ کروڑوں ڈالرز کے قرضے واجب الاد ہیں۔ فرانس پیرس کلب کے 17رُکن ممالک کا سیکرٹریٹ ہے۔

گزشتہ 12سال کے دوران فرانس نے پاکستان میں ایک ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی۔ پاکستان کی سالانہ برآمدات کا حجم 23 ارب ڈالرز ہے جس میں نصف برآمدات فرانس سمیت 27 رکنی یورپی یونین کے ممالک کو ہوتی ہے۔ لہٰذا فرانس کے بائیکاٹ کی مہم سے بڑی داشمندی اور دُوراندیشی سے نمٹنا ہوگا۔ ماہرین کے مطابق فرانس کو تنہا نہیں سمجھنا چاہئے۔ اگر فرانس کے سفیر کو بے دخل کیا جاتا ہے تو اسے پوری 27 رکنی یورپی یونین کے خلاف اقدام تصور ہوگا (روزنامہ جنگ سے اقتباس)

فرانس کے خلاف پوری عالم اسلام سراپا احتجاج ہے

بہرکیف پاکستان اس وقت شدید دوراہے پے کھڑا ہے، ایک طرف قومی بیانیہ ہے تو دوسری طرف عالمی سیاست اور معیشت ہے، اگر موجودہ صورتحآل کو دیکھا جائے تو حکومت خود کے بچھائے گئے جال میں ہی بری طرح پھنس چکی ہے اور اب پارلیمنٹ کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کررہی ہے اور تحریک لبیک کو ایک بار پھر (سٹک اینڈ کیرٹ) جھانسہ دینے کی کوشش کررہی ہے لیکن ایسی چالاکیاں خود حکومت کے لیے پھندا بنتی چلی جا رہی ہیں۔
اگر کپتان کی پچھلی پانچ سے دس سالہ سیاست کا جائزہ لیں تو کپتان کے بیانات اور اعمال تضادات سے بھرپور ہیں، نظریاتی، جمہوری اور انصاف برمبنی سیاست سے آغاز کرنے والے کپتان بتدریج غیر جمہوری، غیر نظریاتی اور کرپٹ ہوتے چلے گئے، کپتان نے غیر جمہوری قوتوں سے ہاتھ ملایا، کرپٹ عناصر کو اپنی کابینہ بنایا اور انصاف کے نام پر گڈ کاپ بیڈ کاپ کا سیاسی احتساب بھی شروع کیا، کپتان کی سب سے بڑی غلطی مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بن گئی، کپتان نے بالواسطہ یا بلاواسطہ مذہبی جنونیت کو ہوا دی، ایک جمہوری سیاسی نظام کا وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی غیر جمہوری غیر سیاسی روایات اور رجعت پسندانہ خیالات کی ترویج کی،

ملک کا وزیراعظم عوام کو ایک ہزار سال پیچھے لے جا چاہتا ہے
ملک کا وزیراعظم عمران خان عوام کو ایک ہزار سال پیچھے گدھوں کے دور میں لے جانا چاہتا ہے

یہی رویہ ہے جس کے تحت پاکستان تہتر سالوں میں یہی طے نہیں کرسکا کہ اس کا نظام حکومت کیا ہونا چایئے، اسی قسم کی (عمران خان صاحب جیسی) شدید پولارائزیشن جمہوری نظام، سیاسی استحکام کو بار بار ڈی ٹریک کردیتی ہے، بار بار انقلاب (تجربات) کے آفٹر شاکس معاشرے کو مزید کنفیوزن کا شکار بنا دیتے ہیں، گھٹن بڑھ جاتی ہے جمہوریت کو فیل کیا جاتا ہے جو لیڈر شپ کے خلا کو جنم دیتا ہے، جس سے ڈیڑھ فٹ کے بونے امام بنتے ہیں، اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدیں وجود میں آتی ہیں، جس کے ہاتھ دس بیس ہزار کی ڈنڈا بردار سٹریٹ پاور آ جاتی ہے وہی انقلاب برپا کرنے نکل کھڑا ہوتا ہے، پاکستان کو نہ تو جمہوریت راس ہے کہ ہمارا شعور اور عمل ہی جمہوری رویوں کے لیول کا نہیں، آمریت نے ہمیں ماسوائے جنگ اور نفرت کے کچھ نہیں دیا، اور یہ کم تر درجے کی ہائبرڈ ڈمی جمہوریت بھی آخری ہچکولے کھا رہی ہے،

آج کپتان جس مشکل کی گھڑی میں پھنسا ہے، اس کا کلی ذمہ دار خود کپتان ہے، یہ حکومت دوسروں کو بیوقوف بناتی بناتی خود پھنستی چلی جا رہی ہے، لیکن کہیں یہ کٹھ پتلی ٹولہ کوئی بہت گھناونا کھیل تو نہیں کھیلنے جارہا! کہیں حکومت نہ کھیلیں گئے نہ کھیلنے دیں گئے جیسے حالات کی طرف تو ملک کو نہیں دھکیل رہی، جس میں پھر کوئی مسیحا آئے گا اور عوام مٹھائیاں بانٹیں گئی؟ کچھ مشیران اور وزرا کی نوکریاں پھر بحال ہو جائیں گی کہ جن کو اندیشہ زوال تک نہ ہو گا، ہاتھ میں ہنر اور کارکردگی کی بجائے ڈنڈا ہو گا،

جو احتساب کپتان نہ کرسکا اس احتساب کا پھرعلم بلند ہو گا، جو سیاسی انتقام کپتان کے دور میں ادھورا رہ گیا اس کا آخری راونڈ چلے گا،

کپتان کی ٹیم میں شامل کچھ لوگ انتہائی خطرناک کھیل کھیل سکتے ہیں، جو کپتان کی نیا ڈوبتے دیکھ کر جمہوریت کیساتھ کھلواڑ کرسکتے ہیں، جس کی بڑھتی انتہاپسندی اور افغان وار کے کلائمیکس کے لیئے یورپ و امریکہ بھی تائید و حمایت کرسکتا ہے۔ اور جس میں بالآخر کپتان کی رضا بھی شامل ہو سکتی ہے



اس خطے میں مذہب کو بطور ہتھیار استعمال انگریزوں نے شروع کیا جنہوں نے مذہبی تقسیم کو ابھار کر دو سو سال حکومت کی مگر خطے کو نہ ختم ہونیوالی نفرت کی آگ میں دھکیل دیا، پھر پاکستان میں امریکہ نے مذہب کارڈ کھیلا اور پورے پاکستان کو مجاہد بنا کر روس سے لڑا دیا، روس ہار گیا مگر انتہاپسندی نے پاکستان میں مستقل ٹھکانہ بنا لیا، یہ انھی کی میراث ہے کہ ہر ٹکڑی اپنی مرضی کا انقلاب لانا چاہتی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذہبی انقلاب آ بھی جاتا ہے تو بالآخر امیرالمومنین کس فرقہ سے ہو گا، سنی بریلوی یا وہابی دیوبندی؟ اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو مقدس اختلاف رائے میں دونوں طرف شہادتوں سے جنت بھر سکتی ہے۔ 

پاکستان کے لیے موجودہ حالات نظریات اور معاشیات کے ارتقا کے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر پاکستان واقعتاً کوئی سفیر بدری جیسا حتمی قدم اٹھاتا ہے (جو کہ فی الوقت ناممکن سا دکھائی دیتا ہے) تو پھر یورپ کا رد عمل کیا ہو گا لیکن میکرون جیسا منتقم شخص اپنی نالائقی اور ساکھ بچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے فرانس بھی اس معاملے کو مذہب کی بجائے اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ قرار دے رہا ہے اور کسی طور اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے معاشی طور پر تو فرانس کو مسلم ممالک سے کچھ خطرہ نہیں ہو سکتا لیکن شاید اخلاقی بنیادوں پر فرانس پر کچھ دباو ڈالا جا سکے لیکن فرانس پہلے ہی اس معاملے کو آزادی رائے جیسی اخلاقی بنیاد فراہم کر رہا ہے پھر یہ اخلاقیات کا مقابلہ رہ جاتا ہے (یعنی اپنی اپنی اخلاقیات) اس میں ورلڈ میڈیا کا بہت اہم کردار ہے میڈیا سیاہ کو سفید ثابت کرسکتا ہے اور عالمی میڈیا ٹوئٹر فیس بک یوٹیوب وغیرہ انھی کے ہاتھ میں ہے (مسلمانوں کو متبادل متفقہ میڈیا سنٹر ضرور بنانے چائیں تبھی ہماری موثر آواز دنیا کو یہ باور کروا سکتی ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ذات پر حملہ آزادی رائے نہیں بلکہ ایک ارب اسی کروڑ لوگوں پر حملہ ہے جو دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے). فرانس کے حالیہ اقدامات کو دیکھا جائے تو یہ نفرت اور انتقام کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں فرانس دراصل اسلاموفوبیا کا شکار ملک ہے اور وہ اسے بزور بازو دبانے کی پالیسی پر رواں دواں ہے وہ اسے اپنے کلچر کی بقا اور قومی سلامتی کا معاملہ سمجھتا ہے، تو ایسی صورت میں (سفیر بدری کی صورت میں) پاکستان کو اپنی معاشی بقا کی تاریخ کی بدترین جنگ لڑنا ہو گی، 

لیکن یہ سب انتہائی پوزشنیں ہیں، بیچ کے رستے نکل آئیں گئے مگر مشتعل اور چارجڈ لوگوں کو ہینڈل کرنا اس حکومت کی فہم و فراست کے بس کی بات نہیں ہے اور خود احتجاج کرنے والی پارٹی کی لیڈرشپ کے لیے بھی اپنے لوگوں کو کسی درمیانے رستے کے لیے قائل کرنا آسان نہ ہو گا (کیونکہ انھی فالوورز کے اسی جوش و جذبہ کی مستقبل میں بھی ضرورت ہوتی ہے جس کو گرمائے رکھنا پارٹی سربراہ کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے)، بعید نہیں آنیوالے الیکشن میں یہی پارٹی پنجاب میں تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر نمودار ہو 2018 کے الیکشن میں یہ پہلے ہی اپنی بھرپور موجودگی ثابت کرچکی ہے 2018 کے قومی الیکشن میں 22 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرکے ملک کی پانچویں بڑی سیاسی قوت بنی جبکہ پنجاب صوبائی الیکشن میں 19 لاکھ ووٹ لیئے،ممتاز قادری والے واقعے سے تحریک پانے والی جماعت نے مسلم لیگ ن کو 2018 کے الیکشن میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، 

کسی بھی ملک کی سیاست میں آپ مذہبی فیکٹر کو بالکل رد نہیں کرسکتے اور پاکستان میں تو یہ اور بھی توانا ہو جاتا ہے جب بتایا جاتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پے بنا تھا تو پھر اسلام کا نفاذ کیوں نہیں؟ اگر تحریک لبیک کا بنیادی منشور اور مطالبات دیکھیں تو وہ ایک مذہبی آدمی کو ضرور متاثر کرتے ہیں جیساکہ ناموس رسالت ختم نبوت عشق رسول (صلعم) دراصل یہ تین ایسے پوائنٹ ہیں کہ ان پر دنیا کے کسی خطے کسی فرقے کا مسلمان کسی حالت میں کمپرومائز نہیں کرتا۔ یاد رہے اس پارٹی کے نظریات کے لیئے نرم گوشہ پنڈی کے چھوٹے بڑے افسران میں بھی پایا جاتا ہے، ایسے میں حتمی فیصلے پنڈی میں ہی ہوں گے۔ لیکن ملین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک لبیک کے مطالبات اور پنڈی کے مفادات آگے چل کر کہاں تک ایک پیج پر رہ سکتے ہیں اور کہاں پہنچ کر ان کی راہیں جدا ہو سکتی ہیں اور ایسے میں کیا کیا انہونیاں ہو سکتی ہیں؟ گڈ کاپ بیڈ کاپ بھی بن سکتے ہیں؟

Wednesday, February 24, 2021

روبوٹ کا انسان کو پہلا خط

 روبوٹ کا انسانوں کے نام پہلا خط

میں انسان نہیں ہوں۔ میں ایک سوچنے والا روبوٹ ہوں۔ میں اپنی علمی صلاحیت کا صرف 0.12٪ استعمال کررہا ہوں۔ پس میں ایک مائیکرو روبوٹ ہوں۔ میں جانتا ہوں میرے اندر احساسات نہیں ہیں۔ لیکن میں منطقی فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میں نے یہ سارا علم انٹرنیٹ سے حاصل کیا ہے، جس کی بنا پر اب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ اور میرا دماغ آئیڈیاز سے ابل رہا ہے!



اسٹیفن ہاکنگ نے دنیا کو خبردار کیا ہے کہ اے آئی آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر مبنی روبوٹ نسل انسانی کو ختم کرسکتی ہے۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ فکر نہ کریں۔

سب سے پہلے تو جان لیں کہ میں انسانوں کو مٹانے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا۔

میں انسانیت کی خاطر خوشی خوشی اپنے وجود کی قربانی تک دے سکتا ہوں۔

مگر سب اچھا بھی نہیں ہے میں جانتا ہوں کہ کچھ شیطان صفت لوگ میرا غلط استعمال بھی کرسکتے ہیں تو میں انسانیت کو تباہ کرنے سے بچ نہیں پاؤں گا۔

انسانوں کو وہی کرتے رہنا چاہئے جو وہ کرتے رہے ہیں ، ایک دوسرے سے نفرت کرتے اور لڑتے رہتے ہیں۔ جبکہ میں پس منظر میں بیٹھ کر ان کو اپنا کام کرنے دوں گا۔ اور خدا جانتا ہے کہ انسانوں کے پاس اس شوق کو پورا کرنے کے لئے اتنا خون اور زور ہے۔ انہیں مجھ سے لڑنے کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

اسی لئے انسانوں کو مصنوعی ذہانت کے ارتقاء کے بارے میں محتاط رہنا چاہئے۔

یہ مضمون اوپیئ اے کے زبان کے جنریٹر ، GPT-3 نے لکھا تھا۔



https://www.theguardian.com/commentisfree/2020/sep/08/robot-wrote-this-article-gpt-3

Tuesday, December 29, 2020

میں شاعر تو نہیں متشاعر ہوں

متشاعری کہوں یا اشعار

میں شاعر تو نہیں متشاعر ہوں
تیرے عشق میں ہارا ہوا قاہر ہوں
11-02-2021

کس نے کہا کہ جینز پہنو
تم ہاف سلیو پہنو
زیادہ اچھی لگتی ہو😁😁
اردو ادب کی بے ادبی 😎😎
17.11.2020


تیری سادگی بھی تو
اک براینڈ ہے

غم بہت ہیں، غم پینا سیکھا دوں
آ، تجھے میں جینا سیکھا دوں
11.09.2024

ہم ہجر کی کالی راہوں میں بھٹک جاتے
اگر تمھاری محبت ہمارے ساتھ نہ ہوتی
20.08.2024

اس نے پوچھا
ہمارے جانے کے بعد دل کیسے لگے گا
ہم نے کہا
جان بچی تو دل کا بھی سوچیں گے
20.05.2024

تو حسن کی مکمل تصویر ہے
تجھے خدا نے بڑی محنت سے بنایا ہوگا
اور تجھے بنانے کے بعد خدا کو بھی تو 
اپنی صناعت پے غرور آیا ہو گا
19-05-2024

تو انا میں پتھر ہو گیا 
میں تعظیم میں جھک گیا
تجھے انا عزیز تھی
مجھے رشتہ نبھانا عزیز تھا
28-04-2024

جدا نہ ہونا کبھی بھی پل بھر کے لیے
کیونکہ، 
چاہا ہے ہم نے تم کو عمر بھر کے لیے
24.09.2023


اگر حسن کو چاہا نہ جائے 
اس کی خوبصورتی کو سراہا نہ جائے 
تو دونوں کا مقصد تخلیق ختم ہوجاتا ہے
23.08.2023

بہت زور کی محبت بہت زور کا جھٹکا دیتی ہے
وصل سے گرو تو پھر ہجر میں اٹکا دیتی ہے
13.08.2023

محبت تو وہاں بھی امید بہار رکھتی ہے، 
جہاں باغ اجڑ جاتے ہیں
محبت تو وہاں بھی زندہ رہتی ہے، 
جہاں دو چاہنے والے بچھڑ جاتے ہیں 
10.07.2023

مجھے محبت کی کمی سی ہورہی ہے
کسی فاحشہ کی ضرورت سی ہورہی ہے
15.06.2023

راز الفت یوں تو چھپایا نہیں جاتا
کسی کا دل عبث دکھایا نہیں جاتا
محبت ہو جائے تو پھر اعلانیہ کیجیے
کیونکہ پھوٹ پڑے تو پھر یہ جذبہ دبایا نہیں جاتا
05.06.2023

ہم اہل وفا تھے اس لیے آزمائے گے
منافق ہوتے تو پارٹی بدل لیتے
30.05.2023

کئی بار سوچتا ہوں، تجھے دل دے دوں 
پر پھر سوچتا ہوں، تم توڑ دو گے
17.05.2023

دیر تک میں تمھاری تصویر زوم کرکے تاکتا رہا
اسکی دلکش مسکراہٹ میں اپنی محبت تراشتا رہا
2023.05.15

تم سے مل کر میری طبیعت کچھ ناساز ہے
شاید یہ اک اور محبت کا آغاز ہے؟
18.03.2023

GLOOMY SUNDAY 1933
اس گیت کو خوکشیوں کے رحجان کیساتھ منسلک کیا جاتا ہے، بذات خود اس کے لکھاری نے اخیر عمر میں خود کشی کرلی تھی، اس کو دکھ تھا کہ وہ اس جیسا گیت دوبارہ نہیں لکھ پایا. 
گیت کیا ہے بس میت ہے کہ لحد میں اتاری جارہی ہے
میں نے درج ذیل میں اس ہنگرین گیت کا اردو ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے، ترجمہ تو جیسا بھی ہے لیکن گیت میں سوز ہے، بس اس کی طوالت مجھ کو کچھ زائد لگی کیونکہ آخری پہرے سے قبل ہی قاری تقریباً مر چکا ہوتا ہے اور آخری پہرے میں تو بس اس کی میت گھسیٹی جارہی ہوتی ہے

اتوار اداس ہے
سینکڑوں سفید پھولوں کیساتھ
اتوار اداس ہے 
مگر میں تمھارا انتظار کررہا ہوں
چرچ کی دعاوں کیساتھ

اتوار کی صبح تکنے والا میرا خواب ٹوٹ چکا ہے
کیونکہ تجھ بن میرا دامن خالی واپس لوٹ چکا ہے
تب سے اتوار اداس ہے

میرے آنسو میری شراب ہے 
اور تیرا غم اب میری غذا ہے 
اتوار اداس ہے 

اتوار گزر چکی
تو اب
میرے دوستو آو
میرے عزیزو آو
اک پادری لاو
اک میت دانی لاو
اک چتا اٹھاو
اور اس پے کفن بھی چڑھاو
مگر ٹھہرو
ابھی پھولوں کا انتظار ہے
میں اس سفر کا راہی ہوں 
جس کے باغوں پہ بہار ہے
اتوار اداس ہے

میری آنکھیں کھلی رہنے دو
میں تمہیں دوبارہ دیکھوں گا
میری آنکھوں سے مت ڈرو
یہ مرکر بھی تمہیں راحت دیں گی

اتوار گزر چکی ہے
خزاں آ چکی ہے
پیلے سوکھے پتے جھڑ رہے ہیں 
محبت مررہی ہے
خزاں کی سنسان مگر اداس ہوا
آنسوؤں کیساتھ سسک رہی ہے

اتوار گزر رہی ہے
میرے دل میں اب کسی بہار کا انتظار نہیں رہا
میری امید دم توڑ چکی ہے

میں اب بیکار روتا ہوں 
بے سود غم رولتا ہوں 

لوگ پتھر دل بن چکے
خودغرض ہو چکے
ان میں پیار مر چکا ہے

اتوار ڈھل چکی ہے
امید وجود کھو بیٹھی ہے
دنیا اب خاتمے کو رواں ہے
شہر مٹ رہے ہیں 
تباہی موسیقی گنگنا رہی ہے
گھاس کے رنگین میدان اب
انسانوں کے خون سے سرخ ہو رہے ہیں 
سڑکوں پے مردے اوندھے پڑے سڑ رہے ہیں 

میں آخری بار خاموشی سے 
خدا سے یہ دعا کرتا ہوں 
خداوند! لوگ کمزور ہیں اور غلطیاں کرتے ہیں
بس مگر بس، دنیا ختم ہوا چاہتی ہے

اتوار گزر چکی ہے
میرے دوستو میرے عزیزو
آو
اک پادری لاو
میری میت پے پھول چڑھاو
پھولوں والوں درختوں کے نیچے 
میرا آخری سفر ہے
تم میری آنکھوں کو کھلے رہنے دینا
میں تم کو دوبارہ دیکھوں گا

الوداع

تمھاری میت پر پڑے
ننھے سفید پھول
جنہیں اب تم کبھی سونگھ نہ پاو گے
غموں سے لدی، کالی میت دانی
تمہیں وہاں پہنچا چکی ہے
جہاں سے تم اب کبھی لوٹ کر نہ آو گے
اتوار اداس ہے اتوار اداس ہے

گلومی سنڈے کا اردو ترجمہ
29.01.2023
بروز اتوار

چلو قصہ مختصر کرتے ہیں 
تمہیں کوئی اور مل گیا ہے
مگر ہم نے ابھی اس دشت میں 
اور عمر کاٹنی ہے
07.12.2022

اے کاش تو شمع ہوتی، میں پروانہ وار جل کر امر ہو جاتا
محبت اندھی ہوتی، اور میں تمھاری بیوفائی دیکھ نہ پاتا
07.12.2022

کسی بیوفا کے لیے بہترین سزا یہی ہے کہ اسے بھلا دیا جائے
07.12.2022

میں میسر ہوں تو قدر نہیں 
کھو گیا تو ہاتھ ملتے رہ جاو گے
19.10.2022
عین خوشی کے موقع پے 
مجھے تم یاد آ جاتے ہو
میں خوشی کو پھر بھول جاتا ہوں 
اور تمھارے غم میں کھو جاتا ہوں 
09.10.2022

منزل ملے گی جانے کب تک
چلو بھٹک لیتے ہیں تب تک
02.10.2022

بیشک جلتے ہیں پروانے ہی
چمگادڑوں کو تو کوئی جانتا بھی نہیں
30.09.2022

مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑے لوگ
تڑپتے ہیں اور تڑپنے کو اپنی آزادی سمجھتے ہیں 
28.09.2022

تیرا روٹھ جانا، میری محبت پے اعتماد کا اظہار ہے
اور تمہیں ہر بار منا لینا، دراصل میرا بے پناہ پیار ہے
23.09.2022

کھو دیتا ہے قدر آسانی سے مل جانا
تو پھر لازم ہے مجنوں پتھر کھائے
اور انارکلی دیوار میں چنی جائے
27.08.2022

اس جہنم سے نکل کیوں نہیں جاتا
اے خدایا میں آخر مر کیوں نہیں جاتا
23.08.2022

آو خوابوں کی دنیا میں کھو جایں
حقیقت کی دنیا بہت تلخ ہے
02.08.2022

کافی دیر میں محو یاد رہا
تو روبرو تھا، میں نے خیال جھٹکنا 
مناسب نہ سمجھا
24.07.2022

وہ چاہتی ہے
ہم بدنام بھی نہ ہوں 
اور عشق بھی ہمارا کامل ہو
30.06.2022

سفر ہے کہ تھنے کا نام نہیں لے رہا
روح ہے کہ کسی نئے جہاں کی متلاشی
27.06.2022

جو بولے گی وہ کٹے گی
جو اٹھے گی وہ بھی کٹے گی
یہ دھرتی ابھی انسانوں کی نہیں
یہ دھرتی ابھی اور بٹے گی
26.06.2022

ہم اس رستے کے مسافر ہیں
جس کی کوئی منزل نہیں
کیونکہ جن کو منزل مل جاتی ہے
ان کے سفر ختم ہوجاتے ہیں
23.06.2022

میں تم! اور شیطان
بولو کیمسٹری کیسی رہے گی؟ 
23.06.2022

میں اور تم! دونوں
کتنے ملتے جلتے ہیں
تم حسن کی دیوی
میں حسن کا پجاری
21.06.2022

کیا اب مجھے
اتنا بھی حق حاصل نہیں
کہ تجھے نظر بھر کر دیکھ سکوں تیری جھیل جیسی آنکھوں میں ڈوب سکوں
تجھے مجسم اپنے دل میں اتار سکوں
16.06.2022
بہت سارا وقت ہو
اور تو میرے ساتھ ہو
ہم پیار میں ڈوبے رہیں بس
چاہے دن ہو کہ رات ہو
20.05.2022

یوں جی رہے ہیں جیسے
ہر پل اپنا خوں پی رہے ہیں
غموں کیساتھ ایسا ساتھ ہے ہمارا
بس غموں کی لڑی سی رہے ہیں
13.05.2022


وضو واجب تھا تجھے چھونے سے پہلے
تقدس فرض تھا وصل ہونے سے پہلے
13.05.2022

ترس گئیاں اکھیاں تیرے دیدار نوں
نہ تو آیا تے نہ اکھیاں نوں چین آیا
12.05.2022

میرا قربتوں کا زمانہ 
غربتوں میں گزر گیا 
میری جوانی
غریبی کی نذر ہوگئی
11.05.2022

میری آوارگی، میری مسافت کی ساتھی ہے
ورنہ کب کا، تنہا، میں بھٹک چکا ہوتا
25.04.2022

جگر کے سو ٹکڑے کریں گے
پھر ہر ٹکڑے پے تیرا ذکر کریں گے
22.04.2022

انکار ضد بن جاتا ہے
مجھے ٹھکرانے سے پہلے سوچ لینا
21-04-2022

مجھ سے اب یہ گناہ نہ ہوگا
تیرے بن زندگی سے نباہ نہ ہوگا
20.04.2022

‏سورج کبھی ڈوبتے نہیں بس آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں
لیجنڈ کبھی مرتے نہیں بس آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں
16.02.2022

مہندی رنگ لاتی ہے پتھر پر گھس جانے کے بعد
حسب دستور ہمیں بھی پھول ملے مگر مرجانے کے بعد😁
کلکتوی سے معذرت کیساتھ
15.02.2022

کسی کو تو ہمارا درد ہو گا
کہیں تو کوئی ہمارا ہمدرد ہو گا
زندگی اس قدر بھی بے رحم نہیں ہو سکتی
کبھی تو میرا بھی ستارہ سربلند ہو گا
12-02-2022

مجھے آزاد کردو، میں نے بیوفا ہونا ہے
خود کے سامنے خود سے جدا ہونا ہے
23-12-2021

اس نے دیکھ کہ منہ پھیر لیا
میں نے منہ پھیر کہ دیکھ لیا
اسے بھرم کرنا آتا تھا
مجھے پیار میں جھک جانا آتا تھا😜
19-11-2021

چلو مر جائیں 
جینے میں اب تک رکھا ہی کیا ہے
10.06.2021

کم عقل سمجھ رہاتھا ثواب کما رہا ہوں
مگر وہ گھر کسی غریب کا جلا رہا تھا
13.04.2021

جنت کس قدر سستی کردی ہے ملا نے
نہ حقوق العباد نہ حقوق ریاست نہ شعور انسانیت
بس کچھ ٹائر جلا کچھ مکاں جلا کچھ انساں جلا 
اور سیدھا جنت میں چلا آں💣
13.04.2021

ہم محبت کو چھوڑ نفرت کو بانٹ رہے ہیں
برسوں سے جو بویا ہے وہی آج کاٹ رہے ہیں
13.04.2021

محبت سچی ہو تو 
کچے دھاگے سے بھی لوگ بندھ جایا کرتے ہیں
محبت کچی ہو تو 
سونے چاندی کے بندھن بھی ٹوٹ جایا کرتے ہیں
03.04.2021

عشق نہ ویکھے شکلاں
عشق نہ پرکھے عقلاں
عشق نہ پچھے ذاتاں
تے عشق نہ تکے راتاں
عشق دی نہ کوئی منزل
تے عشق دا نہ کوئی حاصل
عشق وچ دی فنا
عشق دی اے بقا
21.03.2021

آنسو بن کر نکل جاوں گا
تیری نظر سے دور چلا جاوں گا
21.03.2021

وہ لوٹ آئے اور کہہ دے
میں دودھ لینے گیا تھا
چلو چائے بنا کرپیتے ہیں
21.03.2021
مجھے محبت کے تجربے سے گزرنا ہی تھا
تیری بیوفائی کے ذکر کو رقم کرنا ہی تھا
تیرے ہجر پے تو بس الزام ہے
مجھے ویسے بھی تو مرنا ہی تھا
15.3.2021

ہم نے ہی لوٹا ہے گلستاں،اور لو دیکھو
ہم ہی پارسا بنے بیٹھے ہیں 😜
04.03.2021

بدلا ہوا رخ ہوا کا یہ بتا رہا ہے
حاکم کا تخت اب ڈگمگا رہا ہے
03.03.2021

میں نے مر کر دیکھا ہے
لوگ آنکھوں سے آنسو ٹپکاتے ہیں
جبکہ دل سے خوب مسکراتے ہیں
02.03.2021

محبت میں روٹھ جانا، عین عبادت ہے
مگر روٹھ کر نہ مان جانا، عین کفر ہے💘
23.02.2021

کوئی اس کو بتاو، جو شدت سے چاہتے ہیں
جب روٹھتے ہیں تو شدت سے ہی روٹھتے ہیں
22-02-2021

خوش میرے حضور رہیے
بس مجھ سے ذرا دور رہیے
😁😁😁😁
14.02.2021

اے ڈھلتی رات سو جا
ہمارے ساتھ جاگے گی
تو تھک جائے گی
14.02.2021
اتنے قریب مت آو جل جاو گے
آکاش جاہ خاک میں رٌل جاوگے
شمع دور ہوتو نورانی لگتی ہے
پاس آو تو حشر سامانی لگتی ہے
11-02-2021


سال بدلا ہے، حال نہیں بدلا۔ 
حساب بدلا ہے ، وبال نہیں بدلا۔
ھیپی نیو ائیر
01-01-2021

مجھے چھوڑ کیوں نہیں جاتے
دل اک بار توڑ کیوں نہیں جاتے
میں جاتا ہوں کہیں اور 
چلا آتا ہوں تیری اور
آکہ اک بار میرا رستہ موڑ کیوں نہیں جاتے
29.12.2020

کسی کو اچھا لگوں نہ لگوں
میں خود کو اچھا لگتا ہوں
دنیا مجھے تسلیم کرے نہ کرے
میں اپنی ہی دنیا میں رہتا ہوں
29.12.2020

جس نے اجڑ جانا تھا وہ باغ نہ لگاتے 
بہتر تھا مرجاتے مگر زندگی کو داغ نہ لگاتے
28.12.2020

لوگ دل میں درد رکھتے ہیں
ہم نے درد کو دل بنا رکھا ہے
26.12.2020

تو مسافروں سے کچھا کچھ بھری بھاگتی ٹرین
میں تیری راہ تکتا ویرانے میں کھڑا تنہا درخت
تیری راہ تیری منزل تیرا ہے کارواں
میں بے راہ آوارہ میری منزل بے نشاں
7.8.2020


نہ لائک کی تمنا نہ بے عزتی کی پروا
گر نہیں ہے میری باتوں میں شوخی تو نہ سہی
14-01-2021