Translate

Showing posts with label Urdu Blog. Show all posts
Showing posts with label Urdu Blog. Show all posts

Friday, January 19, 2024

ایران مقابل پاکستان جائزہ

 ایران مقابل پاکستان! 

پاکستان اور ایران کے بیچ 900 کلومیٹر بارڈر کو گولڈ سمتھ لائن کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا تعین 1871 میں گولڈ سمتھ نے کیا تھا۔ سرحد کے دونوں طرف بلوچ قبائل آباد ہیں جو اس لائن کو نہیں مانتے اور دونوں ممالک میں عسکری کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔سرحد پر ایرانی طرف بلوچ سنی اقلیت آباد ہے، جو ایران کی مرکزی حکومت سے ناراض اور مرکزی حکومت پر مسلک کی بنیاد پر امتیازی سکول برتنے کا  الزام لگاتی ہے۔ امریکہ کے کاؤنٹر ٹیرارزم ادارے کے مطابق جیش العدل نامی تنظیم ان ہی بلوچوں کے حقوق کی بات کرتی ہے۔ 

1979 کے ایرانی انقلاب سے قبل تک ایران اور پاکستان دونوں مغربی بلاک میں تھے اور 1970 میں شاہ ایران نے بلوچستان کے شرپسندوں کیخلاف کارروائی میں پاکستان کی مدد بھی کی تھی۔ مگر انقلاب کے بعد ایران مغرب مخلاف بن گیا جبکہ پاکستان بدستور مغربی بلاک کا حصہ ہے۔سویت یونین کے خلاف ’افغان جہاد‘ میں ایران اور پاکستان دونوں سویت یونین کے مخالف تھے، تاہم ایران نے ’شمالی اتحاد‘ (جو زیادہ تر شیعہ ہزارہ آبادی ہے) جبکہ پاکستان نے ’مجاہدین‘ کا ساتھ دیا تھا۔

ایران دنیا میں پہلا ملک تھا جس نے تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کو تسلیم کیا تھا جبکہ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد وہاں کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔



دونوں ممالک کی ملٹری سٹرینتھ!

گو گلوبل فائر انڈیکس پر پاکستان ملٹری سٹرینتھ 9 نمبر پر ہے اور ایران کی 14، 























مگر دو ہمسایہ ممالک کی جنگ محض ہتھیاروں کی بہتات سے طویل مدت کے لیے نہیں جیتی جاسکتی، اس میں اور بھی بہت سے فیکٹرز ہیں جیساکہ ملک کی اکانومی، قدرتی وسائل، ملک کا دوسرے ممالک پر ٹیکنالوجی اور اشیاء کا انحصار، ملک کی سٹریٹجیک لوکیشن، ملک کا مذہب، قومیت و لسانیاتی گروپ اور آبادی وغیرہ

ایران پاکستان سے دوگنا بڑا ملک ہے جبکہ پاکستان ایران سے آبادی میں تین گنا بڑا ملک ہے

ایران کی اکانومی پاکستان سے بڑی ہے اور ایران تیل و گیس کے ذخائر سے مالامال ہے جن میں قدرتی گیس کے دنیا میں دوسرے بڑے اور تیل کے تیسرے سب سے بڑے ثابت شدہ ذخائر شامل ہیں۔ جبکہ پاکستان 17 ارب ڈالرز کا تیل درآمد کرتا ہے 

ایران کی ایکسپورٹ 107 اور امپورٹ 54 ارب ڈالرز ہیں اس لحاظ سے ایران کو ڈالرز کی کمی نہیں ہے. جبکہ پاکستان کی ایکسپورٹ 28 اور امپورٹ 50 سے اوپر ہیں اوپر سے پاکستان کے بیرونی قرضے، اس طرح پاکستان ہمیشہ ڈالرز کی کمی کا شکار رہتا ہے جن کے لیے پھر imf اور امریکہ، سعودی دوبئ وغیرہ کا محتاج رہتا ہے. 

ایران کی طاقت ہے اس کا مذہبی جنون اور قدیم تہذیبی تفاخر، ایران 3200 سالہ قدیم تاریخ رکھتی ہے اور یونان کے بالمقابل دوسری سپر پاور رہی ہے. سائرس یا ذوالقرنین (550 قبل مسیح) کے عروج اور اس کے دو صدیاں بعد ڈیریئس (ڈیریئس نے 522 قبل مسیح میں سائرس کے بیٹے بارڈیا سے ایک خونریز انداز میں اقتدار چھین لیا) کی موت کے درمیان، فارس کی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں عظیم اسکندر یونانی نے 323 میں ایران کے بادشاہ دارا کو شکست دی تھی. 

ایران میں اسلام کی آمد

ایران قدیم مذہبی تاریخ بھی رکھتا ہے، زرتشت نے یہاں 15 سے 10ویں صدی قبل مسیح زرتشت مذہب کی بنیاد رکھی. جو اسلام کی آمد تک ایران کا سرکاری مذہب تھا. 633 عیسوی نے خالد بن ولید رضی اللہ نے ایرانی صوبہ میسوپوٹیما موجودہ عراقی علاقے میں ایرانی سلطنت کو پہلی شکست دی، پھر ان کی ٹرانسفر کے بعد 636 میں حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ نے جنگ قادسیہ میں ایرانی فوجوں کو فیصلہ کن شکست دی، بعدازاں 642 میں حضرت عمر رضی اللہ نے افواج کو پورے ایران پر کنٹرول کے احکامات جاری کیے اور پھر بتدریج ایران مکمل طور پر مسلمان ہوتا چلا گیا. 

مذہبی اعتبار سے ایران میں 99٪ مسلم ہیں 

ان میں سے 90٪ شیعہ

جبکہ 9٪ سنی ہیں

ایران کی سنی سے شیعہ بننے کی تاریخ 

عباسی خلفا نے اسلامی ریاست کا دارالحکومت دمشق سے بغداد منتقل کیا، عباسی خلافت سنی مسلک تھی، 16ویں صدی تک آذربائیجان اور ایران سنی مسلک تھے، مگر پھر 1500 میں ایک شیعہ حکمران شاہ اسماعیل صفوی نے ایران پر قبضہ کرلیا اور ایران کو بزور بازو شیعہ بنانا شروع کردیا، اس نے سنیوں کو 2 آپشن دیے، شیعہ ہوجاو یا پھر مرجاو. شاہ اسماعیل نے ترکی میں بھی موجود شیعوں کو اکسانا شروع کیا جس کے جواب میں عثمانی بادشاہ سلیم نے اسے شکست فاش دی. صفوی شیعہ حکمرانوں نے ایران پر 222 سال حکومت کی. 

ایران کی ماڈرن شدید مذہبی ریاست کا قیام

1979 میں ایران میں مذہبی انقلاب آیا جس کے بعد ایران ماڈرن مذہبی انتہا پسند مملکت کے طور پر ابھرا. اور تب سے لے کر اب تک ایران خطے میں مذہبی چھیڑ چھاڑ اور اپنے نظریات کو ٹھونسنے کی کوششیں کرتا نظر آرہا ہے، انقلاب سے فورا بعد سے ایران عراق کیساتھ 8 سالہ جنگ لڑ چکا ہے جس میں عراق کو مغربی بلاک سمیت عربوں کی حمایت بھی شامل تھی مگر ایران اس جنگ میں فتح یاب رہا تھا۔

دوسری پاکستان میں 85 سے 90٪ سنی اور  10 سے 15٪ شیعہ ہیں، مگر پاکستان مذہبی فرقوں کے حوالے سے ایران کی طرح مستحکم نہیں ہے، فرقہ پرستی پاکستان کا ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے اور اس میں متعدد اوقات بلکہ اکثر اوقات ہی مذہبی تحریکیں سرگرم رہی ہیں، مختلف مکتبہ فکر کی سیاسی جماعتیں بھی سیاست میں اچھا خاصا اثر رکھتی ہیں. دنیا بھر میں شیعہ ایران کے بعد سب سے زیادہ پاکستان میں ہیں، 90 کی دہائی میں پاکستان میں بھی شیعہ سنی فسادات ہو چکے ہیں۔ اور ایرانی انقلاب کے بعد سے پاکستان سعودی عرب کے زیادہ قریب رہا ہے۔

ایران میں لسانی گروہ

فارسی بان 60 سے 65٪

آذربائیجانیز 15 سے 17٪

کرد 7 سے 10٪

بلوچ 2٪

ترک 1٪

پاکستان میں گرچہ پنجابی اکثریتی گروہ ہے لیکن بحیثیت مجموعی پاکستان کی گروہی درجہ بندی خاصی متنوع ہے، 

حالیہ تنازعہ کی وجہ

بلوچستان کا علاقہ پاکستان (بلوچستان) اور ایران (سیستان) دونوں طرف پھیلا ہوا ہے، ایران الزام لگاتا ہے کہ پاکستان کے علاقے سے ایران پر حملے ہوتے ہیں اسی طرح پاکستان کا بھی یہی موقف ہے، بجائے اس مشترکہ مسئلہ پر مشترکہ لائحہ عمل بنانے کہ ایران نے پاکستان کے اندر کارروائی کر ڈالی اور اوپر سے کارروائی پر ڈھٹائی، چاروناچار پاکستان کو بھی جوابی کارروائی کرنی پڑی، جس کے بعد اگر سنجیدہ کوشش سے معاملے کو ہینڈل نہیں کیا جاتا تو معاملہ سنگین رخ اختیار کرسکتا ہے جو جنگ سے لے کر طویل مدتی کراس بارڈر چھیڑخانی میں بدل سکتا ہے، اور ایران کے پاس اس طرح کے کاموں کے لیے فضول پیسہ بھی ہے اور انتہاپسندانہ عزائم بھی ہیں، جبکہ پاکستان مشرقی مغربی بارڈر کے بعد ایک اور بارڈر کو غیرمحفوظ ہرگز نہیں بنانا چاہے گا. اور اس سے خطے میں امن کی دشمن قوتوں اور تنظیموں کو بہت بڑا موقع مل جائے گا، ماضی میں ایسی تنظیوموں کی سوویت یونین، عراق، افغانستان اور بھارت حمایت کرتے رہے ہیں، اور بھارت تو اب بھی حمایت کرتا رہتا ہے۔

ایران اس حملے سے کیا چاہتا ہے؟

ایران کا حملہ اس قدر اچانک اور عجیب وقت میں سامنے آیا ہے کہ لوگ حیران ہیں کہ کہیں ایران نے بلوچستان کو اسرائیل تو نہیں سمجھ لیا؟

جب سے غزہ جنگ چھڑی ہے ایران پر ایران کے اندر سے غزہ کے لیے مدد وغیرہ کا دباو بھی ایک فیکٹر ہوسکتا ہے،

اسی ہفتے میں ایران نے عراق اور شام مپر بھی ایسے حملے کیے ہیں۔

ایران نے اس وقت اپنے لیے کئی محاذ کھول رکھے ہیں، شام، حزب اللہ، حماس، یمن اور پھر امریکہ سے مستقل معاندانہ تعلقات، ٹرمپ کے دور میں بھی ایران امریکہ کے جنگ کے خطرات بڑھ گئے تھے اور اب بھی بائیڈن نے ایران کو جنگ کی دھمکی دی ہے. ان حالات میں ایران کا پاکستان پر حملہ بالکل غیرمنطقی لگتا ہے. لیکن جب کوئی ریاست انتہاپسندی کے رستے پر چل نکلتی ہے تو پھر وہ بلنڈر پر بلنڈر کرتی چلی جاتی ہے.

دنیا اس بارے کیا چاہتی ہے؟

یمن حوثی باغی بحیرہ احمر سے گزرنے والوں بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کو ایران سپورٹ کرتا ہے۔ مغرب سے مشرق کو نہر سویز سے گزر کر یہ شارٹسٹ روٹ ہے، اگر یہ روٹ بند ہوتا ہے تو بحری جہازوں کو مجبورا جنوبی افریقہ کے نیچے سے چکر کاٹ کر جانا پڑے گا، اس سے لامحالہ روٹ کی لینتھ بڑھے گی، ٹائم ٹریول وقت بڑھے گا، انشورنس کی قیمتیں بڑھیں گی اور پھر نتیجتا تجارتی اشیا کی قیمتیں بڑھیں گی، 



جہاں دنیا پہلے ہی یوکرین اور غزہ کی جنگ کیوجہ سے مہنگائی کا سامنا کررہی ہے وہیں اس نئی وجہ سے قیمتیں مزید اوپر جائیں گی۔ تو پاکستان بھارت، ملائیشیا، انڈونیشیا، آسٹریلیا، چین اور جاپان تک کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ یہ روٹ ڈسٹرب ہو اور مہنگائی مزید بڑھے۔ امریکہ اور برطانیہ نے روٹ کی بحالی کے لیے متعدد ممالک پر مشتمل ایک ٹاسک فورس بھی بنائی ہے اور بحیرہ احمر میں اپنی بحری بیڑے بھی بھیجے ہیں۔ اب مغرب ایران کے پاکستان پر بلااشتعال حملے کو مغربی رائے عامہ کو ایران کیخلاف ہموار کرنے کے لیے استعمال کرے گا، دوسری طرف اسرائیل بھی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہے گا اور مغربی رائے عامہ کو ہموار کرکے ایران کو ایک شرپسند ریاست کے طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوششوں کیخلاف حتمی کارروائی کے لیے تیار کر سکتا ہے، اور امریکہ بھی یقینا ایسا ہی چاہے گا۔ امریکہ نے فورا ایک بیان میں پاکستان پر ایران کے حملے کی مذمت کی ہے اور اسے پاکستان میں مداخلت قرار دیا ہے،

پاکستان اس بارے اب کیا چاہے گا؟

دوسری جانب پاکستان ہرگز ایران سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہے گا، لیکن ایرانی اقدام ایسا ہے کہ پاکستان اس پر چپ رہ نہیں کیونکہ پھر اسی نوعیت کے مزید اٹیک کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جو پاکستان کی ملکی سلامتی کیلیے ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا. کیونکہ پاکستان نہ تو شام ہے، یمن ہے اور نہ ہی عراق، پاکستان اس طرح کہ ایڈوانچرز سے نپٹنا بخوبی جانتا ہے اور پاکستان نے بھارت کی ایسی دراندازی کو کوششوں کو ٹکر دے کر اپنی اہلیت ثابت کر رکھی ہے، اگر ایران حملے پر معذرت کرلیتا تو بھی شاید معاملہ نہ بڑھتا مگر ایران کی ڈھٹائی نے پاکستان کو جواب کے لیے مجبور کردیا، ایسی بھی خبریں ہیں کہ ایران پاسداران انقلاب نے اس حملے پر خوشی کا طبل بجایا ہے، تو ایسی صورتحال میں پاکستان کے پاس جوابی کارروائی کے علاوہ کوئی رستہ بچتا نظر نہیں آتا، آخری خبریں آنے تک پاکستان نے بھی ایرانی علاقے سیستان میں پاکستان مخالف عسکریت پسندوں پر حملے کیے ہیں۔



پاکستان ملٹری سٹرینتھ میں ایران سے بہتر پوزیشن میں ہے اور اگر کوئی ایڈوانچر ہوتا بھی ہے تو پاکستان اولا ضرور برتری میں رہے گا لیکن مسئلہ طویل مدتی جنگ کا ہے کہ جس میں پھر پاکستان الجھا رہنا نہیں چاہے گا لیکن جنگ ایک ایسی چیز ہے جو جب چھڑ جائے تو پھر اپنے پیرامیٹرز خود طے کرتی ہے. اس لیے اس تنازعہ کا واحد حل سنجیدہ مذاکرات ہیں اگر یہ چنگاری بھڑک اٹھی تو پھر اس چنگاری کو بہت جگہوں سے ہوا ملے گی اور چنگاری آگ بن جائے گی.

Tuesday, January 31, 2023

Nawazuddin Siddiqui Success Story

 کامیابی کیسے ملتی ہے؟

کامیابی تھالی میں رکھ کر نہیں ملتی، 

رنگ لانے کے لیے گھسنا پڑتا ہے۔ 

جب ہارنے لگو تب وہاں سے دوبارہ لڑنا پڑتا ہے.

نوازالدین صدیقی 19 مئی 1974 کو مظفر نگر ضلع، اتر پردیش، ہندوستان کے ایک چھوٹے سے قصبے بدھانہ میں لمبرداروں کے ایک زمینداری مسلم خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ آٹھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں۔ 

انھوں نے وشو ودیالیہ ہریدوار سے کیمسٹری میں بیچلر آف سائنس کے ساتھ گریجویشن کی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک سال تک کیمسٹ کے طور پر کام کیا۔ پھر اچھی نوکری کی تلاش میں دہلی چلے آئے۔

جہاں ایک پلے دیکھنے کے دوران ان کے دل میں اداکاری کا خیال آیا۔ انھوں نے نیشنل سکول ڈرامہ میں داخلہ لے لیا، اداکاری کا کورس مکمل کرنے کے بعد 1999 میں وہ ممبئی چلے آئے۔ جہاں ان کی لمبی جدوجہد (Struggle) کی شروعات ہوئی۔

وہ آج ایک نامور اداکار اور سپر سٹار ہیں، لیکن اس کے پیچھے ان کی کامیابی کی بہت ہی انسپائرینگ اور متاثر کن جدوجہد ہے۔

ممبئی پہنچ کر پہلے تو ان کو سرفروش اور منا بھائی ایم بی بی ایس جیسی فلموں میں چھوٹے موٹے پیچھے کھڑے ہونے والے رول ملے۔ لیکن وہ کوئی پراپر رول حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ 2003 میں انھوں نے عرفان خان کیساتھ ایک شارٹ فلم بائپاس میں کام کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ڈراموں میں کوئی کام حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔

ممبئی میں وہ ایک شئیرڈ روم میں 4 لوگوں کیساتھ رہتے تھے، اس دوران وہ چھوٹے موٹے پلے وغیرہ سے گزر بسر کرتے رہے، لیکن 2004 میں ان کی معاشی حالت بالکل پتلی ہوگئی، وہ روم کا کرایہ تک دینے سے رہ گئے، ان کو روم سے نکلنا پڑا، انھوں نے ایک سینئر سے روم میں رہنے کے لیے درخواست کی، سینئر نے ان کو اس شرط پر ساتھ رکھنے پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ سینئر کے لیے کھانا بنائے گا۔ صاف بولیں تو وہ ایک کک کی نوکری جیسے ہی تھا۔ 

لیکن جب عزم بڑے ہوں تو ان کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد بھی بڑی اور کٹھن ہوتی ہے۔ نواز الدین صدیقی سائنس میں گریجویٹ تھے، وہ ایک کیمسٹ تھے، چاہتے تو انھیں آسانی سے دوبارہ کیمسٹ کی نوکری مل سکتی تھی، مگر یہاں نواز الدین نے استقامت دیکھائی اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے اپنی انا، عزت نفس اور ڈگری کے تقدس تک کو گروی رکھ دیا۔

2004 سے 2007 تک ان کو بلیک فرائیڈے جیسے چھوٹے موٹے رول ملتے رہے، 2009 میں ان کو ایک گانے میں مختصر رول ملا۔ 2010 میں ان کو ایک فلم پیپلی لایئو میں ایک صحافی کا رول ملا جس میں ان کو بطور اداکار اپنی شناخت کرانے کا موقع ملا۔ 2012 میں ان کو پتنگ فلم میں کام کرنے کا موقع ملا، جس میں ان کی پرفارمنس کو سراہا گیا اور ان کو تھمبس اپ ٹرافی سے نوازا گیا۔ فلم نے امریکہ کینیڈا وغیرہ میں زبردست کامیابی حاصل کی۔

2013 میں ان کو گینگز آف وصی پور کے دوسرے پارٹ میں لیڈنگ رول کرنے کا موقع ملا، 2013 میں ہی ان کی فلم لنچ باکس کینز فلم فیسیٹول میں پیش کی گئی جہاں نواز الدین نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے۔ 2013 میں ہی ان کو بیسٹ سپورٹنگ اداکار کا ایوارڈ بھی ملا۔   2016 میں رمن راگھو 2.0 میں ان کے کام پر انھیں اسپین میں فانسائن ملاگا ایوارڈ اور ایشیا پیسیفک اسکرین ایوارڈز ملے۔ 2018 میں فلم منٹو میں انھوں نے شاندار کارکردگی دیکھائی جس پر انھیں 2018 کے ایشیا پیسیفک اسکرین ایوارڈز میں بہترین اداکار کا اعزاز ملا۔ نیٹ فلیکس پر ان کی سکیرڈ گیمز سیریز کو بہت پزیرائی ملی، مشہور زمانہ ناول دی الکیمسٹ کے  مشہور مصنف پاؤلو کوئلہو نے بھی ان کے کام کی تعریف کی۔ 

اب نواز الدین صدیقی نیشنل و انٹرنیشنل فلموں میں لیڈنگ رول کررہے ہیں، وہ انڈین فلم انڈسٹری کے سپر سٹار بن چکے ہیں لیکن انھوں نے اپنی جنم بھومی سے اپنا رشتہ نہیں توڑا،

 نواز الدین صدیقی اتر پردیش میں اپنے آبائی شہر بدھانہ کے کسانوں کی زندگیاں بہتر بنانے کا عزم رکھتے ہیں، وہ کسانوں کو جدید زرعی ٹیکنالوجیز سے متعارف کروانے کے لیے کوشاں ہیں، انھوں نے وہاں آبپاشی کے نئے طریقے رائج کیے ہیں جو کسانوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں۔ 2021 میں انھوں نے اپنی شوٹنگز کو بریک دیکر اپنا کافی سمے بدھانا میں بیتایا۔

نواز الدین جب کینز میلے میں شرکت کے لیے فرانس گے تو وہاں کسانوں سے بھی ملے اور کاسٹ ایفیکٹو اور واٹر ایفیکٹو جیسی ٹیکنالوجی بارے معلومات حاصل کیں. وہ اس تیکنیک کو اپنے گاوں لے کر آئے، آبپاشی کے اس طریقہ میں جیٹ پائپ کی مدد سے فصل پر اوپر سے چھڑکاو کیا جاتا ہے، تحقیق کیمطابق جب فصل کو اوپر پانی چھڑکایا جاتا ہے تو یہ قدرت کے طریقہ آبپاشی یعنی کے بارش جیسا عمل ہوتا ہے جس سے بہ نسبت روایتی طریقہ کہ بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں. 
ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنی شہرت اور مصروفیت کے عروج پر اپنی اصل کو نہیں بھولتے، اور یہی چیز ان کے عزم کی پختگی، ان کی شروعات سے وابستگی اور ان کی جدوجہد کو لازوال بناتی ہے، نواز الدین صدیقی کی اصل ان کے اعلی کردار کی جھلک ہے۔

ایک حالیہ انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ "میرے اپنے خاندان میں، میری دادی ایک نچلی ذات سے تھیں۔ لوگوں نے آج بھی ان کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا، "حقیقت یہ ہے کہ میں مشہور ہوں لیکن ان کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ یہ ان کے اندر پیوست ہے یہ ان کی رگوں میں ہے۔ اور وہ اسے اپنا فخر سمجھتے ہیں۔‘‘

حوالہ جات 


https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2kr1zz8zvo

https://www.koimoi.com/bollywood-news/nawazuddin-siddiqui-recalls-getting-dragged-by-collar-when-tried-eating-with-lead-actors-of-films-junior-artists-eat-separately-the-supporting-artists-have-their-own-space/

Friday, January 20, 2023

A Celebrity and A Black-hole of Politics

ایک اور ستارہ سیاست کے بلیک ہول میں گرنے کو تیار
قاسم علی شاہ پر کچھ نہیں کہنا بلکہ کہنا بھی نہیں چاہیے مگر چونکہ وہ ایک پبلک فگر ہیں اچھی خاصی فین فالوونگ رکھتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر پچھلے چند دنوں کے واقعات اور ان سے جڑے دلچسپ اتار چڑھاو کے نتائج ضرور توجہ طلب اور سبق آموز ہیں:
سب سے پہلے انسان کو اپنا کردار بناتے عمریں لگ جاتی ہیں مگر اس کو بگاڑتے چند لمحے لگتے ہیں،
دوم، انسان کو عزت مل جانا خوش نصیبی سہی مگر اس کو سنبھال رکھنا واقعی کار پیمبری ہے،
سوم، انسان کی حرکات سکنات اور اعمال دراصل اس کا کردار ہوتے ہیں، ناکہ اس کے الفاظ، واعظ و تبلیغ یا موٹیویشنل سپیکنگز،
سیاست سمیت ہر شعبہ ہر شخص کا حق ہے، مگر قاسم علی شاہ کا طریقہ کار یقیناً کچھ زیادہ ہی اوتاولا نکلا

کچھ لوگوں کو قاسم علی شاہ کا عمران خان کے سامنے بیٹھنے کا انداز بالکل بھی پسند نہیں آیا۔ اور وہ اس کو قاسم علی شاہ کے سبق خودداری سے غداری قرار دے رہے ہیں، مزید ان کا عمران خان سے ٹکٹ مانگنے کا طریقہ تو بالکل بھی نہیں بھایا۔ اس طرح تو شاید عثمان بزدار نے بھی کبھی وزارت اعلی نہیں مانگی ہو گی؟

قاسم علی شاہ کا شہباز شریف کے سامنے بیٹھنے کا انداز عمران کے سامنے بیٹھنے سے بالکل مختلف نظر آیا، ایک انٹرویو میں قاسم علی شاہ نے شہباز شریف سے متعلق کہا کہ ’میں نے میاں شہباز شریف صاحب میں لچک دیکھی ہے۔اور میں نے متانت و گہرائی پرویز الٰہی صاحب میں دیکھی ہے۔

قاسم علی شاہ روایتی سوچ کے اکثریتی حلقہ کے ترجمان ہیں تو اسی حساب سے ان کی فین فالونگ بھی کافی ہے، اور ان کو مدرسوں یونیورسٹیوں سے لے کر جی ایچ کیو تک سنا جاتا ہے.

قاسم علی شاہ ایک معروف موٹیویشنل سپیکر، ٹرینر، مصنف اور ماہر تعلیم ہیں۔ وہ اب تک اپنے لیکچرز وغیرہ کی لگ بھگ 500 سے زیادہ ویڈیوز ریکارڈ کر چکے ہیں، یوٹیوب اور فیس بک پر لاکھوں ان کے فالوورز ہیں، 3000 کے قریب لیکچرز دے چکے ہیں، 200 سے سے اوپر کالم لکھ چکے ہیں، درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں اور ہزاروں لوگوں کو تربیت دے چکے ہیں جن میں سرکاری افسران، سی ایس پی افسران اور طلباء شامل ہیں۔ وہ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے بانی بھی ہیں۔ اس فاونڈیشن کا بنیادی تھیم ہے کہ سوچ بدلے گی تو پاکستان بدلے گا۔ 

اسی ٹی وی پروگرام میں موٹیویشنل سپیکر نے مزید کہا کہ ’عمران خان صاحب میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں لیکن انہوں نے یہ سوچ رکھا ہے کہ جو سارے فیصلے قیامت کے دن ہونے ہیں وہ انہوں نے دنیا میں ہی کر لینے ہیں۔‘
عمران خان پر تنقید سے قبل موٹیویشنل اسپیکر کو یوٹیوب پر 35 لاکھ اور فیس بُک پر 34 لاکھ سے زائد افراد فالو کرتے تھے لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے سوشل پلیٹ پلیٹ فارمز پر قاسم علی شاہ کو ان سبسکرائب اور ان فالو کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس کے بعد ان کی ریٹنگ پر تیزی سی کمی آئی جس سلسلہ تاحال جاری ہے۔


قاسم علی شاہ عمران خان پر تنقید کرتے وقت یہ بھول گے کہ عمران خان بھی سیاست میں آنے سے پہلے سیلیبرٹی رہ چکے ہیں اور وہ قاسم علی شاہ سے کہیں زیادہ بڑے سٹار تھے۔ اس لیے عمران خان میں سیاستدان بن جانے کے باوجود ایک سٹار والی عادات چنداں باقی ہیں۔ جبکہ قاسم علی شاہ شاید ایک عام سیاستدان سے ملنے پہنچے تھے کہ جس کو وہ اپنی موٹیویشنل پاور سے گرویدہ بنا لیں گے، مگر وہ بھول گے کہ کسی سے متاثر ہونا عمران خان کی سرشت میں ہی نہیں. 
 
اب آتے ہیں شاہ جی کے شوق سیاست کی طرف!
اس دنیا میں شاید کوئی کھیل کوئی تماشہ سیاست جتنا پرکشش، دلفریب اور دلچسپ ہو، مگر اکثر اوقات یہ بڑے بڑے ستاروں کے لیے بلیک ہول بھی ثابت ہوا ہے، جہاں وہ اپنی ساری زندگی کی کمائی ہوئی عزت اور شہرت سمیت غرق ہو گے.

ہر امیر اور مشہور شخص کی طرح شاید قاسم علی شاہ جی کا بھی دل اپنی شہرت کو کیش کرنے کے لیے مچلا یا پھر واقعتاً نئی نسل کے مستقبل کا درد اٹھا. مگر طریقہ واردات دیکھیں تو مطلوب و مقصود کشور کشائی ہی نظر آتی ہے ناکہ ذوق خدائی، کیونکہ ایسا ممکن نہیں کہ آپ اپنے نظریات لے کر کسی سیاسی جماعت میں جائیں اور اس سیاسی جماعت کے نظریات کو بدل کررکھ دیں، کیونکہ گرچہ ہر سیاسی جماعت اپنی سیاست نظریات سے شروع کرتی ہے مگر منتج پاور پالیٹکس پر ہی ہوتی ہے، زمینی حقائق کے پیش نظر نظریاتی پالیٹکس پاور پالیٹکس میں بدل کر ہی رہتی ہے. تو ایسے میں شاہ جی کا بھلائی کا دعویٰ جون جولائی میں ٹھنڈے ہوا کے جھونکے جیسی موٹیویشن سے زیادہ کچھ نہیں،
ہاں اگر شاہ جی بمطابق اپنی موٹیویشنل سپیکنگز! واقعی چاند تارے توڑ لانے کا حوصلہ جمع خاطر رکھتے ہوتے تو سیاسی بلیک ہول میں کودنے کی بجائے اپنا سیاسی سورج نا سہی کم از کم چاند ہی چڑھا لیتے. کامیابی ناکامی بعد کی بات، کم از کم اپنی عزت تو اپنے ہاتھ ہوتی.
اب شاہ جی کی کھوتی نا اپنے وہڑے جوگی رہ گئی نا زمیندار کے کھیت کھلیان جوگی. اب ن لیگ سے تبرا اٹھتا ہے تو یوتھیے اس کو چاند تک پہنچا کر چھوڑ رہے ہیں،
موٹیویشن کی دو اقسام ہوتی ہیں، ایکسٹرنسک اور انٹرسنک: اب پتہ نہیں قاسم علی شاہ صاحب ایکسٹرنسک موٹیویشن کا شکار ہوئے ہیں یا پھر ان کے اندر کا انقلابی اٹھ بیٹھا ہے۔

بعض اوقات خارجی محرک آپکی موٹیویشن کا باعث بنتے ہیں لیکن اگر یہ خارجی محرک آپکی اندرونی موٹیویشن سے میل نہیں کھاتے تو خارجی محرک عارضی ثابت ہوتا ہے اور نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ پس ثابت ہوا اصل موٹیویشن انسان کے اندر موجود ہوتی ہے، خارجی موٹیویشن اشاریہ ثابت ہوتی ہے جو اسپارک کی طرح کام کرتی ہے اور پھر مکمل انجن چلنے لگ پڑتا ہے،

شاہ جی نے سمجھا تھا جس طرح ان کی دانش پر روایتی طبقہ اور ننھے پروفیسر طالب علم ہاں جی ہاں جی کرتے ہیں شاید اسی طرح عمران خان پرویز الٰہی اور شہباز شریف بھی قاسم علی شاہ کے مرید ہو جائیں گے، مگر شاہ جی بھول گے کروڑوں موٹیویشنل سپیکر جمع ہوں تو اک سیاست دان بنتا ہے، کیونکہ سیاست دان اک اک ووٹ کا تجزیہ اور حصول ممکن کرکے ہی مسند پر بیٹھتا ہے، سنی سنائی رٹی رٹائی باتوں سے نہیں بلکہ عملی مٹھ سے گزر کر ہی وہ سیاست دان بنتا ہے، اس کے ایک نہیں ہزاروں روپ ہوتے ہیں. اور ہر روپ پہلے والے روپ سے زیادہ اصلی لگتا ہے، قاسم علی شاہ جی بھی کسی بہروپ کے نت روپ سے مات کھا گے.
خدا کرے ایک اور ستارہ سیاست کے بلیک ہول میں غرق نہ ہوجائے. 

Saturday, July 30, 2022

پاکستان کا معاشی و سیاسی بحران 2022

پاکستان کا معاشی و سیاسی بحران
یہ ملک بھی بیچیں گے
اثاثے بھی بیچیں گے
لیکن ملک کو دیوالیہ پن سے پھر بھی نہ بچا پایں گے، کیونکہ دیوالیہ پن کی بنیاد انھوں نے بہت پہلے ہی رکھ دی تھی اب بس رسمی کارروائیاں چل رہی ہیں.
جس دن PDM نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی اس دن ڈالر 178 کا تھا
جب حکومت لی اس دن 182 کا تھا
آج ڈالر 250 پر بھی نہیں مل رہا،
پی ٹی آئی نے 3.5 سال میں 55 روپے ڈالر مہنگا کیا تھا جبکہ ن لیگ نے فقط 3.5 ماہ میں ڈالر 68 روپے مہنگا کردیا ہے.
اگر باقی دنیا کے حالات دیکھیں تو پھر پاکستان کی صورتحال مزید بگڑتی نظر آتی ہے.
پاکستانی اشیاء کا سب سے بڑا امپورٹر (9 بلین ڈالر) امریکہ معاشی بحران کا شکار ہورہا ہے نتیجتاً جس کا اثر پاکستان پر پڑے گا. ایک طرف پاکستان کی برآمدات خطرے میں پڑیں گی دوسری طرف امریکہ میں ڈالر پر شرح سود بڑھنے سے ڈالر مزید مہنگا ہوگا.
کورونا کی عالمی وبا کے بعد اچانک روس یوکرین کی جنگ دنیا کے لیے بڑی آفت سے کم ہرگز نہیں. روس پر لگائی گئی پابندیاں عالمی منڈی کے توازن کو بری طرح متاثر کررہی ہیں، دنیا کا تقریباً ہر ملک متاثر ہورہا ہے لیکن پہلے ہی قرض اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے شکار ممالک تیل گیس کی بڑھتی قیمتوں کے آگے ہارتے محسوس ہورہے ہیں. جبکہ جنگ کی کچھ سمجھ آ نہیں رہی، کہ کب اور کیسے ختم ہوگی. عالمی طاقتوں کی پاور پالیٹکس میں البتہ کمزور ممالک رگڑے جارہے ہیں.
پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 17 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے جو دن بدن مزید بڑھ رہا ہے، 

سنتے تھے پاکستان زرعی ملک ہے، لیکن جب اعدادوشمار دیکھتے ہیں تو پاکستان 9 ارب ڈالر کی زرعی اجناس درآمد کرتا ہے، درست اور جدید زرعی پالیسیوں سے اس 9 ارب ڈالر کے خسارے سے کم از کم جان چھڑائی جا سکتی ہے،
سنا تھا پاکستان میں 5 دریا بہتے ہیں جن سے 60 ہزار بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، لیکن اعداد و شمار دیکھیں تو پتہ لگتا ہے کہ پاکستان 14 ارب ڈالر کا فرنس آئل وغیرہ صرف بجلی پیدا کرنے کے لیے درآمد کرتا ہے، حکمرانوں نے اس طرح کے منصوبے لگانے کی بجائے پانی اور سولر سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگائے ہوتے تو آج پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ صفر کے برابر ہوتا، اور ڈالر بھی قابو میں ہوتا۔ 
پاکستان کو اس سال 41 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں. آخری امید IMF سے ابھی تک کوئی مثبت خبر نہیں آئی ہے بلکہ آخری خبروں تک IMF کی شرائط بڑھتی چلی جارہی ہیں.
حال ہی میں دیوالیہ ہونے والے ملک سری لنکا کا اگر جائزہ لیں تو اس کی دیوالیہ ہونے سے 5 ماہ قبل کی صورتحال اور پاکستان کی آج کی صورتحال بالکل ایک جیسی ہے. سری لنکا 51 ارب ڈالر کا مقروض ہے، جبکہ اس سال اس نے 7 ارب ڈالر قرض واپس کرنے تھے، سری لنکا کی ڈالر کمائی کا بڑا حصہ غیر ملکی سیاحت جو کہ سالانہ 4.4 ارب ڈالر تھی، لیکن ایسٹر کے موقع پر دہشت گردی کے واقعے سے غیر ملکی سیاحت میں کمی واقع ہوئی، پھر کورونا آ گیا، سری لنکا ابھی ان دو مسائل سے نہیں نپٹ پایا تھا کہ روس یوکرین جنگ اس کی ڈوبتی معیشت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا، تیل کی بڑھتی قیمتوں کے آگے سری لنکا کے ڈالر کم پڑ گے تیل کی قیمتیں یکایک 40 ڈالر فی بیرل سے بڑھکر 120 ڈالر تک پہنچ گئی اس اچانک اضافے نے سری لنکا جیسے ترقی پذیر ممالک کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا، سری لنکا کی کرنسی (114٪ گری) اور ڈالر ذخائر تیزی سے گرنے لگے، اور 1 ارب ڈالر تک پہنچتے پہنچتے سری لنکا ڈیفالٹ کرگیا، یاد رہے سری لنکا کی آبادی 2 کروڑ ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے زائد ہے، اس حساب سے پاکستان کی ضروریات بھی سری لنکا سے کئی گنا زیادہ ہیں، اگر سری لنکا 1 ارب ڈالر پر ڈیفالٹ کر سکتا ہے تو پاکستان کے ذخائر بھی 8 ارب ڈالر تک گر چکے ہیں۔
کچھ معاشی ماہرین سری لنکا کے ڈیفالٹ کی وجہ چین کے قرضوں کو قرار دیتے ہیں، جیسا کہ مثال کے طور سری لنکا نے چین سے ایک بندرگاہ تعمیر کرنے کے لیے چین سے قرض لیا، لیکن منصوبہ ناکام ہونے کی صورت میں سری لنکا کو وہ بندرگاہ 99 سال کے لیے چین کے حوالے کرنا پڑ گئی،
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان بھی وہی غلطیاں کررہا ہے جن کی وجہ سے سری لنکا دیوالیہ ہوا؟ تو جواب کافی حد تک مماثل ہے۔
پاکستان نے بھی چین سے بے تحاشا مہنگے کمرشل قرض لیے جبکہ ان سے کوئی قابل منافع پروجیکٹ نہ لگائے بلکہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے میٹرو اور موٹروے جیسے پروجیکٹ لگائے، آج انھی قرضوں کی ادائیگی پاکستان کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے. پاکستان کو 41 ارب ڈالر قرضوں اور ان قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے چائیں، جبکہ جن ممالک اور بینکوں سے قرض ملنے کی توقع ہے انھوں نے اس کو IMF ڈیل سے نتھی کردیا ہے، جبکہ IMF تاحال پاکستان کو بس چکر لگوا رہا ہے، 
سری لنکا کے قرضے ملکی GDP کا 119٪ ہو گئے تھے جبکہ پاکستان کے قرضے بھی اس وقت ملکی GDP کے 88٪ تو ہو ہی گئے ہیں، پاکستان کے قرضوں کی مختصر تاریخ (بلین روپے)
1971 = 50
1977 = 86
1988 = 630
1999 = 1,442
2008 = 6,400
2013 = 15,334
2018 = 29,000
2022 = 52,000
اگر درج بالا اعداد کو دیکھیں تو 2008 تک پاکستان کے مجموعی قرضے 6 ہزار کے لگ بھگ تھے جبکہ حالیہ 10 سے 12 سالوں میں ان میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، اس اضافے کو ہم اگر حکمرانوں اور پاور پالیٹکس کے ساتھ جوڑ کردیکھیں تو اس عرصے میں پاکستان میں تین بڑی سیاسی جماعتوں کی حکومتیں تبدیل ہوئی ہیں، اور ان تینوں میں ابھی تک اقتدار کی کشمکش چل رہی ہے۔ اسی کشمکش میں یہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر سیاسی سبقت لے جانے کی خاطر معاشی پالیسیاں بھی سیاسی فوائد کے تناظر میں بناتی رہی ہیں، جس کے نتیجے میں معیشت مستحکم ہونے کی بجائے مزید خراب تر ہوتی چلی جا رہی ہے؟ جب کوئی حکومت دور رس مستحکم معاشی پالیسی اپنانے کی بجائے الیکشن ٹو الیکشن معاشی پالیسی اپناتی ہے تو ایسی پالیسی ملکی معیشت پر بوجھ بن کر سامنے آتی ہے۔ 
پاکستان نے افغانستان کو پاکستان سے خریداری روپوں میں کرنے کی سہولت دی تھی، جو اب ایک معاشی مفاد کی بجائے سیاسی سکورنگ کا فیصلہ بن کر سامنے آ رہا ہے، افغانستان بیرونی امپورٹ بذریعہ پاکستان کررہا ہے جس کی قیمت پاکستان 2 سے 4 ارب ڈالرز میں ادا کررہا ہے. ڈالرز کی سمگلنگ اس کے علاوہ ہے، 

ن لیگ سی پیک کا کریڈٹ لیتی نہیں تھکتی اور اس کو اپنی الیکشن مہم کے لیے استعمال کرتی ہے، جبکہ IMF سی پیک کا ناصرف ناقد رہا ہے بلکہ کسی طور پاکستان کو اس کی سزا بھی دے رہا ہے.
اگر IMF سے جلد معاہدہ نہ ہوا تو ڈالر 300 تک جاسکتا ہے، کرنٹ اکاونٹ خسارے کو کنٹرول نہ کیا گیا تو بھی ڈیفالٹ مستقل خطرہ بن جائے گا اس سال نہ سہی تو اگلے سال، یعنی ہر سال معیشت وینٹی لیٹر پر ہی ہو گی،
عالمی مالیاتی ادارے یا ملک اوائل میں غریب ممالک کی مدد کے لیے ان کی استعداد سے بڑھ کر قرض دیتے ہیں جو بالآخر غریب ممالک پر مستقل بوجھ بن جاتے ہیں، پھر غریب ممالک ان قرضوں کی واپسی کے لیے مزید قرض لیتے ہیں ایسے وہ ان ممالک اور مالیاتی اداروں کے معاشی غلام بن کر رہ جاتے ہیں، گزشتہ حکومت نے 52 ارب ڈالر کے قرض لیے جن میں سے 36 ارب ڈالر محض قرضوں کی واپسی میں چلے گئے، پاکستان اس وقت اپنی کل آمدنی کا 40٪ قرضوں اور سود کی واپسی پر خرچ کرتا ہے پاکستان کو 2022-23 میں 4 ہزار ارب فقط سود کی مد میں ادا کرنے ہیں، پاکستان اس وقت قرضے کے سائیکل میں پھنس چکا ہے، جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔  قرض اتارنے کے لیے قرض لیے جارہے ہیں لیکن جب مزید قرض ملنا بند ہوں گے تب ملکی اثاثے بکنا شروع ہوں گے، لیکن یہ سلسلہ روکے گا نہیں، بلکہ ا
بھی پاکستان کے ادارے بیچنے کی بات ہورہی ہے پھر شاید نیوکلیئر اثاثوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں. 
معاشی استحکام کو ہم امن اور سیاسی استحکام سے جدا کرکے نہیں دیکھ سکتے، مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں دونوں ہی عنقا ہیں، دونوں ہی روز اول سے پاکستان کا مسئلہ رہے ہیں،
امن اور سرمایہ کاری کا چولی دامن کا ساتھ ہے، امن اپنے ساتھ معاشی خوش حالی کو بھی لے جاتا ہے،
جنگی بدامنی وطن عزیز کو گھٹی میں ملی (پاکستان آزادی کے فورا بعد کشمیر کی جنگ آزادی میں کود پڑا) ، پھر مفاد پرست لوگ اپنے اقتدار اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کو پے در پے پرائی جنگوں میں جھونکتے رہے، کبھی کشمیر کو شہ رگ بنا کر تو کبھی کمیونزم کی جنگ کو اسلامی جہاد بنا کر، کبھی مشرق میں عسکری ٹریننگ کیمپ بنائے تو کبھی مغربی بارڈر کو کلاشنکوف کلچر کی آماجگاہ بنا دیا گیا۔  اب کبھی مغرب سے یلغار اٹھتی ہے تو کبھی مشرق سے انقلاب، اور اس بیچ امن ندارد ہو جاتا ہے،
رہی بات سیاسی استحکام کی تو نہ ہم سدھرے نہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آئے، کبھی خربوزے پے چھری گری تو کبھی خربوزہ چھری پے آن گرا، کبھی بوٹ گردن پے تو کبھی تلوے بوٹ پے،
سیاسی عدم استحکام کا نوحہ بھی پرانا ہے، ابھی مملکت بابرکت کو بنے چند سال ہوئے تھے، کہ نہرو جی نے پھبتی کسی تھی کہ اتنی جلدی تو میں اپنی دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی اپنا وزیراعظم بدل لیتے ہیں،
شاید پاکستانی روز اول سے کسی مسیح کی تلاش میں ہیں کہ روز اس تلاش بسیار میں لیڈر ہی بدل لیتے ہیں، مگر مسیح! کہ نہ کل آیا نہ آج آیا۔ 
سیاسی عدم استحکام یوں تو پرانا مرض ہے لیکن حالیہ سیاسی عدم استحکام 2017 میں میاں نواز شریف کی نااہلی سے شروع ہوتا ہے، جب پاکستان کے مایہ ناز پولیٹیکل سائنسدانوں نے شبانہ روز محنت شاقہ سے پاکستان کی پولیٹیکل لیبارٹری میں ایک نیا تجربہ کیا، گو حسب سابقہ تجربہ ناکام رہا، مگر اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز پولیٹیکل انجنئیرز کا ردعمل تھا، جنہوں نے اپریل 2022 میں اپنی پالیسیوں پر یکایک 180 ڈگری کا ٹرن لیتے ہوئے ملک کو عدم استحکام کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا (سو چوہے کھا کہ بلی کا حج قبول نہیں ہوتا)، اب صبح حمزہ حلف اٹھاتا ہے تو رات 12 بجے چوہدری پرویز الہی وزیراعلی قرار پاتا ہے، نیوٹرلز کے اس عجیب و غریب یوٹرن نے ملکی سیاست کو کسی گلی محلے کے تھڑے کی سیاست میں بدل کے رکھ دیا ہے، دن دہاڑے بولیاں لگ رہی ہیں، عدالتیں سیاسی فیصلے کررہی ہیں جبکہ الیکشن کمیشن مبہم سیاسی چالیں چل رہا ہے، اس قدر بے یقینی کا دور ہے کہ منجھے ہوئے تجزیہ کار گنگ ہیں، سیاسی جماعتیں موزیکل چئیر گیم کھیل رہی ہیں اور اس کھیل تماشے میں وہ بھول گئی ہیں کہ ملک کس نازک معاشی دور سے گزر رہا ہے، ہر گزرتے دن کیساتھ معاشی ناو گہرے سے گہرے پانی میں اترتی جا رہی ہے، ڈالر کے ذخائر تیزی کیساتھ گھٹتے چلے جا رہے ہیں،درآمد کنندگان آج کے ڈالر کے ریٹ پر زیادہ سے زیادہ بکنگ کروا رہے ہیں تو بینکس بھی اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈالرز پر زیادہ سے زیادہ منافع بٹور رہے ہیں، سٹیٹ بینک IMF کے نمائندے کے طور پر ہنسی خوشی تماشہ دیکھ رہا ہے، جبکہ IMF ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح گھات لگائے بیٹھا ہے کہ پھل کب پک کر اس کی جھولی میں گرتا ہے۔
اس وقت ملک میں ڈالر لیکویڈٹی کرنچ آیا ہوا ہے، امپورٹرز زیادہ سے زیادہ درآمدی مال کی بکنگ کروانا چاہ رہے ہیں تو وہیں پر پھر بینک بھی ڈالرز کے من پسند ریٹ پر ہی ایل سیز کھول رہے ہیں،  
اگر درآمدات کی بکنگ کی نفسا نفسی کو دیکھا جائے تو شاید اگست میں نقارہ بج جائے گا کیونکہ جب کرنسی استحکام کھو دیتی ہے تو پھر سٹے باز ڈالرز خرید کر ذخیرہ کرنا شروع کردیتے ہیں جو افراتفری اور نفسا نفسی کا باعث بنتا ہے، اگر اگست کے تیسرے ہفتے میں IMF سے قسط نہیں ملی تو اگست ایک دفعہ پھر پاکستان کی تاریخ میں امر ہو جائے گا؟ 

Thursday, July 14, 2022

Beggar! can be a king?

جب ہم کسی پبلک پلیس پر ہوں اور کوئی مانگنے والا آن دھکمے، اور ہم خیرات دینے کے موڈ میں نہ ہوں، تو ہم دل ہی دل میں سوچ رہے ہوتے ہیں کہ بھکاری کسی طرح خود ہی ٹل جائے اور معاف کردو بابا کہنے کی نوبت نہ آئے.

یہاں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی لگ رہی ہے،
پاکستانیوں کے لیے یہ عبرت کا مقام ہے، یہ شخص وہ شخص ہے کہ جن کے عقائد اور نظریات ہم نے اپنائے، ان کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھا، ان کے خاطر ہم نے اپنے ملک کو دہشتگردی کی آماجگاہ بنا دیا، ملک کو جہنم بنا دیا،
لیکن خود اس شخص نے 180 ڈگری کا ٹرن لیتے ہوئے اسرائیل سے دشمنی کو دوستی اور تجارتی مراسم بھی بدل لیا، اسرائیل سے فری ٹریڈ معاہدے کرکے اسرائیلی سرمایہ داروں پر اپنے دروازے کھول دیے، دوسری طرف اپنی لبرل سرمایہ کار دوست پالیسیوں کے سبب روسی سرمایہ دار دنیا جہان سے دوبئی کا رخ کررہے ہیں، کیونکہ یورپ امریکہ نے ان پر پابندیاں لگا دی ہیں، 
اس وقت دوبئی میں سرمایہ کاری کا بوم آیا ہوا ہے، سوچنے کی بات ہے کہ دوبئی ہی کیوں؟
جواب بہت سادہ ہے، سب سے پہلے امن، پھر سیاسی استحکام، پھر سرمایہ دار دوست پالیسی. تو پیسہ تو پھر آپ کے پاس کھچا چلا آئے گا.

ترکی اپنے علاقائی فروعی ایشوز کو پس پشت ڈال کر سعودی عرب سے اپنے تعلقات ازسرنو بہتر کررہا ہے، اسرائیل سے اپنے تعلقات کو بہتر بنا رہا ہے، کم ازکم اپنے ہیرو رول ماڈل ارطغرل کے خالق طیب ایردگان سے ہی معیشت سیکھ لو۔
پاکستان نے تینوں درج بالا چیزیں موجود نہیں ہیں، بلکہ یہاں تو کوئی پیسے لے کر بھی آنے کو تیار نہیں ہے.
سب سے پے بات کرتے ہیں امن کی، تو امن شروع دن سے ہماری پالیسی رہا ہی نہیں، بلکہ شاہین آج بھی بحر ظلمات میں گھوڑا دوڑانے کا تیار بیٹھا ہے، گھوڑا اس لیے کہ پٹرول بہت مہنگا ہوگیا ہے. باقی بحر ظلمات کی تلاش جاری ہے، شاہین تو پتھر اکھاڑو تو تیار بیٹھا ہے،
سیاسی استحکام بھی شروع دن سے ہی پاکستان کا مسئلہ بن گیا تھا، پے در پے وزرائے اعظم کی تبدیلیاں خلافت پر منتج ہوئیں، کیونکہ خلافت کا درس بھی مفکر پاکستان دے جا چکے تھے، جس کے عین مطابق ایک شاہین نے پارلیمنٹ پر بسیرا کرلیا، وطن عزیز میں پہلے عام الیکشن 23 برس گزر جانے کے بعد ہی ممکن ہو پائے، اور چونکہ سیاسی نظام کی عدم دستیابی کے باعث سیاستدان بھی میچور نہیں ہو پائے تھے، اس لیے سیاستدانوں نے بھی جمہوری الیکشن کے نتائج کو جمہوری طور پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا، اور ملک دولخت ہوگیا،
تیسری اور اہم سرمایہ کار دوست پالیسی. چونکہ پاکستان کے پیدا ہوتے ہی موروثی فیوڈلز وغیرہ نے اشرافیہ کی سیٹ پر قبضہ کر لیا، تو بزنس مین ایک قابل نفرت شخصیت قرار دی جانے لگی، جب 60 سے 70 کی دہائی میں بزنس مین آگے بڑھنے لگے، تو بائیس خاندانوں کی فلم چلا دی گئی، بزنس مین تب پاکستان سے بھاگا کہ پھر کبھی واپس نہ آیا. رہی سہی کسر خاموش شاہینوں نے سپرپاور کو شکست دینے میں نکال دی، اب ہم فاتح تو ہیں لیکن یہ کیسے فاتح ہیں جو کشکول لیے دنیا بھر میں بھیک مانگتے پھرتے ہیں؟ پاکستان کے 22 کروڑ عوام سے ایک بھی ڈیکلئیرڈ بلینئر نہیں ہے، وجہ، ہمارے دماغوں میں بزنس مین سے نفرت بیٹھا دی گئی ہے، کہ بزنس مین ضرور ایک چور شخص ہے اور وہ ہماری نظریاتی (بے تیغ لڑنے والا مجاہد) اور اخلاقی (مولانا کے سادگی کے درس) آئیڈیالوجی میں فٹ نہیں بیٹھتا. بزنس مین اپنا سرمایہ وہاں لگائے گا جہاں اس کو منافع کیساتھ اپنے سرمائے کی واپسی یقینی ہوگئی. جن ممالک نے اپنے ملک کو امن کا گہوارہ بنایا ہے آج وہ اپنے امن کو کیش کررہے ہیں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے عوض اپنے ملک کا ویزہ اور رہائش دے رہے ہیں؛ سرمایہ کاری ویزا $؛ 
 مونٹی نیگرو 2.5 لاکھ
 پرتگال 3.5 لاکھ
 ترکی 4 لاکھ
 متحدہ عرب امارات 5.5 لاکھ
 امریکہ 8 لاکھ
 مالٹا 10 لاکھ
 برطانیہ 25 لاکھ
 جبکہ پاکستان میں کوئی پیسے لے کر بھی نہیں آنا چاہتا. بلکہ یہاں سے خود پاکستانی اپنا سرمایہ ان ممالک میں لے جاتے ہیں، ریٹائرڈ بیوروکریٹ، ریٹائرڈ جنرلز اور سیاستدان سب پیسہ پاکستان سے اکٹھا کرتے ہیں جبکہ اپنی آخری حصے کی زندگی گزارنے ان ممالک چلے جاتے ہیں، سارا مال ساتھ لے جاتے ہیں جبکہ پاکستانیوں کو محض آخرت کے درس بھیجواتے رہتے ہیں، 
 ہمیں اپنی سوچ اور اپنی پالیسیوں بارے سوچنا چاہیے؟ اپنی آئیڈیالوجی کو ازسرنو تشکیل دینا چاہیے. جو ہمعصر وقت کے تقاضوں کو پورا کرتی ہو.
علاقوں پر قبضے کرنے کا وقت گزر گیا، سامراج دم توڑ چکا، نوآبادیاتی نظام اپنی موت مرچکا، اپنے عقائد نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی تراکیب پرانی ہوچکیں، اب ممالک اپنی پالیسیاں اپنے معاشی مفادات کیمطابق مرتب کررہے ہیں. کیونکہ دنیا کی آبادی روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے جبکہ دنیا کے وسائل گھٹتے چلے جارہے ہیں تو انسان فطرتاً خود غرض ان وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا لینا چاہتا ہے.
مگر پاکستان کی سوئی آج بھی وہیں آئیڈیلزم پے اٹکی ہے، کرپشن کرپشن کرپشن؟ 
ایف پی سی سی کے مطابق پاکستانیوں کے پاس 20 ارب ڈالر کی کرپٹو کرنسی ہے
گلوبل کرپٹو انڈیکس کے مطابق پاکستان بھارت اور ویتنام کے بعد 3 نمبر پر ہے
غیر سرکاری ذرائع کے مطابق درجن سے زائد پاکستانی ارب پتی ہیں۔
لیکن دنیا کے ارب پتیوں کی لسٹ میں ایک بھی پاکستانی شامل نہیں ہے.
یہ پاکستان کے کمزور اور کرپٹ سسٹم کی علامت ہے، جہاں ایک طرف سرمایہ دار ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنے اثاثے چھپاتے ہیں تو دوسری طرف منفی پروپیگنڈہ کے زیر اثر سرمایہ کار کو ویلن بنا کر پیش کیا جاتا ہے، لیکن انڈر کارپٹ سب چل رہا ہے، اس سے تو بہتر ہے سیاسی انتقام کے احتسابی ادارے ختم کردیے جایں چور چور کے شغل ختم کردیے جایں، تاکہ ملک میں سرمایہ کاری کلچر فروغ پاسکے. اور 22 کروڑ ہجوم بھی اکیسویں صدی میں داخل ہوسکے.

Tuesday, July 12, 2022

Save Electricity Save Pakistan

 بجلی بچائیے!

پاکستان بجلی کے شدید بحران کا شکار ہے، یہ بحران دو طرح کا ہے، ایک طرف بجلی کی کمی ہے تو دوسری طرف جو بجلی ہے وہ مہنگی ہے، ماضی میں پاکستانی حکمرانوں نے اول تو بجلی کی بڑھتی ضرورت کیمطابق بجلی پیدا نہیں کی دوم جب ہنگامی بنیادوں پر بجلی کی پیداوار پر توجہ دی تو عجلت میں مہنگی بجلی کے معاہدے کر لیے، جن میں مشہور زمانہ نجی پاور پلانٹ کے کیپسٹی چارج والے معاہدے ہیں، ان معاہدوں کی پہلی بری چیز یہ بجلی فاسل ایندھن وغیرہ سے تیار ہونی تھی اور ان کی دوسری سب سے بری بات حکومت نے ان پرائیویٹ کمپنیوں کو ان کی کپیسٹی پروڈکشن کے حساب سے پیمنٹ کرنی تھی، یعنی یہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں حکومت نے ان کو ان کی پاور کیمطابق پیمنٹ کرنی ہوتی ہے، ماضی میں حکومتوں نے پانی کی سستی بجلی اور سولر ونڈ بجلی کی پیداوار پر توجہ نہ دی، اور آج یہ پرائیویٹ بجلی کے معاہدے پاکستان کے گلے پڑ چکے ہیں، اور اب ان میں سے 27 کے قریب پاور پلانٹ بند پڑے ہیں، کسی کے پاس فرنس آئل نہیں، کسی کے پاس گیس نہیں، کسی کے پاس کوئلے کی کمی ہے تو کچھ مرمتی کام نہ ہونے کے سبب بند پڑے ہیں، جس کی وجہ سے اس وقت ملک میں 8 سے 9 ہزار بجلی کا شارٹ فال ہے، 



لیکن بالفرض یہ پلانٹ چل بھی پڑتے ہیں تو پھر بھی تو عوام کو مہنگی بجلی ہی ملنی ہے جو مزید مہنگی ہونے جا رہی ہے، مزید براں پاکستان کا بجلی کی ترسیل کا نظام ہی 22 ہزار میگا واٹ تک کا ہے، اس لیے زائد بجلی بن بھی جائے لیکن وہ صارفین تک نہیں پہنچ پائے گی،

اس لیے فی الوقت اپنی گھریلو بجلی کی بچت کی پلاننگ کرکے اپنے اور پاکستان کے لیے بجلی کی بچت کیجیئے،



بجلی پر چلنے والی مختلف ڈیوائسز کا بجلی خرچ

سب سے پہلے روشنی، کیونکہ کچھ چلے نا چلے رات کو لائٹ تو ضرور ہی چلانی پڑتی ہے. نیچے دیے گئی کیلکولیشن کے حساب سے ٹیوب لائٹ، سپاٹ لائٹ، انرجی سیور لائٹ کا استعمال بند کردیں اور ان کی جگہ ایل ای ڈی بلب اور ایل ای ڈی سپاٹ لائٹ استعمال کریں، ایل ای ڈی بلب بہت کم بجلی خرچ کرتے ہیں. 

گرمیوں میں شدید ضروری چیز پنکھے ہیں، اور پنکھے دن رات چلتے ہیں، اس لیے اچھی کمپنی کے پنکھوں کا استعمال کیجیے جو کم بجلی کھاتے ہوں. 


ہر گھر کی ضرورت فریج! فریج ڈی سی انورٹر استعمال کریں، اس کا درجہ حرارت موسم اور استعمال کے حساب سے مناسب رکھیں، اور فریج گھر کی ضرورت کیمطابق خریدیے. فریج کو 4 ڈگری پر رکھیں. اور فریزر کو مائنس 15 ڈگری پر رکھیں. 
کوشش کریں ضرورت سے زائد کھانا نہ پکایں تاکہ بقیہ کھانے کا لوڈ فریج پر نہ پڑے، زیادہ پرانے کھانوں کو فریج میں رکھنے سے گریز کریں۔ 

ائیر کنڈیشنر! ائیر کنڈیشنر کسی زمانے میں صرف امیروں کی سہولت سمجھا جاتا تھا، مگر ٹیکنالوجی کے ارتقاء سے یہ اب مڈل کلاس لوگوں کی دسترس میں بھی آچکا ہے، لیکن بجلی کی بڑھتی قیمتوں کے سبب اب اے سی کا استعمال خاصا مہنگا پڑ سکتا ہے، لیکن کچھ درج ذیل تراکیب کے ذریعے اے سی سے مستفید بھی ہوسکتے ہیں اور بجلی کا بل بھی کم کرسکتے ہیں. 
سب سے پہلے تو ڈی سی انورٹر ائیر کنڈیشنر استعمال کریں 
اے سی کا درجہ حرارت 26 پر ہی رکھیں، ہر ایک ڈگری کم کرنے سے 6 فیصد زائد بجلی خرچ ہوگی، یعنی اگر درجہ حرارت 26 کی بجائے 16 رکھتے ہیں تو پھر 60٪ بجلی زیادہ خرچ ہو گی، کیونکہ نہ کمرے کا ٹمپریچر 16 تک پہنچھ گا اور نہ بیچارے اے سی کو سکون ملے گا، بلکہ وہ بدستور زور لگاتا رہے گا اور بجلی خرچ کرتا رہے گا، ویسے بھی اے سی کا مقصد کمرے کا ٹمریچر نارمل کرنا ہے ناکہ کمبل کرکے سونا، کمبل آپ کو مہنگا پڑ سکتا ہے،
اے سی سٹارٹ ہوتے وقت زیادہ بجلی خرچ کرتا ہے پھر جوں جوں کمرے کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے تو پھر یہ بجلی کم استعمال کرتا ہے، اس لیے اے سی کو بار بار آن آف نہ کریں،
کوشش کریں اے سی وہاں لگایں جہاں سورج کی روشنی کم پڑتی ہو، گھر ڈبل سٹوری ہوتو نیچے والے کمرے میں اے سی لگایں، بصورت دیگر کمرے کی چھت پر کوئی ہلکی پھلکی انسولیشن کر لیں، اس سے اے سی کے بل پر اچھا اثر پڑے گا، اے سی کا فلٹر اور جالی ضرور وقت پر بدلی کرتے رہیں اس سے اے سی کی پرفارمنس اور بجلی کے بل پر بھی کم از کم 30٪ اثر پڑے گا۔

کمپیوٹر! آجکل کمپیوٹر بھی ہر گھر کی ضرورت بن چکا ہے، پرانے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کی بجائے لیپ ٹاپ استعمال کریں، اور لیپ ٹاپ کو بھی ہر وقت بجلی پر لگائے رکھنے کی بجائے چارج ہو جانے کے پلگ سے اتار دیں۔


اوون کی بجائے ائیر فرائر استعمال کریں، ایئر فرائر اوون کی بہ نسبت آدھی بجلی خرچ کرتا ہے، مزید گھی اور تیل بھی نہایت کم مقدار میں درکار ہوتا ہے، 

واشنگ مشین آپکے ماہانہ بل میں 30٪ تک اضافہ کردیتی ہے. بار بار واشنگ مشین استعمال کرنے کی بجائے کوشش کریں ہفتہ وار کپڑے اکٹھے کرکے ایک ہی دفعہ دھو لیں. پاور سیونگ آپشن والی واشنگ مشین خریدیں. کپڑے ڈرائر کی بجائے کھلی ہوا میں خشک کر لیں. اچھی کوالٹی کا سرف استعمال کریں اور ساتھ ہی واشنگ مشین کے سائیکل بھی کم کر لیں. استعمال کے فوراً بعد واشنگ مشین بند کردیں. 
آجکل لوڈ شیڈنگ بھی عروج پر ہے تو یوپی ایس بھی مجبوری بن چکا ہے، زیادہ لوڈشیڈنگ کی صورت میں پھر کوشش کریں یو پی ایس کی بیٹری کو سولر پینل سے لگا کر چارج کریں 300 واٹ کے سولر پینل بیٹری کی چارجنگ کے لیے کافی رہیں گے سولر پینلز کیساتھ آپ کو ایک چارجر بھی لگانا پڑے گا، 
یو پی ایس کی بیٹری! ڈرائی بیٹری چونکہ بہت مہنگی ہیں اس لیے پاکستان میں عموما عام تیزاب والی بیٹری ہی استعمال کی جاتی ہے، تیزاب والی بیٹری کے جلدی خراب ہونے کی سب سے عام وجہ اس میں موجود پانی کی کمی ہوتی ہے، لیڈ ایسڈ بیٹری میں موجود اس سیال کو الیکٹرولائٹ کہتے ہیں۔ یہ دراصل سلفیورک ایسڈ اور پانی کا مرکب ہوتا ہے۔ جب بیٹری چارج ہورہی ہوتی ہے، تو یہ سیال الیکٹرولائٹ گرم ہوجاتا ہے الیکٹرولیسس نامی اس عمل کے دوران، پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن گیس میں ٹوٹ جاتی ہے جس سے پانی بخارات بن کر اڑ جاتا ہے۔ نتیجہ! بیٹری میں الیکٹرولائٹ کی سطح وقت کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔
اگر الیکٹرولائٹ کی سطح بہت کم ہو جائے تو، بیٹری کے سیل میں پلیٹیں خشک ہو جاتی ہیں اور تڑخ کر کام بند کر دیتی ہیں. اس کے علاوہ، اس سیال سے پانی نکل جانے کے باعث پیچھے صرف سلفیورک ایسڈ رہ جائے گا اور سیال بالکل گاڑھا ہو جائے گا. اس لیے بیٹری میں پانی کے لیول کو باقاعدگی سے چیک کرتے رہیں اور لیول کم ہونے کی صورت میں  بیٹری میں پانی ڈال دیں پانی ہمیشہ ڈسٹیلڈ استعمال کریں، جس کو دھاتوں، نمکیات اور منرلز وغیرہ سے فلٹر کیا گیا ہو، کیونکہ یہ منرلز بیٹری کے چارجنگ کے عمل کو متاثر کر سکتے ہیں، پانی بیٹری میں تب ڈالیں جب یہ مکمل طور پر چارجڈ ہو اور پانی بیٹری پر دیے گئے لیول سے زیادہ نہ ڈالیں اس سے الیکٹرولائٹ کا اوور فلو کا چانس ہوتا ہے جس سے بیٹری پھٹ سکتی ہے ، اگر بجلی نہیں بھی جارہی تو پھر بھی ہفتے میں ایک دفعہ بجلی بند کرکے یو پی ایس پر گھر کی بجلی چلایں کیونکہ بیٹری زیادہ عرصہ بند پڑنے رہنے سے بھی خراب ہوجاتی ہے. بیٹری خریدتے وقت اس کی مینوفیکچرنگ تاریخ ضرور چیک کر لیں، اس کی تاریخ چیک کرنے کا طریقہ. بیٹری پر انگریزی ہندسوں میں لکھے کوڈ کو تاریخ سے بدل کر معلوم کیا جا سکتا ہے. یعنی درج ذیل بیٹری کی مینوفیکچرنگ کوڈ ہے
JI JA BJ
اور اس کی تاریخ بنتی ہے
09 01 2020 نو جنوری 2020
بیٹری چارجنگ کے دوران تقریباً 300 واٹ کرنٹ لیتی ہے اور اس حساب سے روزانہ تقریباً 1 یونٹ بجلی کی کھا جاتی ہے، اور اگر بجلی زیادہ جارہی ہو تو پھر بیٹری ماہانہ 30 سے 60 یونٹ تک بجلی کھا جاتی ہے. جبکہ سولر پلیٹیں لگانے سے بیٹری کو سولر پر چارج کرکے یہ بجلی بچائی جا سکتی ہے. 
بیٹری کونسی لینی چاہیے؟ 
پاکستان میں اس وقت 5 قسم بیٹریاں دستیاب ہیں 
عام تیزاب والی بیٹری
گرچہ اس بیٹری کی قیمت کم ہوتی ہے لیکن اس کی چارجنگ ٹائم اور لائف بھی کم ہوتی ہے. اس بیٹری میں تقریباً 300 ریچارج سائیکل ہوتے ہیں. ایک سائیکل سے مراد 100٪ سے 50٪ سے زیادہ ڈسچارج ایک سائیکل بنتا ہے، اگر بیٹری روزانہ ایک دفعہ بھی چارج ہو کر ڈسچارج ہو تو اس حساب سے 300 دن بنتے ہیں. یعنی یہ بیٹری تقریباً ایک سال بمشکل نکالتی ہے. 
دوسری ڈرائی بیٹری
ایک تو یہ بیٹری مہنگی ہیں دوسرا یہ پاکستان کے گرم موسم میں ناکام رہی ہیں. 
تیسری جیل بیٹری، 
یہ عام تیزاب والی بیٹری کے مقابلے بہت پاور فل بیک اپ دیتی ہے، یہ مینٹیننس فری ہوتی ہیں اس میں پانی ڈالنے چیک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی، ماحول دوست ہوتی ہیں، جگہ کم گھیرتی ہیں، 
چوتھی پاور کپیسٹر بیٹری، 

پانچویں ٹیوبلر بیٹری، 
یہ بیٹری تیزاب والی بیٹری کی جدید قسم ہے، اس میں پلیٹز کی بجائے ٹیوبز ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے اس کو ٹیوبلر بیٹری کہا جاتا ہے. جن کی چارجنگ کپیسٹی اور ڈسچارج ٹائمنگ عام تیزاب والی بیٹری سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، اس بیٹری کے چارج ری سائیکل بھی کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں، اس کے چارج ری سائیکل تقریباً 1500 کے قریب ہوتے ہیں، اگر روزانہ ایک ڈسچارج مکمل ہو تو 1500 دن بنتے ہیں یعنی 5 سال، اس کے علاوہ بیٹری کے پانی لیول چیکنگ کے لیے شیشے کی ٹیوبز ڈھکن کی جگہ لگی ہوتی ہیں جن میں باآسانی پانی کا لیول دیکھا جا سکتا ہے، اور ان کو کھولے بنا پانی ڈالتے وقت لیول دیکھ کر پانی پورا کیا جا سکتا ہے، 

نوٹ: درج بالا بجلی خرچ کی کیلکولیشن کے الیکٹرک کی آفیشل ویب سائٹ سے لی گئی ہیں، بشکریہ کے الیکٹرک

حوالہ جات: