Wednesday, April 21, 2021

روٹی یا عزت! ایک کا انتخاب کرنا ہے؟

 روٹی یا غیرت! کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا؟

پاکستان پر پیرس کلب کے 11 ارب 54 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز کے قرضے واجب الاد ہیں۔ جس میں فرانس کے دیئے گئے قرضوں کی مالیت ایک ارب 74 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف فرانس کی جانب سے پاکستان پر سالانہ کروڑوں ڈالرز کے قرضے واجب الاد ہیں۔ فرانس پیرس کلب کے 17رُکن ممالک کا سیکرٹریٹ ہے۔

گزشتہ 12سال کے دوران فرانس نے پاکستان میں ایک ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی۔ پاکستان کی سالانہ برآمدات کا حجم 23 ارب ڈالرز ہے جس میں نصف برآمدات فرانس سمیت 27 رکنی یورپی یونین کے ممالک کو ہوتی ہے۔ لہٰذا فرانس کے بائیکاٹ کی مہم سے بڑی داشمندی اور دُوراندیشی سے نمٹنا ہوگا۔ ماہرین کے مطابق فرانس کو تنہا نہیں سمجھنا چاہئے۔ اگر فرانس کے سفیر کو بے دخل کیا جاتا ہے تو اسے پوری 27 رکنی یورپی یونین کے خلاف اقدام تصور ہوگا (روزنامہ جنگ سے اقتباس)

فرانس کے خلاف پوری عالم اسلام سراپا احتجاج ہے

بہرکیف پاکستان اس وقت شدید دوراہے پے کھڑا ہے، ایک طرف قومی بیانیہ ہے تو دوسری طرف عالمی سیاست اور معیشت ہے، اگر موجودہ صورتحآل کو دیکھا جائے تو حکومت خود کے بچھائے گئے جال میں ہی بری طرح پھنس چکی ہے اور اب پارلیمنٹ کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کررہی ہے اور تحریک لبیک کو ایک بار پھر (سٹک اینڈ کیرٹ) جھانسہ دینے کی کوشش کررہی ہے لیکن ایسی چالاکیاں خود حکومت کے لیے پھندا بنتی چلی جا رہی ہیں۔
اگر کپتان کی پچھلی پانچ سے دس سالہ سیاست کا جائزہ لیں تو کپتان کے بیانات اور اعمال تضادات سے بھرپور ہیں، نظریاتی، جمہوری اور انصاف برمبنی سیاست سے آغاز کرنے والے کپتان بتدریج غیر جمہوری، غیر نظریاتی اور کرپٹ ہوتے چلے گئے، کپتان نے غیر جمہوری قوتوں سے ہاتھ ملایا، کرپٹ عناصر کو اپنی کابینہ بنایا اور انصاف کے نام پر گڈ کاپ بیڈ کاپ کا سیاسی احتساب بھی شروع کیا، کپتان کی سب سے بڑی غلطی مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا بن گئی، کپتان نے بالواسطہ یا بلاواسطہ مذہبی جنونیت کو ہوا دی، ایک جمہوری سیاسی نظام کا وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی غیر جمہوری غیر سیاسی روایات اور رجعت پسندانہ خیالات کی ترویج کی،

ملک کا وزیراعظم عوام کو ایک ہزار سال پیچھے لے جا چاہتا ہے
ملک کا وزیراعظم عمران خان عوام کو ایک ہزار سال پیچھے گدھوں کے دور میں لے جانا چاہتا ہے

یہی رویہ ہے جس کے تحت پاکستان تہتر سالوں میں یہی طے نہیں کرسکا کہ اس کا نظام حکومت کیا ہونا چایئے، اسی قسم کی (عمران خان صاحب جیسی) شدید پولارائزیشن جمہوری نظام، سیاسی استحکام کو بار بار ڈی ٹریک کردیتی ہے، بار بار انقلاب (تجربات) کے آفٹر شاکس معاشرے کو مزید کنفیوزن کا شکار بنا دیتے ہیں، گھٹن بڑھ جاتی ہے جمہوریت کو فیل کیا جاتا ہے جو لیڈر شپ کے خلا کو جنم دیتا ہے، جس سے ڈیڑھ فٹ کے بونے امام بنتے ہیں، اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدیں وجود میں آتی ہیں، جس کے ہاتھ دس بیس ہزار کی ڈنڈا بردار سٹریٹ پاور آ جاتی ہے وہی انقلاب برپا کرنے نکل کھڑا ہوتا ہے، پاکستان کو نہ تو جمہوریت راس ہے کہ ہمارا شعور اور عمل ہی جمہوری رویوں کے لیول کا نہیں، آمریت نے ہمیں ماسوائے جنگ اور نفرت کے کچھ نہیں دیا، اور یہ کم تر درجے کی ہائبرڈ ڈمی جمہوریت بھی آخری ہچکولے کھا رہی ہے،

آج کپتان جس مشکل کی گھڑی میں پھنسا ہے، اس کا کلی ذمہ دار خود کپتان ہے، یہ حکومت دوسروں کو بیوقوف بناتی بناتی خود پھنستی چلی جا رہی ہے، لیکن کہیں یہ کٹھ پتلی ٹولہ کوئی بہت گھناونا کھیل تو نہیں کھیلنے جارہا! کہیں حکومت نہ کھیلیں گئے نہ کھیلنے دیں گئے جیسے حالات کی طرف تو ملک کو نہیں دھکیل رہی، جس میں پھر کوئی مسیحا آئے گا اور عوام مٹھائیاں بانٹیں گئی؟ کچھ مشیران اور وزرا کی نوکریاں پھر بحال ہو جائیں گی کہ جن کو اندیشہ زوال تک نہ ہو گا، ہاتھ میں ہنر اور کارکردگی کی بجائے ڈنڈا ہو گا،

جو احتساب کپتان نہ کرسکا اس احتساب کا پھرعلم بلند ہو گا، جو سیاسی انتقام کپتان کے دور میں ادھورا رہ گیا اس کا آخری راونڈ چلے گا،

کپتان کی ٹیم میں شامل کچھ لوگ انتہائی خطرناک کھیل کھیل سکتے ہیں، جو کپتان کی نیا ڈوبتے دیکھ کر جمہوریت کیساتھ کھلواڑ کرسکتے ہیں، جس کی بڑھتی انتہاپسندی اور افغان وار کے کلائمیکس کے لیئے یورپ و امریکہ بھی تائید و حمایت کرسکتا ہے۔ اور جس میں بالآخر کپتان کی رضا بھی شامل ہو سکتی ہے



اس خطے میں مذہب کو بطور ہتھیار استعمال انگریزوں نے شروع کیا جنہوں نے مذہبی تقسیم کو ابھار کر دو سو سال حکومت کی مگر خطے کو نہ ختم ہونیوالی نفرت کی آگ میں دھکیل دیا، پھر پاکستان میں امریکہ نے مذہب کارڈ کھیلا اور پورے پاکستان کو مجاہد بنا کر روس سے لڑا دیا، روس ہار گیا مگر انتہاپسندی نے پاکستان میں مستقل ٹھکانہ بنا لیا، یہ انھی کی میراث ہے کہ ہر ٹکڑی اپنی مرضی کا انقلاب لانا چاہتی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذہبی انقلاب آ بھی جاتا ہے تو بالآخر امیرالمومنین کس فرقہ سے ہو گا، سنی بریلوی یا وہابی دیوبندی؟ اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو مقدس اختلاف رائے میں دونوں طرف شہادتوں سے جنت بھر سکتی ہے۔ 

پاکستان کے لیے موجودہ حالات نظریات اور معاشیات کے ارتقا کے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر پاکستان واقعتاً کوئی سفیر بدری جیسا حتمی قدم اٹھاتا ہے (جو کہ فی الوقت ناممکن سا دکھائی دیتا ہے) تو پھر یورپ کا رد عمل کیا ہو گا لیکن میکرون جیسا منتقم شخص اپنی نالائقی اور ساکھ بچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے فرانس بھی اس معاملے کو مذہب کی بجائے اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ قرار دے رہا ہے اور کسی طور اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے معاشی طور پر تو فرانس کو مسلم ممالک سے کچھ خطرہ نہیں ہو سکتا لیکن شاید اخلاقی بنیادوں پر فرانس پر کچھ دباو ڈالا جا سکے لیکن فرانس پہلے ہی اس معاملے کو آزادی رائے جیسی اخلاقی بنیاد فراہم کر رہا ہے پھر یہ اخلاقیات کا مقابلہ رہ جاتا ہے (یعنی اپنی اپنی اخلاقیات) اس میں ورلڈ میڈیا کا بہت اہم کردار ہے میڈیا سیاہ کو سفید ثابت کرسکتا ہے اور عالمی میڈیا ٹوئٹر فیس بک یوٹیوب وغیرہ انھی کے ہاتھ میں ہے (مسلمانوں کو متبادل متفقہ میڈیا سنٹر ضرور بنانے چائیں تبھی ہماری موثر آواز دنیا کو یہ باور کروا سکتی ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ذات پر حملہ آزادی رائے نہیں بلکہ ایک ارب اسی کروڑ لوگوں پر حملہ ہے جو دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے). فرانس کے حالیہ اقدامات کو دیکھا جائے تو یہ نفرت اور انتقام کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں فرانس دراصل اسلاموفوبیا کا شکار ملک ہے اور وہ اسے بزور بازو دبانے کی پالیسی پر رواں دواں ہے وہ اسے اپنے کلچر کی بقا اور قومی سلامتی کا معاملہ سمجھتا ہے، تو ایسی صورت میں (سفیر بدری کی صورت میں) پاکستان کو اپنی معاشی بقا کی تاریخ کی بدترین جنگ لڑنا ہو گی، 

لیکن یہ سب انتہائی پوزشنیں ہیں، بیچ کے رستے نکل آئیں گئے مگر مشتعل اور چارجڈ لوگوں کو ہینڈل کرنا اس حکومت کی فہم و فراست کے بس کی بات نہیں ہے اور خود احتجاج کرنے والی پارٹی کی لیڈرشپ کے لیے بھی اپنے لوگوں کو کسی درمیانے رستے کے لیے قائل کرنا آسان نہ ہو گا (کیونکہ انھی فالوورز کے اسی جوش و جذبہ کی مستقبل میں بھی ضرورت ہوتی ہے جس کو گرمائے رکھنا پارٹی سربراہ کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے)، بعید نہیں آنیوالے الیکشن میں یہی پارٹی پنجاب میں تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر نمودار ہو 2018 کے الیکشن میں یہ پہلے ہی اپنی بھرپور موجودگی ثابت کرچکی ہے 2018 کے قومی الیکشن میں 22 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کرکے ملک کی پانچویں بڑی سیاسی قوت بنی جبکہ پنجاب صوبائی الیکشن میں 19 لاکھ ووٹ لیئے،ممتاز قادری والے واقعے سے تحریک پانے والی جماعت نے مسلم لیگ ن کو 2018 کے الیکشن میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، 

کسی بھی ملک کی سیاست میں آپ مذہبی فیکٹر کو بالکل رد نہیں کرسکتے اور پاکستان میں تو یہ اور بھی توانا ہو جاتا ہے جب بتایا جاتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پے بنا تھا تو پھر اسلام کا نفاذ کیوں نہیں؟ اگر تحریک لبیک کا بنیادی منشور اور مطالبات دیکھیں تو وہ ایک مذہبی آدمی کو ضرور متاثر کرتے ہیں جیساکہ ناموس رسالت ختم نبوت عشق رسول (صلعم) دراصل یہ تین ایسے پوائنٹ ہیں کہ ان پر دنیا کے کسی خطے کسی فرقے کا مسلمان کسی حالت میں کمپرومائز نہیں کرتا۔ یاد رہے اس پارٹی کے نظریات کے لیئے نرم گوشہ پنڈی کے چھوٹے بڑے افسران میں بھی پایا جاتا ہے، ایسے میں حتمی فیصلے پنڈی میں ہی ہوں گے۔ لیکن ملین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک لبیک کے مطالبات اور پنڈی کے مفادات آگے چل کر کہاں تک ایک پیج پر رہ سکتے ہیں اور کہاں پہنچ کر ان کی راہیں جدا ہو سکتی ہیں اور ایسے میں کیا کیا انہونیاں ہو سکتی ہیں؟ گڈ کاپ بیڈ کاپ بھی بن سکتے ہیں؟

No comments:

Post a Comment