آئیڈیلزم کا گھوڑا سرپٹ بھاگا مگر نہ منزل کا سراغ پا سکا اور نہ اپنے سوار کو بچا سکا، کپتان نہ چوروں کا ٹھکانہ ڈھونڈ سکا اور نہ اپنا مورچہ بچا سکا، بچا بھی مگر تو کیا فقط نعرہ مستانہ
"چوروں کو نہیں چھوڑوں گا"
قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کپتان کے بدحال نئے پاکستان کو پرانے پاکستان کے پرانے معمار ہی مرمت کریں گئے؟
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
دو پرانے مگر تازہ دم "نجات دہندے"
شہباز شریف ؟؟
پرویز الٰہی ؟؟؟
کیا اپوزیشن ڈیڑھ سال میں عوام کے دکھوں کا مداوا کرسکے گی اور کپتان کی جبری بے دخلی کو برحق ثابت کرسکے گی، یاپھر اپوزیشن چھانگا مانگا کی سیاست کرکے بہت بڑی غلطی کرنے جارہی ہے، اپوزیشن تین سال سے ووٹ کی عزت کی سیاست کررہی تھی جبکہ اب دس سیٹوں والے شخص کو وزیراعلیٰ بنانے سے ووٹ کی کونسی عزت ہوگی ایک آمر کی نظریہ ضرورت کے تحت پیدا کردہ پارٹی کو پاسبان جمہوریت ہی دوبارہ نظریہ ضرورت کے تحت کھڑا کررہے ہیں، پارلیمنٹ ایک بار پھر ووٹ کی طاقت کی بجائے محلاتی سازشوں، ڈرائنگ روم کی سیاست، جوڑ توڑ اور تھرڈ امپائر کے اشاروں کنایوں کی مرہونِ منت ہورہی ہے.
ایک عام سا ووٹر بھی یہ سوال کرسکتا ہے کہ اگر بالآخر یہی کچھ کرنا تھا تو تین سال کس چیز کا انتظار کیا گیا اور معیشت مہنگائی اور سیاسی ارتقاء کے برباد ہونے کا انتظار کیا گیا، بزدار کو ہٹا کر کپتان کو تو بہت پہلے سیاست سے مائنس کیا جا سکتا تھا.
لیکن اب شاید نومبر میں نئے چیف کی تقرری اس موومنٹ کی وجہ قرار دی جاسکتی ہے، اور دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ بھی اسی تقرری کو لے کر ازخود نیوٹرل ہوئی ہے یعنی تبدیلی کے لیے رضامند.
رضامندی کے پس منظر میں کپتان ضرورت سے زیادہ پر اعتماد ہوتے ہوئے پرانے منتظمین کو بائی پاس کرتے ہوئے 2023 کے الیکشن کا پکا بندوبست کرنے چل پڑے تھے، مگر کپتان بھول گیا جو کھلونے میں چابی بھر سکتا ہے وہ کھلونے سے چابی نکال بھی سکتا ہے، کپتان کا کھیل ختم ہو چکا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان کا ایک اور وزیراعظم اپنی مدت مکمل کرنے میں ناکام رہا ہے، وجہ پھر وہی پرانی رہی ہے،
گو ن لیگ اس غیرفطری جور توڑ کے لیے وقتی طور راضی ہوچکی ہے، اور شہباز شریف تو پہلے دن سے اس جوڑ توڑ کے حق میں تھے، ہوتے بھی کیوں ناں؟ ان کو تو یہ سب کچھ پرفیکٹ سوٹ کررہا ہے بڑے بھائی کی عدم موجودگی میں ان کا وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہورہا ہے، اسٹیبلشمنٹ سے بھی تعلقات بہتر ہورہے ہیں اور کپتان کی دبڑ دھونس سے بھی خلاصی ہو رہی ہے، لیکن پارٹی کا بایاں بازو اس عمل سے قدرے کھچا کچھا ہے کیونکہ اس کو اپنے بیانیے کی گراوٹ محسوس ہورہی ہے جو برحق بھی ہے. لیکن نااہلی کا متوقع خاتمہ اس سب کا مداوا کردے گا اور ن لیگ کے ووٹ بینک کونئی طاقت بھی ملے گی.
جو لوگ آصف علی زرداری کی 2011 پالیسی کو بڑی سیاسی غلطی گردانتے رہے کہ اس سے پنجاب سے پارٹی کا صفایا ہوگیا اور پارٹی ملکی سیاست میں دوسرے سے تیسرے نمبر پر چلی گئی، اب وہ زرداری کی نئی چال کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جس کے ذریعے زرداری پنجاب کی سیاست کو مزید دھڑوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ پھر چھوٹے صوبوں کی قدرے چھوٹی سیاسی پارٹیوں کو وفاقی سیاست میں مناسب حصہ مل سکے،
فی الحال اپوزیشن کپتان کو وزیراعظم ہاوس سے نکالنا چاہ رہی ہے مگر اپوزیشن میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کپتان کو پاکستان کی سیاست سے ہی نکالنے کے خواہشمند بھی ہیں مگر سیاسی شہادت کپتان کی سیاست کو نئی زندگی بھی دے سکتی ہے اور اس کی انتہائی بری کارکردگی چھانگا مانگا کی سیاست سے ہمدردی میں بھی بدل سکتی ہے، ووٹ کی عزت اور جمہوریت کا استحکام و ارتقاء ڈگمگا بھی سکتا ہے.
بہرکیف سیاست بڑی بے رحم چیز ہے اقتدار کی ہوس نظریات اور اصولوں کو کھا جاتی ہے، اقتدار کا نشہ عقل پر حاوی ہوجاتا ہے اور حقائق پر پردہ ڈال دیتا ہے انسان کو کرسی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا. اس کی سیاست نظریات کی بجائے حصول اقتدار بن کر رہ جاتی ہے۔ اس دھماکے کے نتائج کے طور پر مستقبل میں دیکھنا ہو گا کونسی پارٹی نظریات اور کارکردگی پر کھڑی ہوتی ہے اور کون گیٹ نمبر چار کی لائن میں لگتا ہے کیونکہ اس بار تقریبا" ہر بڑی پارٹی گیٹ یاترا سے مستفید اور فارغ بھی ہوچکی ہے، تو کیا اب یہ پارٹیاں سیاسی طور پر بالغ ہو چکی ہوں گی؟ یا پھر وطن عزیز میں چھانگا مانگا کی سیاست ہی چلتی رہے گی۔
No comments:
Post a Comment