ایک اور ستارہ سیاست کے بلیک ہول میں گرنے کو تیار
قاسم علی شاہ پر کچھ نہیں کہنا بلکہ کہنا بھی نہیں چاہیے مگر چونکہ وہ ایک پبلک فگر ہیں اچھی خاصی فین فالوونگ رکھتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر پچھلے چند دنوں کے واقعات اور ان سے جڑے دلچسپ اتار چڑھاو کے نتائج ضرور توجہ طلب اور سبق آموز ہیں:
سب سے پہلے انسان کو اپنا کردار بناتے عمریں لگ جاتی ہیں مگر اس کو بگاڑتے چند لمحے لگتے ہیں،
دوم، انسان کو عزت مل جانا خوش نصیبی سہی مگر اس کو سنبھال رکھنا واقعی کار پیمبری ہے،
سوم، انسان کی حرکات سکنات اور اعمال دراصل اس کا کردار ہوتے ہیں، ناکہ اس کے الفاظ، واعظ و تبلیغ یا موٹیویشنل سپیکنگز،
سیاست سمیت ہر شعبہ ہر شخص کا حق ہے، مگر قاسم علی شاہ کا طریقہ کار یقیناً کچھ زیادہ ہی اوتاولا نکلا
قاسم علی شاہ کا شہباز شریف کے سامنے بیٹھنے کا انداز عمران کے سامنے بیٹھنے سے بالکل مختلف نظر آیا، ایک انٹرویو میں قاسم علی شاہ نے شہباز شریف سے متعلق کہا کہ ’میں نے میاں شہباز شریف صاحب میں لچک دیکھی ہے۔اور میں نے متانت و گہرائی پرویز الٰہی صاحب میں دیکھی ہے۔ |
قاسم علی شاہ روایتی سوچ کے اکثریتی حلقہ کے ترجمان ہیں تو اسی حساب سے ان کی فین فالونگ بھی کافی ہے، اور ان کو مدرسوں یونیورسٹیوں سے لے کر جی ایچ کیو تک سنا جاتا ہے.
قاسم علی شاہ ایک معروف موٹیویشنل سپیکر، ٹرینر، مصنف اور ماہر تعلیم ہیں۔ وہ اب تک اپنے لیکچرز وغیرہ کی لگ بھگ 500 سے زیادہ ویڈیوز ریکارڈ کر چکے ہیں، یوٹیوب اور فیس بک پر لاکھوں ان کے فالوورز ہیں، 3000 کے قریب لیکچرز دے چکے ہیں، 200 سے سے اوپر کالم لکھ چکے ہیں، درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں اور ہزاروں لوگوں کو تربیت دے چکے ہیں جن میں سرکاری افسران، سی ایس پی افسران اور طلباء شامل ہیں۔ وہ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے بانی بھی ہیں۔ اس فاونڈیشن کا بنیادی تھیم ہے کہ سوچ بدلے گی تو پاکستان بدلے گا۔
قاسم علی شاہ عمران خان پر تنقید کرتے وقت یہ بھول گے کہ عمران خان بھی سیاست میں آنے سے پہلے سیلیبرٹی رہ چکے ہیں اور وہ قاسم علی شاہ سے کہیں زیادہ بڑے سٹار تھے۔ اس لیے عمران خان میں سیاستدان بن جانے کے باوجود ایک سٹار والی عادات چنداں باقی ہیں۔ جبکہ قاسم علی شاہ شاید ایک عام سیاستدان سے ملنے پہنچے تھے کہ جس کو وہ اپنی موٹیویشنل پاور سے گرویدہ بنا لیں گے، مگر وہ بھول گے کہ کسی سے متاثر ہونا عمران خان کی سرشت میں ہی نہیں.
اب آتے ہیں شاہ جی کے شوق سیاست کی طرف!
اس دنیا میں شاید کوئی کھیل کوئی تماشہ سیاست جتنا پرکشش، دلفریب اور دلچسپ ہو، مگر اکثر اوقات یہ بڑے بڑے ستاروں کے لیے بلیک ہول بھی ثابت ہوا ہے، جہاں وہ اپنی ساری زندگی کی کمائی ہوئی عزت اور شہرت سمیت غرق ہو گے.
ہر امیر اور مشہور شخص کی طرح شاید قاسم علی شاہ جی کا بھی دل اپنی شہرت کو کیش کرنے کے لیے مچلا یا پھر واقعتاً نئی نسل کے مستقبل کا درد اٹھا. مگر طریقہ واردات دیکھیں تو مطلوب و مقصود کشور کشائی ہی نظر آتی ہے ناکہ ذوق خدائی، کیونکہ ایسا ممکن نہیں کہ آپ اپنے نظریات لے کر کسی سیاسی جماعت میں جائیں اور اس سیاسی جماعت کے نظریات کو بدل کررکھ دیں، کیونکہ گرچہ ہر سیاسی جماعت اپنی سیاست نظریات سے شروع کرتی ہے مگر منتج پاور پالیٹکس پر ہی ہوتی ہے، زمینی حقائق کے پیش نظر نظریاتی پالیٹکس پاور پالیٹکس میں بدل کر ہی رہتی ہے. تو ایسے میں شاہ جی کا بھلائی کا دعویٰ جون جولائی میں ٹھنڈے ہوا کے جھونکے جیسی موٹیویشن سے زیادہ کچھ نہیں،
ہاں اگر شاہ جی بمطابق اپنی موٹیویشنل سپیکنگز! واقعی چاند تارے توڑ لانے کا حوصلہ جمع خاطر رکھتے ہوتے تو سیاسی بلیک ہول میں کودنے کی بجائے اپنا سیاسی سورج نا سہی کم از کم چاند ہی چڑھا لیتے. کامیابی ناکامی بعد کی بات، کم از کم اپنی عزت تو اپنے ہاتھ ہوتی.
اب شاہ جی کی کھوتی نا اپنے وہڑے جوگی رہ گئی نا زمیندار کے کھیت کھلیان جوگی. اب ن لیگ سے تبرا اٹھتا ہے تو یوتھیے اس کو چاند تک پہنچا کر چھوڑ رہے ہیں،
موٹیویشن کی دو اقسام ہوتی ہیں، ایکسٹرنسک اور انٹرسنک: اب پتہ نہیں قاسم علی شاہ صاحب ایکسٹرنسک موٹیویشن کا شکار ہوئے ہیں یا پھر ان کے اندر کا انقلابی اٹھ بیٹھا ہے۔
بعض اوقات خارجی محرک آپکی موٹیویشن کا باعث بنتے ہیں لیکن اگر یہ خارجی محرک آپکی اندرونی موٹیویشن سے میل نہیں کھاتے تو خارجی محرک عارضی ثابت ہوتا ہے اور نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ پس ثابت ہوا اصل موٹیویشن انسان کے اندر موجود ہوتی ہے، خارجی موٹیویشن اشاریہ ثابت ہوتی ہے جو اسپارک کی طرح کام کرتی ہے اور پھر مکمل انجن چلنے لگ پڑتا ہے،
شاہ جی نے سمجھا تھا جس طرح ان کی دانش پر روایتی طبقہ اور ننھے پروفیسر طالب علم ہاں جی ہاں جی کرتے ہیں شاید اسی طرح عمران خان پرویز الٰہی اور شہباز شریف بھی قاسم علی شاہ کے مرید ہو جائیں گے، مگر شاہ جی بھول گے کروڑوں موٹیویشنل سپیکر جمع ہوں تو اک سیاست دان بنتا ہے، کیونکہ سیاست دان اک اک ووٹ کا تجزیہ اور حصول ممکن کرکے ہی مسند پر بیٹھتا ہے، سنی سنائی رٹی رٹائی باتوں سے نہیں بلکہ عملی مٹھ سے گزر کر ہی وہ سیاست دان بنتا ہے، اس کے ایک نہیں ہزاروں روپ ہوتے ہیں. اور ہر روپ پہلے والے روپ سے زیادہ اصلی لگتا ہے، قاسم علی شاہ جی بھی کسی بہروپ کے نت روپ سے مات کھا گے.
خدا کرے ایک اور ستارہ سیاست کے بلیک ہول میں غرق نہ ہوجائے.
No comments:
Post a Comment