Translate

Showing posts with label ڈاکٹر گوگل. Show all posts
Showing posts with label ڈاکٹر گوگل. Show all posts

Wednesday, July 5, 2023

موسیقی جسم کی روحانی غذا ہے

موسیقی آپکے دماغ کی بکھری ڈوروں کو دوبارہ ترتیب دینے کا کام کرتی ہے. 
یوں تو موسیقی اتنی ہی پرانی ہے جتنے انسانی جذبات. موسیقی فطری انتخاب کا سوچا سمجھا نتیجہ تھی یا پھر ارتقاء کی ایک ضمنی پیداوار؟  
چارلس ڈارون نے 1871 میں نظریہ پیش کیا تھا کہ موسیقی جنسی انتخاب، میٹنگ کالز یا پارٹنر کو متاثر متوجہ کرنے کے لیے مخصوص صوتی سگنلز کے طور پر پیدا ہوئی، ڈارون کے اس نظریہ کو دیگر جنسی انتخاب کے طریقوں سے متضاد ہونے کے سبب بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن 21ویں صدی میں بہت سے اسکالرز نے اس نظریے کی تائید کی ہے۔  
دیگر نظریات میں: موسیقی مزدوروں کو منظم کرنے، طویل فاصلے تک کمیونیکشن کو بہتر بنانے، خدا کے ساتھ رابطے کے لیے، کمیونٹی میں ہم آہنگی پیدا کرنے یا شکاریوں کو خوفزدہ کرنے کے دفاع کے لیے پیدا ہوئی۔ 
موسیقی اکثر سماجی سرگرمیوں، مذہبی رسومات، تقریبات اور ثقافتی سرگرمیوں میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے جب لوگ اپنے جذبات وغیرہ کے اظہار کیلیے موسیقی کا سہارا لیتے ہیں۔
ایک ریسرچ کیمطابق نوزائیدہ بچے فطری طور پر موسیقی کی دھڑکنوں کو محسوس کرتے ہیں، اور انکی یہ مہارت انکی بقیہ سیکھنے کی صلاحیت سے الگ ہے۔
کیا موسیقی محض ایستھیٹک ہے یا پھر موسیقی اپنے فوائد کے اعتبار سے سائنسی وجود بھی رکھتی ہے.
موسیقی کے فائدے:
سیکھنے، یادداشت اور ادراک کو بہتر بنائیں
تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیں۔
اپنے دماغ کی صحت کی حفاظت کریں۔
ذہنی تناؤ کم ہونا
اپنے موڈ کو منظم کریں۔
دل کی صحت کو برقرار رکھیں
اضطراب اور افسردگی کو دور کریں۔
اپنے مدافعتی نظام کو فروغ دیں۔
حوصلہ افزائی اور کارکردگی میں اضافہ کریں۔
نیند کے معیار کو بہتر بنائیں
اپنے اعصابی نظام کو منظم کریں۔
موسیقی آپ کے دماغ کے تقریباً تمام مختلف علاقوں اور نیٹ ورکس کو متحرک کرتی ہے۔ یہ دماغ کے مختلف حصوں کے درمیان روابط کو بھی مضبوط کرتی ہے
آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے۔
جب آپ موسیقی سنتے ہیں تو تناؤ کے ہارمون کورٹیسول کی سطح گر جاتی ہے۔ اور ڈوپامائن ہارمون کو فروغ دیتی ہے، جو آپ کے موڈ کو بہتر کرنے میں مدد کرتا ہے۔
دماغ کا وہ حصہ جسے امیگڈالا کہتے ہیں موسیقی اس حصے میں پروسیس ہوتی ہے۔ یہ ہمارے مزاج اور جذبات کا مرکز بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرجوش موسیقی سننے سے آپ کا موڈ بہتر ہوتا ہے۔ موسیقی باقاعدگی سے سننے سے دماغ کی کیمسٹری بھی منظم ہوتی ہے۔ جس سے ذہنی اور جذباتی توازن برقرار رہتا ہے۔
کلاسیکی موسیقی دماغ کو سکون، آپ کو آرام اور وجدان مہیا کرتی ہے۔ شاید آپ کو سن کرعجیب لگے کلاسیکی موسیقی جرائم میں کمی بھی لا سکتی ہے۔ لندن میں، سرکار نے ٹرین اسٹیشنوں پر کلاسیکی موسیقی سنانا شروع کی۔ 18 ماہ کے بعد، توڑ پھوڑ تشدد میں 37 فیصد، ڈکیتیوں میں 33 فیصد، اور ورکرز پر حملوں میں 25 فیصد کمی آئی۔
جیز موسیقی آپ کے دماغ میں الفا لہر کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ یہ لہریں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب آپ بیدار ہوتے ہیں اور پر سکون ہوتے ہیں، جیز میوزک آپ کو ریلیکس کرنے میں مدد کرتا ہے۔
ریپ میوزک ڈیپریشن میں کمی لانے میں مدد کرسکتا ہے
راک یا پاپ میوزک ورزش کے دوران برداشت اور جسمانی کارکردگی کو بڑھا سکتا ہے۔ گرچہ موسیقی کے اکثر فوائد سننے والوں کے ذوق پر منحصر ہوتے ہیں، تو اگر آپکو پاپ یا راک میوزک پسند ہے تو یہ یقینا کام کے دوران آپ کو موٹیویٹ کرسکتا ہے۔
ایک تحقیق کیمطابق میٹل موسیقی کے شائقین لوگوں میں خوداعتمادی کا شدید احساس ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ خود اعتمادی بڑھانا چاہتے ہیں تو میٹل میوزک کو سننا مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
موسیقی کے کچھ اور فوائد یہ ہیں:
یہ ہمارے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر کو کم کرتی ہے۔
ہمارے پٹھے آرام کرتے ہیں، تناؤ کو دور کرتے ہیں۔
دھن ہمیں توجہ مرکوز کرنے میں مدد دیتی ہے۔
یہ ہمارے لیے حوصلہ افزائی کا کام کرتی ہے۔
یہ ہمارے جذبات کو منظم کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔

موسیقی پلے لسٹ مرتب کرنے کے لیے تجاویز:
ایک دھیمے، مستحکم رفتار کے ساتھ آرام دہ گانوں کا انتخاب کریں۔
اگر آپ کو اپنے خیالات کو ہدایت دینے کی ضرورت ہو تو دھن والے گانے چنیں۔
دیگر شور یا خلفشار کو روکنے میں مدد کے لیے ہیڈ فون استعمال کریں، یا خلفشار کو محدود کرنے کے لیے پس منظر کی موسیقی کا انتخاب کریں۔
گانوں میں گیپ سے بچنے کے لیے وقت سے پہلے اپنی پلے لسٹ بنائیں
ایسے گانے منتخب کریں جو آپ کے مراقبہ کے لیے مخصوص وقت سے مماثل ہوں۔
آلات موسیقی، کلاسیکی موسیقی، یا فطرت کی آوازوں کے لیے مراقبہ کی پلے لسٹ تلاش کریں۔
چیزوں کو تبدیل کرنے کے لیے نئے گانوں کی تلاش کرتے رہیں۔



حوالہ جات 


References:

Friday, April 21, 2023

جگر کے مسائل

جگر کیا ہے؟

جگر پسلیوں کے پیچھے داہنی جانب واقع ہوتا ہے اس کا رنگ سرخی مائل بھورا ہوتا ہے۔ یہ اپنی شیپ میں بے ترتیب ہوتا ہے، اس کی لمبائی تقریبا" 6 انچ ہوتی ہے۔ وزن 1.5 کلوگرام ہوتا ہے۔ وزن اور جسامت کے اعتبار سے جگر جسم کے اندر موجود سب سے بڑا عضو ہے۔ 



جگر خان کی دو بڑی نالیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ ایک نالی نظام انہضام سے حاصل شدہ خون جگر میں لاتی ہے جبکہ دوسری نالی جگر سے صاف خون لے کر جاتی ہے۔


جگر جسم میں موجود دوسرے اعضا کیساتھ مل کر لگ بھگ 500 افعال سرانجام دیتا ہے، 


جگر ہارمونز بناتا ہے


سٹور ہاوس ہونے کیساتھ ڈی ٹوکسیفکیشن پلانٹ ہے، جو جسم سے فالتو اشیا کو خارج کرتا ہے 


جگر ٹشوز سے بنا ہوا ایک پیچیدہ ترین عضو ہے، فی الوقت انسان اس کا متبادل مصنوعی آلہ نہیں بنا سکا ہے۔ 


جگر جسم میں استعمال ہونے والی آکسیجن کا لگ بھگ 20٪ حصہ استعمال کرتا ہے۔

جگر جسم کا واحد اندرونی اعضا ہے جو کٹ جائے تو دوباہ اگ آنے کی صلاحیت رکھتا ہے:

یونانی افسانوں کیمطابق زیوس (یونانی متھ کیمطابق زیوس سب سے بڑا خدا ہے اور سب خداوں کو خدا بھی ہے، زیوس آسمانوں، بجلی اور طوفانوں کا دیوتا ہے اور اپنی آسمانی بجلی کی طاقت سے ہی زیوس نے اپنے باپ کرونس اور اس کے اژدھے کو شکست دی) نے انسانوں کو آگ مہیا کرنے پر پرومیتھیس (یونانی متھ کیمطابق پرومیتھیس بنی نوع انسان کی مدد کرنیوالا دیوتا ہے، پرومیتھیس نے اولمپین دیوتاؤں سے آگ چرا کر اور اسے ٹیکنالوجی، علم اور تہذیب کی شکل میں انسانیت کو دیا، ایک اور متھ کیمطابق پرومیتھیس نے انسان کو مٹی سے بنایا) کو سزا دی۔ اور پرومیتھیس کو زنجیروں میں جکڑا کر ایک چیل کو اس کا جِگر (قدیم یونانی متھ میں جگر کو انسانی جذبات کا مرکز سمجھا جاتا تھا) چبانے پر مامور کر دیا۔ ہر دن چیل پرومیتھیس کے جِگر کو کھاتی مگر رات میں پرومیتھیس کا جِگر دوبارہ واپس اپنی اصل شکل میں آجاتا۔ برسوں بعد یونانی ہیرو ہرکولیس نے زیوس کی اجازت سے چیل کو مار ڈالا اور پرومیتھیس کو اس عذاب سے نجات دلائی۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ تب تک تو طب کو خبر نہیں تھی کہ جگر دوبارہ اگ سکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور یہ بات یونانی افسانوں میں کہاں سے آئی؟

جگر ٹرانسپلانٹ کے لیے جگر کا کچھ حصہ ڈونر کے جگر سے لے کر مریض میں ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کیمطابق لوگوں کو جگر کا کچھ حصہ عطیہ کرنے سے ڈرنا نہیں چاہیے، کیونکہ جگر میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ یہ دوبارہ اگ کر اپنی اصلی حالت میں واپس آ جاتا ہے، بالکل جیسے ہمارے سر کے بال۔ حتی کہ اگر جگر کا 90٪ حصہ کاٹ دیا جائے تو بھی یہ دوبارہ اپنی اصلی حالت تک اگ آتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ڈونر کے جگر کا وزن 1.5 کلوگرام ہو اور وہ آدھا یعنی 750 گرام جگر کا ٹکڑا عطیہ کر دے تو اس کا جگر دوبارہ بڑھ کر 1.5 کلو گرام ہو جائے گا. ایک شخص اپنے جگر کا 60٪ حصہ تک عطیہ کر سکتا ہے۔ ڈاکٹروں کیمطابق جگر ٹرانسپلانٹ کی کامیابی کی شرح (اگر وقت پر کیا جائے تو) 90 سے 95٪ تک ہے۔ جو کہ بہت ہی بڑھیا ہے۔

ہیپاٹائٹس کو اردو میں یرقان کہتے ہیں۔ 



ہیپاٹائٹس جگر کی سوزش ہے۔ اس سے جگر کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ جگر جسم میں دراصل فلٹر کی طرح کام کرتا ہے، کھانا معدے سے آنتوں میں جذب ہو کر جگر میں جاتا ہے جہاں اس کی صفائی کی جاتی ہے، صاف خون دل کو منتقل کردیا جاتا ہے جبکہ گندگی گردوں کے ذریعے چھوٹے پیشاب کے رستے نکال دی جاتی ہے، یہاں اگر جگر صحیح طرح صفائی کا عمل سرانجام نہیں دے رہا ہو گا تو صاف خون جسم کو مہیا ہونا کم تر ہوتا جائے گا، جگر کو جسم کا پاور ہاوس کہا جاتا ہے، یہ کھانے کو توانائی میں بدل کر جسم کو پاور مہیا کرتا ہے لیکن اس میں نقص جسم میں پاور کی کمی بن جائے گی۔

ہاروی جے آلٹر، مائیکل ہیوٹن اور چار لس ایم رائس کو مشترکہ طور پر خون سے پیدا ہونے والے ہیپاٹائٹس جو کہ عالمی صحت کا ایک بڑا مسئلہ ہے کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے پر نوبل انعام دیا گیا، 

https://youtu.be/oI-M8T-UsNo


جگر کے لیے مفید غذائیں

لہسن

 اسے ایک سپر فوڈ سمجھا جاتا ہے کیونکہ لہسن میں ایلیسن ہوتا ہے، جو پھیپھڑوں اور جگر کو آلودگی اور زہریلے مادوں سے ہونے والے نقصان سے بچانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

ہلدی

 اپنی طبی خصوصیات کی وجہ سے مشہور، ہلدی میں کرکومین نامی ایک فعال مرکب ہوتا ہے، جس میں سوزش اور اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات ہوتی ہیں جو پھیپھڑوں اور جگر کی صحت کو مزید فائدہ پہنچاتی ہیں۔

حوالہ جات:

کیا شراب نوشی نہ کرنے والوں میں بھی جگر کی بیماری بڑھ رہی ہے؟


Sunday, June 26, 2022

چائے یا لسی؟

چائے پیو گے کہ لسی؟
ہندوستان میں چائے انگریز لے کر آئے اور چائے پر چین کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے آسام میں چائے کی پیداوار شروع کی، کاشتکاروں کو بے حد مراعات بھی دیں،


انگریزوں کو کاپی کرنیوالے ہندوستانی غلام بھی چائے کے شوقین بنتے چلے گے،
انگریز چلا گیا، غلاموں کو اس نشے پر لگا گیا
آج حالت یہ ہے کہ جب تک پاکستانی چائے نہ پی لے اس کی آنکھ نہیں کھلتی، چائے پاکستان کا تہذیبی کلچر اور نیم عیاشی بھی بن چکی ہے، پاکستانی صرف ڈیٹ پر چائے نہیں پیتے باقی اٹھتے سوتے چائے ضرور پیتے ہیں، رپورٹ کیمطابق ہر پاکستانی تقریباً 1 کلوگرام سالانہ چائے پی جاتا ہے، جبکہ پورا پاکستان تقریباً 2 لاکھ ٹن پی جاتا ہے، اس حساب سے پاکستانی ہر سیکنڈ بعد 3000 چائے کے کپ پی جاتے ہیں، جس کی قیمت 84 ارب روپے بنتی ہے اور یہ ملک کا قیمتی 60 کروڑ ڈالر زرمبادلہ بھی کھا گی ہے، پاکستان چائے پینے والے دس بڑے ممالک میں شامل ہے۔ اور دنیا میں چائے امپورٹ کرنیوالا بڑا ملک ہے، پاکستان 80٪ چائے کینیا سے جبکہ باقی ماندہ چین، ویت نام اور انڈونیشیا سے منگواتا ہے،
چین کے شہنشاہ شینونگ کو سائنس میں بڑی دلچسپی تھی اور 2737 قبل مسیح میں اس نے ایک حکم نامہ جاری کر رکھا تھا کہ پانی کو ابال کر پیا جائے، کہتے ہیں ایک دن شینونگ کسی درخت تلے بیٹھا آرام کررہا تھا، کہ اس کا ملازم اس کے لیے گرم پانی لایا،  کہ اچانک درخت سے چند پتیاں گرم پانی میں گر گئی، جس سے پانی رنگ بدلنا شروع ہوگیا، تھوڑی دیر حیرت سر وہ اسے دیکھتا رہا پھر اپنے سائنسی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ پانی پی لیا، جب بادشاہ نے اس کا گھونٹ بھرا تو تسکین لذت سے اس کے منہ سے لفظ چھا نکلا، وہیں سے چائے چل پڑی، 
چینی صرف قہوہ چائے پیتے ہیں جبکہ پاکستان میں بطور طاقت لذت اور عیاشی اس میں دودھ اور چینی بھی شامل کی جاتی ہے، چینی ملک میں پہلے ہی ناپید ہے جبکہ دودھ کو تو پانی اور کیمیکل پاوڈر کی مدد سے پاکستانی سائنسدان اپنی مدد آپ پورا کرلیتے ہیں،




دنیا میں سب سے زیادہ چائے چین میں پیدا ہوتی ہے، پھر بالترتب بھارت، کینیا، ارجنٹائن اور سری لنکا وغیرہ میں ہوتی ہے،
چائے کو پاکستان میں کاشت کرنے کی بھی کوششیں کی گئیں
پاکستان نے مانسہرہ اور سوات میں چائے اگانے کے لیے تقریباً 64,000 ہیکٹر اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے۔
چائے کی کاشت کے لیے،
 درجہ حرارت 21-29۔
 بارش 150-250 سینٹی میٹر
 نمی 70-90% درکار ہوتی ہے
چائے کا پودا 5 سال میں تیار ہو جاتا ہے اور پھر 120 سے 200 سال تک فصل دیتا ہے. 
ایک چائے کا باغ مانسہرہ پاکستان میں ہے۔ (تصویر بشکریہ: سوشل میڈیا)

لیکن حکومت کی عدم توجہی اور بوجوہ دیگر پاکستان تاحال ناکام ہے اور چائے درآمد کرنی پڑتی ہے. پھر بھی امید ہے کہ اگلے 20 سالوں میں، پاکستان چائے کا تقریباً 70 فیصد مقامی طور پر پیدا کر لے گا۔


لیکن تب تک ہماری چائے کی ہر چسکی پاکستان پر ڈالر کا بار بڑھا دیتی ہے، اور ڈالر کی بڑھتی قیمتوں کے پیش نظر چائے بھی امیروں کی عیاشی بن سکتی ہے، غریب پھر پرانے ہندوستان کی لسی پی کر گزارہ کریں 😭

حوالہ جات 

Saturday, February 13, 2021

Yoga in urdu

یوگا!!!

یوگا جسم کو تیاگ کر روح کے سکون کو پانے کا نام ہے، یوگا کی افادیت انسان نے قبل از تاریخ پا لی تھی. ہندوستان میں اس کے آثار ہڑپہ تہذیب میں ملتے ہیں یہی یوگا آگے چل کر ہندومت مذہب میں شامل ہوجاتا ہے لیکن دراصل آج یوگا کا کوئی مذہب نہیں رہا آج ہر رنگ نسل کا انسان اس کو اپنا رہا ہے کیونکہ یوگا تو سراسر سائنس ہے۔ قدیم سنسکرت زبان کیمطابق یوگا کے معنی بندھے رہنے کے ہیں 
یعنی یوگا کرنے والا شخص خاص آسن میں آنکھں موندھے دماغی طور پر اپنے دیوتا سے بندھا ہوا ہو اس مسلسل ایک ہی آسن کو اپنائے رکھنے سے انسان کو ضبط کرنے اور اپنے آپ پر قابو پانے کی طاقت ملتی ہے، جس سے انسان میں خوداعتمادی بڑھتی ہے اور وہ اپنی پریشانیوں پر بھی پھر قابو ڈال سکتا ہے ۔ 
یوگا دراصل سچ کی تلاش کا اک رستہ ہے۔ جس میں انسان اپنے جسم کو آرام دے کر مادی خواہشات سے آزاد ہو کر اور دماغی طور پر اس دنیا سے ناتا توڑ کر اپنے خدا سے رشتہ جوڑتا ہے۔ یوگی جسم کو بھول کر روح کی تلاش میں نکلتا ہے۔ یوگا ہندوستان کی ثقافت بن چکا ہے اور ہندوستان اس پر فخر بھی کرتا ہے بھارت ہر سال 21 جون کو یوگا کا سالانہ دن عالمی طور پر مناتا ہے 


نریندرمودی نے اپنے 27 دسمبر 2014 کے اقوام متحدہ سے خطاب میں 21 جون کو یوگا کا عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی تھی۔ جسے اقوام متحدہ نے قبول کرتے ہوئے 21 جون کو یوگا کا عالمی دن قرار دیا تھا۔
ہندوستان کے باسی ازمنہ قدیم سے ہی روحانی و جسمانی مضبوطی کے لیے یوگا کرتے آئے ہیں. آج ماڈرن زمانہ میں تو ہم اور بھی طرح طرح کی نئی پیچیدگیوں کا شکار ہو چکے ہیں ٹیکنالوجی جوں جوں تیز تر ہوتی جارہی ہے انسان ڈیپریس ہوتا چلا جارہا ہے مشینوں کے بیچ کہیں انسان اپنے جذبات کو کھوتا جارہا ہے انسان اپنے ہزارہا سال کے ذہنی ارتقاء کو گزشتہ کچھ صدیوں کی تیز رفتار ترقی سے ہم آہنگ کرنے میں بدستور ناکام نظر آرہا ہے. 
ہم ہمہ وقت معاشرتی، ماحولیاتی اور مالی عدم استحکام کی غیر یقینی صورتحال میں جی رہے ہیں۔ ایسے میں یوگا ذہنی روحانی اور جسمانی سکون کی سیکرٹ چابی ثابت ہوسکتی ہے.
یوگا کی بنیادی طور پر آٹھ پوزیشنیں ہیں۔
سب سے پہلے ہے یم، یعنی خود کو مہذب اور شائستہ بنانا، 


2. نیم بنانا یا اصول بنانا، یعنی جو کام آپ کرنے جا رہے ہیں اس کے پہلے نیم طے کرلیں


3. تیسرا ہے آسن، جسم کی ایسی پوزیشن اختیار کرنا جو آپ کے جسم اور دماغ دونوں کو سکون دے،

4. پرانا یام، سانس لینے کا طریقہ جس سے جسم اور دماغ کو سکون اور تازہ ہوا میسر ہو۔ گوتم بدھ آسن لگائے آنکھیں موند کر مخصوص انداز میں سانس لیتے اور چھوڑتے جس سے ان کی سوچنے صلاحیت دوچند ہوتی اور تخیل کی گہرائی بڑھ جاتی۔
بقول گورونانک انسان اپنی سانس کی درست طریقے سے حفاظت کرکے خدا تک پہچھ سکتا ہے۔  


5. اپنے حواس کو غذا پہنچانا، یعنی ان کو آرام دینا، ریسٹ دینا، کیونکہ حواس مستقل استعمال سے تھک جاتے ہیں،

6. فوکس کرنا، اپنی سوچ اپنے ذہن کو کسی نقطہ پر مرتکز کرنا، جیسا کہ مراقبہ، باطل خیالات کو جھٹک کر اپنے اصل خیال پر ٹارگٹ کرنا، اس سے آپ کو اپنے شریر پر اور اپنے دماغ پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے،

 7. دھیان، یہ دراصل مراقبہ کی اگلی سٹیج ہے، درست فوکس اور مکمل ارتکاز سے ہم دنیا سے آگے مراقبے کی دنیا میں اتر جاتے ہیں، ایسا کرنیوالے شخص کو محسوس ہوتا ہے جیسے کسی طاقت نے اس کو اپنی تحویل میں لے لیا ہو، ماہرین کیمطابق مراقبہ واقع ہوتا ہے،

8. سمادھی، یہ یوگا کا آخری انت ہے، یہ دراصل یوگا کی معراج ہے، انسان ٹائم اینڈ سپیس سے آزاد ہو جاتا ہے، وہ اپنے خدا کے بہت قریب ہوجاتا ہے، بدھ نے اسے ہی نروانا کہا ہے، 
(تصایر بشکریہ بی بی سی)
گیس چھوڑنے میں مدد کے لیے سادہ یوگا آسن (پادنا)


حوالہ جات:

Monday, January 4, 2021

ورزش کریں زندگی بڑھایں

جانداروں کے لیے ورزش کی اہمیت

اگر یہ کہا جائے کہ ورزش موت کے سوا ہر بیماری کا علاج ہے تو کچھ مبالغہ بھی نہ ہو گا. 
باقاعدہ جسمانی سرگرمی غیر متعدی بیماریوں جیسے کہ دل کی بیماری، فالج، ذیابیطس اور کئی کینسروں سے بچاتی ہے۔ یہ ہائی بلڈ پریشر کو روکنے، صحت مند جسمانی وزن کو برقرار رکھنے اور دماغی صحت، معیار زندگی اور تندرستی کو بہتر بنانے میں بھی مدد کرتی ہے۔
اگر آپ کا ہاضمہ کمزور ہورہا ہے تو پھکی کھانے کی بجائے واک کرکے دیکھیں تو شاید آپ پھکی کو بھول جائیں. 
جانداروں کا بیالوجیکل نظام بنیادی طور پر حرکت کیلیے بنا ہے اور اس کی بقا اور بہتری حرکت سے ہی منسلک ہے، اگر آپ انسان کی ماضی قریب (حالیہ صنعتی اور ٹیکنالوجیکل سے پہلے) کی زندگی اور رہن سہن کا مطالعہ کریں تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ انسان کی روزمرہ زندگی میں حرکت اور واک کا کس قدر عمل دخل تھا
ایک کلومیٹر میں قدم
اوسطاً، ایک کلومیٹر چلنے کے لیے تقریباً 1,200 سے 1,500 قدم درکار ہوتے ہیں جبکہ ایک کلومیٹر چلنے کے لیے 900 سے 1250 قدموں کے درمیان چل سکتا ہے۔  اگر آپ کا مقصد ایک دن میں 10,000 قدم چلنا ہے، تو اس مقصد تک پہنچنے کے لیے اسے 8 کلومیٹر سے کچھ زیادہ کا سفر کرنا پڑے گا۔

وارم اپ ورزش 5 سے 10 منٹ
ورزش میں ڈسپلن ہے جذبہ ہے طاقت ہے
حرکت میں برکت ہے، انسانی جسم حرکت کے لیے بنا ہے، آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر دیکھئیے، جو لوگ چلتے پھرتے رہتے ہیں وہ اکثر لمبی زندگی پاتے ہیں جبکہ جو سست آرام دہ لائف سٹائل رکھتے ہیں وہ اکثر بیٹھے بیٹھے اچانک دل ہار بٹھتے ہیں۔ کم از کم تیس منٹ روزانہ ورزش یا واک کریں،
دنیا میں سب سے زیادہ صحت مند افراد جاپان کے چھوٹے چھوٹے جزائر اوکی ناوا (Okinawa) میں پائے جاتے ہیں ان میں اکثر لوگ سو سال سے زیادہ عمر کے ہیں جبکہ دو تہائی لوگ ستر سال سے زائد عمر رکھتے ہیں اور بالکل توانا ہیں  کیونکہ یہ لوگ اپنے جسم کو حرکت میں رکھتے ہیں‘ چل کر مارکیٹ جاتے ہیں‘ سیڑھیاں چڑھتے ہیں‘ یہ ساٹھ سال کی عمر کے بعد کوئی نہ کوئی فن‘ کوئی نہ کوئی ہنر بھی سیکھتے ہیں یہ لوگ مرتے دم  تک رقص کو نہیں چھوڑتے‘ اوکی ناوا میں اکثر بزرگ ناچتے تھرکتے نظر آتے ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں آپ اگر پتھر نہیں ہیں تو پھر آپ کو اپنا جسم حرکت میں رکھنا چاہیے

ورزش کے فوائد

متعدد مطالعات کے مطابق ، باقاعدگی کیساتھ ورزش عمر دراز کرتی ہے جبکہ جسم کو صحتمند اور مضبوطی بناتی ہے ، بھلے یہ ورزش ہفتے میں صرف چند منٹ کی ہی ہو
امریکن کالج آف اسپورٹس میڈیسن کے ذریعہ پچھلے سال جاری ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ باقاعدگی سے ورزش کرنے سے ہمارے بعض قسم کے کینسروں کے خطرات میں 69 فیصد تک کمی ہوتی ہے۔تحقیق کے مطابق 3 سے 4 منٹ تک تیزی سے بھاگنے دوڑنے سے کینسر کی کسی بھی قسم سے متاثر ہونے کا خطرہ 18 فیصد تک گھٹ جاتا ہے. لوگ جتنا زیادہ وقت تیزی سے حرکت کریں گے، کینسر کا خطرہ اتنا کم ہوتا جائے گا۔

ہلکی پھلکی ورزش سے مدافعتی نظام بہتر ہوتا ہے۔
ورزش سے سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں 29٪ تک کمی ہوتی ہے۔
تعلیمی دباوکا تناو بچوں کو مستقبل میں دل کے امراض میں مبتلا کرسکتا ہے جس سے بچنے کا واحد حل ورزش ہے۔
جسمانی سرگرمی دماغ کے مختلف کیمیکلز کو متحرک کرتی ہے جس سے آپ کو خوشی ، زیادہ سکون اور کم پریشانی محسوس ہوتی ہے۔ ذہنی دباو اور تھکاوٹ سے بھرپور دن کے بعد آوٹ ڈور واک جسم اور دماغ کو ریلیکس کرنے کا سبب بنے گی دماغ سے غیر ضروری خیالات کا خاتمہ ہو گا، ورزش سے خون کی سرکولیشن بڑھے گی اور خلیات تک تازہ خون اور آکسیجن پہنچے گی،  
باقاعدہ ورزش سے شریانوں میں خون کی روانی تیز ہوتی ہے جس سے جنسی طاقت بحال رہتی ہے خاص کر تناو کے مسائل نہیں ہوتے۔
360 ڈگری کی ورزش کے فائدے
360 ڈگری ورزش دراصل پوری باڈی کی ورزش ہے اس سے پورے جسم میں کچھاو پیدا ہوتا ہے اور ہر اعضاء اس ورزش میں شامل ہوتا ہے. عام طور پر ورزش کو جسم کی تیز حرکت اور دل کی تیز دھڑکن کو سمجھا جاتا ہے مگر دراصل جسمانی ورزش اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے، ایک صحیح اور مکمل ورزش وہ ہے جس میں پورے جسم کا خیال رکھا جائے اور جس سے آپ کو سکون ملے. 
360 ڈگری کی ورزش آپ کو جسمانی دماغی اور روحانی سکون اور بہتری دیتی ہے، یہ ورزش باقاعدگی سے کرنے سے آپ مسلسل پرسکون اور پریشانی سے بچے رہ سکتے ہیں، 
360 ڈگری ورزش کے کچھ طریقے 

کوبرا سٹائل ورزش کے فائدے


ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط ہوتی ہے۔ سینے اور پھیپھڑوں ، کندھوں اور پیٹ میں پھیلاو پیدا ہوتا ہے۔ پیٹ کے اعضاء کو حرکت ملتی ہے۔ دباؤ اور تھکاوٹ دور ہوتی ہے۔ دل اور پھیپھڑوں کو کھولتا ہے جس سے سانس کی تکالیف اور دمہ میں افاقہ ہوتا ہے

سپرمین ورزش کے فوائد 
ریڑھ کی ہڈی مضبوط ہوتی ہے
اس پوز سے جسم کو فل کھچاو ملتا ہے جس سے کیلوریز برن ہوتی ہیں. ریڑھ کی ہڈی مضبوط اور لمبی ہوتی ہے. جسم کی لچک بڑھتی ہے. دماغ کی نیوروپلاسٹی بڑھتی ہے. کولہے اور کمر درد سے آرام ملتا ہے. یہ ورزش خاص کر ان لوگوں کے لیے ہے جو زیادہ وقت کرسی پر گزارتے ہیں. یہ کمر کے دہرے پن کو سیدھا کرتا ہے. 
چہل قدمی کیسے ہوتی ہے؟ 
اگر آپ چلتے ہوئے بات کرسکتے ہیں مگر گا نہیں سکتے تو آپ چہل قدمی کررہے ہیں، چہل قدمی ٹہلنے سے ذرا تیز جبکہ اسکی سپیڈ انداز 3 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے
روزانہ 20 منٹ کی چہل قدمی بیماری کے چانس 43٪ کم کردیتی ہے 
ورزش اور جسمانی سرگرمی سے متعلق اہم حقائق
جسمانی سرگرمی دل، جسم اور دماغ کے لیے اہم فوائد رکھتی ہے۔
جسمانی سرگرمی غیر متعدی بیماریوں جیسے کہ قلبی امراض، کینسر اور ذیابیطس کی روک تھام میں معاون ہے۔
جسمانی سرگرمی ڈپریشن اور اضطراب کی علامات کو کم کرتی ہے۔
جسمانی سرگرمی سوچنے، سیکھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے۔
جسمانی سرگرمی نوجوانوں میں صحت مند نشوونما اور نشوونما کو یقینی بناتی ہے۔
جسمانی سرگرمی مجموعی صحت کو بہتر بناتی ہے۔
عالمی سطح پر، 4 میں سے 1 بالغ جسمانی سرگرمی کی عالمی سطح پر تجویز کردہ سطح پر پورا نہیں اترتا
جو لوگ ناکافی طور پر متحرک ہیں ان میں کافی متحرک لوگوں کے مقابلے میں موت کا خطرہ 20% سے 30% تک بڑھ جاتا ہے۔
دنیا کی 80 فیصد سے زیادہ نوعمر آبادی ناکافی جسمانی سرگرمی کا شکار ہے۔
عمر کے لحاظ سے کس قدر ورزش درکار ہوتی ہے؟
5-17 سال کی عمر کے بچے اور نوعمر
پورے ہفتے میں کم از کم اوسطاً 60 منٹ فی دن اعتدال سے بھرپور شدت، زیادہ تر ایروبک، جسمانی سرگرمی کرنا چاہیے۔
ہفتے میں کم از کم 3 دن بھرپور شدت والی ایروبک سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ پٹھوں اور ہڈیوں کو مضبوط کرنے والی سرگرمیاں شامل کرنی چاہئیں۔
بیٹھے رہنے میں گزارے گئے وقت کی مقدار کو محدود کرنا چاہیے، خاص طور پر تفریحی اسکرین کے وقت کی مقدار۔
18-64 سال کی عمر کے بالغ
کم از کم 150-300 منٹ کی اعتدال پسند ایروبک جسمانی سرگرمی کرنی چاہئے۔
یا کم از کم 75-150 منٹ کی بھرپور شدت والی ایروبک جسمانی سرگرمی؛ یا پورے ہفتے میں اعتدال پسند اور بھرپور شدت کی سرگرمی کا مساوی مجموعہ

ورزش کے سائیڈ ایفیکٹ



حوالہ جات 
تندرست رہنے کیلئے پیدل چلنا کتنا ضروری، اہم تحقیق 

Reference:

Tuesday, July 7, 2020

High Blood Pressure Treatment in Urdu

خون کی گردش انفیکشن سے لڑنے، جسم کے ہر حصے میں آکسیجن پہنچانے، دماغ کی بہتر صحت تک آپ کی مجموعی صحت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

بلڈ پریشر کیا ہوتا ہے؟

ہمارا دل ایک چھوٹا مگر طاقت وَر پمپ ہے جو  ایک منٹ میں جسم کی رگوں میں پانچ لیٹر خون پمپ کرتا ہے۔ دل جب  سکڑتا ہے تو اس وقت یہ خون کو اپنے سکڑنے کے دباو سے زور سے رگوں میں دھکیلتا ہے اس کو  انقباضی فشار خون یا سسٹولک پریشر Systolic blood pressureکہتے ہیں جس کو اوپری نمبرز سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اور جب دل نارمل حالت میں آتا ہے تو اسے انبساطی یا ڈائسٹولک پریشر  Diastolic blood pressure کہتے ہیں اس کو نیچے والے نمبر سے ظاہر کرتے ہیں۔ اگر بلڈ پریشر کی ریڈنگ 140 / 80 ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ سسٹولک پریشر 140 اور ڈائسٹولک پریشر 80 ہے


ہائی بلڈ پریشر کا تعارف

ہائی بلڈ پریشر کو انسان کا خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے

ہر سال  17 مئی کو بلڈ پریشر کا عالمی دن منایا جاتا ہے 

ایک سروے کے مطابق تقریبا 52 فیصد پاکستانی آبادی ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں اور 42 فیصد لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہیں

دن بھر ہمارے مختلف کاموں کے دوران ہمارا بلڈ پریشر بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے


جب بلڈ پریشر تیزی سے اوپر جاتا ہے اور ریڈنگ 180/120 سے زیادہ ہوجائے تو اسے ہائپر ٹینسیو بحران کہا جاتا ہے



ویسے تو بلڈ پریشر کسی بھی عمر میں بڑھ سکتا ہے مگر اس کا خطرہ 40 سال کے بعد تیزی سے بڑھنا شروع ہوجاتا ہے


ہائی بلڈ پریشر کی علامات

بیشتر لوگوں میں ہائپرٹینشن کی کوئی خاص علامات ظاہر نہیں ہوتیں، لہٰذا وہ اس مرض سے بے خبر رہ کر زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ بہ ظاہر ہر لحاظ سے صحت مند اور فٹ دکھائی دینے والے افراد بھی ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوسکتے ہیں، مگر وہ اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں۔ بہرحال شدید صورت میں ہائی بلڈ پریشر کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ان علامات میں ناک سے خون آنا، سردرد، بے خوابی، ذہنی پریشانی اور الجھن، اور سانس کے مسائل شامل ہیں


 شدت کا سردرد، چکر آنا،  زمین گھومتی ہوئی محسوس ہونا،  مزاج میں چڑچڑاپن،  بات بات پر غصہ آنا، بعض اوقات غصے کی شدت سے بلڈ پریشر بہت ہائی ہو جانے کے باعث دماغ کی شریانیں پھٹ جاتی ہیں، جس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے، بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے یا غنودگی چھائی رہتی ہے، جسم میں درد اور کھنچاؤ سا بھی محسوس ہوتا ہے

ہائی بلڈ پریشر کی ممکنہ وجوہات

عمر میں اضافے کے ساتھ جسم کے مختلف حصوں میں خون پہنچانے والی رگوں کی لچک کم ہوجاتی ہے، بہ الفاظ دیگر یہ قدرے سخت ہوجاتی ہیں اور پھر ان میں سے خون کو گزارنے کے لیے زیادہ قوت درکار ہوتی ہے جس کے لیے دل کو زیادہ زور لگانا پڑتا ہے جو ہائی بلڈ پریشر کہلاتا ہے   10 فی صد معاملات میں ہائپرٹینشن  کا کوئی نہ کوئی طبی سبب ضرور ہوتا ہے۔ اسے ثانوی ہائپرٹینشن کہا جاتا ہے۔ ہائپرٹینشن لاحق ہونے کی طبی وجوہات میں گردے کے امراض، گردوں کو خون کی رسد میں رکاوٹ، حد سے زیادہ شراب نوشی، اور کچھ ہارمون کے مسائل ہوتے ہیں جو گردوں کو متأثر کرتے ہیں۔ یعنی ہائپرٹینشن کا بلاواسطہ بالواسطہ طور پر گردوں سے اہم تعلق ہوتا ہے دیگر عوامل میں یہ موروثی بھی ہو سکتا ہے اس کے علاوہ مٹاپا سگریٹ نوشی نمک کی زیادتی ورزش کی کمی، شوگر یا گردوں کے مسائل کی وجہ سے بھی ہائی بلڈ پریشر ہو سکتا ہے

گیس، بدہضمی، کھانا کھانے کے بعد فوراً بیٹھ جانا یا لیٹ جانا، ہارمونل پرابلم، ذہنی دباؤ،  موٹاپا،  نمک کا زیادہ استعمال، گرم غذاؤں کا استعمال،  کام میں زیادہ مشقت،  گیم نہ کھیلنا، ورزش اور چہل قدمی سے گریز کرنا، قوت برداشت کا فقدان، رنج و غم میں مبتلا رہنا، مرغن غذاؤں کا زیادہ استعمال ،بازاری فروزن یا گھر میں فریز کیے ہوئے کھانوں کا زیادہ استعمال ہائی بلڈ پریشر کا باعث بنتا ہے,پریشانی اور مسلسل دباو اچانک بلڈ پریشر بڑھا دیتے ہیں 

ہائی بلڈ پریشر کے نقصانات

اگر ہائی بلڈ پریشر کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو زیادہ زور لگانے کی وجہ سے دل رفتہ رفتہ تھکنا شروع ہو جاتا ہے اور بالآخر دل کے دورے کا سبب بن سکتا ہے۔  دل کے دورے اور اسٹروک کے علاوہ دل کا فیل ہوجانا یعنی خون پمپ کرنے کی صلاحیت کا بہ تدریج کمزور پڑجانا، گردوں کا فیل ہوجانا، ضعف بصارت اور آنکھوں کے امراض سے سابقہ پڑسکتا ہے۔ پیٹ اور سینے سے گزرنے والی مرکزی شریان پھیل کر پھٹ سکتی ہے اور اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں


ہائی بلڈ پریشر کا علاج

نارمل بلڈ پریشر 120/80 یا اس سے کم ہوتا ہے لیکن اگر یہ 140/90 یا زیادہ ہوتو آپ کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے 

روزنہ ایک یا دو کیلے کھائیں تو اس سے یہ مرض قابو میں رہتا ہے کیونکہ  کیلا غذائی اجزاء اور پوٹیشیم سے بھرپور ہوتا ہے جو ہمارے جسم میں 10 فیصد سے زائد سوڈیم (نمکیات) کے اثر کو کم کرسکتا ہے اور گردوں کی حفاظت میں بھی کردار ادا کرتا ہے


جو کا دلیہ میگنیشیم سے بھرپور ہوتا ہے اور ایک طبی تحقیق کے مطابق جو کے دلیہ کا استعمال فشار خون کے شکار افراد کے بلڈ پریشر کو نمایاں حد تک کم کرنے میں مدد دیتا ہے

کالی مرچ سے خون کی شریانیں کھلتی ہیں جس سے خون کی روانی کو پورے جسم تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور  بلڈپریشر کی شرح  قدرتی طور پر کم  ہوتی ہے

پستے میں موجود اجزاء میگنیشم، پوٹاشیم اور فائبر وغیرہ  بلڈ پریشر کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں

مالٹے میں موجود پوٹاشیم بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے کے لیے اہم جز ہے

روزانہ پیاز کے استعمال سے بلڈ پریشر بہتر ہوتا ہے 


دالیں، چنے، کالے چنے وغیرہ فائبر اور پوٹاشیم سے بھرپور ہوتے ہیں جو بلڈ پریشر کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں

شہد میں موجود کاربوہائیڈریٹ دل کی طرف سے خون کے پریشر کوکم کرتا ہے۔ دو ہفتوں تک رات کو سونے سے پہلے ایک گلاس نیم گرم دودھ میں دو چمچ شہد ملا کر پینے سے بلڈ پریشر جیسے بیماری سے بچا جا سکتا ہے

بلڈ پریشر والے مریضوں کو صرف مچھلی کا گوشت فائدہ مند ہے ،مچھلی پروٹین اور وٹامن ڈی کے حصول کا بہترین ذریعہ ثابت ہوتی ہے اور یہ دونوں بلڈپریشر کی شرح کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں

میتھی کے دانوں میں بڑی مقدار میں موجود پوٹیشیم بلڈ پریشر کو بڑھنے سے روکتا ہے

چقندر نائٹریٹ سے بھرپور ہوتے ہیں جو کہ جسم میں نائٹرک آکسائیڈ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ نائٹرک آکسائیڈ خون کی نالیوں کو آرام اور پھیلانے میں مدد کرتا ہے، جس سے گردش بہتر ہوتی ہے۔

چقندر میگنیشم اور پوٹاشیم سے بھرپور سبزی ہے  چقندر کا جوس پینے سے بلڈ پریشر کو مختصر اور طویل مدت میں کم کیا جاسکتا ہے۔

اسٹرابیری کی زیادہ مقدار سے ہائی بلڈ پریشر کے خطرہ میں 8 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

لہسن  شریانوں میں پلیٹلیٹس کو جمع ہونے سے روکنے کے ساتھ دل پر زیادہ خون کے پریشر سے بڑھنے والے اثرات سے  روکتا ہے

کچے لہسن کی ایک پھانک روزانہ کھانے سے بہت جلد بلڈ پریشر میں کمی لائی جاسکتی ہے

لہسن میں سلفر مرکبات ہوتے ہیں، جن میں ایلیسن شامل ہوتا ہے - جو خون کی نالیوں کے پھیلاؤ کو فروغ دیتا ہے اور خون کے بہاؤ کو بڑھاتا ہے۔ پیاز flavonoid antioxidants کا ایک بہترین ذریعہ ہے، جو خون کے بہاؤ میں اضافہ ہونے پر آپ کی شریانوں اور رگوں کو چوڑا کرنے میں مدد کرکے دل کی صحت اور گردش کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

ڈارک چاکلیٹ بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے۔

لیموں  شریانوں کو  سخت ہونے سے بچاتا ہے بلکہ خون کی روانی کو بھی کم رکھتا ہے 

ہفتے میں چار سے پانچ بار دہی کھانے سے ہائی بلڈ پریشر کے چانسز میں بیس فیصد کمی ہوتی ہے

8 ہفتوں تک دن میں تین کیوی کھانے سے سسٹولک اور ڈیاسٹولک بلڈ پریشر دونوں میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے 

صبح ناشتے میں دلیہ بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے

تربوز میں سائٹرولن نامی امینو ایسڈ  ہائی بلڈ پریشر کو سنبھالنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

زیتون کے تیل  میں پولیفینولز شامل ہیں ، جو بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔

جئی میں بیٹا گلوکن نامی ایک قسم کا ریشہ ہوتا ہے ، جو خون میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کرسکتا ہے۔ کچھ تحقیق کے مطابق ، بیٹا گلوکن بلڈ پریشر کو بھی کم کر سکتا ہے۔

انار خاص طور پر پولیفینول اینٹی آکسیڈنٹس اور نائٹریٹ میں زیادہ ہوتے ہیں، جو کہ طاقتور واسوڈیلیٹر ہیں۔ انار کو جوس، کچے پھل یا سپلیمنٹ کے طور پر استعمال کرنے سے خون کا بہاؤ بہتر ہو سکتا ہے۔

چار ہفتوں کے لئے دن میں ایک بار انار کا جوس پینے سے بلڈ پریشر کو قلیل مدت میں کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

سبز پتوں والی سبزیاں جیسے پالک اور کیلے نائٹریٹ کے بہترین ذرائع ہیں۔ یہ مرکبات خون کی نالیوں کو وسیع کرنے میں مدد کرتے ہیں، جس سے گردش بہتر ہوتی ہے۔

ہرے پتوں والی سبزیاں چوبیس گھنٹے تک بلڈپریشر کو نارمل رکھ سکتی ہیں

دار چینی اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتی ہے، جو آکسیڈیٹیو تناؤ اور خون کی شریانوں کو پہنچنے والے نقصان سے بچانے میں مدد دیتی ہے۔ صحت مند خون کی وریدیں زیادہ سے زیادہ گردش کے لیے ضروری ہیں۔دار چینی قلیل مدت میں بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

پیزے میں پنیر ، گوشت ، ٹماٹر کی چٹنی اور کرسٹ کے مکسچر سے سوڈیم کی کافی مقدار اکٹھی ہو جاتی ہے۔ خاص کر ٹھنڈا پیزا ہائی بلڈ پریشر والے لوگوں کے لئے بہت خطرناک ہے۔

نقصان دہ چیزیں

نمک سوڈیم بلڈ پریشر کو نمایاں طور پر بڑھا سکتا ہے۔

بڑے جانور کا گوشت خاص کر گائے کا گوشت زہر سے کم نہیں

شراب کی بڑی مقدار بلڈ پریشر میں ڈرامائی اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔

کافی ، چائے ، کولا اور انرجی ڈرنکس میں موجود کیفین بلڈ پریشرکو تھوڑی دیر دو سے تین گھنٹوں تک بڑھا سکتا ہے۔

لو بلڈ پریشر 

حوالہ جات