Translate

Showing posts with label معیشت. Show all posts
Showing posts with label معیشت. Show all posts

Wednesday, March 13, 2024

اداروں کی نجکاری؟

 اداروں کی نجکاری؟

عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ریاستی یا سرکاری انتظام میں چلنے والے کاروباری ادارے جنوبی ایشیا میں بدترین ہیں۔

وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک کے مختلف سیکٹرز میں212، SOEs کام کررہے ہیں جن میں سے 197ادارے نقصان میں چل رہے ہیں ۔ 2016میں ان اداروں کے نقصانات ملکی جی ڈی پی کا 0.5 فیصد تھے جو 2021میں بڑھ کر جی ڈی پی کے 4 فیصد سالانہ سے زائد ہوچکے ہیں ۔ نقصانات میں چلنے والے ان اداروں میں تقریباً 450,000 افراد روزگار سے منسلک ہیں جنہیں تنخواہیں اور مراعات دینے کے باعث یہ ادارے سالانہ 458ارب روپے کانقصان کررہے ہیں. خسارے اور منافع میں چلنے والے حکومتی اداروں کا موازنہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ادارے جہاں حکومتی عمل دخل حد سے زیادہ تھا، ملازمین کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا، پروفیشنل اور تجربہ کار CEOs کے بجائے ناتجربہ کار ریٹائرڈ بیورو کریٹس کو اداروں کا سربراہ بنایا گیا، ضرورت سے زائد ملازمین کی بھرتی، کرپشن اور اقربا پروری کی وجہ سے یہ ادارے مسلسل خسارے میں جاتے رہے اور آج یہ سفید ہاتھی قومی خزانے پر ناقابل برداشت بوجھ بن گئے ہیں

سب سے زیادہ 10 خسارے میں چلنے والے ادارے

کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی 108.5 ارب روپے

نیشنل ہائی ویز اتھارٹی 94.3 ارب روپے

پاکستان ریلوے 50.2 ارب روپے

سکھر الیکٹرک پاور کمپنی 40.8 ارب روپے

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز 36.7 بلین روپے

سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ 21 روپے۔ 4 ارب

پاکستان اسٹیل ملز 20.6 ارب روپے

حیسکو 17.7 ارب روپے

پاکستان اسٹیٹ آئل 14.8 ارب روپے

پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی 14.6 ارب روپے

پی آئی اے کی بنیاد 29 اکتوبر 1946 کو اورینٹ ایئر ویز کے طور پرکلکتہ، برطانوی ہندوستان میں رکھی گئی،1949 تک، اورینٹ نے کراچی-دہلی-کولکتہ-ڈھاکا روٹ کی خدمت کے لیے تین Convair CV-240 حاصل کیے اور Convair ہوائی جہاز چلانے والی پہلی ایشیائی ایئر لائن بن گئی۔ اکتوبر 1953 میں حکومت پاکستان نے اورینٹ ائیرویز کو ضم کرکے پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کارپوریشن بنا دی۔ نئی ایئر لائن نے 1955 میں قاہرہ اور روم کے راستے لندن کے لیے بین الاقوامی خدمات کا آغاز کیا۔ 1960میں پی آئی اے بوئنگ 707 طیارے کو بطور کمرشل استعمال کرنے والی پہلی ایشیائی ائیر لائن تھی، نیز کمپنی پارفٹ ایبل ادارہ بن گئی۔ 2 جنوری 1962 کو پی آئی اے کے کیپٹن عبداللہ بیگ نے بوئنگ 720 بی پرلندن سے کراچی جاتے ہوئے کمرشل ایئر لائن کو 938.78 کلومیٹر فی گھنٹہ (582.98 میل فی گھنٹہ) کی رفتار پر اڑا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا، یہ ریکارڈ آج بھی برقرار ہے۔ .1964 میں یہ چین کے لیے پرواز کرنے والی پہلی غیر کمیونسٹ ایئر لائن بن گئی۔ 10 مئی 1964 کو، پی آئی اے ماسکو کے راستے یورپ کے لیے پروازیں پیش کرنے والی پہلی غیر سوویت ایئر لائن بن گئی۔ایئر لائن نے 1985 میں ایمریٹس کے قیام میں مدد کی۔1972 میں مسافروں کی تعداد 698،000 تھی جو 1976 میں 2.2 ملین تک پہنچ گئی نیز اسی دوران اس کا ریونیو بھی تیزی ے بڑھا۔ 2004 میں پی آئی اے بوئنگ 777-200LR کی لانچ کسٹمر بن گئی۔ 10 نومبر 2005 کو، پی آئی اے نے بوئنگ 777-200LR کا استعمال ایک کمرشل ہوائی جہاز کے ذریعے دنیا کی سب سے طویل نان اسٹاپ پرواز کو مکمل کیا۔ یہ پرواز ہانگ کانگ اور لندن کے درمیان مشرقی راستے پر 22 گھنٹے 22 منٹ تک جاری رہی۔



پاکستان میں پانچ ایئرلائنز ہیں جن میں سے چار نجی ہیں۔ سبھی ایک جیسا ہی کرایہ لیتے ہیں اور ایک ہی سطح کی سروس فراہم کرتے ہیں۔ اس کے باوجود چار نجی ایئر لائنز تو پیسہ کماتی ہیں اور ٹیکس ادا کرتی ہیں لیکن دوسری جانب پی آئی اے کو گزشتہ سال 172 ارب روپے کی فروخت پر 88 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یہ 51 فیصد نقصان ہے اور یہ نقصان کا وہ تناسب جسے پورا کرنا مشکل ہے چاہے کوئی کتنی ہی کوشش کرلے۔  پی آئی اے کا اب تک کا مجموعی خسارہ 717 ارب روپے ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت 900 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ 

جتنی دیر آپکو یہ پڑھنے میں لگی اتنی دیر میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو 234,000 روپے کا نقصان ہو چکا جو تقریباً سات افراد کی کم از کم تنخواہ کے برابر ہے۔


پاکستان میں ایک مسافر طیارے پر 600 سے 700 افراد پر مشتمل عملہ موجود ہے جو دنیا کی کسی بھی منافع بخش ائیرلائن کے لیے مطلوبہ عملے کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے. دنیا کی صف اول کی ایئر لائنز میں ملازمین اور طیارے کا تناسب 200سے 220 ملازمین ہوتا ہے جبکہ پی آئی اے میں ملازمین اور طیارے کا تناسب 500 سے زیادہ ہے یعنی پی آئی اے میں ملازمین کا تناسب دنیا کی ایئر لائنز سے دگنے سے بھی زائد ہے. اس کے مقابلے میں قطر ائر لائن میں فی طیارہ ملازمین کی تعداد 133، ایمیریٹس میں 231، ترکش میں 94، جبکہ اتحاد ائر لائن میں 211 تھی۔ پی آئی اے کے پاس کل 31 جہاز ہیں، ان میں 15 کے لگ بھگ جہاز ایسے ہیں جو پی آئی اے نے لیز پر حاصل کر رکھے ہیں، کماتے روپے میں ہیں، ادائیگیاں ڈالر میں کرنا ہوتی ہیں

900 ارب روپے کی یہ رقم 15 آغا خان یونیورسٹی اسپتالوں، 60 لمس یونیورسٹیوں یا پورے پاکستان میں 18 ہزار اسکولوں کی تعمیر کے لیے کافی ہے۔

صرف گزشتہ 15 سالوں میں، ٹیکس دہندگان نے پاکستان ریلوے پر 783 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت تقریباً ایک ہزار ارب روپے ہے۔ ریلوے میں اس وقت 65 ہزار ملازمین ہیں جبکہ دوسری جانب ادارے کو ایک لاکھ 32 ہزار ریٹائرڈ ملازمین کو ہر ماہ پینشن دینی ہوتی ہے۔ ستر کی دہائی کے آخر تک پاکستان ریلوے ایک منافع بخش ادارہ تھا کیونکہ یہ کارگو کے شعبے میں بہت زیادہ کام کرتا تھا تاہم اس کے بعد سارا کارگو بزنس نجی اداروں کو منتقل ہو گیا۔

پاکستان سٹیل ملز25  ارب کی لاگت سے 1973 میں بنائی گئی

3500 ٹن فعال حالت میں اس کارخانے کی روزانہ ہیداوار تھی

14000 افراد اس مل میں کل وقتی یا جز وقتی ملازم ہیں

19000 ایکڑ سٹیل ملز کا ملکیتی رقبہ ہے جبکہ کارخانہ 4500 ایکٹر پر قائم ہے

110 میگا واٹ کا تھرمل بجلی گھر بھی مل میں واقع ہے جو نیشنل گرڈ کو بھی بجلی فراہم کرتا تھا

سنہ 2007ء تک پاکستان سٹیل ملز بھی ایک منافع بخش ادارہ تھا، جو نہ صرف ملکی ضروریات پوری کر رہی تھی بلکہ اس کی مصنوعات برآمد بھی کی جاتی تھیں لیکن پھر یہ منافع بخش ادارہ بھی خسارے کا شکار ہوتا چلا گیا اور 2015ء میں اس کی پیداوار کو بند کر نا پڑا۔ 2008ء سے 2023ء تک سٹیل ملز کا آپریشنل خسارہ 206 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ اربوں روپے کی مشینری ناکارہ ہو چکی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2015ء سے 2022ء تک ملک میں 18 ارب ڈالر کی سٹیل درآمد کی گئی ، یہی رقم پاکستان سٹیل مل پر خرچ کر کے اسے بحال کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت نے ایک تحریری بیان میں پاکستان سٹیل ملز کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ سندھ حکومت پاکستان اسٹیل ملز کی مکمل نجکاری کے خلاف ہے اور ادارے کے ملازمین کو بھی کسی صورت نوکریوں سے فارغ کرنے کے فیصلے کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔

پاکستان کے توانائی سیکٹر بالخصوص واپڈا کے ذیلی اداروں کے نقصانات ملکی معیشت کیلئے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بڑھ کر 2500ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جس کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔ آئی پی پیز معاہدے بھی پاور سیکٹر پر لٹکتی تلوار ہیں اور توانائی سیکٹر میں فوری اصلاحات کرکے بجلی کی چوری، ٹی اینڈ ڈی نقصانات اور گردشی قرضوں میں کمی لائی جائے ۔

22 جنوری 1991 کو نجکاری کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ 28 ستمبر 2000 کو ’’نجکاری کمیشن آرڈیننس 2000‘‘ کے تحت کمیشن کو ایک کارپوریٹ باڈی میں تبدیل کر دیا گیا تھا، جس سے اس کمیشن کی قانونی حیثیت مزید مضبوط ہو گئی تھی۔ 4 اگست 2017 کے بعد سے یہ کمیشن وفاقی حکومت میں نجکاری کی وزارت کے تحت کام کر رہا ہے۔

جنوری 1991 سے جون 2022 تک 178 سرکاری اداروں کی نجکاری کی جا چکی ہے۔ جبکہ ان 178 سرکاری اداروں کی نجکاری سے 649 ارب 11 کروڑ 40 لاکھ روپے حکومت پاکستان کے خزانے میں جمع ہوئے، 

یاد رہے کہ گزشتہ 6 مالی سالوں کے دوران وزارت نجکاری کو محکمہ فنانس کی جانب سے ایک ارب 9 کروڑ  60لاکھ  روپے اخراجات کی مد میں ادا کیے جا چکے ہیں، تاہم اس تمام عرصے میں وزارت نجکاری مالی سال 2018 سے مالی سال 2023 تک محض 2 ارب روپے کی نجکاری کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ رواں مالی سال 2024-2023 میں محکمہ نجکاری کو اخراجات کی مد میں 31 کروڑ روپے ادا کیے جائیں گے۔  

حوالہ جات:



Reference:

PIA goes from being a success story to the brink of collapse

Eye-watering losses

Tuesday, November 22, 2022

Pakistan Default Risk 2022

ہچکولے کھاتی معیشت کی کشتی، اب ڈوبی کہ کل ڈوبی
حالات بد سے بدتر ہوتے جاتے ہیں. کریڈٹ ڈیفالٹ کا رسک مستقل خطرہ بن چکا ہے. یہ اس سال کے شروع میں محض 4٪ تھا جو اکتوبر میں 52٪ تھا اور اب 92٪ کو کراس کررہا ہے.
https://jang.com.pk/news/1161900

کریڈٹ ڈیفالٹ سوایپ کیا ہے؟
ملک دیوالیہ کیسے ہوتا ہے اور دیوالیہ ہونے کے کیا نقصانات اور کیا نتائج ہوتے ہیں؟ 
جب ملک بیرونی قرضوں کی یا پھر درآمدات کی ادائیگیاں کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تب ملک معاشی طور پر دیوالیہ سمجھا جاتا ہے. 
آئندہ کوئی ملک یا بینک وغیرہ اس کو قرضہ نہیں دیتا، 
اس کی کریڈٹ ریٹنگ گر جاتی ہے اور باقی ممالک ادارے اس کے ساتھ کاروباری معاہدے وغیرہ کرنے سے کتراتے ہیں. 
بیرونی قرضے وقت پر ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے اس کے بیرونی اثاثہ جات وغیرہ قبضے میں لے لیے جاسکتے ہیں، 
اس کی درآمدات بند ہو سکتی ہے جس سے ملک میں اشیاء کی قلت ہو جاتی ہے، خاص کر پٹرولیم مصنوعات جیسا کہ حال ہی میں سری لنکا میں ہوا. 
اس ملک کی اپنی کرنسی تیزی سے گرنا شروع کردیتی ہے، جیسا کہ وینزویلا میں ہوا، اس کی کرنسی اتنی بے وقعت ہو گی کے سڑکوں پر بکھری تھی اور لوگ اس پر چل رہے تھے. 
پاکستان بھی قرضوں کے اس نہ ختم ہونیوالے سائیکل میں پھنس چکا ہے. جس کی نہ کوئی ترکیب ہے اور نہ کوئی حل، بہت قرضے لوٹانے کے لیے پھر اور قرضے لیتے جاو لیتے جاو۔ پاکستان کے برے ہوتے ہوئے معاشی اور سیاسی حالات دیکھیں تو بار بار خیال آتا ہے کہ سیاسی جماعتیں کس شوق میں اقتدار میں آتی ہیں؟ نہ کوئی معاشی پلان نہ کوئی مستقبل بینی بس کرسی میں نے لینی، فقط اقتدار کے شوق میں مررہی ہیں گولیاں کھا رہی ہیں مگر پہنچنا اسلام آباد ہی ہے، زندہ یا مردہ؟
موجودہ حالات دیکھیں تو لگتا ہے کہ ن لیگ اقتدار میں فقط اپنے گناہ بخشوانے ہی آئی تھی. 
مریم کو پروانہ رہائی مل گیا. 
وڈے کو سفارتی پاسپورٹ اور چھوٹے کا وزارت عظمیٰ کا تڑکا لگ گیا.
لیکن اس سب میں پاکستان کا کیا بنا؟ عوام کو کیا ملا؟
پاکستان کے حالات تو وہی رہے بلکہ بد سے بدتر ہورہے؟ 
پھر 13 جماعتوں کا ملک گیر عظیم ترین اتحاد بھی کس کام آیا؟ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، نام نہاد ہی سہی تھا مگر بیانیہ بھی گیا اور بھرم بھی رائیگاں.
بڑا شہرہ تھا شہباز سپیڈ کا. اب نہ سپیڈ نظر آتی ہے نہ کوئی شوبازی ہی دل بہلاتی ہے.
اسحاق ڈارترکش کا آخری تیر تھا، مگر بجھا بجھا، بے بسی کی تصویر دوست ملکوں سے معجزوں کے انتظار میں بیچارا.
ڈوبنا مقدر تھا تو ملاح کی تبدیلی کی کیا ضرورت تھی؟ اسی کے گناہ اسی کے سر چڑھنے دیتے. جہاں اتنا صبر کیا تھا کچھ ماہ اور کرلیتے، خلق خدا خود اسے تخت سے اتار پھینکتی نہ رہتا بانس اور نہ اب بجتی بانسری. مگر اقتدار اور کرسی کا لالچ شاید اس دنیا کا سب سے بڑا لالچ ہے.
سال 2022ء کو معاشی لحاظ سے دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک دور رواں سال کے ابتدائی 4 ماہ کا ہے۔ جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت قائم رہی جبکہ باقی دور جس میں مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت اتحادی حکومت قائم ہے۔
عمران خان کے خلاف 10 اپریل کو تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی تو اس وقت روپے کی قدر 186.72 روپے تھی جو بڑھ کر 240 روپے تک جا پہنچی تھی اور دمِ تحریر 224 روپے پر موجود ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرح سود جو اس سال اپریل میں 11 فیصد کے لگ بھگ تھی وہ 5 فیصد اضافے کے بعد 16 فیصد ہوگئی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح جو اپریل میں 13.4 فیصد پر تھی اب بڑھ کر 26 فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔
اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 6 ارب ڈالر سے زائد کے زرِمبادلہ ذخائر موجود ہیں جبکہ عمران خان کی حکومت کے اختتام کے وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 10 ارب ڈالر سے زائد موجود تھے۔ 



مانا کہ پی ٹی ائی کے دور میں کوئی دودھ شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں، مگراس وقت کے معاشی اعشاریے دیکھیں اور آج کے اعشاریے دیکھیں تو زمین آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے
جیسی بھی تھی پی ٹی آئی کی جی ڈی پی گروتھ 6 کے قریب چل رہی تھی. اب تو بیچ بچاو کی لگی پڑی ہے
پی ٹی آئی کوئی مثالی معاشی دور تو ہرگز نہ تھا مگر تاریخ میں پہلی بار ملکی ایکسپورٹ 30 ارب ڈالر سے اوپر جاپہنچی تھیں اور صنعتیں 12٪ سے پھل پھول رہی تھیں، اب ہر ماہ سنتے ہیں کہ ایکسپورٹ میں تنزلی ہے صنعتیں خواب خرگوش کے مزے لینے لگی ہیں۔
روشن ڈیجیٹل اکاونٹ بلاشبہ کپتان کا کارنامہ گردانا جا سکتا ہے، کہ تاریخ میں پہلی بار ترسیلات زر 31 ارب ڈالر سے اوپر جارہی تھیں اور اس اکاؤنٹ میں 5.7 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری بھی آئی تھی. 


مگر اب ہر روز سنتے ہیں کہ جب سے ن لیگ نے آئینی طریقے سے کپتان کو ہٹایا ہے تب سے دن رات تنزلی ہی تنزلی ہے، اور ہنڈی کا کاروبار پھر چاندی چمکا رہا ہے.
کہاں گے دعوے؟ ڈالر 200 کا کرنے کے؟ یاد رہے کپتان کو 182 پر آیئنی دیس نکالا ملا تھا.


ٹنڈ کرواتے اولے برسے کی مانند نئے سیٹ اپ کو ہنی مون پیریڈ میں ہی سیلاب نے آن لیا، اوپر سے روس یوکرین جنگ، اور رہتی کسر کووڈ کے بعد اچانک سرگرمیوں کی تیزی سے پیدا شدہ مہنگائی اور پھر عالمی کساد بازاری۔ مگر جناب عالمی کساد بازاری تو لگ بھگ طے شدہ ہی تھی. اگر یہ نظر نہیں آئی تو پھر 40 سالہ سیاسی تجربہ کس کام کا؟
ساری عقل و دانش تجربہ کاری اک طرف، مگر ہوس اقتدار اک طرف. وزیراعظم بننا تھا بن گے، کیس معاف کروانے تھے کروا لیے. مگر شاید گھاٹا کا سودا ہی کیا، بھرم بھی گیا اور الیکشن بھی. اب موہوم سی امید کہ کپتان کو کوئی ان دیکھی طاقت کسی طریقے رستے سے ہٹا دے تو ن لیگ پھر اکیلی معاشی چیمپئین. مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش میں خجل خواری نکلے.
دعا ہے اس وینٹی لیٹر پے لیٹی معیشت کو کسی دوست ملک یا کسی بینک سے وقتی آکسیجن مل جائے،
https://jang.com.pk/news/1161900

جب قرض واپس کرنے کے لیے قرض لینے پڑیں تب دراصل ایسا ملک دیوالیہ ہی ہوتا ہے، لیکن اس کو عارضی سہاروں کی بنیاد پر چلایا جارہا ہوتا ہے تاآنکہ وہ ملک معاشی اصلاحات کرے اور اس گھن چکر سے نکل آئے، مگر پاکستان کے موجودہ حکمرانوں، سیاستدانوں اور اشرافیہ کی پالیسیاں دیکھتے ہوئے ایسا فی الوقت ہوتا نظر نہیں آتا، 
بس وینٹی لیٹر کی مصنوعی آکسیجن پر جب تک جیے تب تک نہال. کیونکہ یہاں سب کی منزل کرسی ہے ناکہ معاشی بہتری۔ 

Thursday, July 14, 2022

آبادی کا ایٹم بم

آبادی کا بم! 
پاکستان نے ایک نیوکلیئر بم بنایا ہے دوسرا بم پاکستان آبادی کا بنا رہا ہے، جو 2040 میں پھٹ کر پاکستان کو تباہ کردے گا، بھوک افلاس بیروزگاری شاہینوں کو زومبیز میں بدل کررکھ دے گی، انسان انسان کو کھا رہا ہو گا،
بیسویں صدی کے دوران، زمین پر انسانی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا، آبادی 1900 میں 1.6 بلین سے بڑھ کر 2000 میں 6.1 بلین ہوگئی اور اسی رفتار سے اقوام متحدہ کے اندازے کیمطابق دنیا کی آبادی 2050 تک 11 ارب ہو جائے گی۔ اس نے کچھ سنگین مسائل، عالمی غربت سے لے کر ماحولیاتی انحطاط تک، پیدا کرنے شروع کیے. لیکن آبادی، غربت اور آلودگی کے درمیان روابط واضح نہیں ہیں. یہ کتاب روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح عالمی میڈیا نے آبادی کے اضافے کو ایک المیہ بنا کر پیش کیاہے، کتاب آبادی میں اضافے سے متعلق روایتی بحث کی بجائے یہ پہلو اجاگر کرتی ہے کہ ہماری آبادی سے متعلق تشویش دراصل حقیقی نہیں بلکہ فرض کی ہوئی ہے، بلکہ دراصل آبادی میں اضافہ اقتصادی، ماحولیاتی، یا تولیدی صحت کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہمارا خوف ہے جو ہمارا دھیان ان اہداف کے حصول سے ہٹاتا ہے۔


2017 میں 50 نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں سے پوچھا گیا کہ بنی نوع انسان کے لیے سب سے بڑا خطرہ کون سا ہے؟ سب نے متفقہ طور پر بڑھتی ہوئی آبادی اور گھٹتے ہوئے وسائل کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا. 
ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس 2022 کیمطابق دنیا کی آبادی اس نومبر میں 8 ارب ہوجائے گی
2030 تک 8.5 ارب ہو جائے گی
2050 تک 9.7 ارب ہو جائے گی
2080 تک 10.4 ارب ہو جائے گی 


دنیا کے 10 بڑی آبادی والے ممالک:
 1. 🇮🇳 ہندوستان | 1,426,409,584
 2. 🇨🇳 چین | 1,425,731,257
 3. 🇺🇸 امریکہ | 339,688,556
 4. 🇮🇩 انڈونیشیا | 277,148,717
 5. 🇵🇰 پاکستان | 239,693,115
 6. 🇳🇬 نائیجیریا | 222,914,017
 7. 🇧🇷 برازیل | 216,214,106
 8. 🇧🇩 بنگلہ دیش | 172,659,039
 9. 🇷🇺 روس | 144,528,119
 10. 🇲🇽 میکسیکو | 128,297,060
جن ممالک میں تیزی سے آبادی بڑھے گی پاکستان ان میں سے ایک ہے. پاکستان میں آبادی خطرناک تیز حد تک بڑھ رہی ہے مگر اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ پاکستان کو نہ اس کی کوئی فکر لاحق ہے اور نہ اس کو کنٹرول کرنے کی کوئی پلاننگ. 1950 میں آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 14 ویں نمبر پر تھا جبکہ آج پانچویں پر ہیں۔
اگر پاکستان کے آبادی کے اعدادوشمار دیکھیں تو ایسے لگتا ہے کہ پاکستان نے سارا زور اور ساری ترقی فقط آبادی بڑھانے میں ہی کی ہے، اگر دنیا میں اس کو تعمیری کام سمجھا جاتا تو پاکستان یقیناً تمغے کا حقدار بنتا ہے، چلیں خیر پاکستان نے کسی شعبے میں تو حیرت انگیز ترقی کررکھی ہے.
پاکستان کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے ایسے افراد جن کی عمریں 30 برس سے کم ہیں۔ ملکی آبادی کی عمر کی تقسیم آبادی کے مواقع کی فراہمی کے حوالے سے خوش آئند ہے کیونکہ یہ ایسی مدت ہوتی ہے جس میں کام کرنیوالی آبادی زیر کفالت افراد کی آبادی سے بڑھ جاتی ہے۔یہ صورتحال آبادی کے ثمرات (demographic dividend) پر منتج ہو سکتی ہے جو بلند معاشی نمو کی مدت ہوتی ہے جسے آبادی کی سازگار ساخت سے تقویت ملتی ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ آبادی کے ثمرات (demographic dividend) کا اقتصادی نمو پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، 1965 سے 1990 تک مشرقی ایشیا میں تیز رفتار اقتصادی ترقی ہوئی اور یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس نمو کا ایک تہائی حصہ آبادی کے ثمرات کی بدولت حاصل ہوا جب کہ باقی ماندہ سازگار اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا، آبادی کے ثمرات کے ذریعے معاشی نمو حاصل کرنے کے دو ذرائع ہیں۔

پاکستان میں روزانہ 16،473 بچے پیدا ہورہے ہیں یعنی ہر پانچ سیکنڈ میں ایک بچہ، جبکہ روزانہ 4،170 اموات ہو رہی ہیں یعنی ہر 21 سیکنڈ میں ایک وفات۔ یعنی مجموعی طور پر ہر 20 سیکنڈ کے بعد پاکستان کی آبادی میں 3 لوگوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
آزادی کے وقت پاکستان کی آبادی 4 کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ 
1971 میں پاکستان کی آبادی 6.53 کروڑ تھی جبکہ بنگلہ دیش کی آبادی 7.10 کروڑ تھی
آج 2022 میں بنگلہ دیش کی آبادی 16.74 کروڑ ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے،
خطے میں آبادی بڑھنے کی شرح پاکستان میں سب سے زیادہ ہے، پاکستان سے زیادہ صرف افغانستان ہی ہے،
افغانستان 2.3
ایران 1.4
بھارت 1.2
سری لنکا 0.6
چین 0.3
ہمسایہ اسلامی ملک ایران میں 1980ء میں فی خاتون بچوں کی اوسط 6.5  تھی. لیکن ایران نے بے ہنگم طریقے سے بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کی جامع پالیسی اپنائی، مسجد مدرسے کے اساتذہ اور امام نے منبر سے لوگوں کو آبادی کے کنٹرول کی تبلیغ کی. نتیجتاً ورلڈ بینک کی 2020ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں فی عورت شرح پیدائش 6.5 سے کم ہو کر 2.1 بچے رہ گئی،
دنیا میں پیدائش کی شرح فی عورت:

 نائجر: 6.9
  صومالیہ: 6.4
  چاڈ: 6.3
  کانگو: 6.2
  مالی: 6.0
  کار: 6.0
  انگولا: 5.4
  نائیجیریا: 5.3
  افغانستان: 4.8
  کیمرون: 4.5
  سوڈان: 4.5
  ایتھوپیا: 4.2
  پاکستان: 3.6
  عراق: 3.6
  مصر: 3.0
  اسرائیل: 2.9
  سعودی عرب: 2.5
 جنوبی افریقہ: 2.4
  وینزویلا: 2.2
  انڈونیشیا: 2.2
  ہندوستان: 2.1
  ترکی: 1.9
  ارجنٹائن: 1.9
  میکسیکو: 1.9
  فرانس: 1.8
  ڈنمارک: 1.7
  سویڈن: 1.7
  برازیل: 1.6
   امریکہ : 1.6
 آسٹریلیا: 1.6
 برطانیہ: 1.6
 نیدرلینڈز: 1.6
 جرمنی: 1.5
  روس: 1.5
 ناروے: 1.5
 سوئٹزرلینڈ: 1.5
 آسٹریا: 1.4
 کینیڈا: 1.4
 جاپان: 1.3
 چین: 1.3
 اٹلی: 1.2
 اسپین: 1.2
سنگاپور: 1.1
  ہانگ کانگ: 0.9
  جنوبی کوریا: 0.8

 🌍 دنیا: 2.3

جبکہ پاکستان میں آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ آبادی کو کنٹرول کرنا اسلامی ہے یا غیر اسلامی.
حالانکہ اگر منطقی انداز میں سوچا جائے تو یہ مسئلہ قطعی معاشی اور انسانی بقا کا ہے۔ لیکن پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر مسئلے میں مذہب کو لے آتے ہیں۔ 
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف آبادی پر کنٹرول کے لیے ہونے والے اخراجات کو سرمایہ کاری کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آپ ایک ڈالر سرمایہ لگائیں گے تو بدلے میں چار ڈالر فائدہ ہو گا۔ لندن کانفرنس 2012 میں پاکستان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جی ڈی پی کا 2.5 فیصد اس مقصد کے لیے صرف کرے گا مگر آج صحت، فیملی پلاننگ اور ویمن اپ لفٹنگ سمیت تمام سرکاری اور غیر سرکاری اخراجات ملائے بھی جائیں تو وہ جی ڈی پی کا 0.7 فیصد بھی نہیں بنتے
پنجاب کی آبادی میں اضافے کی شرح 2.1، 
سندھ میں 2.4،
خیبرپختونخوا میں 2.9 اور 
بلوچستان میں 3.4 فیصد ہے۔
موجودہ آبادی کی شرح کیمطابق پاکستان میں 2040 تک بارہ کروڑ ملازمتیں پیدا کرنا ہوں گی، 85،000 نئے پرائمری سکول بنانے ہوں گے اور 1.90 کروڑ نئے مکانات بنانا ہوں گے نئے بڑے آبی ذخائر بنانا ہوں گے پینے کا صاف پانی مہیا کرنا ہو گے، لیکن اگر ایک طرف نئے مکانات بنایں گے تو پھر زراعت کہاں پر کریں گے، کھانے پینے کی اشیا کہاں سے آیں گی جو ملک پہلے ہی اپنی کھانے پینے کی چیزیں باہر سے منگواتا ہو اور ڈالرز کی شدید کمی کا شکار ہو وہ بڑھتی آبادی کی ضروریات کیسے پوری کر پائے گا؟ 

ملک کے لحاظ سے اوسط عمر:
1. 🇲🇨 موناکو: 55.4 سال کی عمر
2. 🇯🇵 جاپان: 48.6
3. 🇩🇪 جرمنی: 47.8
4. 🇮🇹 اٹلی: 46.5
5. 🇦🇩 اندورا: 46.2
6. 🇭🇰 ہانگ کانگ: 45.6
7. 🇬🇷 یونان: 45.3
8. 🇸🇲 سان مارینو: 45.2
9. 🇸🇮 سلووینیا: 44.9
10. 🇵🇹 پرتگال: 44.6
.
14. 🇦🇹 آسٹریا: 44.5
19. 🇪🇸 اسپین: 43.9
24. 🇭🇺 ہنگری: 43.6
28. 🇨🇿 چیک: 43.3
29. 🇰🇷 جنوبی کوریا: 43.2
33. 🇨🇭 سوئٹزرلینڈ: 42.7
36. 🇹🇼 تائیوان: 42.3
37. 🇨🇺 کیوبا: 42.1
40. 🇨🇦 کینیڈا: 41.8
43. 🇫🇷 فرانس: 42.7
45. 🇺🇦 یوکرین: 41.2
47. 🇸🇪 سویڈن: 41.1
50. 🇬🇧 UK: 40.6
52. 🇷🇺 روس: 40.3
59. 🇹🇭 تھائی لینڈ: 39.0
61. 🇺🇲 USA: 38.5
62. 🇨🇳 چین: 38.4
63. 🇦🇪 UAE: 38.4
69۔ 🇦🇺 آسٹریلیا: 37.5
82. 🇸🇬 سنگاپور: 35.6
85۔ 🇺🇾 یوراگوئے: 35.5
95. 🇱🇧 لبنان: 33.7
97. 🇱🇰 سری لنکا: 33.7
101. 🇧🇷 برازیل: 33.2
111. 🇹🇷 ترکی: 32.2
117. 🇮🇩 انڈونیشیا: 31.1
119. 🇸🇦 سعودی عرب: 30.8
121. 🇮🇱 اسرائیل: 30.4
141. 🇮🇳 ہندوستان: 28.7
142. 🇿🇦 جنوبی افریقہ: 28.0
166. 🇪🇬 مصر: 24.1
180. 🇵🇰 پاکستان: 22.0
189. 🇿🇼 زمبابوے: 20.5
195. 🇰🇪 کینیا: 20.0
197. 🇪🇹 ایتھوپیا: 19.8
201. 🇦🇫 افغانستان: 19.5
207. 🇳🇬 نائجیریا: 18.6
221. 🇸🇩 سوڈان: 18.3
226. 🇺🇬 یوگنڈا: 15.7
227. 🇳🇪 نائجر: 14.8
درمیانی عمر وہ عمر ہے جو آبادی کو عددی لحاظ سے دو مساوی گروہوں میں تقسیم کرتی ہے۔ یعنی آدھے لوگ اس عمر سے چھوٹے ہیں اور آدھے بڑے ہیں۔
پاکستان میں آبادی میں اضافہ کا ایک بڑا مسئلہ معیاری تعلیم کی کمی ہے، پاکستان کی کم تعلیم یافتہ عورتوں میں فی کس اوسط 4.2 بچے ہے جبکہ پڑھی لکھی عورتوں میں 2.6 ہے.
پاکستان ایشیا میں پہلا ملک تھا جس نے فیملی پلاننگ پروگرام  شروع کیا تھا،"کم بچے خوشحال گھرانہ" فیملی پلاننگ 1965-70 کے پنج سالہ منصوبے کا حصہ تھی، کسی زمانے میں بچے دو ہی اچھے کے اشتہار چلنا شروع ہوئے تھے، جس پر مذہبی علماء بڑی دور کی کوڑیاں لائے، اور بچے دو ہی اچھے جلد ناکام ہوگئے، اگر بالفرض ان کی تاویلات کو درست مان بھی لیا جائے تو پھر ان علماء کے پاس دوسرے سوال کا کیا جواب یے؟ یعنی گھٹتے وسائل کا کیا حل پیش کیا ہے؟ اگر ایک کشتی میں چار بندوں کی گنجائش ہے اور آپ اس پر 8 بندے بٹھا دیں تو نتیجتاً کشتی اڑنے نہیں لگے گی بلکہ ڈوب جائے گی. یہی حال دنیا، خطہ یا ملک کا بھی ہے، ایک ناقدانہ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا جس رفتار سے ہم نے اپنے علماء کے کہنے پر آبادی بڑھائی ہے، کیا اس رفتار سے درکار وسائل بھی بڑھائے ہیں؟ یا وہ علماء کرام کا مسئلہ نہیں؟
مسئلہ زیادہ بچے پیدا کرنا نہیں بلکہ مسئلہ ان کی صحت، تعلیم اور روزگار ہے. ذرا سوچیے آپ کو علاج معالجے کی کتنی سہولیات دستیاب ہیں؟ کتنے بچے سکول جاپاتے ہیں، ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان میں 3 کروڑ کے قریب بچے سکول نہیں جاتے. تھوڑا آگے سوچیے پھر ان 3 کروڑ بچوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ معاشرے کے کارآمد حصہ بنیں گے یا پھر کسی گینگ کسی دہشت گرد تنظیم یا پھر کسی منشیات فروش گروپ کا ہتھیار بنیں گے؟ ملک کی ٪36 آبادی پہلے ہی غربت کے لکیر سے نیچے ہے پھر یہ مزید 3 کروڑ کس کھاتے میں جایں گے؟  کیا مدارس میں دی جانے والی مفت خیراتی تعلیم مسئلہ کا حل ہے؟ کیا ان مدارس میں دی جانیوالی تعلیم گھٹتے وسائل کا کوئی متبادل حل پیش کرتی ہے؟ کیا یہ تعلیم دنیا کے ایکو سسٹم اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے تحفظ وغیرہ کی طرف کوئی رہنمائی پیش کرتی ہے؟
’’جس ملک میں کم مسلمان ہیں وہاں جاکر بچے پیدا کریں‘‘ وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل


اگر تو بڑھتی آبادی کو بعین تعلیم و تربیت دی جائے تو وہ بہترین افرادی قوت بن کر ملک و قوم کی ترقی کیوجہ بن جاتی ہے لیکن غیر تربیت یافتہ آبادی پھر الٹا ملک کے وسائل پر بوجھ بن جاتی ہے. آج افرادی قوت کی بجائے علمی قوت کا دور ہے ایسے چھوٹے کم آبادی والے ملک بھی ہیں جو پاکستان سے کئی گنا زیادہ امیر ہیں، وجہ معیاری تعلیم و تربیت. اس لیے بچے اتنے پیدا کریں جتنے بچوں کی آپ صحیح پرورش کر سکیں جن کو ریاست روزگار اور بہتر مستقبل دے سکے. 
اب فیصلہ آپ کے ہاتھ آپ کی اپنی عقل کیمطابق. 

Tuesday, June 28, 2022

Energy Dilemma of Pakistan and Future of Electric Vehicles?

پاکستان میں بجلی کا بحران!

اس کائنات یا مزید کائناتوں میں اربہا سیارے ہوں گے، شاید کہیں کسی اور سیارے میں بھی زندگی ہو گی، مگر ہم نہیں جانتے اور نہ فی الوقت ہم وہاں شفٹ ہو سکتے ہیں، اس لیے جس سیارے پر ہم فی الوقت موجود ہیں تو کم از کم ہم کو اس کی قدر کرنی چائیے، اس میں زندگی جیسی سہولت کی حفاظت کرنی چائیے ناکہ ہم اسی جہاز میں سوراخ کرنا شروع کردیں جس جہاز میں ہم سفر کررہے ہیں،

ضرورت ایجاد کی ماں ہے، اور ہر ایجاد انسان کی سہولیات میں اضافہ کرتی ہے، مگر اگر اس سہولت کی قیمت پورے سسٹم کی تباہی ہو تو کیا ایسی سہولت کو ہم جاری رکھ سکتے ہیں یا اس کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں، مانا انسان خود غرض ہے، مگر باشعور بھی تو ہے؟ کیا شعور چھوٹے فائدے اور بڑے فائدے میں تمیز نہیں کرسکتا؟

انسان افریقہ سے نکلا تو پوری دنیا میں دور دراز علاقوں میں پھیلتا چلا گیا، جب آبادیاں بڑھیں تو ایک دوسرے کی طرف آمدورفت بھی بڑھی اور تجارتی لین دین بھی شروع ہو گیا، اس ٹرانسپورٹ کے لیے انسان نے پہیہ ایجاد کیا (3500 قبل مسیح عراق)، انسان کافی عرصہ تک تو اس پہیے کو گھوڑے، گدھے یا خچر سے دوڑاتا رہا،  لیکن وقت کیساتھ بڑھتی ضروریات، بڑھتی تجارت کے بڑھتے وزن کے سبب انسان اب اس پہیے کو زیادہ تیزی سے گھمانا چاہتا تھا، انسان نے گھوڑے سے آگے سوچنا شروع کیا، 


 پہلے پہل انسان نے بھاپ کے اسٹیم انجن ایجاد کیے، پھر فاسل ایندھن کی دریافت کے بعد فاسل ایندھن سے چلنے والے انجن ایجاد کیے، شروع میں فاسل ایندھن سستا بھی تھا وافر بھی تھا اور اس کے انجن کے نتائج بھی سب سے بڑھیا تھے، انسان نے باقی متبادل ٹیکنالوجیز کو ایک طرف رکھتے ہوئے فاسل ایندھن کے انجن کو ہی واحد فورس کے طور پر اپنا لیا، اور فاسل ایندھن کا شئیر 85٪ تک جاپہنچا. لیکن گزرتے وقت کیساتھ فاسل ایندھن کے سائیڈ ایفیکٹ بھی سامنے آنے لگے. ان میں سے سب سے بلند تھا، ماحولیاتی آلودگی! 

جب فوسل ایندھن، پیٹرولیم، مٹی کا تیل، قدرتی گیس یا کوئلے کو جلایا جاتا ہے، تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پیدا کرتے ہیں جو فضا میں داخل ہو کر ماحولیاتی تبدیلی یعنی گرمی کا سبب بنتی ہے۔ نیچے دیے گے گراف کیمطابق پہلے ہی ٹمپریچر 1.5 سے 2 ڈگری بڑھ چکا ہے،

لیکن انسان چونکہ فطرتاً خود غرض واقع ہوا ہے تو انسان نے بڑھتی آلودگی کو سیریس نہیں لیا، لیکن اب جب فاسل ایندھن کی قیمتیں انتہا درجے بڑھ گئی تو فطرتاً پھر انسان متبادل کم قیمت ٹیکنالوجی کی طرف متوجہ ہو گا. اب فاسل ایندھن کی بڑھتی قیمتیں ماحول کی بہتری کے لیے ایک انمول موقع بھی بن سکتی ہیں، بڑھی ہوئی قیمتیں یقیناً کنزیومر کو متبادل توانائی کی جانب پش کریں گی، مارکیٹ کے بدلتے رحجان کے پیش نظر سرمایہ دار بھی سولر اور ونڈ پاور پر تیزی سے سرمایہ کاری کریں گے. اور بالآخر گلوبل وارمنگ 1.5 ڈگری سیلسیس نیچے آسکے گی، اور ایکو سسٹم برقرار رہ سکے گا.

عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ کے مطابق فضائی آلودگی سے ہر سال دنیا بھر میں تیس لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

پاکستان بھی ماحولیاتی تبدیلیوں متاثر دس خطرناک ترین ممالک میں سے ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تنزلی سے قحط سالی سے زرعی زمین میں کمی اور اس کا غیر زرعی استعمال، مناسب پانی کی کمی، صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل، جنگلات کا کٹاؤ، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے.ایک تحقیق کے مطابق 2025 تک پاکستان کی آبادی تقریباً 23 کروڑ 40 لاکھ کیساتھ تقریباً 30 لاکھ مزید گاڑیاں بشمول موٹرسائیکلیں اور رکشے بڑھ جایں گی. ایک تحقیق کے مطابق 2100 تک پاکستان میں درجہ حرارت تقریباً 7.2 ڈگری درجے تک بڑھ جائے گا، جس کی وجہ سے زرخیز زمینیں بنجر ہونے جبکہ کچھ علاقوں میں رہنا بھی ممکن نہ رہے گا۔ 

اس لیے پاکستان کو جلد از جلد ہوش کے ناخن لینے چائیں۔

متبادل ماحول دوست توانائی میں پن بجلی سب سے بہتر سمجھی جاتی ہے، اور پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں،  
پاکستان اکنامک سروے کی تحقیق کیمطابق پاکستان پانی سے 60،000 میگاواٹ بجلی بنا سکتا ہے. پاکستان میں پانی گلیشیر سے 65 سے 75٪ جبکہ بارش سے 25 سے 35٪ حاصل ہوتا ہے. پاکستان دنیا میں پانی استعمال کرنے والے ممالک میں 4 نمبر پر ہے اور پاکستان دنیا کے ان 15 ممالک میں بھی شامل ہے جن کو مستقبل قریب میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوسکتا ہے، پاکستان ہر سال دریاوں سے 14.5 کروڑ ایکڑ فیٹ پانی حاصل کرتا ہے، لیکن پاکستان اس میں سے فقط 10٪ پانی ہی سٹور کرپاتا ہے جبکہ بقیہ پانی کو سمندر برد کردیتا ہے. انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے اعدادوشمار کیمطابق پاکستان ہر سال 22 ارب ڈالر کا پانی ضائع کر دیتا ہے. 
صرف کٹزارا ڈیم سے 15،000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، جنرل ایوب نے ورلڈ بینک سے درخواست کی تھی کہ پاکستان میں ڈیم بنانے والی جگہوں کی نشاندہی کرکے دیں، 1968 میں ورلڈ بینک کی ٹیم نے کٹزارا ڈیم کی نشاندہی کی تھی، یہ اسکردو سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے شیگر اور دریائے سندھ کے سنگم پر واقع ہے، کٹزارا ڈیم کی سب سے بڑی خوبی اس ڈیم کی عمر جوکہ 1000 سال ہو گی، مگر افسوس پاکستان میں الیکش ٹو الیکشن سیاسی معاشی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، اگر اس طرح کے ڈیمز بنائے گے ہوتے تو پاکستان میں پانی اور ماحول کی صورتحال کافی بہتر ہوتی۔
Reference may be made to Dr Pieter Lieftnick's report — pages 283 and 296

 بہرکیف پانی سے بجلی کی پیداوار کے لیے میگا پراجیکٹس کی ضرورت ہوتی ہے اور اس بجلی کی سب سے بڑی پرابلم اس بجلی کو کنزیومر تک پہنچانا ہے، جس کے لیے کھمبے اور تاروں کی لمبی لائن لگانی پڑتی ہے، جو جگہ بہ جگہ مختلف موسمیاتی اثرات یا حادثات میں خراب بھی ہوتی رہتی ہے اور اس کی مرمت دیکھ بھال بھی کافی مہنگی پڑ جاتی ہے، دوسری جانب لمبی لائنوں کے پھر لائن لاسز بھی بڑھتے جاتے ہیں. 

بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے ایمرجنسی میں کیے گے پرائیویٹ بجلی (IPP's) کے منصوبے:

کیا پاکستان میں بجلی کی بڑھتی قیمتوں کے ذمہ دار پرائیویٹ بجلی کے پیداواری منصوبے ہیں؟

جب ریاست پاکستان کے حکمران اپنی ضرورت کی بجلی بنانے میں ناکام رہے، تو پھر بجلی کی بڑھتی مانگ اور لوڈشیڈنگ کا اچانک حل نااہل حکمرانوں پرائیویٹ بجلی پیداواری کے منصوبے نکالا اور 1994 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے 17 نجی بجلی کی کمپنیوں سے معاہدے کیے جس سے وقتی طور پر بجلی کی کمی تو پوری کرلی گئی مگر یہ معاہدے مستقبل کے مہنگائی بم بننے لگے، کیونکہ یہ معاہدے ڈالر اور درآمدی ایندھن سے منسلک تھے، یعنی جب جب بیرونی ایندھن امپورٹ کرنا تھا تو نتیجتا" ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھنی تھی اور جب ڈالر نے مہنگا ہونا تھا تو لامحالہ درآمدی ایندھن کی لاگت بڑھنی تھی۔ یعنی یہ ایک ایسا گھن چکر میں معاہدہ تھا جس میں شکاری نے خود پھنس جانا تھا۔ اگر اسی پر بس کی جاتی تو بھی گردن شاید بچ جاتی مگر ن لیگ نے 1998 میں ان معاہدوں پر اعتراض کیا مگر پھر کیا ہوا کہ 2015 میں اس سے بھی چار قدم آگے چلے گے اور پاکستان کے انرجی سیکٹر کو بند گلی میں دھکیلنے کا پورا بندوبست کردیا۔ جب پاکستان کی ضرورت سے بھی زیادہ چین کی پرائیویٹ بجلی کمپنیوں سے بجلی خریدنے کے معاہدے کرلیے، یوں تو ساری دنیا ایسے منصوبے بناتی اور عمل کرتی ہے لیکن پاکستان کے اس منصوبے میں کچھ ایسی انوکھی باتیں تھیں جو آگے چل کر صارفین کی خودکشیوں کا سبب بننے جارہی تھیں۔

سب سے پہلی جو بری بات تھی وہ یہ کہ اس منصوبے میں بجلی درآمد شدہ فاسل فیول سے پیدا کی جانی تھی، یعنی کہ ایک طرف پاکستان کے فاسل درآمدی بل میں اضافہ ہونا تھا تو دوسری طرف دنیا میں جب بھی فاسل ایندھن کی قیمتیں بڑھنی تھیں تو پاکستان میں بجلی مہنگا ہونا لازم تھی۔

دوم: حکومت نے یہ بجلی پرائیویٹ سرمایہ داروں سے ڈالرز میں خریدنی تھی، جس کا سیدھا مطلب تھا کہ جب ڈالر مہنگا ہونا تھا تو پاکستان میں بجلی مہنگا ہونا لازم ہو گیا۔

 سوم: واپڈا ان بجلی گھروں کی پیدا شدہ بجلی کو خریدنے کا پابند ہو گا، بالفرض واپڈا یہ بجلی نہیں خریدتا تو حکومت پاکستان پیدا شدہ بجلی کی قیمت ادا کرنے کی پابند ہو گی،

چہارم: حکومت پاکستان ان بجلی گھروں سے بجلی وصول کرے یا نہ کرے ریاست ان بجلی گھروں کو ان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کیمطابق ادائیگی کرنے کی پابند ہو گی۔

اگر درج بالا شقوں کو دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ریاست نے انرجی پالیسی کو اس پرائیویٹ پالیسی کے ہاتھوں باندھ دیا۔ اب ایک طرف ریاست اس بجلی کی موجودگی میں متبادل سستی بجلی پیدا نہیں کرسکتی تھی تو دوم ریاست بجلی کی قیمتوں کے تعین کے بنیادی حق سے محروم ہو گی۔ اب ڈالر اور فاسل ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کے انوسار بجلی کی قیمتیں بڑھنا لازم تھا تو سیاسی جماعتوں نے اپنا ووٹ بینک بچانے کی خاطر اس کا حل سبسڈی نکالا۔ یعنی حکومت ان پرائیویٹ بجلی گھروں سے مہنگی بجلی خرید کر عوام کو سبسڈی پر سستی بجلی فراہم کرتی رہی، جو وقت کیساتھ ساتھ گردشی قرضے کا بم بنتی چلی گی۔

شاید یہ کھیل مزید جاری رہتا مگر آئی ایم ایف نے اس کھیل کو بند کرنے کا نوٹس دے دیا۔ اگر وقت کیساتھ ساتھ بتدریج بجلی مہنگی ہوتی رہتی تو اب اچانک اضافے پر عوام خود کشیوں پر مجبور نہ ہوتے، مگر ووٹ کی سیاست پاکستان کے پاور سیکٹر کو لے ڈوبی۔ 

اب بجلی تو ہے مگر اسے خریدنے کی سکت نہیں ہے!

پرائیویٹ بجلی پالیسی کی ہسٹری

آئی پی پیز اور ان کی متعلقہ رقوم کی فہرست جولائی 2023 تک یہ ہے۔

کمپنی کے نام اور رقم

  1. ACT ونڈ (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 40 ملین
  2. اے جے پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 10 ملین
  3. اپولو سولر ڈیولپمنٹ پاکستان لمیٹڈ 257 ملین روپے
  4. آرٹسٹک انرجی (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 75 ملین
  5. اٹلس پاور لمیٹڈ 2700 ملین روپے
  6. اٹک جنرل لمیٹڈ روپے 2750 ملین
  7. بیسٹ گرین انرجی پاکستان لمیٹڈ 137 ملین روپے
  8. چنار انرجی لمیٹڈ 15 ملین روپے
  9. چائنا پاور ہب جنریشن کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ 9210 ملین روپے
  10. چنیوٹ پاور لمیٹڈ 350 ملین روپے
  11. کریسٹ انرجی پاکستان لمیٹڈ 184 ملین روپے
  12. درال خواڑ HPP روپے 100 ملین
  13. اینگرو پاورجن قادر پور لمیٹڈ 1000 ملین روپے
  14. اینگرو پاورجن تھر (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 4310 ملین
  15. فوجی کبیر والا پاور کمپنی لمیٹڈ 500 ملین روپے
  16. ایف ایف سی انرجی لمیٹڈ روپے 100 ملین
  17. فاؤنڈیشن پاور کمپنی ڈہرکی لمیٹڈ 2500 ملین روپے
  18. فاؤنڈیشن ونڈ انرجی-I لمیٹڈ 350 ملین روپے
  19. فاؤنڈیشن ونڈ انرجی II (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 350 ملین
  20. گل احمد ونڈ پاور لمیٹڈ 400 ملین روپے
  21. ہالمور پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ 1600 ملین روپے
  22. حمزہ شوگر ملز لمیٹڈ 20 ملین روپے
  23. ہڑپہ سولر (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 15 ملین
  24. ہوا انرجی (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 50 ملین
  25. Huaneng Shandong Ruyi Energy (Pvt) Ltd Rs10004mn
  26. ہائیڈرو چائنا داؤد پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ 295 ملین روپے
  27. جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز لمیٹڈ 20 ملین روپے
  28. جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز لمیٹڈ 70 ملین روپے
  29. جھمپیر پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 50 ملین
  30. کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ-یونٹ-2 8750.63 ملین روپے
  31. کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ-یونٹ-3 2668.49 ملین روپے
  32. کروٹ پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 631 ملین
  33. کوہ نور انرجی لمیٹڈ 800 ملین روپے
  34. کوٹ ادو پاور کمپنی لمیٹڈ 4250 ملین روپے
  35. لال پیر پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 2000 ملین
  36. لاریب انرجی لمیٹڈ 125 ملین روپے
  37. لبرٹی ڈہرکی پاور لمیٹڈ 1500 ملین روپے
  38. لبرٹی پاور ٹیک لمیٹڈ 2050 ملین روپے
  39. لکی الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹڈ 5500 ملین روپے
  40. ماسٹر ونڈ انرجی لمیٹڈ روپے 50 ملین
  41. میٹرو پاور کمپنی لمیٹڈ 50 ملین روپے
  42. نارووال انرجی لمیٹڈ 2500 ملین روپے
  43. نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ 9000 ملین روپے
  44. نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ 13000 ملین روپے
  45. نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ 2200 ملین روپے
  46. نشاط چونیاں پاور لمیٹڈ 1600 ملین روپے
  47. نشاط پاور لمیٹڈ 2000 ملین روپے
  48. اورینٹ پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ 1600 ملین روپے
  49. پاک جنرل پاور لمیٹڈ 2500 ملین روپے
  50. پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (مالاکنڈ-III) 250 ملین روپے
  51. پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ 8317 ملین روپے
  52. پنجاب تھرمل پاور پرائیویٹ لمیٹڈ 750 ملین روپے
  53. قائد اعظم سولر پاور پرائیویٹ لمیٹڈ 50 ملین روپے
  54. قائداعظم تھرمل پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 7000 ملین
  55. روش پاک پاور لمیٹڈ 1750 ملین روپے
  56. آر وائی کے ملز لمیٹڈ 20 ملین روپے
  57. سچل انرجی ڈویلپمنٹ (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 139 ملین
  58. سیف پاور لمیٹڈ 2250 ملین روپے
  59. سیفائر الیکٹرک کمپنی لمیٹڈ 2500 ملین روپے
  60. سیفائر ونڈ پاور کمپنی لمیٹڈ 15 ملین روپے
  61. سٹار ہائیڈرو پاور لمیٹڈ 100 ملین روپے
  62. ٹیناگا جنراسی لمیٹڈ روپے 600 ملین
  63. تھل انڈسٹریز کارپوریشن لمیٹڈ 50 ملین روپے
  64. تھل نووا پاور تھر (پرائیویٹ) لمیٹڈ 1302 ملین روپے
  65. تھر کول بلاک-1 پاور جنریشن کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ 3325 ملین روپے
  66. تھر انرجی لمیٹڈ 2716 ملین روپے
  67. حب پاور کمپنی لمیٹڈ 2000 ملین روپے
  68. تھری گورجز فرسٹ ونڈ فارم پاکستان (پرائیویٹ) لمیٹڈ 25 ملین روپے
  69. تھری گورجز سیکنڈ ونڈ فارم پاکستان لمیٹڈ 98 ملین روپے
  70. تھری گورجز تھرڈ ونڈ فارم پاکستان (پرائیویٹ) لمیٹڈ 110 ملین روپے
  71. ٹریکن بوسٹن کنسلٹنگ کارپوریشن (پرائیویٹ) لمیٹڈ 25 ملین روپے
  72. ٹریکن بوسٹن کنسلٹنگ کارپوریشن (پرائیویٹ) لمیٹڈ 25 ملین روپے
  73. ٹریکن بوسٹن کنسلٹنگ کارپوریشن (پرائیویٹ) لمیٹڈ 25 ملین روپے
  74. اوچ پاور لمیٹڈ روپے 1000 ملین
  75. Uch-II پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 7000 ملین
  76. UEP ونڈ پاور (Pvt) Ltd Rs149mn
  77. یونس انرجی لمیٹڈ 100 ملین روپے
  78. Zephyr Power (Pvt.) Limited Rs40mn
  79. زورلو انرجی پاکستان لمیٹڈ۔ 25 ملین روپے

کل 141.99 بلین روپے

حال ہی میں حکومت نے گردشی قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے  انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو 142 ارب روپے کے واجبات کو ادا کیے ہیں۔

پرائیویٹ بجلی پالیسی کا نتیجہ اور پالیسی کے مضمرات

ڈائنامک ماڈل کے نتائج کی بنیاد پر، پاکستان کے بجلی کے نظام کی حرکیات کے حوالے سے اس پالیسی کے کئی اہم مضمرات سامنے آتے ہیں:

(i) یہ ماحول دوست نہیں ہے، 

(ii) بجلی کے نرخ طویل مدت تک بڑھتے دکھائی دیتے ہیں، (iii) بجلی کی طلب اور رسد کے درمیان فرق کم ہوتا نظر نہیں آتا، اور 

(iv) یہ درآمد شدہ فرنس آئل پر انحصار بڑھاتا ہے۔


گورنمنٹ آف پاکستان کا بجلی کا آرگنائزیشن چارٹ


بجلی مہنگی ہونے کی سدا بہار بڑی وجہ "بجلی چوری"

بجلی کی ترسیل کا نظام
پاکستان میں 8 بڑے گرڈ سٹیشنز ہیں جن میں ایک پشاور، ایک صوبہ سندھ، ایک بلوچستان اور پانچ گرڈ سٹیشنز صوبہ پنجاب میں واقع ہیں۔ بنیادی طور پر پاکستان میں 50 ہرٹز کی فریکوئنسی استعمال ہوتی ہے، اگر بجلی کی سپلائی 50 اعشاریہ آٹھ سے اوپر ہوتی ہے تو پھر سسٹم ٹرپ کرجاتا ہے یعنی وہ بند ہوجاتا ہے اور اگر بجلی کی ترسیل 50 سے کم یعنی 49 پر آتی ہے تب بھی وہ گرڈ یا سسٹم ٹرپ کر جاتا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی ترسیل یا ٹرانسمیشن کا کام نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے پاس ہے۔ این ٹی ڈی سی 550 کے وی، 220 کے وی اور 120 کے وی کی ٹرانسمیشن لائنوں اور گرڈ سٹیشنوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس وقت این ٹی ڈی سی کے زیرِ انتظام 500 کے وی کے 17 گرڈ سٹیشن ہیں جو 500 کے وی کی ٹرانسمیشن لائنوں سے منسلک ہیں۔ ان ٹرانسمیشن لائنوں کی لمبائی 8 ہزار 388 کلومیٹر ہے۔ اس کے علاوہ 220 کے وی کے 140 گرڈ سٹیشن 11 ہزار 611 کلومیٹر کے ٹرانسمیشن سسٹم سے منسلک ہیں۔مگر پاکستان میں بجلی کی پیداوار پر جس قدر توجہ دی گئی اتنی توجہ بجلی کی ترسیل یعنی بجلی گھروں سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں تک فراہمی پر نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے کہیں بجلی کی ترسیل کا نظام اوور لوڈ ہے تو کہیں گنجائش سے کم استعمال ہورہا ہے۔ دونوں وجوہات کی وجہ سے صارفین کو بجلی کے اضافی بلوں کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔

ذرائع کیمطابق سال 2022 میں بجلی چوری اور لائن لاسز 589 ارب کے لگ بھگ رہے
حکومت نے بجلی فراہم کی 3781 ارب روپے
بجلی کے بل وصول ہوئے 3192 ارب روپے
حکومت کا خسارہ 589 ارب روپے
سب سے زیادہ بجلی چوری پشاور، سکھر، حیدرآباد، کوئٹہ اور قبائلی علاقوں میں ہوتی ہے، جہاں 737 ارب روپے کی بجلی مہیا کی جاتی ہے جبکہ بل صرف 489 ارب روپے وصول ہوتے ہیں۔
پھر اس چوری شدہ بجلی کا خسارہ حکومت ان لوگوں پر ڈال دیتی ہے جو بل ادا کرتے ہیں۔


ایک اور مسئلہ ضرورت سے زائد بجلی کی پیداوار: 
ترقی کرتی ہوئی معیشت کو توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہر 10 سال بعد بجلی کی پیدواری صلاحیت میں 50 فیصد تک اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ تو کیا گیا، لیکن بجلی کے استعمال میں اس سطح پر اضافہ نہیں ہو سکا۔ اس کے علاوہ بجلی کی پیداوارنجی شعبے کے حوالے کرنے، یعنی پرائیویٹائزیشن کی وجہ سے بجلی کی پیداواری لاگت بڑھتی رہی۔ معاشی ترقی کی شرح انتہائی کم ہونے اور بجلی کی پیدواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے انڈسٹریل اور تجارتی استعمال میں بھی اضافہ نہیں ہو سکا، بلکہ ڈومیسٹک یا گھریلو استعمال میں بھی اس تناسب سے اضافہ نہیں ہو سکا، جس کی توقع تھی۔
اس وقت پاکستان میں لگ بھگ 41 ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگے ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان کی بجلی کی ضرورت جو موسم گرما میں پیک پر لگ بھگ 23 سے 24 ہزار میگا واٹ ہوتی ہے جبکہ موسم سرما میں گھٹ کر 10 سے 12 ہزار تک آجاتی ہے۔ جبکہ معاہدوں کیمطابق پاکستان پرائیوٹ بجلی بنانے والے پلانٹس سے بجلی لے یا نہ لے ان کو ان کی کپیسٹی کے حساب سے پیمنٹ کرنی ہی پڑتی ہے۔ پرائیوٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت لگ بھگ 25 ہزار میگا واٹ ہے.
مزید براں پاکستان کی بجلی کی ترسیل کی صلاحیت بھی پیداوار سے بہت کم ہے، تو پھر ترسیل کے نظام کو بہتر بنائے بنا پیداوار بڑھانے کا جواز بنتا نہیں۔
پاکستان میں فی الوقت بجلی کے پیداواری ذرائع:

درج بالا فیگرز کیمطابق پاکستان کل بجلی کا 40٪ خود تیار کررہا ہے جبکہ بقیہ 60٪ بجلی پاکستان درآمد کررہا ہے، سیدھی سی بات ہے پاکستان بجلی تک میں خود کفیل نہیں ہو سکا ہے، اب جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے یا آئل گیس کوئلہ مہنگا ہوتا ہے تو پاکستان میں بجلی مہنگی ہو جاتی ہے، اور یہ سب پاکستان کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔بجلی پیدا کرنے والے تمام ذرائع میں سب سے سستی بجلی نیوکلیئر پاور پلانٹس سے حاصل ہوتی ہے جس کی فی یونٹ قیمت 1.16روپے ہے۔ جو مجموعی پیداوار کا محض 8 فیصدی ہے۔


ملک میں سستی توانائی کی شدید قلت ہے، مزید یہ کہ تھرمل بجلی دن بہ دن مہنگی ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ ہے کہ فاسل ایندھن کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ پاکستان پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، پاکستان اکنامک سروے کیمطابق پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ:

پاکستان اقتصادی سروے کے اعداد و شمار ، پاور سیکٹر کا سرکلر قرض

2008 میں ، 161 بلین

2013 میں ، 450 بلین

2018 میں ، 1.148 ٹریلین

مارچ 2022 ، تک 2.467 ٹریلین روپے ہو چکا ہے جبکہ

تخمینہ ہے کہ 2025 تک یہ 4 کھرب تک پہنچ جائے گا، تو ایسے میں حکومتی سستی بجلی ناممکن ہو جائے گی۔ حکومت بجٹ 2022 میں بجلی مزید مہنگی کرنے جا رہی ہے۔

 یکم جولائی سے فی یونٹ بجلی 3 روپے 50 پیسے مہنگی ہو جائے گی

یکم اگست سے فی یونٹ بجلی مزید ساڑھے 3 روپے مہنگی ہوجائے گی،

 یکم اکتوبر 2022 سے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں مزید 91 پیسے فی  یونٹ اضافہ کیا جائے گا اور یکم اکتوبر سے بجلی کا فی یونٹ بڑھ کر25 روپے ہو جائے گا۔

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قیمت بڑھانے سے بجلی کے گردشی قرضے کم ہو جایں گے یا بجلی کے بقیہ مسائل بھی حل ہو جایں گے؟ تو جواب ہے نہیں، بلکہ یہ اضافہ محض ٹیکس کولیکشن کا ہتھیار ثابت ہو گا، جبکہ بجلی کے مسائل جوں کے توں برقرار رہیں گے، اس کی وجہ ہے کہ تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد پاکستان نے بجلی کی انرجی کی کوئی پائیدار پلاننگ ہی نہیں کی، ہر حکومت ڈنگ ٹپاو پالیسی بناتی ہے جو پاور سیکٹر کے مسائل حل کرنے کی بجائے مزید گھمبیر کر دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایل این جی گیس کا گردشی قرضہ بھی 650 ارب روپے سے اوپر جا چکا ہے۔ گیس بھی عالمی مارکیٹ میں نایاب ہوتی جارہی ہے، 

تھرکول میں کوئلے کے بے انتہا ذخائر کی عوام کو خوشخبری بہت سنائی جاتی ہے لیکن حقائق دیکھیں تو دلی دوراست، 


تھرکول کے کوئلے سے بجلی کا پہلا منصبہ 660 میگا واٹ کا 2020 میں آپریشنل ہوا تھا، جو اب بڑھ کر 1320 میگا واٹ پیداوار تک پہنچ چکا ہے، لیکن پاکستان کوئلے سے ٹوٹل 5280 میگا واٹ بجلی بنا رہا ہے اس طرح بقیہ 3960 میگا واٹ بجلی امپورٹڈ کوئلے سے بنائی جا رہی ہے، کوئلے کی قیمت بھی عالمی مارکیٹ میں دن بدن بڑھتی جارہی ہے، 

درج بالا حقائق سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پاکستان سستی اور ماحول دوست توانائی پیدا کرنے میں تاحال ناکام ہے، پانی کی بجلی سستی اور ماحول دوست ہے لیکن اس کے لیے درکار بڑے فنڈز اور زیادہ درکار وقت کا پاکستان متحمل نہیں، فاسل ایندھن سے تیارکردہ بجلی دن بدن مہنگی ہوتی جارہی ہے اور یہ ماحول دوست بھی نہیں ہے۔ ایسے میں بالآخر سوئی یقینا سولر انرجی پر ہی جاکر ٹکتی ہے، 

سولر انرجی

سورج زمین کے قریب ترین ستارہ ہے۔ 150 ملین کلومیٹر

شمسی توانائی تب سے موجود ہے جب سے سورج موجود ہے یعنی 5 ارب سال سے۔ لیکن انسان اس کو ہزاروں سال سے ہی بروے کار لا رہا ہے، انسان نے سردی سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنے گھروں کے منہ جنوب کی طرف رکھنے شروع کیے.

سورج کی روشنی میں بے پناہ طاقت ہے اور ہم اس سے اپنی سوچ سے بھی زیادہ توانائی حاصل کرسکتے ہیں۔

دنیا تیزی سے شمسی توانائی کی طرف جا رہی ہے، 

چین اس وقت سولر انرجی میں 253 گیگا واٹ کیساتھ سرفہرست ہے، امریکہ 76 گگا واٹ، جاپان 67، جرمنی 53 اور بھارت 40 گگا واٹ پیداوار کیساتھ 5 نمبر پر ہے، اس فہرست میں پاکستان کا دور دور تک کوئی نام نشان نہیں ہے،



ساری دنیا سولر انرجی پر بھرپور توجہ دے رہی ہے، امریکہ، یورپی یونین، آسٹریلیا اور بھارت تو سولر پینل کی درآمد پر 50٪ سبسڈی دے رہے ہیں، چین نے 2010 میں ہی سولر بجلی کی اہمیت کے پیش نظر ہنگامی بنیادوں پر لوگوں کو خصوصی پیکج اور رعایتں دی. بھارت 2030 تک 450 گیگا واٹ سولر بجلی کے ٹارگٹ پر کام کررہا ہے، جس سے بھارت 2040 تک اپنی کل بجلی کا 40٪ سولر پر کنورٹ کرچکا ہو گا. مگر پاکستان میں گنگا الٹی ہی بہتی ہے پاکستان کا اس طرح کا نہ کوئی پلان ہے اور نہ کوئی ٹارگٹ، کچھ لوگوں نے اپنی ہمت سے سولر پینل لگائے تھے وہ نیٹ میٹرنگ کے ذریعے واپڈا کو بجلی دے رہے تھے، واپڈا ان سے بجلی 9 روپے میں لے کر آگے 16 روپے میں بیچ رہی تھی، لیکن اس کے باوجود پاکستان ماحول دوست بجلی کو توجہ دینے کو تیار نہیں، دنیا سولر پینل کی بجلی بنانے کی استعداد کار دن بدن بڑھا رہی ہے، جو کچھ سال پہلے 16٪ تھی، اب 26٪ تک بڑھ چکی ہے اور امید ہے اگلے چند سالوں میں یہ 60٪ ہو جائے گی، پھر واپڈا کے کھمبے تاریں بجلی گھر سب بیکار ہو جایں گے، 

لیکن پاکستان میں قابل تجدید بجلی کا شئیر اس وقت نہ ہونے کے برابر ہے تقریبا 3٪. 

پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے مطابق، 2020 تک، فاسل ایندھن کا حصہ کل بجلی کی پیداوار میں تقریباً 63 فیصد ہے، اس کے بعد پن بجلی 29 فیصد، جوہری توانائی 5 فیصد، اور قابل تجدید توانائی تقریباً 3 فیصد ہے۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے مطابق، مالی سال 22 میں کل نصب شدہ صلاحیت تقریباً 43,775 میگاواٹ (میگاواٹ) تک پہنچ گئی۔


 جیواشم ایندھن، بشمول تیل، گیس، اور کوئلہ، ملک کی بجلی کی پیداوار کا ایک اہم حصہ ہے، جس کی مجموعی صلاحیت تقریباً 26,683 میگاواٹ ہے۔ تاہم، قابل تجدید توانائی کے ذرائع، خاص طور پر شمسی اور ہوا، نے رفتار حاصل کی ہے، جس سے پاکستان کے توانائی کے مکس میں تنوع پیدا ہوا ہے۔


 شمسی توانائی کی تنصیبات میں قابل ذکر نمو دیکھنے میں آئی ہے، جس کی تنصیب کی صلاحیت FY22 تک 2,368 میگاواٹ سے زیادہ ہے، جو شمسی توانائی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور صلاحیت کی عکاسی کرتی ہے۔

ستمبر 2023 تک، پاکستان میں 700 واٹ کے سولر پینل کی قیمت روپے کے درمیان ہے۔ 55,000 سے روپے 90,000


 قیمت کی یہ حد کئی عوامل سے متاثر ہوتی ہے، بشمول برانڈ، قسم، معیار، کارکردگی، اور شمسی پینل کی متوقع عمر۔


 700 واٹ کا سولر پینل اپنی اعلیٰ پیداوار، کارکردگی، خلائی اصلاح اور لاگت کی تاثیر کے لیے مشہور ہے۔

 حالیہ برسوں میں، پاکستان نے شمسی توانائی کے منصوبوں میں، ملکی اور غیر ملکی دونوں طرح کی خاطر خواہ سرمایہ کاری دیکھی ہے۔ اس نے قابل تجدید توانائی کے لیے ایک فنانسنگ اسکیم متعارف کرائی ہے تاکہ نجی شعبے کے صارفین کو قابل تجدید بجلی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے فنانسنگ دستیاب ہو سکے۔ فروری 2022 تک، اسٹیٹ بینک نے قابل تجدید توانائی میں 1,375 میگاواٹ کی مشترکہ صلاحیت کے ساتھ 1,175 سے زائد منصوبوں کو 74 ارب روپے (تقریباً 400 ملین ڈالر) فراہم کیے تھے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کیمطابق پاکستان سولر سے 40 گیگا واٹ بجلی بنا سکتا ہے. 
سولر انرجی کی حوصلہ افزائی کے لیے سولر پینلز پر عائد ٹیکس کو جلد از جلد ختم کیا جانا چاہیے۔ محکمہ توانائی پنجاب کی جانب سے گھروں کو سولر پینل دینے کی تجاویز حکومت پنجاب کو پیش کردی گئی ہیں،وفاقی حکومت کیساتھ مشاورت کے بعد سولر پینل کی تقسیم کے منصوبے کو حتمی شکل دی جائے گی۔سبسڈی پرسولر پینل دینے کیلئے صارفین کے گھروں کا انتخاب بجلی کے بلوں کو دیکھ کر کیا جائے گا۔

بجٹ 2022 دستاویز کے مطابق بینک 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو آسان اقساط پر سولر پینل دیں گے۔ اس سے ماحول دوست بجلی کو فروغ ملے گا اور مہنگے تیل اور گیس کی درآمد میں کمی آئے گی۔ لیکن سولر پالیسی اپناتے وقت ماضی کی غلطیوں کو بھی سامنے رکھنا چاہیے، جس حکومت نے 2015 میں مہنگی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگائے اور پھر جن کو بجلی پیدا کیے بنا ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور وہ منصوبے آج پاکستان کے گلے پڑے ہوئے ہیں، وہی حکومت آج سولر پینلز امپورٹ کے منصوبے بنا رہی ہے، یہ تو پھر آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق ہو گا، اس ٹیکس چھوٹ سے حکومت کے من پسند لوگ فائدہ اٹھایں گے، اپنی جیبیں گرم کریں گے اور بدلے میں ڈالر اور تیزی سے ملک سے نکل جایں گے، اس چیز سے بچنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ سولر پینل امپورٹ کرنے کی بجائے ان کو اپنے ملک میں تیار کرنے کے منصوبے لگائے، اپنے ملک میں اس کے لیے خام مال بھی دستیاب ہے، اس طرح ڈالرز کا اخراج رک جائے گا اور ملک سولر پینل میں خودکفیل بھی ہو جائے گا. دوسری طرف ایسی خبریں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ چین کی کچھ کمپنیاں اپنے سولر پلانٹ لگا بجلی کے بلوں کے ذریعے اپنے اخراجات اور منافع وصول کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں، اس سے بھی امپورٹ بل میں کمی لائی جاسکتی ہے، لیکن سوال آخر وہی کہ پھر اس سب میں وفاقی وزیر اور سرخ قلم کے ہاتھ کیا آئے گا؟ 

سولر پینلز ناصرف گھروں کی بجلی بنانے کے آ سکتے ہیں بلکہ اب سولر پینلز سے لیس سولر کاریں بھی مارکیٹ میں آ رہی ہیں۔

کیا بیٹریوں کے بغیر بجلی ذخیرہ کرنا ممکن ہے؟

 جی ہاں، بیٹریوں کے استعمال کے بغیر بجلی ذخیرہ کرنا ممکن ہے۔ توانائی ذخیرہ کرنے کی بہت سی جدید ٹیکنالوجیز تیار کی گئی ہیں جو مقامی طور پر دستیاب، محفوظ، اور کم لاگت کے طریقے استعمال کرتی ہیں۔


فاسل ایندھن کا متبادل، سولر انرجی

پاکستان روزانہ 56 ملین لیٹر فاسل ایندھن استعمال کرتا ہے جس کی لاگت 3.3 بلین بنتی ہے پاکستان فاسل ایندھن کے استعمال کنندہ میں دنیا میں 33 ویں نمبر پر ہے۔ فاسل ایندھن کے استعمال کی تفصیل:

موٹر سائیکلیں 23 ملین ۔

کاریں 5 ملین

کھپت کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

ٹرانسپورٹ 79٪۔

پاور سیکٹر  11.84%

صنعتیں 7.38٪۔

حکومت 1.54 فیصد۔

گھروں میں 0.15٪۔

دنیا تیزی کیساتھ فاسل سے سولر انرجی پر شفٹ ہو رہی ہے، یورپ نے 2035 کے بعد فاسل ایندھن والی گاڑیوں پر پابندی لگا دی ہے۔البتہ پاکستان نے 2030 تک 30٪ گاڑیوں کو الیکٹرک پر منتقل کرنے کی پالیسی بنا رکھی ہے۔ فاسل ایندھن کی بڑھتی قیمتوں نے فاسل ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کی پر کلو میٹر کاسٹ حد درجہ بڑھا دی ہے، اور اگر روس نے تیل گیس کی ترسیل روک دی تو تیل کی قیمت 400 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے۔

پیٹرول کار 1300 سی سی شہر کے اندر 11 کلومیٹر کی اوسط سے چلنے والی  کی قیمت 20 روپے / کلومیٹر ہے۔

پٹرول کار 660 شہر میں 17 کلومیٹر کی اوسط سے چلنے والی کی قیمت 12 روپے فی کلومیٹر پڑ رہی ہے۔

ہائبرڈ کار 25 کلومیٹر کی قیمت 10 روپے / کلومیٹر

پلگ ان ہائبرڈ کار 40 کلومیٹر لاگت 5 روپے / کلومیٹر

پاکستان میں چونکہ ابھی چارجنگ کی سہولت بہت ہی قلیل ہے 


تو فی الوقت پہلا آپشن ہائبرڈ گاڑی کو لیتے ہیں؛

ہائبرڈ کاریں

ہائبرڈ گاڑی 10 سے لے کر 50٪ تک فیول کی بچت کرتی ہے، 

ہائبرڈ گاڑیوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: عام ہائبرڈ کار اور پلگ ان الیکٹرک کار۔

ایک عام ہائبرڈ کار میں دو انجن ہوتے ہیں ایک پٹرول جبکہ دوسرا بیٹری سے چلنے والی موٹر۔ بجلی کے نظام میں ایک چھوٹی بیٹری ہوتی ہے جس کی طاقت ایک سے تین کلوواٹ ہوتی ہے۔ گاڑی چلنے کے دوران بیٹری کو ساتھ چارج بھی کرتی رہتی ہے، بریک لگانے سے پیدا ہونے والی توانائی سے بھی بیٹری کو چارج کیا جاتا ہے، گاڑی میں موجود کمپیوٹر سسٹم گاڑی کے چلنے کے دوران درکار قوت اور سپیڈ کیمطابق گاڑی کو پٹرول یا پھر بیٹری سے چلاتا ہے، سگنکل وغیرہ پر گاڑی کو بیٹری ٹرانسفر کردیا جاتا ہے، شہر کے اندر ہائبرڈ گاڑی بہت پٹرول کی بچت کرتی ہے۔ لیکن چھوٹی بیٹری اور چھوٹے الیکٹرک میکنزم کیوجہ سے گاڑی پٹرول پر زیادہ انحصار کرتی ہے خاص کر ہائی ویز یا پہاڑی علاقے میں جہاں گاڑی کو زیادہ پاور کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر ایک عام ہائبرڈ کار کی فیول ایوریج یا رینج 25 سے 30 کلومیٹر فی لیٹر ہو تو اس کا فی کلومیٹر خرچ 8 سے 10 روپے بنتا ہے۔


دوسری قسم کی گاڑیاں پلگ ان ہائبرڈ ہیں، ویسے تو آجکل ہر کوئی مکمل الیکٹرک کار کی بات کررہا ہے، لیکن پلگ ان ہائبرڈ کار ہو سکتا ہے کہ اس وقت آپ کو مکمل سوٹ کرے. اگر آپ بڑے جغرافیے کے ملک میں رہتے ہیں اور دور دراز کے سفر کرتے ہیں تو پلگ ان کار آپ کے لیے بہترین آپشن ہوسکتا ہے. عام ہائبرڈ کار کی بجائے پلگ ان کار میں دوران سفر گاڑی کو چارج کرنے کا الگ سے سسٹم موجود ہوتا ہے جو ساتھ ساتھ بیٹری کو چارج بھی کرتا ہے، ان گاڑیوں میں 10 سے 15 کلو واٹ گھنٹہ کی بڑی بیٹری ہوتی ہے۔ چارجنگ پورٹ سے اس گاڑی کو گھر پر یا کہیں چارجنگ سٹیشن پر چارج بھی کیا جا سکتا ہے۔



اگر ایک پلگ ان ہائبرڈ کار پوری طرح سے چارج ہو تو اس کے پٹرول کی رینج فی لیٹر 30 سے ​​50 کلومیٹر کے درمیان ہو سکتی ہے، یعنی فی کلومیٹرخرچ چار سے سات روپے میں پڑتا ہے


پاکستان میں فی الحال ہائبرڈ گاڑیوں کی پیداوار شروع نہیں ہوئی لیکن انڈس موٹر کارپوریشن نے 2023 میں پہلی ہائبرڈ کار 'ٹویوٹا کراس' متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔

الیکٹرک کاریں

ووکس ویگن کی آٹو ڈرائیو الیکٹرک کا

ایک الیکٹرک گاڑی مکمل بجلی پر ہی چلتی ہے، اس میں گئیر آئل انجن آئل وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوتا، بس بجلی سے چلنے والی موٹریں ہوتی ہیں، الیکٹرک کار کا مینٹیننس خرچہ بالکل کم ہوتا ہے بہ نسبت پٹرول کار کے، اور پٹرول انجن کے مقابلے میں اس کی یکلخت رفتار رفتار کہیں زیادہ ہوتی ہے کیونکہ پٹرول انجن پٹرول انجیکٹ سے دھماکہ سے پسٹن سے توانائی کو ٹائروں تک پہنچنے میں وقت درکار ہوتا ہے جبکہ الیکٹرک کار میں بس کرنٹ کی رفتار سے یہ کام ہوتا ہے۔

شنگھائی میں ٹیسلا کی گیگا فیکٹری دنیا کی سب سے بڑی فیکٹری ہے جو روزانہ کی بنیاد پر 2000 گاڑیاں تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آٹو موٹیو انڈسٹری میں اگلا انقلاب پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کو الیکٹرک گاڑیوں سے بدلنا ہے۔ الیکٹرک کار کا مین آئٹم بیٹری ہے، پرانی تیزاب والی بیٹری کم پاور جبکہ وزن اور حجم زیادہ رکھتی ہیں، اس کے مقابلے میں لیتھیم بیٹری کم وزن جبکہ زیادہ پاور رکھتی ہے، اب دنیا اس سے آگے قلن ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہی ہے جو لیتھیم بیٹری سے پچاس فیصد زیادہ طاقت رکھتی ہے 
قلن بیٹری بنانے والی کمپنی 1،000 کلومیٹر رینج کا دعویٰ کر رہی ہے. مزید برآں یہ بیٹری 10 منٹ میں چارج کی جاسکے گی. 

اس وقت پاکستان میں دستیاب الیکٹرک کاریں

MG ZS EV 44.5 kWh 320 kilo meters PKR 6.25
Audi e-Tron
BMW iX 100

سولر کار ایک ہی چارج پر 700 کلومیٹر سے زیادہ چلتی ہے، سولر اور الیکٹرک بیٹریاں۔ یورپی ماڈل کی قیمت تقریباً 2.5 لاکھ یورو ہے، لیکن کمپنی ایک کم لاگت والے ماڈل کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جو 30,000 یورو سے شروع ہوگی۔ توقع ہے کہ کار 2024 یا 2025 کے آخر تک مارکیٹ میں آئے گی۔

الیکٹرک کار فی کلومیٹر لاگت۔

فاسٹ چارجنگ 7.5 روپے فی کلومیٹر،

ہوم چارجنگ 4 روپے 

شمسی چارجنگ 1.5 روپے

دنیا میں سب سے زیادہ بائیکس ایشیا میں پائے جاتے ہیں، ایشیا میں شاید ہی ایسا کوئی گھر ہوتا ہے جس میں بائیک موجود نہیں ہوتی، کیونکہ بائیک کم خرچ برق رفتار چھوٹی کارآمد سواری ہے. ایشیا میں فی کس بائیک کا تناسب اگر 70٪ ہے تو برطانیہ میں یہ محض 7٪ تک گر جاتا ہے. ماہرین کیمطابق فاسل ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کے سبب الیکٹرک بائیکس کی فرخت 2030 تک ڈبل یعنی 30 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی. اس وقت چین دنیا میں سب سے زیادہ الیکٹرک بائیکس بنا رہا ہے. مسئلہ پھر چارجنگ سٹیشن اور چارجنگ کے وقت کا ہے، تائیوان نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ آپ کسی بھی بیٹری سٹور پر جاکر پرانی بیٹری دے کر نئی بیٹری لے سکتے ہو، 

پاکستان 20 ملین موٹر سائیکلوں کو الیکٹرک پر منتقل کر کے پیٹرول کے درآمدی بل کو کم کر سکتا ہے۔ 




منی وین کو برقی وینوں سے بدل کر اندرون شہر کاربن فری ماحول کو ممکن بنایا جا سکتا، ہر سال پلوشن سے ہزاروں جاندار مر جاتے ہیں بیماریاں الگ جنم لیتی ہیں، خاص کر پاکستان کو ملین شہری آبادی والے شہروں کو فورا کاربن فری بنانے کے منصوبے کا اعلان اور عمل شروع کردینا چائیے ۔



پاکستان کی الیکٹرک پالیسی 2019

وفاقی کابینہ نے اس پالیسی کی منظوری نومبر 2019 میں دی تھی۔ اس پالیسی کا مقصد نقل و حرکت کے نظام میں 2025 تک پانچ لاکھ الیکٹرک موٹرسائیکلز اور رکشے، ایک لاکھ الیکٹرک کاریں، وینز اور چھوٹے ٹرک لانا ہے۔ 

پاکستان میں پالیسیاں فقط کاغذوں میں بنتی ہیں ان پر عملدرآمد اور سنجیدگی نہیں ہوتی، اور پھر معاشی سیاسی استحکام بھی نہیں ہوتا، حکومت بدلتے ہی معاشی پالیسیاں بھی بدل جاتی ہیں. جبکہ دوسری طرف دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں فاسل ایندھن کی بجائے صرف الیکٹرک وہیکل کی پیداوار کا اعلان کرچکی ہیں. دنیا میں اس وقت الیکٹرک وہیکل کا شئیر محض 5٪ ہے جو 2025 میں 20٪ اور 2040 تک 50٪ تک ہوجانے کا امکان ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں آپ صحیح طرح سے اس کی پیشن گوئی نہیں کرسکتے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں آزاد منڈی آزاد تجارت میں انسانی فطرت کا بڑا عمل دخل ہے، انسان اس معاملے میں ریوڑ کی نفسیات جیسا رویہ ظاہر کرتے ہیں، اس لیے اگر ان کا رحجان الیکٹرک وہیکل کی طرف ہوگیا تو پھر سڑک پر فاسل کار آپ کو شاید نظر آئے گی. اس وقت سب سے اچھی بات جو ہے کہ الیکٹرک ٹیکنالوجی ترقی کررہی ہے تو دوسری طرف فاسل ایندھن انتہا درجے مہنگا ہوچکا ہے جو شاید الیکٹرک وہیکل کے انقلاب کا سبب بن جائے گا. انشاءاللہ. 

تاہم فی الحال الیکٹرک کار کی قیمتیں زیادہ ہیں اور چارجنگ کی سہولیات کا فقدان ہے۔الیکٹرک وہیکل چارجنگ یونٹس لگانے والی کمپنی ’گو‘ کے مطابق اٹلی سے درآمد کرنے پر وہیکل چارجنگ ایک یونٹ 50سے 55لاکھ کا پڑے گا۔ جو اب ڈالر بڑھنے کے سبب دوگنا مہنگا ہو جائے گا، 

پاکستان جیسا ملک جو فاسل ایندھن امپورٹ کرتا ہے اور فاسل ایندھن کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے بالکل نکلتی جارہی ہیں ایک طرف روس اور یوکرین کی جنگ کے سبب عالمی مارکیٹ میں تیل گیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو دوسری طرف پاکستان کے تجارتی خسارے کے سبب ڈالر کی قیمت بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے، نتیجتا تیل اور گیس کی قیمتیں پچھلے ماہ سے تقریبا ڈبل ہو چکی ہیں، اور یکم جولائی سے مزید 60 سے ستر روپے مزید مہنگا ہونے جارہا ہے،


  

ابھی دہ ماہ پہلے میں سوچ رہا تھا کہ گھر سے یو پی ایس اتروا دوں لیکن اب سولر پینلز لگوانا مجبوری بنتا جا رہا ہے کیونکہ اتنی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے کہ یو پی ایس چارج ہی نہیں ہوتا اور بجلی پھر چلی جاتی ہے۔

ساتھ ہی دل کررہا ہے کہ اپنی پٹرول پر چلنے والی گاڑی پر اچھا اور موٹا سا کوور چڑھا کر اس کو بھول جاوں تآنکہ روس اور یوکرین کی جنگ بند نہیں ہوتی، 

پاکستان شدید ماحولیاتی آلودگی کا بھی شکار ہے تو پاکستان کو سنجیدگی اور مستقل مزاجی سے الیکٹرک پالیسی بنا کر ان مسائل کے پائیدار حل تلاش کر فکس کرنے ہوں گے، لیکن سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے ہوتے ہوئے فی الوقت پاکستان میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا، لیکن ایک بات کنفرم ہے اگر روس اور یوکرین کی جنگ 6 ماہ اور چلتی رہی (یا پھر کامیاب مذاکرات میں روس پر پابندیاں ختم نہیں ہوتی) تو یہ فاسل ایندھن کے خاتمے اور سولر انرجی کے لیے انقلاب ثابت ہو سکتا ہے. آزاد منڈی ناجائز منافع خوری کو زیادہ دیر برداشت نہیں کرتی جو ملک اس وقت فاسل ایندھن سے بےجاہ منافع کمارہے ہیں وہ بھول رہے ہیں کہ اگر دنیا نے 2040 تک متبادل انرجی پر شفٹ ہونا تھا تو اب شاید وہ 2030 تک ہی ہوجائے گی. 



حوالہ جات:

پاکستان میں شمسی ذرائع سے بجلی کی زیادہ پیداوار کیوں نہ کی جا سکی؟

بجلی مہنگی کیسے ہوئی؟ تحریر : رؤف کلاسرا

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 2

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 3

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 4

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 5

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 6

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 7

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 8

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 9

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 10

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 11

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 12

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 13

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 14

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 15

متبادل توانائی، انرجی بحران کا حل

بجلی کے بلوں میں کمی ممکن ہے

پاکستان میں بجلی اس قدر مہنگی کیوں ہے؟

پاکستان میں بجلی کے ٹرانسمیشن نظام کا اضافی بلوں سے کیا تعلق ہے؟

ریلیف کے بجائے قیمتوں میں دوبارہ اضافہ: 589 ارب کی سالانہ بجلی چوری آپ کے بل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟

IPP's معاہدوں کی تجدید ملکی مفاد میں نہیں

پٹرول بجلی اور گیس

کوپ 28: پہلی بار عالمی سطح پر فوسل فیول ترک کرنے پر اتفاق، مگر کیا یہ ’نشہ‘ چھوٹ پائے گا؟

آئی پی پیز۔ سیاسی جماعتوں کی معاشی واردات

آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے

حکومت اور آئی پی پیز کے درمیان ہونے والے معاہدے کی تفصیلات سامنے آ گئیں

آئی پی پیز: اشرافیہ کا بل عوام کیوں دیں؟

انرجی کا بحران

نجی پاور کمپنیاں اور مہنگی بجلی

پاکستان میں بجلی کے ٹرانسمیشن نظام کا اضافی بلوں سے کیا تعلق ہے؟


References: 

Essay on Energy Crisis in Pakistan

The History of Private Power in Pakistan

Two decades of flawed policies: Power producers make billions in Pakistan

Independent power producers & economic growth of Pakistan | By Muhammad Nadeem Bhatti

Private Power and Infrastructure Board ANNUAL REPORT 2020

Circular debt payment: here is the list of IPPs and their respective amounts

The History and Problems Faced by Independent Power Producers in Pakistan (1990-2015)

Independent power (or pollution) producers? Electricity reforms and IPPs in Pakistan

How to Store Solar Energy Without Batteries

Solar Panel Connection with UPS: A Comprehensive Guide

Financial globalisation and WAPDA

Pakistan Economic Survey ENERGY