Translate

Showing posts with label جان ہے تو جہان ہے. Show all posts
Showing posts with label جان ہے تو جہان ہے. Show all posts

Wednesday, July 5, 2023

موسیقی جسم کی روحانی غذا ہے

موسیقی آپکے دماغ کی بکھری ڈوروں کو دوبارہ ترتیب دینے کا کام کرتی ہے. 
یوں تو موسیقی اتنی ہی پرانی ہے جتنے انسانی جذبات. موسیقی فطری انتخاب کا سوچا سمجھا نتیجہ تھی یا پھر ارتقاء کی ایک ضمنی پیداوار؟  
چارلس ڈارون نے 1871 میں نظریہ پیش کیا تھا کہ موسیقی جنسی انتخاب، میٹنگ کالز یا پارٹنر کو متاثر متوجہ کرنے کے لیے مخصوص صوتی سگنلز کے طور پر پیدا ہوئی، ڈارون کے اس نظریہ کو دیگر جنسی انتخاب کے طریقوں سے متضاد ہونے کے سبب بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن 21ویں صدی میں بہت سے اسکالرز نے اس نظریے کی تائید کی ہے۔  
دیگر نظریات میں: موسیقی مزدوروں کو منظم کرنے، طویل فاصلے تک کمیونیکشن کو بہتر بنانے، خدا کے ساتھ رابطے کے لیے، کمیونٹی میں ہم آہنگی پیدا کرنے یا شکاریوں کو خوفزدہ کرنے کے دفاع کے لیے پیدا ہوئی۔ 
موسیقی اکثر سماجی سرگرمیوں، مذہبی رسومات، تقریبات اور ثقافتی سرگرمیوں میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے جب لوگ اپنے جذبات وغیرہ کے اظہار کیلیے موسیقی کا سہارا لیتے ہیں۔
ایک ریسرچ کیمطابق نوزائیدہ بچے فطری طور پر موسیقی کی دھڑکنوں کو محسوس کرتے ہیں، اور انکی یہ مہارت انکی بقیہ سیکھنے کی صلاحیت سے الگ ہے۔
کیا موسیقی محض ایستھیٹک ہے یا پھر موسیقی اپنے فوائد کے اعتبار سے سائنسی وجود بھی رکھتی ہے.
موسیقی کے فائدے:
سیکھنے، یادداشت اور ادراک کو بہتر بنائیں
تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دیں۔
اپنے دماغ کی صحت کی حفاظت کریں۔
ذہنی تناؤ کم ہونا
اپنے موڈ کو منظم کریں۔
دل کی صحت کو برقرار رکھیں
اضطراب اور افسردگی کو دور کریں۔
اپنے مدافعتی نظام کو فروغ دیں۔
حوصلہ افزائی اور کارکردگی میں اضافہ کریں۔
نیند کے معیار کو بہتر بنائیں
اپنے اعصابی نظام کو منظم کریں۔
موسیقی آپ کے دماغ کے تقریباً تمام مختلف علاقوں اور نیٹ ورکس کو متحرک کرتی ہے۔ یہ دماغ کے مختلف حصوں کے درمیان روابط کو بھی مضبوط کرتی ہے
آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے۔
جب آپ موسیقی سنتے ہیں تو تناؤ کے ہارمون کورٹیسول کی سطح گر جاتی ہے۔ اور ڈوپامائن ہارمون کو فروغ دیتی ہے، جو آپ کے موڈ کو بہتر کرنے میں مدد کرتا ہے۔
دماغ کا وہ حصہ جسے امیگڈالا کہتے ہیں موسیقی اس حصے میں پروسیس ہوتی ہے۔ یہ ہمارے مزاج اور جذبات کا مرکز بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرجوش موسیقی سننے سے آپ کا موڈ بہتر ہوتا ہے۔ موسیقی باقاعدگی سے سننے سے دماغ کی کیمسٹری بھی منظم ہوتی ہے۔ جس سے ذہنی اور جذباتی توازن برقرار رہتا ہے۔
کلاسیکی موسیقی دماغ کو سکون، آپ کو آرام اور وجدان مہیا کرتی ہے۔ شاید آپ کو سن کرعجیب لگے کلاسیکی موسیقی جرائم میں کمی بھی لا سکتی ہے۔ لندن میں، سرکار نے ٹرین اسٹیشنوں پر کلاسیکی موسیقی سنانا شروع کی۔ 18 ماہ کے بعد، توڑ پھوڑ تشدد میں 37 فیصد، ڈکیتیوں میں 33 فیصد، اور ورکرز پر حملوں میں 25 فیصد کمی آئی۔
جیز موسیقی آپ کے دماغ میں الفا لہر کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ یہ لہریں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب آپ بیدار ہوتے ہیں اور پر سکون ہوتے ہیں، جیز میوزک آپ کو ریلیکس کرنے میں مدد کرتا ہے۔
ریپ میوزک ڈیپریشن میں کمی لانے میں مدد کرسکتا ہے
راک یا پاپ میوزک ورزش کے دوران برداشت اور جسمانی کارکردگی کو بڑھا سکتا ہے۔ گرچہ موسیقی کے اکثر فوائد سننے والوں کے ذوق پر منحصر ہوتے ہیں، تو اگر آپکو پاپ یا راک میوزک پسند ہے تو یہ یقینا کام کے دوران آپ کو موٹیویٹ کرسکتا ہے۔
ایک تحقیق کیمطابق میٹل موسیقی کے شائقین لوگوں میں خوداعتمادی کا شدید احساس ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ خود اعتمادی بڑھانا چاہتے ہیں تو میٹل میوزک کو سننا مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
موسیقی کے کچھ اور فوائد یہ ہیں:
یہ ہمارے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر کو کم کرتی ہے۔
ہمارے پٹھے آرام کرتے ہیں، تناؤ کو دور کرتے ہیں۔
دھن ہمیں توجہ مرکوز کرنے میں مدد دیتی ہے۔
یہ ہمارے لیے حوصلہ افزائی کا کام کرتی ہے۔
یہ ہمارے جذبات کو منظم کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔

موسیقی پلے لسٹ مرتب کرنے کے لیے تجاویز:
ایک دھیمے، مستحکم رفتار کے ساتھ آرام دہ گانوں کا انتخاب کریں۔
اگر آپ کو اپنے خیالات کو ہدایت دینے کی ضرورت ہو تو دھن والے گانے چنیں۔
دیگر شور یا خلفشار کو روکنے میں مدد کے لیے ہیڈ فون استعمال کریں، یا خلفشار کو محدود کرنے کے لیے پس منظر کی موسیقی کا انتخاب کریں۔
گانوں میں گیپ سے بچنے کے لیے وقت سے پہلے اپنی پلے لسٹ بنائیں
ایسے گانے منتخب کریں جو آپ کے مراقبہ کے لیے مخصوص وقت سے مماثل ہوں۔
آلات موسیقی، کلاسیکی موسیقی، یا فطرت کی آوازوں کے لیے مراقبہ کی پلے لسٹ تلاش کریں۔
چیزوں کو تبدیل کرنے کے لیے نئے گانوں کی تلاش کرتے رہیں۔



حوالہ جات 


References:

Saturday, February 13, 2021

Yoga in urdu

یوگا!!!

یوگا جسم کو تیاگ کر روح کے سکون کو پانے کا نام ہے، یوگا کی افادیت انسان نے قبل از تاریخ پا لی تھی. ہندوستان میں اس کے آثار ہڑپہ تہذیب میں ملتے ہیں یہی یوگا آگے چل کر ہندومت مذہب میں شامل ہوجاتا ہے لیکن دراصل آج یوگا کا کوئی مذہب نہیں رہا آج ہر رنگ نسل کا انسان اس کو اپنا رہا ہے کیونکہ یوگا تو سراسر سائنس ہے۔ قدیم سنسکرت زبان کیمطابق یوگا کے معنی بندھے رہنے کے ہیں 
یعنی یوگا کرنے والا شخص خاص آسن میں آنکھں موندھے دماغی طور پر اپنے دیوتا سے بندھا ہوا ہو اس مسلسل ایک ہی آسن کو اپنائے رکھنے سے انسان کو ضبط کرنے اور اپنے آپ پر قابو پانے کی طاقت ملتی ہے، جس سے انسان میں خوداعتمادی بڑھتی ہے اور وہ اپنی پریشانیوں پر بھی پھر قابو ڈال سکتا ہے ۔ 
یوگا دراصل سچ کی تلاش کا اک رستہ ہے۔ جس میں انسان اپنے جسم کو آرام دے کر مادی خواہشات سے آزاد ہو کر اور دماغی طور پر اس دنیا سے ناتا توڑ کر اپنے خدا سے رشتہ جوڑتا ہے۔ یوگی جسم کو بھول کر روح کی تلاش میں نکلتا ہے۔ یوگا ہندوستان کی ثقافت بن چکا ہے اور ہندوستان اس پر فخر بھی کرتا ہے بھارت ہر سال 21 جون کو یوگا کا سالانہ دن عالمی طور پر مناتا ہے 


نریندرمودی نے اپنے 27 دسمبر 2014 کے اقوام متحدہ سے خطاب میں 21 جون کو یوگا کا عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی تھی۔ جسے اقوام متحدہ نے قبول کرتے ہوئے 21 جون کو یوگا کا عالمی دن قرار دیا تھا۔
ہندوستان کے باسی ازمنہ قدیم سے ہی روحانی و جسمانی مضبوطی کے لیے یوگا کرتے آئے ہیں. آج ماڈرن زمانہ میں تو ہم اور بھی طرح طرح کی نئی پیچیدگیوں کا شکار ہو چکے ہیں ٹیکنالوجی جوں جوں تیز تر ہوتی جارہی ہے انسان ڈیپریس ہوتا چلا جارہا ہے مشینوں کے بیچ کہیں انسان اپنے جذبات کو کھوتا جارہا ہے انسان اپنے ہزارہا سال کے ذہنی ارتقاء کو گزشتہ کچھ صدیوں کی تیز رفتار ترقی سے ہم آہنگ کرنے میں بدستور ناکام نظر آرہا ہے. 
ہم ہمہ وقت معاشرتی، ماحولیاتی اور مالی عدم استحکام کی غیر یقینی صورتحال میں جی رہے ہیں۔ ایسے میں یوگا ذہنی روحانی اور جسمانی سکون کی سیکرٹ چابی ثابت ہوسکتی ہے.
یوگا کی بنیادی طور پر آٹھ پوزیشنیں ہیں۔
سب سے پہلے ہے یم، یعنی خود کو مہذب اور شائستہ بنانا، 


2. نیم بنانا یا اصول بنانا، یعنی جو کام آپ کرنے جا رہے ہیں اس کے پہلے نیم طے کرلیں


3. تیسرا ہے آسن، جسم کی ایسی پوزیشن اختیار کرنا جو آپ کے جسم اور دماغ دونوں کو سکون دے،

4. پرانا یام، سانس لینے کا طریقہ جس سے جسم اور دماغ کو سکون اور تازہ ہوا میسر ہو۔ گوتم بدھ آسن لگائے آنکھیں موند کر مخصوص انداز میں سانس لیتے اور چھوڑتے جس سے ان کی سوچنے صلاحیت دوچند ہوتی اور تخیل کی گہرائی بڑھ جاتی۔
بقول گورونانک انسان اپنی سانس کی درست طریقے سے حفاظت کرکے خدا تک پہچھ سکتا ہے۔  


5. اپنے حواس کو غذا پہنچانا، یعنی ان کو آرام دینا، ریسٹ دینا، کیونکہ حواس مستقل استعمال سے تھک جاتے ہیں،

6. فوکس کرنا، اپنی سوچ اپنے ذہن کو کسی نقطہ پر مرتکز کرنا، جیسا کہ مراقبہ، باطل خیالات کو جھٹک کر اپنے اصل خیال پر ٹارگٹ کرنا، اس سے آپ کو اپنے شریر پر اور اپنے دماغ پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے،

 7. دھیان، یہ دراصل مراقبہ کی اگلی سٹیج ہے، درست فوکس اور مکمل ارتکاز سے ہم دنیا سے آگے مراقبے کی دنیا میں اتر جاتے ہیں، ایسا کرنیوالے شخص کو محسوس ہوتا ہے جیسے کسی طاقت نے اس کو اپنی تحویل میں لے لیا ہو، ماہرین کیمطابق مراقبہ واقع ہوتا ہے،

8. سمادھی، یہ یوگا کا آخری انت ہے، یہ دراصل یوگا کی معراج ہے، انسان ٹائم اینڈ سپیس سے آزاد ہو جاتا ہے، وہ اپنے خدا کے بہت قریب ہوجاتا ہے، بدھ نے اسے ہی نروانا کہا ہے، 
(تصایر بشکریہ بی بی سی)
گیس چھوڑنے میں مدد کے لیے سادہ یوگا آسن (پادنا)


حوالہ جات:

Tuesday, July 7, 2020

High Blood Pressure Treatment in Urdu

خون کی گردش انفیکشن سے لڑنے، جسم کے ہر حصے میں آکسیجن پہنچانے، دماغ کی بہتر صحت تک آپ کی مجموعی صحت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

بلڈ پریشر کیا ہوتا ہے؟

ہمارا دل ایک چھوٹا مگر طاقت وَر پمپ ہے جو  ایک منٹ میں جسم کی رگوں میں پانچ لیٹر خون پمپ کرتا ہے۔ دل جب  سکڑتا ہے تو اس وقت یہ خون کو اپنے سکڑنے کے دباو سے زور سے رگوں میں دھکیلتا ہے اس کو  انقباضی فشار خون یا سسٹولک پریشر Systolic blood pressureکہتے ہیں جس کو اوپری نمبرز سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اور جب دل نارمل حالت میں آتا ہے تو اسے انبساطی یا ڈائسٹولک پریشر  Diastolic blood pressure کہتے ہیں اس کو نیچے والے نمبر سے ظاہر کرتے ہیں۔ اگر بلڈ پریشر کی ریڈنگ 140 / 80 ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ سسٹولک پریشر 140 اور ڈائسٹولک پریشر 80 ہے


ہائی بلڈ پریشر کا تعارف

ہائی بلڈ پریشر کو انسان کا خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے

ہر سال  17 مئی کو بلڈ پریشر کا عالمی دن منایا جاتا ہے 

ایک سروے کے مطابق تقریبا 52 فیصد پاکستانی آبادی ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں اور 42 فیصد لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہیں

دن بھر ہمارے مختلف کاموں کے دوران ہمارا بلڈ پریشر بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے


جب بلڈ پریشر تیزی سے اوپر جاتا ہے اور ریڈنگ 180/120 سے زیادہ ہوجائے تو اسے ہائپر ٹینسیو بحران کہا جاتا ہے



ویسے تو بلڈ پریشر کسی بھی عمر میں بڑھ سکتا ہے مگر اس کا خطرہ 40 سال کے بعد تیزی سے بڑھنا شروع ہوجاتا ہے


ہائی بلڈ پریشر کی علامات

بیشتر لوگوں میں ہائپرٹینشن کی کوئی خاص علامات ظاہر نہیں ہوتیں، لہٰذا وہ اس مرض سے بے خبر رہ کر زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ بہ ظاہر ہر لحاظ سے صحت مند اور فٹ دکھائی دینے والے افراد بھی ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوسکتے ہیں، مگر وہ اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں۔ بہرحال شدید صورت میں ہائی بلڈ پریشر کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ان علامات میں ناک سے خون آنا، سردرد، بے خوابی، ذہنی پریشانی اور الجھن، اور سانس کے مسائل شامل ہیں


 شدت کا سردرد، چکر آنا،  زمین گھومتی ہوئی محسوس ہونا،  مزاج میں چڑچڑاپن،  بات بات پر غصہ آنا، بعض اوقات غصے کی شدت سے بلڈ پریشر بہت ہائی ہو جانے کے باعث دماغ کی شریانیں پھٹ جاتی ہیں، جس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے، بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے یا غنودگی چھائی رہتی ہے، جسم میں درد اور کھنچاؤ سا بھی محسوس ہوتا ہے

ہائی بلڈ پریشر کی ممکنہ وجوہات

عمر میں اضافے کے ساتھ جسم کے مختلف حصوں میں خون پہنچانے والی رگوں کی لچک کم ہوجاتی ہے، بہ الفاظ دیگر یہ قدرے سخت ہوجاتی ہیں اور پھر ان میں سے خون کو گزارنے کے لیے زیادہ قوت درکار ہوتی ہے جس کے لیے دل کو زیادہ زور لگانا پڑتا ہے جو ہائی بلڈ پریشر کہلاتا ہے   10 فی صد معاملات میں ہائپرٹینشن  کا کوئی نہ کوئی طبی سبب ضرور ہوتا ہے۔ اسے ثانوی ہائپرٹینشن کہا جاتا ہے۔ ہائپرٹینشن لاحق ہونے کی طبی وجوہات میں گردے کے امراض، گردوں کو خون کی رسد میں رکاوٹ، حد سے زیادہ شراب نوشی، اور کچھ ہارمون کے مسائل ہوتے ہیں جو گردوں کو متأثر کرتے ہیں۔ یعنی ہائپرٹینشن کا بلاواسطہ بالواسطہ طور پر گردوں سے اہم تعلق ہوتا ہے دیگر عوامل میں یہ موروثی بھی ہو سکتا ہے اس کے علاوہ مٹاپا سگریٹ نوشی نمک کی زیادتی ورزش کی کمی، شوگر یا گردوں کے مسائل کی وجہ سے بھی ہائی بلڈ پریشر ہو سکتا ہے

گیس، بدہضمی، کھانا کھانے کے بعد فوراً بیٹھ جانا یا لیٹ جانا، ہارمونل پرابلم، ذہنی دباؤ،  موٹاپا،  نمک کا زیادہ استعمال، گرم غذاؤں کا استعمال،  کام میں زیادہ مشقت،  گیم نہ کھیلنا، ورزش اور چہل قدمی سے گریز کرنا، قوت برداشت کا فقدان، رنج و غم میں مبتلا رہنا، مرغن غذاؤں کا زیادہ استعمال ،بازاری فروزن یا گھر میں فریز کیے ہوئے کھانوں کا زیادہ استعمال ہائی بلڈ پریشر کا باعث بنتا ہے,پریشانی اور مسلسل دباو اچانک بلڈ پریشر بڑھا دیتے ہیں 

ہائی بلڈ پریشر کے نقصانات

اگر ہائی بلڈ پریشر کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو زیادہ زور لگانے کی وجہ سے دل رفتہ رفتہ تھکنا شروع ہو جاتا ہے اور بالآخر دل کے دورے کا سبب بن سکتا ہے۔  دل کے دورے اور اسٹروک کے علاوہ دل کا فیل ہوجانا یعنی خون پمپ کرنے کی صلاحیت کا بہ تدریج کمزور پڑجانا، گردوں کا فیل ہوجانا، ضعف بصارت اور آنکھوں کے امراض سے سابقہ پڑسکتا ہے۔ پیٹ اور سینے سے گزرنے والی مرکزی شریان پھیل کر پھٹ سکتی ہے اور اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں


ہائی بلڈ پریشر کا علاج

نارمل بلڈ پریشر 120/80 یا اس سے کم ہوتا ہے لیکن اگر یہ 140/90 یا زیادہ ہوتو آپ کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے 

روزنہ ایک یا دو کیلے کھائیں تو اس سے یہ مرض قابو میں رہتا ہے کیونکہ  کیلا غذائی اجزاء اور پوٹیشیم سے بھرپور ہوتا ہے جو ہمارے جسم میں 10 فیصد سے زائد سوڈیم (نمکیات) کے اثر کو کم کرسکتا ہے اور گردوں کی حفاظت میں بھی کردار ادا کرتا ہے


جو کا دلیہ میگنیشیم سے بھرپور ہوتا ہے اور ایک طبی تحقیق کے مطابق جو کے دلیہ کا استعمال فشار خون کے شکار افراد کے بلڈ پریشر کو نمایاں حد تک کم کرنے میں مدد دیتا ہے

کالی مرچ سے خون کی شریانیں کھلتی ہیں جس سے خون کی روانی کو پورے جسم تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور  بلڈپریشر کی شرح  قدرتی طور پر کم  ہوتی ہے

پستے میں موجود اجزاء میگنیشم، پوٹاشیم اور فائبر وغیرہ  بلڈ پریشر کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں

مالٹے میں موجود پوٹاشیم بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے کے لیے اہم جز ہے

روزانہ پیاز کے استعمال سے بلڈ پریشر بہتر ہوتا ہے 


دالیں، چنے، کالے چنے وغیرہ فائبر اور پوٹاشیم سے بھرپور ہوتے ہیں جو بلڈ پریشر کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں

شہد میں موجود کاربوہائیڈریٹ دل کی طرف سے خون کے پریشر کوکم کرتا ہے۔ دو ہفتوں تک رات کو سونے سے پہلے ایک گلاس نیم گرم دودھ میں دو چمچ شہد ملا کر پینے سے بلڈ پریشر جیسے بیماری سے بچا جا سکتا ہے

بلڈ پریشر والے مریضوں کو صرف مچھلی کا گوشت فائدہ مند ہے ،مچھلی پروٹین اور وٹامن ڈی کے حصول کا بہترین ذریعہ ثابت ہوتی ہے اور یہ دونوں بلڈپریشر کی شرح کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں

میتھی کے دانوں میں بڑی مقدار میں موجود پوٹیشیم بلڈ پریشر کو بڑھنے سے روکتا ہے

چقندر نائٹریٹ سے بھرپور ہوتے ہیں جو کہ جسم میں نائٹرک آکسائیڈ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ نائٹرک آکسائیڈ خون کی نالیوں کو آرام اور پھیلانے میں مدد کرتا ہے، جس سے گردش بہتر ہوتی ہے۔

چقندر میگنیشم اور پوٹاشیم سے بھرپور سبزی ہے  چقندر کا جوس پینے سے بلڈ پریشر کو مختصر اور طویل مدت میں کم کیا جاسکتا ہے۔

اسٹرابیری کی زیادہ مقدار سے ہائی بلڈ پریشر کے خطرہ میں 8 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

لہسن  شریانوں میں پلیٹلیٹس کو جمع ہونے سے روکنے کے ساتھ دل پر زیادہ خون کے پریشر سے بڑھنے والے اثرات سے  روکتا ہے

کچے لہسن کی ایک پھانک روزانہ کھانے سے بہت جلد بلڈ پریشر میں کمی لائی جاسکتی ہے

لہسن میں سلفر مرکبات ہوتے ہیں، جن میں ایلیسن شامل ہوتا ہے - جو خون کی نالیوں کے پھیلاؤ کو فروغ دیتا ہے اور خون کے بہاؤ کو بڑھاتا ہے۔ پیاز flavonoid antioxidants کا ایک بہترین ذریعہ ہے، جو خون کے بہاؤ میں اضافہ ہونے پر آپ کی شریانوں اور رگوں کو چوڑا کرنے میں مدد کرکے دل کی صحت اور گردش کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

ڈارک چاکلیٹ بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے۔

لیموں  شریانوں کو  سخت ہونے سے بچاتا ہے بلکہ خون کی روانی کو بھی کم رکھتا ہے 

ہفتے میں چار سے پانچ بار دہی کھانے سے ہائی بلڈ پریشر کے چانسز میں بیس فیصد کمی ہوتی ہے

8 ہفتوں تک دن میں تین کیوی کھانے سے سسٹولک اور ڈیاسٹولک بلڈ پریشر دونوں میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے 

صبح ناشتے میں دلیہ بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے

تربوز میں سائٹرولن نامی امینو ایسڈ  ہائی بلڈ پریشر کو سنبھالنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

زیتون کے تیل  میں پولیفینولز شامل ہیں ، جو بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔

جئی میں بیٹا گلوکن نامی ایک قسم کا ریشہ ہوتا ہے ، جو خون میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کرسکتا ہے۔ کچھ تحقیق کے مطابق ، بیٹا گلوکن بلڈ پریشر کو بھی کم کر سکتا ہے۔

انار خاص طور پر پولیفینول اینٹی آکسیڈنٹس اور نائٹریٹ میں زیادہ ہوتے ہیں، جو کہ طاقتور واسوڈیلیٹر ہیں۔ انار کو جوس، کچے پھل یا سپلیمنٹ کے طور پر استعمال کرنے سے خون کا بہاؤ بہتر ہو سکتا ہے۔

چار ہفتوں کے لئے دن میں ایک بار انار کا جوس پینے سے بلڈ پریشر کو قلیل مدت میں کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

سبز پتوں والی سبزیاں جیسے پالک اور کیلے نائٹریٹ کے بہترین ذرائع ہیں۔ یہ مرکبات خون کی نالیوں کو وسیع کرنے میں مدد کرتے ہیں، جس سے گردش بہتر ہوتی ہے۔

ہرے پتوں والی سبزیاں چوبیس گھنٹے تک بلڈپریشر کو نارمل رکھ سکتی ہیں

دار چینی اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتی ہے، جو آکسیڈیٹیو تناؤ اور خون کی شریانوں کو پہنچنے والے نقصان سے بچانے میں مدد دیتی ہے۔ صحت مند خون کی وریدیں زیادہ سے زیادہ گردش کے لیے ضروری ہیں۔دار چینی قلیل مدت میں بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

پیزے میں پنیر ، گوشت ، ٹماٹر کی چٹنی اور کرسٹ کے مکسچر سے سوڈیم کی کافی مقدار اکٹھی ہو جاتی ہے۔ خاص کر ٹھنڈا پیزا ہائی بلڈ پریشر والے لوگوں کے لئے بہت خطرناک ہے۔

نقصان دہ چیزیں

نمک سوڈیم بلڈ پریشر کو نمایاں طور پر بڑھا سکتا ہے۔

بڑے جانور کا گوشت خاص کر گائے کا گوشت زہر سے کم نہیں

شراب کی بڑی مقدار بلڈ پریشر میں ڈرامائی اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔

کافی ، چائے ، کولا اور انرجی ڈرنکس میں موجود کیفین بلڈ پریشرکو تھوڑی دیر دو سے تین گھنٹوں تک بڑھا سکتا ہے۔

لو بلڈ پریشر 

حوالہ جات 

Wednesday, April 22, 2020

انسانوں میں افزائش نسل کے مسائل

انسانوں میں افزائش نسل اور اولاد کا حصول
Fertilisation in Human in Urdu

عورت اور مرد کے ملاپ سے انسانوں کی افزائش نسل کا عمل آگے بڑھتا ہے اس
 ملاپ میں مرد اپنا مادہ عورت کے اندر داخل کرتا ہے جہاں یہ مادہ عورت کے بیضہ سے مل کر بچے کی پیدائش کے عمل کی شروعات کرتے ہیں
نارمل حالات میں شادی کے بعد ایک سے دو سال کے اندر بچہ پیدا ہوجاتا ہے لیکن اگر دو سال تک بچہ پیدا نہ ہو تو پھر اس جوڑے کو بچے کے حصول کیلیئے جلد از جلد اینڈوکائنالوجسٹ سے رجوع کرنا چاہیئے۔ کیونکہ اب جدید طریقہ علاج کی بدولت تقریبا" 70٪ جوڑے اولاد کی نعمت حاصل کر سکتے ہیں۔
 درج ذیل میں اس سارے عمل کو سمجھنے کیلیئے کچھ بنادی معلومات دی جا رہی ہیں تو سب سے پہلے پڑھتے ہیں مردوں کے مسائل کے بارے میں:

مردوں کے جنسی مسائل اور انکے حل

 Men Sexual Problems and their Solutions Urdu
ایک تحقیق کیمطابق بے اولادی کا اکثر سبب مردوں میں پائی جانیوالی ہارمونل بیماریاں اور مردوں کا طرز زندگی ہے مردوں میں ٹیسٹی سٹیرون ہارمون کی کمی بے اولادی کی ایک بڑی وجہ ہے 25-30 سال کی عمر سے، انسان کے ٹیسٹوسٹیرون کی سطح قدرتی طور پر کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس ہارمون کی کمی پوری کرنے کے بارے میں ہم آگے پڑھیں گے، 
مرد جنسی عمل کے دوران ایک مادہ خارج کرتے ہیں جس کو مادہ تولید مادہ منویہ اور انگریزی میں سیمین semen کہتے ہیں۔ بچہ جننے کے سارے عمل میں مرد کی طرف سے بنیادی کردار اسی مادہ کا ہوتا ہے
مادہ تولید کیا ہے؟
What is Semen in Urdu
مردوں میں اسپرم sperm بارہ تیرہ سال کی عمر سے بننا شروع ہوجاتے ہیں اور پچیس سال کی عمر تک یہ اپنے عروج پر ہوتے ہیں پھرپچپن سال کی عمر کے بعد ان میں بتدریج کمی آتی جاتی ہے
مردوں کے سپرم sperm خصیوں testes میں خوراک سے حاصل شدہ پروٹین سے بنتے ہیں اس لیے جن دنوں زیادہ مقدار میں سپرم ڈسچارج کررہے ہوں تو ان دنوں میں پروٹین والی غذائیں گوشت انڈے وغیرہ زیادہ کھائیں خصیوں کو گرمی سے بچایں کیونکہ خصیوں کے لیئ سپرم بنانے کے لیے بہترین ٹمپریچر 34 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے زیادہ گرم پانی سے خصیوں کو نہ دھویں خصیوں کو ڈائریکٹ ہیٹ Heat سے بچایں خاص کر لیپ ٹاپ وغیرہ ٹانگوں پر رکھ کر استعمال نہ کریں اور زیادہ ٹائٹ انڈر وئیر وغیرہ بھی نہ پہنیں
مرد ایک سیکنڈ میں 1500 کے لگ بھگ جبکہ روزانہ لاکھوں سپرم پیدا کرتے ہیں مگر ان سپرم کو بڑا ہونے اور مکمل ہونے میں ایوریج 74 دن لگتے ہیں

یہ دورانیہ مختلف مردوں میں کم زیادہ ہو سکتا ہے سپرم بننے کا عمل خصیوں کے اندر شروع ہوتا ہے جہاں سپرم کی پچاس سے ساٹھ دن تک ابتدائی نشوونما ہوتی ہے پھر سپرم خصیوں سے ملحق نالی میں منتقل ہوجاتے ہیں جہاں دس سے پندرہ دنوں میں سپرم کی نشوونما بالکل مکمل ہوجاتی ہے اور وہ خارج ہونے کے لیے بالکل تیار ہو جاتے ہیں سپرم بننے کے بعد اس نالی epididymis duct میں سٹور ہوتے جاتے ہیں یہ نالی چھ میٹر تقریبا" بیس فٹ لمبی ہوتی ہے اس نالی میں کروڑوں سپرم سٹور ہوتے ہیں جن سے مرد ایک انزال میں محض دو سے پانچ کرورڑ سپرم ہی خارج کرتے ہیں جبکہ بقیہ سپرم مرد اگلے انزال کے لیے روک رکھتے ہیں لیکن اگر ان سپرم کو ایک ہفتے تک خارج نہ کیا جائے تو یہ مرنا شروع ہوجاتے ہیں اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ سپرم کو تین سے پانچ دن تک خارج کردیا جائے تاکہ پھر سے تازے نئے سپرم بنتے رہیں

جدید تحقیق کیمطابق روزانہ سپرم کے انزال سے گو سپرم کی تعداد کم ہوجاتی ہے مگر اس کے معیار میں بہت بہتری آجاتی ہے کیونکہ سپرم زیادہ دن تک خصیوں میں پڑے رہنے سے کمزور ہوجاتے ہیں اس لیے بہتر ہے ایک دن یا زیادہ سے زیادہ دو دن چھوڑ کر سپرم کو ڈسچارج ضرور کریں کیونکہ حرکت میں برکت ہے
Semen Analysis in Urdu
مادہ تولید کی کم از کم  مقدار دو ملی لیٹرضرور ہونی چائیے
مادہ تولید مں سپرم کی تعداد Sperm Count
مادہ تولید میں سپرم کی تعداد کم از کم ڈیڑھ سے دو کروڑ ضرور ہونی چائیے جن میں سے حمل کے لیے محض ایک سپرم درکار ہوتا ہے ویسے تو مرد ایک اخراج میں تقریبا" ایک کروڑ سپرم خارج کرتا ہے مگر انڈے تک صرف کچھ طاقتور سپرم ہی پہنچ پاتے ہیں تاکہ صرف صحتمند اور مضبوط بچے ہی پیدا ہو سکیں
سپرم کی حرکت Sperm Motility or Movement 
جب مرد کے عضو سے مادہ خارج ہوتا ہے تو اس میں موجود سپرم تیزی سے آگے کی طرف حرکت کرکے بچہ دانی میں پہنچتے ہیں مادہ میں موجود سپرمز میں سے تقریبا" پچاس پرسنٹ سپرمز میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ہونی چائیے
سپرم کی حرکت کی سمت اور سپیڈ sperm activity grade 
سپرمز کی حرکت تیزاور سیدھی ہونی چائیے تاکہ یہ انڈے تک پہنچ سکیں
سپرمز کی حرکت کو جانچنے کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن WHO نے صفر سے لے کر چار تک درج ذیل کی سکیل طے کر رکھی ہے
  0 بالکل کسی قسم کی حرکت نہیں
  1 حرکت ہے مگر آگے کی طرف نہیں
  1+ کچھ سپرمز کی کبھی کبھار حرکت
  2 بالکل سلو حرکت اور وہ بھی بے سمت
  2+ سلو حرکت مگر آگے کی طرف
  3- تیز مگر بے سمت حرکت
  3 تیز اور سیدھی آگے کی طرف حرکت
  3+ بہت تیز اور سیدھی آگے کی طرف حرکت
  4 انتہائی تیز آگے کی سمت میں حرکت 

سپرم کی شکل و صورت Sperm Morphology

سپرم  کی ایک دم ہوتی ہے اور ایک سر ۔ دم سپرم کو تیرنے میں مدد دیتا ہے جبکہ بیضوی سر اس کو عورت کے انڈے میں گھسنے میں مدد دیتا ہے سر میں مرکزہ ہوتا ہے اور جینیاتی مواد بھی ہوتا ہے

سپرم سر کی طرف حرکت کرکے انڈے تک پہنچتا ہے اگر اس کی دم صحیح نہیں ہوگی تو وہ تیرتا ہوا بچہ دانی کراس نہیں کر سکے گا اور اگر سر کی شکل صحیح نہیں ہوگی تو وہ انڈے میں گھس نہیں سکے گا
  
سپرم کا انڈے تک کا سفر
The Sperm Journey To Egg in Urdu
سپرم کا مرد کے عضو سے نکل کر انڈے تک کا سفر آسان نہیں ہوتا 
جب سپرم عورت کے اندر داخل ہوتے ہیں تو عورت کا مدافتعی نظام اس کو مارنے کی کوشش کرتا ہے مگر عورت بیضہ کی بارآوری کے دنوں میں بچہ دانی میں ایک خاص مادہ چھوڑتی ہے جو سپرم کو بچہ دانی میں تیرنے میں مدد دیتا ہے اور اسکی حفاظت بھی کرتا ہے، سیکس کی معراج پر عورت آرگیزم پاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ زور سے جھٹکے لیتی ہے، ان جھٹکوں سے عورت کی بچہ دانی پھیلتی اور سکڑتی ہے، جس سے وہ سپرمز کو اوپر کی طرف کھینچتی ہے، مزید وہ آرگیزم کے نتیجے میں بچہ دانی میں مادہ بھی چھوڑتی ہے یہ مادہ بھی سپرمز کے تیرنے میں مدد کرتا ہے. 
عورت کا بیضہ بذات خود بھی نیچے کی طرف کھسکتا ہے اور ایک کیمیکل بھی چھوڑتا ہے جو سپرم کو اپنی طرف کھینچتا ہے. 
کروڑوں سپرمز میں سے صرف چند سو سپرمز ہی ٹیوبز تک پہنچ پاتے ہیں
تیز تیرنے والے طاقتور سپرم آدھے گھنٹے میں ٹیوب تک پہنچ جاتے ہیں جبکہ سست سپرم ٹیوب تک پہنچنے میں کئی دن لگا دیتے ہیں 
سپرم ٹیوب میں پہنچ کر تین سے پانچ دن تک زندہ رہتے ہیں اور اگر اس دوران عورت کی بیضہ دانی سے انڈہ بھی ٹیوبوں میں آجائے تو کوئی ایک سپرم انڈہ سے ملکر حمل ٹھہرنے کا عمل شروع کردیتا ہے
جب ایک سپرم انڈے سے مل جاتا ہے تو انڈے کی خول کی سطح surface بدل جاتی ہے تاکہ مزید کوئی سپرم انڈے میں نہ گھس سکے
سپرم کو انڈے کو حاملہ کرنے میں چوبیس گھنٹے لگتے ہیں
حاملہ ہونے کے بعد انڈہ تین سے چار دن تک ٹیوب میں ہی ٹھہرتا ہے پھر وہ بچہ دانی میں آجاتا ہے

کون سا ہارمون مادہ تولید کی پیداوار کرتا ہے
What Hormone Produces Sperms in Urdu 
ٹیسٹوسٹیرون  ہارمون مردوں میں جنسی صلاحیت کو کنٹرول کرتا ہے یہ ہارمون مرد کے خصیوں میں بنتا ہے  جبکہ اس کا کچھ تھوڑا حصہ ایڈرینل گلینڈذ میں بھی بنتا ہے دماغ کے اندر موجود  پیچوٹری گلینڈز اسکی پروڈکشن کو کنٹرول کرتا ہے دماغ  پیچوٹری گلینڈز کو بتاتا ہے کہ کتنا ٹیسٹوسٹیرون ہارمون بنانا ہے پھر پیچوٹری گلینڈ خصیوں کو اتنی مقدار میں  اسکی پروڈکشن کے لیے ہدایت کرتا ہے

ٹیسٹوسٹیرون ہارمون اور سپرم کی پیداوار کیلیئے مفید غذائیں
Testosterone-Boosting Foods in Urdu
خشک میوہ جات بادام اخروٹ سے اسپرم کی پیداوار بڑھتی ہے اور ساتھ ہی ان کی مادہ تولید میں تیرنے کی صلاحیت  بھی بڑھتی ہے
حالیہ تحقیقات میں سائنسدانوں نے لائیکوپین کو سپرم کے لیے بہت موزوں پایا ہے لائیکوپین سپرم کی تعداد اور معیار کو ستر پرسنٹ تک بڑھا سکتا ہے درج ذیل سو گرام خوراکوں میں موجود لائیکوپین کی مقدار
سورج سے خشک شدہ ٹماٹر: 45.9 ملی گرام
ٹماٹر پوری: 21.8 ملی گرام
امرود: 5.2 ملی گرام
تربوز: 4.5 ملی گرام
تازہ ٹماٹر: 3.0 ملی گرام
ڈبے میں بند ٹماٹر: 2.7 ملی گرام
پپیتا: 1.8 ملی گرام
گلابی انگور: 1.1 مگرا
پکی میٹھی سرخ مرچ: 0.5 ملی گرام
    
ٹماٹر کے لائیکوپین کے مردوں کیلئے فائدے
 Benefits of tomato lycopene for men in Urdu
ٹماٹر میں لائیکوپین کثیر مقدار میں ہوتا ہے اور لائیکوپین سے طاقتور اسپرم بنتے ہیں ان کی جسامت حرکت اور سپیڈ میں اضافہ ہوتا ہے کچے ٹماٹروں کی بجائے پکے ہوئے ٹماٹروں میں لائیکوپین زیادہ ہوتا ہے،

کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں جن مردوں کو روزانہ چودہ ملی گرام لائیکوپین بارہ ہفتے تک دیا گیا تو ان کے مادہ تولید میں چالیس فیصد تک بہتری آئی. 14 ملی گرام کیپسول میں تقریبا 200 گرام ٹماٹروں کے برابر لائیکوپین ہوتا ہے،
کچے ٹماٹر کی بجائے پکے ٹماٹر میں لائیکوپین زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے، اس کے بجائے بھی ٹماٹر کی پیسٹ یا کیچپ بنا لی جائے وہ اور بہتر ہے، مزید براں لائیکوپین والے کیپسول بھی لیے جاسکتے ہیں. 
اویسٹرز، کستورا مچھلی
کستورا مچھلی جنسی اشتہا کے لیے سب سے زیادہ مشہور ہے اس میں بہت زیادہ زنک ہوتا ہے جو مردانہ ٹیسٹورون ہارمونز کو بہت بڑھاتا ہے اور ان کی ترتیب بھی صحیح کرتا ہے کستورا مچھلی ایک خول میں بند ہوتی ہے

مچھلی میں موجود اومیگا تھری سپرمزکی تعداد بڑھانے کیساتھ ساتھ خون کی گردش بڑھا کر مردانہ قوت میں بھی اضافہ کرتا ہے
اخروٹ ہیجان اور شہوت میں اضافہ کرتا ہے اخروٹ میں موجود زنک سپرمز کی پیداوار کے لیے بہت بہترین ہے. 
میتھی کے مردوں کیلئے فائدے
Fenugreek increase Sperm and Testosterone in men in Urdu 
ایک سٹڈی میں کچھ مردوں کو روزانہ 500 ملی گرام میتھی 12 ہفتوں تک دی گئی تو ان مردوں میں سے 90 پرسنٹ مردوں میں ٹیسٹورون لیول اور سپرم میں چھیالیس فیصد تک کا اضافہ دیکھنے میں آیا

سیکس نہ کرنے کے نقصان ڈاکٹڑ طاہرہ رباب حفیظ

مادہ تولید کے اجزا اور انکے کام
ریٹھا مادہ تولید کے لیے بہترین پھل ہے


ریٹھا عام ملنے والا سستا پھل ہے اس کی تاثیر گرم و خشک اور یہ زہر کش ہوتا ہے اس کے علاوہ ریٹھا مردانہ سپرم کی تعداد معیار اور انکی تیز تیرنے کی صلاحیت بھی بڑھاتا ہے۔
 
انڈہ مردانہ طاقت کے لیے کتنا فائدہ مند ہے؟
Egg benefit for sperm count
انڈہ ایک مکمل غذا ہے جہاں اس کے اور بہت سے فائدے ہیں وہیں سپرم کے لیے بھی یہ بہت مفید ہے سپرم پروٹین سے بنتے ہیں اور انڈہ پروٹین سے بھرپور ہوتا ہے انڈے میں وٹامن ای اور زنک ہوتا ہے جو سپرم کے تیرنے اور حرکت کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتے ہیں۔ 
مارچوب کے فائدے
Asparagus Benefits for Sperm in Urdu

مارچوب ایک سبزی ہے اس کو انگریزی میں ایسپریگس کہتے ہیں اس مین کیلوریز کم ہوتی ہیں مگر وٹامن اے بی 6 سی اور ای ہوتے ہیں اور اس میں فولیٹ بھی پایا جاتا ہے
تربوز میں شامل سٹرولائن کیمیائی مادہ خون کی نالیوں میں ویاگرا کی گولی کی طرح کام کرتا ہے اور اشتہا کو ایک دم بڑھا دیتا ہے
انار کو محبت کا سیب کہا جاتا ہے اس میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ خون کے جوش کو بڑھا دیتا ہے جس سے اشتہا بڑھ جاتی ہے 
دیگر غذاوں میں سامن مچھلی سیپ کستورا پالک اناج لوبیا دالیں زیتون کا تیل ڈارک چاکلیٹ بیریز کیلے لہسن انڈے گاجریں سبز پتوں والی سبزیاں کدو کے بیج جنسنینگ  گوشت مفید ہیں

تحقیق کیمطابق خوراک کا بہت جلد سپرمز کی صحت پر اثر پڑتا ہے اس لیے اچھے سپرمز کے لیے اپنی خوراک اور لائف سٹائل پر ضرور توجہ دیں. 
اس کے علاوہ باقاعدہ ورزش بہت ضروری ہے
اچھی نیند بہت ضروری ہے
اور قد کے حساب سے متناسب وزن بھی ضروری ہے
ذہنی تناؤ کی سطح کو کم سے کم کریں۔تناؤ کی اعلی سطح آپ کی طویل مدتی صحت کے لیے برا ہے اور آپ کے ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کو کم کر سکتی ہے۔

کچھ دیر سورج کی روشنی حاصل کریں یا وٹامن ڈی سپلیمنٹ لیں۔ وٹامن ڈی 3 سپلیمنٹس ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کو بڑھا سکتے ہیں، خاص طور پر بزرگوں اور ان لوگوں میں جن کے خون میں وٹامن ڈی کی سطح کم ہے۔
وٹامن اور منرل سپلیمنٹس لیں۔ وٹامن ڈی اور زنک ٹیسٹوسٹیرون کو فروغ دینے والے کے طور پر سب سے بہتر ہیں۔
ٹیسٹوسٹیرون ہارمون کیلیئے نقصان دہ غذائیں
Harmful foods for Males in Urdu
میٹھی چیزیں  چیونگم ٹوتھ پیسٹ اور بعض دیسی ادویہ میں استعمال ہونے والی مٹھاس  لیکوریس یا ملٹھی وغیرہ جسم میں مردانہ ہارمون ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار کو کم کرتی ہیں اس لیئے مرد حضرات کو ان چیزوں کو اعتدال سے ہی استعمال کرنا چاہئیے
ان کے علاوہ نشہ الکوحل وغیرہ بہت نقصان دہ ہیں
موبائل فون پینٹ کی اگلی جیب میں نہ رکھیں اس کی ریڈی ایشن سے سپرم متاثر ہوسکتے ہیں 
لیپ ٹاپ کو بھی گود میں یا ٹانگوں پر رکھ کر استعمال نہ کریں کیونکہ اس کی ہیٹ بھی سپرمز کو متاثر کر سکتی ہے
تنگ انڈروئیر یا ٹائیٹ پینٹ پہننے سے گریز کریں 
ہر قسم کے نشے الکحل اور سگریٹ نوشی وغیرہ سے پرہیز کریں 
خود کو موٹاپے سے بچا کر رکھیں 
اسرائیل کی ہیبریو یونیورسٹی آف یروشلم اور امریکہ کے ماؤنٹ سنائی سکول آف میڈیسن کی جانب سے کی گئی تحقیق کیمطابق گذشتہ 50 برسوں کے دوران مردوں کے سپرم کاؤنٹ میں 51 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔  سنہ 1970 میں مردوں میں اوسطاً 101 ملین ایسے رپروڈکٹیو سیلز فی ملی میٹر سیمن موجود تھے تاہم یہ اوسط اب گر کر 49 ملین تک جا پہنچی ہے۔مردوں میں اس کی کوالٹی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور تولیدی صلاحیت کے حامل خلیوں میں گذشتہ دہائیوں کے دوران کمی دیکھنے میں آئی ہے۔موٹاپے کے باعث ایڈیپوز ٹشوز کی گروتھ میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے ایسا مواد خارج ہوتا ہے جو ٹیسٹاسٹیرون نامی ہارمون کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔ یہ سپرم بنانے میں سب سے زیادہ اہم ہارمون ہے۔ تحقیق کے مطابق گذشتہ دہائی میں لیپ ٹاپ کو گود میں رکھنے کی عادت سپرم کاؤنٹ میں کمی کا باعث بن سکتی ہے

لیپ ٹاپ کو گود میں رکھ کر استعمال نہ کریں کیونکہ لیپ ٹاپ کی ہیٹ خصیوں تک پہنچ سکتی ہے جو خصیوں میں موجود سپرمز کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ سپرم کی پیداوار تقریباً 93.2ºF (34ºC) پر ہوتی ہے۔ یہ جسم کے عام درجہ حرارت 98.6ºF (37ºC) سے 5.4ºF (3ºC) درجے کم ہے۔ جب خصیوں کا درجہ حرارت زیادہ ہو جاتا ہے تو سپرم کے معیار کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ خاص طور پر، سپرم کی تعداد اور حرکت پذیری (نطفہ کی تیرنے اور انڈے تک پہنچنے کی صلاحیت) میں کمی آ سکتی ہے۔
تو کیا ٹھنڈک سپرمز کے لیئے بہتر ہو سکتی ہے؟
1984، 2001، 2013، میں چھوٹے پیمانے پر کیے گئے مطالعات کیمطابق مصنوعی ٹھنڈک کچھ مردوں کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، ان مطالعات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی بڑی طبی آزمائش نہیں ہوئی ہے۔
صحتمند سپرمز کے حصول کے لیے خصیوں کا خاص خیال رکھیں
خصیوں کو باقاعدگی سے چیک کرتے رہیں کہیں ان میں کوئی سوزش وغیرہ تو نہیں
باقاعدگی سے غسل کریں اور انفیکشن سے بچنے کے لیے صاف انڈرویئر اور کپڑے پہنیں۔
ڈھیلا، آرام دہ لباس پہنیں۔ یہ بہتر سپرم اور ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار کے لیے آپ کے خصیوں کے گرد درجہ حرارت کو کم رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
صحت مند وزن کو برقرار رکھیں۔ موٹاپا خصیوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ 
باقاعدگی سے ورزش اور صحت مند غذا صحت مند وزن کو برقرار رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔
محفوظ جنسی عمل کریں۔

کیگل ورزش (kegel Exercise) 
مردوں کے لیے Kegel مشقیں مثانے کے کنٹرول کو بہتر بنانے اور ممکنہ طور پر جنسی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہیں۔

کیگل ورزش کمر کے نچلے پٹھوں کو مضبوط بناتی ہے جو مثانے اور آنتوں کو سپورٹ کرتے ہیں ان کی مضبوطی جنسی عمل کو مضبوط کرتی ہے

کیگل ورزش کے طریقے 

مردانہ طاقت
ایک کہاوت ہے کہ مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھا نہیں ہوتا، آپ تب تک جوان رہتے ہیں جب تک آپ خود کو جوان سمجھتے ہیں، ایک سروے میں 65 سال سے زائد عمر کے 2000 لوگوں پر تحقیق سے پتہ چلا کہ ان میں سے 52٪ سیکس کی خواہش رکھتے تھے، ان میں ہر دس بوڑھے فرد میں سے ایک فرد نے ایک سے زائد پارٹنر کیساتھ جنسی تعلق رکھے ہوئے تھے،

مردوں کے عضو خاص کا تناو
Erection Physiology in Urdu
مرد کی بنیادی جنسی صلاحیت عضو خاص کا تناو ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ سپرم کو بچہ دانی میں منتقل کرتا ہے۔  تناو کے پیچھے ہارمونز، دل، پھیپھڑے، خون کی شریانیں، اعصابی نظام اور ذہنی رحجانات کارفرما ہوتے ہیں. تناو میں کمی بنیادی طور پر شریانوں میں خون کے نامناسب بہاو سے پیدا ہوتی ہے، تناو میں کمی کی وجوہات میں دل کی بیماری، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر،اعصابی کمزوری، ڈپریشن اور ہارمونز کی کمی ہو سکتی ہیں ڈھلتی عمر کیساتھ مرد کی تناو کی صلاحیت میں بتدریج کمی آتی جاتی ہے تاہم مرد اپنی عمر کے اخیر سے اخیر حصے تک بھی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے 

اس عضو میں کوئی ہڈی نہیں ہوتی اور یہ محض خون کی سپلائی کے پریشر سے اکڑ جاتا ہے جس وقت یہ تناو کی حالت میں ہوتا ہے تب دل دماغ کے علاوہ صرف عضو کو خون کی سپلائی کررہا ہوتا ہے 
اکثر مرد غلطی کرتے ہیں ہیجان کو سیکس کی خواہش سمجھ لیتے ہیں اور جلدی میں فرض اتار لیتے ہیں حالانکہ جس طرح عورت کو سیکس کیلیے تیار ہونے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے بعینہ مرد کے جسم کو بھی وقت درکار ہوتا ہے. 

عورتوں کا آرگیزم؟
یہ جاننا مشکل ہے کہ کتنی خواتین انزال کرتی ہیں۔ کچھ عورتیں جب orgasm تک پہنچ جاتی ہیں تو گاڑھا، دودھیا، سفید یا سرمئی سیال انزال کرتی ہیں۔ لیکن سبھی ایسا نہیں کرتیں، اور کچھ خواتین کو شاید کو تو اسکا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کرتی ہیں۔  2017 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کیمطابق تقریباً 70 فیصد خواتین ایسا کرتی ہیں۔ جبکہ کچھ اور تخمینوں کیمطابق 10% سے 50% خواتین ایسا کرتی ہیں۔ کچھ کیسوں میں، سیال پیچھے کی طرف بہتا ہے، اس لیے ان خواتین کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا انزال ہو رہا ہے۔ مختلف عورتوں میں انزال کی مقدار بھی مختلف ہوتی ہے۔


https://www.askmen.com/dating/love_tip_300/365_love_tip.html

عورت کا تولیدی نظام
The female reproductive system in Urdu
عورت کا تولیدی نظام مرد کے بہ نسبت پیچیدہ ہوتا ہے


عورت کا تولیدی نظام بیس سال سے تیس سال کی عمر تک اپنے عروج پر ہوتا ہے پھر ڈھلتی عمر کیساتھ بتدریج کم ہوتا چلا جاتا ہے 

عورت کے تولیدی نظام میں اولین کردار عورت میں انڈے کی بارآوری کا ہوتا ہے، عورتوں میں دو بیضہ دانیاں ہوتی ہیں، جن میں انڈے بنتے ہیں اور ایسے ہارمون (ایسٹروجن اور پروجیسٹرون) بھی بنتے ہیں جو عورتوں کے ماہواری نظام کو کنٹرول کرتے ہیں،
عورت ہر ماہ تقریباً ایک بیضہ خارج کرتی ہے، یہ بیضہ مکمل بننے میں 9 مہینے لگتے ہیں. 


عورت کا ماہواری نظام اٹھائیس سے تیس دن کا ہوتا ہے اس دوران عورت کی بیضہ دانی میں ایک دفعہ انڈہ بنتا ہے یہ انڈہ عموما ماہواری کے حساب سے مختلف عورتوں میں مختلف ایام میں پیدا ہوتا ہے
جن کو ماہواری چھبیس دن بعد آتی ہو ایسی عورتو ں میں گیارہویں سے لے کر چودھویں دن تک بیضہ دانی میں انڈے کا اخر اج ہو تا ہے
جن عورتو ں کو اٹھائیس دن بعد ما ہواری آتی ہو ان کی بیضہ دانی سے انڈے کا اخراج تیرھویں دن سے سولھویں دن تک ہوتا ہے
جن کو ماہواری تیس دن بعد آتی ہو ان کی بیضہ دانی میں انڈے کا اخراج ماہواری کے پندرھویں دن سے لے کر اٹھارہویں دن تک ہوتا ہے



انڈہ کی پیدائش اور بیضہ سے ٹیوبز تک منتقلی کی کچھ علامات
  • پیٹ کے نچلے حصے میں ہلکا درد پڑتا ہے
  • عورت کو چھوٹے پیشاب کے راستے لیس دار چپکتی انڈے کی سفیدی کے جیسی جھلی کا اخراج ہوتا ہے
  • نچلے دھڑ کا ٹمپریچر بڑھا ہوا محسوس ہوتا ہے
  • عورت کو ملاپ کی شدید خواہش ہوتی ہے

 Ovulation kit test strips Procedure in Urdu
اس کے علاوہ انڈے کی پیدائش کو آولوشن ٹیسٹ سٹرپ سے بھی جانچا جا سکتا ہے انڈے کی پیدائش سے بارہ سے چھتیس گھنٹے پہلے عورت کے جسم میں لوٹینائزنگ ہارمون کا لیول بڑھ جاتا ہے جس کواس سٹرپ کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے



Price of Ovulation Test Strip Pack Rs. 620 in Pakistan D.Watson Islamabad
اس سٹرپ سے ہارمون لیول چیک کرنے کا مفید وقت صبح سے شام تک کا ہے سٹرپ سی چیکنگ ماہواری شروع ہونے والے دن سے ساےویں یا آٹھویں روز شروع کریں اور پھر اگلی ماہواری آنے تک چیک کرتے رہیں کہ جب تک اس سٹرپ میں علامات ظاہر نہ ہو جایں 
چیک کرنے کیلیئے عورت اپنے پیشاب کے تین چار قطرے سٹرپ کے سرے پر ڈال دے اور پھر تین سے چار منٹ تک انتظار کرے
سٹرپ پر دو نشان C یعنی کنٹرول اور T یعنی ٹیسٹ بنے ہوتے ہیں سٹرپ پر قطرے ڈالنے کی تھوڑی دیر بعد پہلے C پر سرخ خون جیسی گاڑھی لائن بن جائے گی اور پھر اگر اسی طرح کی گاڑھی لائن T پر بھی بن جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ہارمون لیول بڑھا ہوا ہے اور انڈے کی پیدائش جلد متوقع ہے اور یہی بہترین وقت ہے عورت اور مرد ملاپ کریں تو حمل ٹھہرجاتا ہے۔ اگر سٹرپ پر صرف ایک لائن C پر ظاہر ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی عورت کے اندر ہارمون لیول نارمل ہے اور انتظار کریں اگر دونوں نشانات پر کچھ ظاہر نہ ہو تو ٹیسٹ دوبارہ صحیح طریقہ سے کریں اس ٹیسٹ مسلسل دہراتے رہیں جب تک سٹرپ پر دونوں نشانات پر دونوں سرخ لائنیں ظاہر نہ ہو جایں
نوٹ: یہ ٹیسٹ صرف ہارمون کے لیول کے بڑھنے کو ظاہر کرتا ہے جو جسم میں انڈے کی پیدائش سے متعلق افعال کو سرانجام دینے کیلیئے بڑھ جاتا ہے 
انڈہ بیضہ دانی میں بنتا ہے اور پھر بچہ دانی میں آجاتا ہے جہاں یہ تقریبا" بارہ سے چوبیس گھنٹوں تک زندہ رہتا ہے جس کے بعد زائل ہو جاتا ہے اگر اس دوران مرد کے اسپرم بچہ دانی میں آکر اس سے مل جایں تو حمل ٹھہر جاتا ہے

بچہ تھیلی میں سانس کیسے لیتا ہے؟
انسان پانی میں ڈوبنے سے مر جاتا ہے لیکن رحم میں موجود بچہ پانی کی تھیلی میں ڈوب کر محفوظ رہتا ہے.

جب کوئی پانی میں ڈوبتا ہے تو وہ پانی کے اندر سانس نہیں لے سکتا۔ وہ سانس تب لے گا جب اس کے ناک/ منہ کے ذریعے اس کے پھیپڑوں میں ہوا داخل ہوگی اور  پھر باہر نکلے گی۔ لیکن ڈوبتے ہوئے آدمی کے ناک اور منہ میں ہوا کی بجائے پانی جا رہا ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا دم گھٹ جاتا ہے، اور وہ ڈوب کر مر جاتا ہے۔

جبکہ جو بچہ رحمِ مادر میں موجود ہے وہ اپنے پھیپڑوں کے ذریعے سانس نہیں لے رہا، بلکہ اس کی گیسز (آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ) کا تبادلہ تو "پلاسینٹا" کے ذریعے اس کے اور اسکی ماں کے خون کے درمیان ہوتا ہے۔ جبکہ سانس لینے کا عمل پیدائش کے بعد شروع ہوگا۔ 

رحم میں بچہ ایک تھیلی (amniotic sac) میں بند ہوتا ہے جس میں مائع بھری ہوتی ہے (amniotic fluid)۔ اس مائع میں 95 فیصد سے زیادہ تو پانی ہی ہوتا ہے اور اسکے علاؤہ کچھ اور مادے جیسے پروٹینز، کاربوہائیڈریٹس، نمکیات ہارمونز اور کچھ خلیے وغیرہ۔ 

یہ مائع بچے کے پھیپھڑوں میں اور اس کے منہ کے ذریعے اسکے نظام انہضام میں بھی جاتا ہے۔ بلکہ یوں جاکر ڈیولپمنٹ میں فائدہ بھی دیتا ہے۔ 

جو مائع بچے کے نظام انہضام میں جاتا ہے، اس کا کچھ حصہ بچے کے خون میں جذب ہوکر اسکے گردوں میں بھی جاتا ہے اور جب گردے ایکٹو ہوچکے ہوتے ہیں تو اس مائع کو پیشاب کی صورت میں خارج بھی کرتے ہیں۔ یعنی جو مائع نظام انہضام میں گیا (یعنی بچے نے نگل لی تھی) وہ پیشاب  کے راستے واپس بھی آتا ہے، بلکہ ڈیولپمنٹ کے آخری دنوں میں اس مائع کا زیادہ تر حصہ بچے کے پیشاب پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ 

جو مائع پھیپڑوں میں گئی وہ نارمل مقدار میں ہو تو جب بچے کے پھیپھڑے ایکٹو ہوںا شروع ہوتے ہیں تو خود ہی بچے کے خون کے پریشر کی وجہ سے ماں کے خون میں چلی جاتی ہے۔ البتہ اگر زیادہ مقدار میں ہو تو پیدائش کے بعد بچے کی سانس میں مسلہ ڈال سکتی ہے، اس لیے اسے مختلف طریقوں سے کلئیر کیا جاتا ہے۔


بچہ لڑکا یا لڑکی کیسے ہوتی ہے؟
اب سائنس ثابت کر چکی ہے کہ انسانی بچے کے 46 کروموسومز میں سے دو کروموسوم جنسی کروموسوم کہلاتے ہیں کیونکہ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ بچہ لڑکا پیدا ہوگا یا لڑکی۔لڑکی میں دونوں کروموسوم XX ہوتے ہیں جن میں سے ایک ماں کی طرف سے اور ایک باپ کی طرف سے آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں لڑکوں کے دو کروموسوم XY ہوتے ہیں ان میں سے X کروموسوم ماں سے اور Y کروموسوم باپ سے آتا ہے۔اس لیے روایتی لوگوں کا یہ کہنا کہ لڑکا اور لڑکی کا فیصلہ ماں کرتی ہے سائنسی حوالے سے درست نہیں۔
بچہ لڑکا ہو یا لڑکی یہ مرد کے کرموسومز پر انحصار کرتا ہے مرد میں xy جبکہ عورت میں xx کروموسومز ہوتے ہیں اگر مرد کا x کرموسومز عورت کے x سے ملے تو بچہ لڑکی ہو گا اور اگر مرد کا y کروموسومز عورت کے x کروموسومز سے ملے تو بچہ لڑکا ہو گا
جن مردوں کے سپرم میں Y کرموسومز زیادہ ہوں تو اس کے لڑکے زیادہ پیدا ہوں گے
اگر مرد میں X کرموسومز زیادہ ہوں تو اس کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوں گی
اگر مرد کے سپرم میں XY دونوں کروموسومز ہوں تو لڑکا یا لڑکی دونوں کے برابر چانس ہوں گے


عالمی ادارہ صحت کے مطابق انسان کروموسومز کے 23 جوڑوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ خواتین اور مردوں میں بالترتیب 46 ایکس ایکس اور 46 ایکس وائی کروموسومز ہوتے ہیں۔ ایکس وائے فیمیل کے طور پر پیدا ہونے والے لڑکوں کے جسمانی اعضا بالکل لڑکیوں جیسے ہوتے ہیں مگر بلوغت میں انھیں ماہواری نہیں آتی

بچہ ایکس کروموسوم ماں سے لیتا ہے اور ایکس یا وائے کروموسوم والد سے لیتا ہے۔ جینیاتی نقص اس صورت میں واقع ہوتا ہے اگر وہ والد سے ایک ایکس اور وائے کروموسوم لینے کے بجائے دو ایکس یا وائے کروموسوم حاصل کر لے اور ایکس یا وائے کروموسوم کی تعداد دو کے بجائے تین ہو جائے۔
ٹیسٹوسٹیرون/اینڈروجن کی ذیادتی کی صورت میں پیدائش سے قبل ہی لڑکی کے جسم میں اینڈروجن یا ٹیسٹوسٹیرون نامی میل ہارمون کی زیادتی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کا جسمانی عضو لڑکوں جیسا ہوتا ہے جبکہ ان کے بریسٹ ڈویلپ نہیں ہوتے اور بعد میں داڑھی بھی اُگ آتی ہے۔ اندرونی طور پر ایسے بچوں کا جسم لڑکیوں سے مشابہت رکھتا ہے کیونکہ ان میں اووریز موجود ہوتی ہیں
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو بچوں کے ماہر ڈاکٹر کو اس کا مکمل طور پر معائنہ کرنا چاہیے، اس میں بچے کے جنسی اعضا کو چیک کرنا بھی شامل ہے تاکہ یہ جانکاری حاصل کی جا سکے کہ جنسی اعضا غیر معمولی تو نہیں۔
اگر آپ کو بچے کے جنس سے متعلق نہیں پتا چل رہی تو اس کا کیریو ٹائپنگ نامی خون کا ٹیسٹ ہو سکتا ہے جس سے جینیاتی طور پر بچے کے لڑکا یا لڑکی ہونے کا پتا چل سکتا ہے۔
لڑکی کے لڑکوں جیسے دکھنے یا لڑکے کے لڑکیوں جیسا دکھائی دینے کی صورت میں جنس کی تبدیلی کے لیے بلوغت کے بعد ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ بلوغت کے بعد ہی جسمانی اعضا اپنی اصلی شکل میں آتے ہیں اور ماہر پلاسٹک سرجن ہی اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ جسمانی اعضا کو سرجری کی ضرورت ہے یا نہیں۔

 
جڑواں بچے کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ 

جڑواں بچے اس وقت ہو سکتے ہیں جب دو الگ الگ انڈے رحم میں فرٹیلائز ہو جائیں یا جب ایک ہی فرٹیلائزڈ انڈا دو ایمبریو میں تقسیم ہو جائے۔
تیس سال سے زائد عمر خاص کر 30 کی دہائی کے اواخر میں عورتیں ایک سے زائد انڈہ خارج کرتی ہیں اس لیے ایک سے زائد بچوں کی پیدائش کا چانس بڑھ جاتا ہے. 
ڈاکٹر ان وجوہات کو ابھی تک پوری طرح سے نہیں سمجھ پائے ہیں کہ جڑواں حمل کیوں ہوتے ہیں۔ تاہم، کچھ عوامل جڑواں بچوں کو جنم دینے کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں، جیسا کہ:
 عورت کی عمر
 جڑواں بچوں کی خاندانی تاریخ ہونا
 حمل کے لیے لی گئی ادویات

ہم شکل جڑواں بچے تب ہوتے ہیں جب ایک ہی انڈہ ٹوٹ کر دو میں تقسیم ہوجاتا ہے
جبکہ دو الگ الگ انڈوں سے پیدا ہونے والے جڑواں بچے اس قدر ہم شکل نہیں ہوتے. 
جہاں جڑواں بچوں کی پیدائش حیران کن خوشی کا باعث ہے وہیں پر اس کے کچھ رسک بھی زیادہ ہیں. جیسا کہ
قبل از وقت پیدائش 
بچوں کا کم وزن
ڈاکٹروں کو کیسے پتا چلتا ہے کہ کسی عورت کی کی Delivery نارمل ہو گی یا آپریشن سے؟ اور کيا يہ سچ ہے کہ کچھ ڈاکٹر نارمل Delivery کو بھی جان بوجھ کر آپريشن کو ترجيع ديتے ہے ؟ 


یہ سچ ہے کہ کچھ پرائیویٹ ڈاکٹرز پیسے کمانے کے لئے جان بوجھ کر آپریشن تجویز کرتے ہیں جب کہ ہمارے یہاں گورنمنٹ ہاسپیٹلز میں انتہائی کوشش کی جاتی ہے کی نارمل ڈلیوری کی جائے 
مگر کبھی کبھار کوئی ایسی سچویشن سامنے آجاتی ہے جس کے لیے آپریشن ضروری ہو جاتا ہے جیسے کہ خواتین کی ہڈی کا معاملہ جو ڈیلیوری کے وقت کھلنی چاہیے وہ نہیں کھل پاتی ہے یہ ایسا ہی کوئی مسئلہ ۔۔
کبھی کبھی لیبر ڈلیوری میں اتنا ٹائم لے لیتی ہے کہ بچے کا دم گھٹنے لگ جاتا ہے 
کبھی بچے کی پوزیشن ٹھیک نہیں ہوتی جس کی وجہ سے نارمل ڈلیوری میں بچہ پھنس سکتا ہے 
 کبھی پلیسنٹا سامنے آ جاتا ہے جس کی وجہ سے ہے بچے کی جان جا سکتی ہے اور زہر پھیل سکتا ہے 
کبھی بچے کا پاخانہ نکل جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے کسی اورگن میں جانے کا خطرہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچہ ایبنارمل ہو سکتا ہے 
کبھی ماں کا بلڈپریشر شوٹ کر جاتا ہے جو ماں اور بچے دونوں کے لیے نقصان دہ ہے 
کبھی بچے کی دھڑکن بالکل زیرو ہوتی دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے فورن آپریٹ کرنا پڑتا ہے 
یہ بالکل سچ ہے کہ پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ او پریٹ کیے جاتے ہیں لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ پہلے بہت سی خواتین کی جان نارمل ڈلیوری کے وقت چلی جاتی تھی کیوں کہ اگر مند رجہ بالا مسائل میں سے کوئی عورت یا بچے کے ساتھ پیش آیا ہوا تو داای کے پاس جدید آلات اور معلومات کی کمی کی وجہ سے بچے یا ماں کی جان چلی گئی ہو
 اسی طرح پیدا ہوتے ہی بچوں کی اموات میں بھی پہلے کے مقابلے میں کمی آئی ہے 

بچے کی پیدائش پر موسم کے اثرات
The effects of weather on Fertilization in Urdu
دنیا میں ہر مخلوق کا ارتقائی وجدان ہوتا ہے اور پیدائش کا ایک مخصوص موسم ہوتا ہے انسانوں میں بھی یہ رجحان موجود ہےتحقیق میں اس حوالے سے بتایا  گیا  کہ سرد مہینوں میں مردوں کے اسپرم زیادہ طاقتور ہوجاتے ہیں اسی طرح سردیوں میں  دن کی روشنی کا دورانیہ کم ہونے کی وجہ سے خواتین کا تولیدی نظام بھی بہتر ہوجاتا ہے

جوبچے گرمیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کا وزن سردیوں میں اوسطاً سال کے اولین پانچ مہینوں میں پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے زیادہ  ہوتا ہے دوسری طرف جو عورتیں  گرمیوں میں حاملہ ہوتی ہیں ان میں جسمانی وزن میں اضافے کا امکان زیادہ ہوتا ہے
 
افزائش نسل، اب اگلے مرحلے میں
دنیا کی پہلی ’مصنوعی مادر رحم سہولت اب حقیقت بن گئی ہے جس میں سالانہ 30 ہزار بچے بالکل مصنوعی طریقے سے  منصوعی مادر رحم (پوڈ) میں 9 ماہ گذار کر پیدا ہوں گے، مصنوعی مادر رحم فیکٹری میں بچے پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی یا طریقہ کار کو ایکٹو لائف (EctoLife) کا نام دیا گیا ہے۔اس کے لئے جین ایڈیٹنگ ہوگی جوCRISPR Cas-9  ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کی جائے گی. اس ٹیکنالوجی کے تحت والدین کو ’’مینو‘‘ سے بچے کی خصوصیات (جیسے آنکھوں کا رنگ، قد اور طاقت وغیرہ) کا انتخاب کرنے کا بھی موقع ملے گا اور والدین اپنی پسند کے بچے ’’ڈیزائن‘‘ کرسکتے ہیں۔ایکٹو لائف کے ذریعہ بانجھ جوڑے، بچے پیدا کرسکیں گے اور وہ ان کی فیکٹری میں بچہ پیدا کرکے حقیقی حیاتیاتی والدین بن سکتے ہیں۔

جہاں سائنس اور بیشمار نئے کہان دریافت کررہی ہے وہی سائنس افزائش نسل کے لیے بھی نئے جہان دریافت کررہی ہے۔
حوالہ جات
بچہ پیدا نہ ہونا، اکثر ایسا مرد کی وجہ سے ہوتا ہے


Reference