Translate

Showing posts with label مفت کا ڈاکٹر. Show all posts
Showing posts with label مفت کا ڈاکٹر. Show all posts

Saturday, February 13, 2021

Yoga in urdu

یوگا!!!

یوگا جسم کو تیاگ کر روح کے سکون کو پانے کا نام ہے، یوگا کی افادیت انسان نے قبل از تاریخ پا لی تھی. ہندوستان میں اس کے آثار ہڑپہ تہذیب میں ملتے ہیں یہی یوگا آگے چل کر ہندومت مذہب میں شامل ہوجاتا ہے لیکن دراصل آج یوگا کا کوئی مذہب نہیں رہا آج ہر رنگ نسل کا انسان اس کو اپنا رہا ہے کیونکہ یوگا تو سراسر سائنس ہے۔ قدیم سنسکرت زبان کیمطابق یوگا کے معنی بندھے رہنے کے ہیں 
یعنی یوگا کرنے والا شخص خاص آسن میں آنکھں موندھے دماغی طور پر اپنے دیوتا سے بندھا ہوا ہو اس مسلسل ایک ہی آسن کو اپنائے رکھنے سے انسان کو ضبط کرنے اور اپنے آپ پر قابو پانے کی طاقت ملتی ہے، جس سے انسان میں خوداعتمادی بڑھتی ہے اور وہ اپنی پریشانیوں پر بھی پھر قابو ڈال سکتا ہے ۔ 
یوگا دراصل سچ کی تلاش کا اک رستہ ہے۔ جس میں انسان اپنے جسم کو آرام دے کر مادی خواہشات سے آزاد ہو کر اور دماغی طور پر اس دنیا سے ناتا توڑ کر اپنے خدا سے رشتہ جوڑتا ہے۔ یوگی جسم کو بھول کر روح کی تلاش میں نکلتا ہے۔ یوگا ہندوستان کی ثقافت بن چکا ہے اور ہندوستان اس پر فخر بھی کرتا ہے بھارت ہر سال 21 جون کو یوگا کا سالانہ دن عالمی طور پر مناتا ہے 


نریندرمودی نے اپنے 27 دسمبر 2014 کے اقوام متحدہ سے خطاب میں 21 جون کو یوگا کا عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی تھی۔ جسے اقوام متحدہ نے قبول کرتے ہوئے 21 جون کو یوگا کا عالمی دن قرار دیا تھا۔
ہندوستان کے باسی ازمنہ قدیم سے ہی روحانی و جسمانی مضبوطی کے لیے یوگا کرتے آئے ہیں. آج ماڈرن زمانہ میں تو ہم اور بھی طرح طرح کی نئی پیچیدگیوں کا شکار ہو چکے ہیں ٹیکنالوجی جوں جوں تیز تر ہوتی جارہی ہے انسان ڈیپریس ہوتا چلا جارہا ہے مشینوں کے بیچ کہیں انسان اپنے جذبات کو کھوتا جارہا ہے انسان اپنے ہزارہا سال کے ذہنی ارتقاء کو گزشتہ کچھ صدیوں کی تیز رفتار ترقی سے ہم آہنگ کرنے میں بدستور ناکام نظر آرہا ہے. 
ہم ہمہ وقت معاشرتی، ماحولیاتی اور مالی عدم استحکام کی غیر یقینی صورتحال میں جی رہے ہیں۔ ایسے میں یوگا ذہنی روحانی اور جسمانی سکون کی سیکرٹ چابی ثابت ہوسکتی ہے.
یوگا کی بنیادی طور پر آٹھ پوزیشنیں ہیں۔
سب سے پہلے ہے یم، یعنی خود کو مہذب اور شائستہ بنانا، 


2. نیم بنانا یا اصول بنانا، یعنی جو کام آپ کرنے جا رہے ہیں اس کے پہلے نیم طے کرلیں


3. تیسرا ہے آسن، جسم کی ایسی پوزیشن اختیار کرنا جو آپ کے جسم اور دماغ دونوں کو سکون دے،

4. پرانا یام، سانس لینے کا طریقہ جس سے جسم اور دماغ کو سکون اور تازہ ہوا میسر ہو۔ گوتم بدھ آسن لگائے آنکھیں موند کر مخصوص انداز میں سانس لیتے اور چھوڑتے جس سے ان کی سوچنے صلاحیت دوچند ہوتی اور تخیل کی گہرائی بڑھ جاتی۔
بقول گورونانک انسان اپنی سانس کی درست طریقے سے حفاظت کرکے خدا تک پہچھ سکتا ہے۔  


5. اپنے حواس کو غذا پہنچانا، یعنی ان کو آرام دینا، ریسٹ دینا، کیونکہ حواس مستقل استعمال سے تھک جاتے ہیں،

6. فوکس کرنا، اپنی سوچ اپنے ذہن کو کسی نقطہ پر مرتکز کرنا، جیسا کہ مراقبہ، باطل خیالات کو جھٹک کر اپنے اصل خیال پر ٹارگٹ کرنا، اس سے آپ کو اپنے شریر پر اور اپنے دماغ پر کنٹرول حاصل ہوتا ہے،

 7. دھیان، یہ دراصل مراقبہ کی اگلی سٹیج ہے، درست فوکس اور مکمل ارتکاز سے ہم دنیا سے آگے مراقبے کی دنیا میں اتر جاتے ہیں، ایسا کرنیوالے شخص کو محسوس ہوتا ہے جیسے کسی طاقت نے اس کو اپنی تحویل میں لے لیا ہو، ماہرین کیمطابق مراقبہ واقع ہوتا ہے،

8. سمادھی، یہ یوگا کا آخری انت ہے، یہ دراصل یوگا کی معراج ہے، انسان ٹائم اینڈ سپیس سے آزاد ہو جاتا ہے، وہ اپنے خدا کے بہت قریب ہوجاتا ہے، بدھ نے اسے ہی نروانا کہا ہے، 
(تصایر بشکریہ بی بی سی)
گیس چھوڑنے میں مدد کے لیے سادہ یوگا آسن (پادنا)


حوالہ جات:

Tuesday, July 7, 2020

High Blood Pressure Treatment in Urdu

خون کی گردش انفیکشن سے لڑنے، جسم کے ہر حصے میں آکسیجن پہنچانے، دماغ کی بہتر صحت تک آپ کی مجموعی صحت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

بلڈ پریشر کیا ہوتا ہے؟

ہمارا دل ایک چھوٹا مگر طاقت وَر پمپ ہے جو  ایک منٹ میں جسم کی رگوں میں پانچ لیٹر خون پمپ کرتا ہے۔ دل جب  سکڑتا ہے تو اس وقت یہ خون کو اپنے سکڑنے کے دباو سے زور سے رگوں میں دھکیلتا ہے اس کو  انقباضی فشار خون یا سسٹولک پریشر Systolic blood pressureکہتے ہیں جس کو اوپری نمبرز سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اور جب دل نارمل حالت میں آتا ہے تو اسے انبساطی یا ڈائسٹولک پریشر  Diastolic blood pressure کہتے ہیں اس کو نیچے والے نمبر سے ظاہر کرتے ہیں۔ اگر بلڈ پریشر کی ریڈنگ 140 / 80 ہو تو اس کا مطلب ہوگا کہ سسٹولک پریشر 140 اور ڈائسٹولک پریشر 80 ہے


ہائی بلڈ پریشر کا تعارف

ہائی بلڈ پریشر کو انسان کا خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے

ہر سال  17 مئی کو بلڈ پریشر کا عالمی دن منایا جاتا ہے 

ایک سروے کے مطابق تقریبا 52 فیصد پاکستانی آبادی ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہیں اور 42 فیصد لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہیں

دن بھر ہمارے مختلف کاموں کے دوران ہمارا بلڈ پریشر بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے


جب بلڈ پریشر تیزی سے اوپر جاتا ہے اور ریڈنگ 180/120 سے زیادہ ہوجائے تو اسے ہائپر ٹینسیو بحران کہا جاتا ہے



ویسے تو بلڈ پریشر کسی بھی عمر میں بڑھ سکتا ہے مگر اس کا خطرہ 40 سال کے بعد تیزی سے بڑھنا شروع ہوجاتا ہے


ہائی بلڈ پریشر کی علامات

بیشتر لوگوں میں ہائپرٹینشن کی کوئی خاص علامات ظاہر نہیں ہوتیں، لہٰذا وہ اس مرض سے بے خبر رہ کر زندگی گزارتے رہتے ہیں۔ بہ ظاہر ہر لحاظ سے صحت مند اور فٹ دکھائی دینے والے افراد بھی ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہوسکتے ہیں، مگر وہ اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں۔ بہرحال شدید صورت میں ہائی بلڈ پریشر کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ان علامات میں ناک سے خون آنا، سردرد، بے خوابی، ذہنی پریشانی اور الجھن، اور سانس کے مسائل شامل ہیں


 شدت کا سردرد، چکر آنا،  زمین گھومتی ہوئی محسوس ہونا،  مزاج میں چڑچڑاپن،  بات بات پر غصہ آنا، بعض اوقات غصے کی شدت سے بلڈ پریشر بہت ہائی ہو جانے کے باعث دماغ کی شریانیں پھٹ جاتی ہیں، جس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے، بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے یا غنودگی چھائی رہتی ہے، جسم میں درد اور کھنچاؤ سا بھی محسوس ہوتا ہے

ہائی بلڈ پریشر کی ممکنہ وجوہات

عمر میں اضافے کے ساتھ جسم کے مختلف حصوں میں خون پہنچانے والی رگوں کی لچک کم ہوجاتی ہے، بہ الفاظ دیگر یہ قدرے سخت ہوجاتی ہیں اور پھر ان میں سے خون کو گزارنے کے لیے زیادہ قوت درکار ہوتی ہے جس کے لیے دل کو زیادہ زور لگانا پڑتا ہے جو ہائی بلڈ پریشر کہلاتا ہے   10 فی صد معاملات میں ہائپرٹینشن  کا کوئی نہ کوئی طبی سبب ضرور ہوتا ہے۔ اسے ثانوی ہائپرٹینشن کہا جاتا ہے۔ ہائپرٹینشن لاحق ہونے کی طبی وجوہات میں گردے کے امراض، گردوں کو خون کی رسد میں رکاوٹ، حد سے زیادہ شراب نوشی، اور کچھ ہارمون کے مسائل ہوتے ہیں جو گردوں کو متأثر کرتے ہیں۔ یعنی ہائپرٹینشن کا بلاواسطہ بالواسطہ طور پر گردوں سے اہم تعلق ہوتا ہے دیگر عوامل میں یہ موروثی بھی ہو سکتا ہے اس کے علاوہ مٹاپا سگریٹ نوشی نمک کی زیادتی ورزش کی کمی، شوگر یا گردوں کے مسائل کی وجہ سے بھی ہائی بلڈ پریشر ہو سکتا ہے

گیس، بدہضمی، کھانا کھانے کے بعد فوراً بیٹھ جانا یا لیٹ جانا، ہارمونل پرابلم، ذہنی دباؤ،  موٹاپا،  نمک کا زیادہ استعمال، گرم غذاؤں کا استعمال،  کام میں زیادہ مشقت،  گیم نہ کھیلنا، ورزش اور چہل قدمی سے گریز کرنا، قوت برداشت کا فقدان، رنج و غم میں مبتلا رہنا، مرغن غذاؤں کا زیادہ استعمال ،بازاری فروزن یا گھر میں فریز کیے ہوئے کھانوں کا زیادہ استعمال ہائی بلڈ پریشر کا باعث بنتا ہے,پریشانی اور مسلسل دباو اچانک بلڈ پریشر بڑھا دیتے ہیں 

ہائی بلڈ پریشر کے نقصانات

اگر ہائی بلڈ پریشر کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو زیادہ زور لگانے کی وجہ سے دل رفتہ رفتہ تھکنا شروع ہو جاتا ہے اور بالآخر دل کے دورے کا سبب بن سکتا ہے۔  دل کے دورے اور اسٹروک کے علاوہ دل کا فیل ہوجانا یعنی خون پمپ کرنے کی صلاحیت کا بہ تدریج کمزور پڑجانا، گردوں کا فیل ہوجانا، ضعف بصارت اور آنکھوں کے امراض سے سابقہ پڑسکتا ہے۔ پیٹ اور سینے سے گزرنے والی مرکزی شریان پھیل کر پھٹ سکتی ہے اور اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں


ہائی بلڈ پریشر کا علاج

نارمل بلڈ پریشر 120/80 یا اس سے کم ہوتا ہے لیکن اگر یہ 140/90 یا زیادہ ہوتو آپ کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے 

روزنہ ایک یا دو کیلے کھائیں تو اس سے یہ مرض قابو میں رہتا ہے کیونکہ  کیلا غذائی اجزاء اور پوٹیشیم سے بھرپور ہوتا ہے جو ہمارے جسم میں 10 فیصد سے زائد سوڈیم (نمکیات) کے اثر کو کم کرسکتا ہے اور گردوں کی حفاظت میں بھی کردار ادا کرتا ہے


جو کا دلیہ میگنیشیم سے بھرپور ہوتا ہے اور ایک طبی تحقیق کے مطابق جو کے دلیہ کا استعمال فشار خون کے شکار افراد کے بلڈ پریشر کو نمایاں حد تک کم کرنے میں مدد دیتا ہے

کالی مرچ سے خون کی شریانیں کھلتی ہیں جس سے خون کی روانی کو پورے جسم تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور  بلڈپریشر کی شرح  قدرتی طور پر کم  ہوتی ہے

پستے میں موجود اجزاء میگنیشم، پوٹاشیم اور فائبر وغیرہ  بلڈ پریشر کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں

مالٹے میں موجود پوٹاشیم بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے کے لیے اہم جز ہے

روزانہ پیاز کے استعمال سے بلڈ پریشر بہتر ہوتا ہے 


دالیں، چنے، کالے چنے وغیرہ فائبر اور پوٹاشیم سے بھرپور ہوتے ہیں جو بلڈ پریشر کو بہتر بنانے میں مدد دیتے ہیں

شہد میں موجود کاربوہائیڈریٹ دل کی طرف سے خون کے پریشر کوکم کرتا ہے۔ دو ہفتوں تک رات کو سونے سے پہلے ایک گلاس نیم گرم دودھ میں دو چمچ شہد ملا کر پینے سے بلڈ پریشر جیسے بیماری سے بچا جا سکتا ہے

بلڈ پریشر والے مریضوں کو صرف مچھلی کا گوشت فائدہ مند ہے ،مچھلی پروٹین اور وٹامن ڈی کے حصول کا بہترین ذریعہ ثابت ہوتی ہے اور یہ دونوں بلڈپریشر کی شرح کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں

میتھی کے دانوں میں بڑی مقدار میں موجود پوٹیشیم بلڈ پریشر کو بڑھنے سے روکتا ہے

چقندر نائٹریٹ سے بھرپور ہوتے ہیں جو کہ جسم میں نائٹرک آکسائیڈ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ نائٹرک آکسائیڈ خون کی نالیوں کو آرام اور پھیلانے میں مدد کرتا ہے، جس سے گردش بہتر ہوتی ہے۔

چقندر میگنیشم اور پوٹاشیم سے بھرپور سبزی ہے  چقندر کا جوس پینے سے بلڈ پریشر کو مختصر اور طویل مدت میں کم کیا جاسکتا ہے۔

اسٹرابیری کی زیادہ مقدار سے ہائی بلڈ پریشر کے خطرہ میں 8 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

لہسن  شریانوں میں پلیٹلیٹس کو جمع ہونے سے روکنے کے ساتھ دل پر زیادہ خون کے پریشر سے بڑھنے والے اثرات سے  روکتا ہے

کچے لہسن کی ایک پھانک روزانہ کھانے سے بہت جلد بلڈ پریشر میں کمی لائی جاسکتی ہے

لہسن میں سلفر مرکبات ہوتے ہیں، جن میں ایلیسن شامل ہوتا ہے - جو خون کی نالیوں کے پھیلاؤ کو فروغ دیتا ہے اور خون کے بہاؤ کو بڑھاتا ہے۔ پیاز flavonoid antioxidants کا ایک بہترین ذریعہ ہے، جو خون کے بہاؤ میں اضافہ ہونے پر آپ کی شریانوں اور رگوں کو چوڑا کرنے میں مدد کرکے دل کی صحت اور گردش کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

ڈارک چاکلیٹ بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے۔

لیموں  شریانوں کو  سخت ہونے سے بچاتا ہے بلکہ خون کی روانی کو بھی کم رکھتا ہے 

ہفتے میں چار سے پانچ بار دہی کھانے سے ہائی بلڈ پریشر کے چانسز میں بیس فیصد کمی ہوتی ہے

8 ہفتوں تک دن میں تین کیوی کھانے سے سسٹولک اور ڈیاسٹولک بلڈ پریشر دونوں میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے 

صبح ناشتے میں دلیہ بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے

تربوز میں سائٹرولن نامی امینو ایسڈ  ہائی بلڈ پریشر کو سنبھالنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

زیتون کے تیل  میں پولیفینولز شامل ہیں ، جو بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔

جئی میں بیٹا گلوکن نامی ایک قسم کا ریشہ ہوتا ہے ، جو خون میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کرسکتا ہے۔ کچھ تحقیق کے مطابق ، بیٹا گلوکن بلڈ پریشر کو بھی کم کر سکتا ہے۔

انار خاص طور پر پولیفینول اینٹی آکسیڈنٹس اور نائٹریٹ میں زیادہ ہوتے ہیں، جو کہ طاقتور واسوڈیلیٹر ہیں۔ انار کو جوس، کچے پھل یا سپلیمنٹ کے طور پر استعمال کرنے سے خون کا بہاؤ بہتر ہو سکتا ہے۔

چار ہفتوں کے لئے دن میں ایک بار انار کا جوس پینے سے بلڈ پریشر کو قلیل مدت میں کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

سبز پتوں والی سبزیاں جیسے پالک اور کیلے نائٹریٹ کے بہترین ذرائع ہیں۔ یہ مرکبات خون کی نالیوں کو وسیع کرنے میں مدد کرتے ہیں، جس سے گردش بہتر ہوتی ہے۔

ہرے پتوں والی سبزیاں چوبیس گھنٹے تک بلڈپریشر کو نارمل رکھ سکتی ہیں

دار چینی اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتی ہے، جو آکسیڈیٹیو تناؤ اور خون کی شریانوں کو پہنچنے والے نقصان سے بچانے میں مدد دیتی ہے۔ صحت مند خون کی وریدیں زیادہ سے زیادہ گردش کے لیے ضروری ہیں۔دار چینی قلیل مدت میں بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

پیزے میں پنیر ، گوشت ، ٹماٹر کی چٹنی اور کرسٹ کے مکسچر سے سوڈیم کی کافی مقدار اکٹھی ہو جاتی ہے۔ خاص کر ٹھنڈا پیزا ہائی بلڈ پریشر والے لوگوں کے لئے بہت خطرناک ہے۔

نقصان دہ چیزیں

نمک سوڈیم بلڈ پریشر کو نمایاں طور پر بڑھا سکتا ہے۔

بڑے جانور کا گوشت خاص کر گائے کا گوشت زہر سے کم نہیں

شراب کی بڑی مقدار بلڈ پریشر میں ڈرامائی اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔

کافی ، چائے ، کولا اور انرجی ڈرنکس میں موجود کیفین بلڈ پریشرکو تھوڑی دیر دو سے تین گھنٹوں تک بڑھا سکتا ہے۔

لو بلڈ پریشر 

حوالہ جات 

Thursday, November 28, 2019

خون کی کمی اینیمیا کو دور کریں

خون کیا ہے؟

  جانداروں کے جسم کی شریانوں میں ایک گاڑھا سیال گردش کر رہا ہوتا ہے اس کو خون کہتے ہیں اس کو دل پمپ کر کے جسم کے پور پور تک پہنچاتا ہے۔ خون جاندار میں پٹرول کی حیثیت رکھتا ہے اس سے جاندار کی حیات چلتی اور اس کی کمی سے جاندار مر جاتا ہے۔ 
ایک صحتمند انسان میں تقریبا" پانچ لیٹر خون ہوتا ہے ۔ اگر اس میں سے دو لیٹر خون نکل جائے تو دل خون کے گردشی ںظام کو قائم رکھنے میں ناکام ہو جاتا ہے جس سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ خون بنیادی طور پر تین قسم کے خلیات پر مشتمل ہوتا ہے

سرخ ذرات یا خلیات 

خون میں موجود سب سے اہم سرخ ذرات ہوتے ہیں ان کو ہیموگلوبن کہتے ہیں ان کی مقدار خون میں سب سے زیادہ تقریبا" نوے پرسنٹ ہوتی ہے۔ یہ ہڈیوں کے گودے میں آئرن فولاد کی مدد سے بنتے ہیں ایک سرخ خلیہ تقریبا" ایک سو بیس دن تک زندہ رہتا ہے۔ اس کی کمی سے جاندار کے جسم کو آکسیجن اور خوراک کی ترسیل بند ہو جاتی ہے جس سے جاندار کی موت ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سرخ ذرات پورے جسم سے ہائیڈروجن گیس جذب کر کے پیپھڑوں تک پہنچاتے ہیں اور پیپھڑوں سے تازہ آکسیجن جسم کو فراہم کرتے ہیں۔ایک صحت مند جسم میں ہیموگلوبن یعنی سرخ خلیات (ریڈ بلڈ سیلز) کا لیول گیارہ یا بارہ 11-12 ہوتا ہے۔  اس کی کمی کو اینیمیا کہتے ہیں۔ 

سفید خلیات
یہ خلیات جاندار کے جسم میں جنگجو کی طرح جراثیموں کیخلاف لڑتے ہیں اس جنگ میں سفید خلیات کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے جو پھر جسم سے پیپ کی شکل میں نکلتے ہیں۔ 
تھرامبوسائٹس پلیٹلیٹس
یہ خون کو بہنے سے روکتے ہیں یہ خلیے جھلی کی طرح خون میں گردش کرتے رہتے ہیں۔جب جسم میں کہیں زخم ہوتا ہے تو یہ ذرات زخم پر فورا" ایک پتلی تہہ جسے انگلش میں کلوٹ کہتے ہیں بنا دیتے ہیں۔ اور خون کو بہنے سے روکتے ہیں ان کی مقدار ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ کے درمیان ہوتی ہے۔ اگر ان کی تعداد پچاس ہزار سے کم ہو جائے تو زخم کی صورت میں خون کی بلیڈنگ نہیں رکے گی اور اگر ان کی تعداد بیس ہزار سے کم ہو جائے تو انسانی جلد بہت نازک ہو جاتی ہے کہ انسان شیو تک نہیں کر سکتا۔


خون میں سرخ خلیات کمی کی وجوہات

آئرن کی کمی کسی بھی عمر کے مرد یا عورت میں ہو سکتی ہے فولیٹ, وٹامنز بی بارہ اور منرلز کی کمی، گوشت، انڈے اور ہرے پتے والی سبزیوں کا استعما ل نہ کرنا ، خاتون کا حمل میں ہونا۔ معدے کی صحت کا خراب ہونا اور آنتوں کا صحت مند نہ ہونا، غذا میں صرف سبزیوں کا استعما ل کرنا،وغیرہ خون میں سرخ ذرات کی کمی کا باعث بن سکتے ہیں
خون میں سرخ خلیات کی کمی کی نشانیاں
جسمانی کمزوری، جسم میں درد، چہرے کا رنگ اُڑ جانا، سانس کا پھولنا، چکر آنا، ہاتھوں اور پاوؤں میں سنسناہٹ محسوس ہونا، زبان میں درد یا سوجن کا آجانا، پاؤں اور ہاتھوں کا ٹھنڈا رہنا، ناخنوں کا ٹوٹنا، سر میں درد کی شکایت رہنا، بار بار بھوک لگنا، کھانا کھانے کے بجائے مٹی، برف یا کچے اناج کھانے کا دل چاہنا


آئرن کی کمی پوری کریں
انسانی جسم کو150سے200ملی گرام آئرن کی ضرورت ہوتی ہے، آئرن اور وٹامن سی سے بھر پور غذائیں جو خون بنانے میں مدد دیتی ہیں جیسے پھلیاں، کدو اور اس کے بیج، کشمش و دیگر خشک میوہ جات، انڈے ، مچھلی، دلیہ، بھیڑ، مرغی اور گائے کے گوشت،مالٹے، انگور، چکوترے، اسٹرابیریز، کیوی، امرود ، اناناس، خرپوزہ، کیلا، پپیتا، آم،بروکولی ، لال اور ہری شملہ مرچ، پھول گوبھی ، ٹماٹر اور ہرے پتے والی سبزیوں کا استعمال بڑ ھا دیں
مزید براں آئرن سے بھرپور غذائیں جیسے ٹماٹر کشمش، خشک خوبانی، شہتوت، کجھور، انار، تربوز، آلو بخارا،  کلیجی، چنے، دالیں، پالک وغیرہ کا استعمال کریں

جگر خون نہیں بناتا تو خون بنتا کہاں ہے؟
خون بنانے کے کارخانہ ہڈی کا گودا (Bone Marrow) ہوتا ہے وہی ہڈی کا  گودا یا نلی جو ہم شوق سے نہاری یا بریانی میں ڈال کر کھاتے ہیں۔ 
ہڈی کا گودا  خلیوں (Cells) کا ترتیب شدہ مرکب ہوتا ہے اور یہ جانوروں اور پرندوں میں خون کے خلیے پیدا کرنے کے کارخانے ہوتے ہیں۔ ہڈی کے گودے میں مختلف طرح کے خلیے ہوتے ہیں جن میں سب سے اہم stem cell ہوتے ہیں۔ 
ایک بالغ انسان میں ہڈی کا گودا زیادہ تر ریڑھ کی ہڈی، سینے کی ہڈیوں یا نچلے دھڑ کی ہڈیوں میں ہوتا ہے۔ یہ انسانی جسم کے کل وزن کا 5 فیصد ہوتا ہے۔ ہڈی کے گودے میں روزانہ تقریباً 500 ارب خلیے بنتے ہیں۔
ہڈی کا گودا دو طرح کا ہوتا ہے سرخ اور پیلا۔ سرخ گودے میں خون کے خلیے بنتے ہیں جبکہ پیلا گودا چربی کے خلیے (Adipocytes) بناتا ہے اور ساتھ ہی ہڈی، کارٹیلج اور دیگر جسم کے دیگر خلیے۔
ہڈی کا سرخ رنگ والا گودا (Red Bone Marrow) خون کے سفید  خلیات، سرخ  خلیات اور پلیٹ لیٹس (Platelets) پیدا کرتا ہے۔ 
ہڈی میں موجود پیلے رنگ کا گودا (Yellow Bone marrow) اس وقت فعال (Active) ہوتا ہے جب خون کے  خلیات بنانے کی اضافی ضرورت پڑے۔ 
جب آپ چھوٹے ہوتے ہیں تو آپکے جسم کی ہڈیوں میں سرخ گودا زیادہ ہوتا ہے جیسے جیسے آپ بڑے ہوتے ہیں پیلا گودا بڑھتا جاتا ہے۔
 اس میں کئی غذائی اجزا جیسے کہ وٹامن بی 12، وٹامن اے، وٹامن ای اور فاسفورس مناسب مقدار میں ہوتے ہیں جو خون اوراعصابی نظام (Nervous System) کے لیے مفید ہیں ایسے ہی گودا کھانے سے قوتِ مدافعت بھی بہتر ہوتی ہے تاہم گودا مناسب مقدار میں کھانا چاہیے کیونکہ اس  میں بے حد فیٹ ہوتے ہیں جو کولیسٹرول، ہائی بلڈ پریشر کا باعث اور دل کے امراض کا باعث بن سکتے ہیں۔

خون کے گروپ۔۔ بلڈ گروپ ۔۔ Blood Type
اس وقت انسانی خون کی 30 مختلف سسٹم system کے تحت درجہ بندی کی جا سکتی ہے جس میں روزمرہ زندگی میں ABO اور Rh (یعنی Rhesus ) سسٹم سب سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ ABO سسٹم میں خون کے چار گروپ ہوتے ہیں یعنی AB, B, A اور O جبکہ Rh سسٹم ان ہی چاروں گروپ کو positive یا negative میں تقسیم کر دیتا ہے جس سے یہ آٹھ گروپ بن جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ABO سسٹم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلڈ گروپ کا دارومدار خون کے سرخ خلیوں پر A اور B اینٹی جن antigen کی موجودگی یا غیر موجودگی پر ہوتا ہے۔ ایٹی جن antigen اس کے لیے لفظ immunogen بھی استعمال ہوتا ہے، امیونوجن سے مراد کوئی بھی ایسا سالمہ ہوتی ہے کہ جو اگر جسم میں داخل (یا پیدا) ہو جائے تو وہ جاندارکے جسم میں ایک غیر ہونے کا احساس اجاگر کرتا ہے اور اس کو غیر اور خطرناک سمجھتے ہوئے جسم کا مدافعتی نظام متحرک ہو کر اس کے خلاف لڑنے اور اس کو ختم کرنے کے لیے ایسے اجسام بناتا ہے جنکو ضد (antibodies) کہتے ہیں۔

٭جن لوگوں کا بلڈ گروپ A ہوتا ہے ان کے خون کے سرخ خلیات RBC پر A اینٹی جن (antigen) موجود ہوتا ہے جبکہ ان کے پلازمہ میں اینٹی B اینٹی باڈی (antibody) پائ جاتی ہے جو حاملہ ماں سے اس کے بچے تک نہیں پہنچ سکتی۔ 
٭جن لوگوں کا بلڈ گروپ B ہوتا ہے ان کے خون کے سرخ خلیات RBC پر B اینٹی جن (antigen) موجود ہوتا ہے جبکہ ان کے پلازمہ میں اینٹی A اینٹی باڈی (antibody) پائ جاتی ہے جو حاملہ ماں سے اس کے بچے تک نہیں پہنچ سکتی۔ 
٭جن لوگوں کا بلڈ گروپ AB ہوتا ہے ان کے خون کے سرخ خلیات RBC پر A اورB دونوں اینٹی جن موجود ہوتے ہیں جبکہ ان کے پلازمہ میں دونوں اینٹی باڈی نہیں پائ جاتیں ۔
٭جن لوگوں کا بلڈ گروپ O ہوتا ہے ان کے خون کے سرخ خلیات RBC پردونوں اینٹی جن موجود نہیں ہوتے جبکہ ان کے پلازمہ میں دونوں اینٹی باڈی پائی جاتی ہیں۔
اینٹی A ۔۔ antibody خون کے ان سرخ خلیات RBC پر عمل کرتی ہے جن پر A اینٹی جن موجود ہوتا ہے اور انہیں باہم چپکا کر agglutinate توڑنے کا سبب بنتی ہے۔ اسی طرح اینٹی B ۔ antibody بلڈ گروپ B کے سرخ خلیات کی دشمن ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Rhesus یا Rh سسٹم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن لوگوں کا بلڈ گروپ positive ہوتا ہے ان کے خون کےسرخ خلیات RBC پر Rhesus اینٹی جن موجود ہوتا ہے جبکہ ان کے پلازمہ میں اینٹی Rhesus اینٹی باڈی antibody نہیں پائ جاتی ہے۔ 
جن لوگوں کا بلڈ گروپ negative ہوتا ہے ان کے خون کے سرخ خلیات RBC پر Rhesus اینٹی جن antigen موجود نہیں ہوتا ہے اور ان کے پلازمہ میں بھی اینٹی Rhesus اینٹی باڈی antibody نہیں پائ جاتی۔ یعنی اینٹی Rhesus اینٹی باڈی قدرتی natural اینٹی باڈی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی negative شخص کو پہلی دفعہ positive خون لگ جائے تو بلڈ ری ایکشننہیں ہوتا مگر اب اس شخص میں اینٹی Rhesus اینٹی باڈی بن جاتی ہیں جو آئندہ positive خون کے لگائے جانے پر جان لیوا ری ایکشن کر سکتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ Rhesus یا Rh سسٹم اور حمل ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک positive بلڈ گروپ کی خاتون کے حمل میں بچے کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
ایک negative بلڈ گروپ کی خاتون کے پہلے حمل میں بچے کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا خواہ وہ positive بلڈ گروپ کا بچہ ہو یا negative کا۔ مگر جب ایک negative بلڈ گروپ کی حاملہ خاتون positive بلڈ گروپ کے بچے کو جنم دیتی ہے تو دوران زچگی بچے کے کچھ سرخ خلیے ماں کے دوران خون میں شامل ہو کر ماں میں اینٹی Rhesus اینٹی باڈی antibody بنانے کا سبب بنتے ہیں (جو حاملہ ماں سے اس کے بچے تک پہنچ سکتی ہیں) اور مستقبل میں ہونے والے حمل کے دوران ماں کے جسم میں پرورش پاتے بچے کے سرخ خلیات کو توڑنے اور حمل ضائع ہونے کا سبب بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ negative بلڈ گروپ کی خاتون اگر positive بلڈ گروپ کے بچے کو جنم دے تو اسے جلد از جلد اینٹی Rhesus اینٹی باڈی کا انجکشن (مثلا RHEOGRAM ) لگا دیا جاتا ہے جو ماں کے خون میں داخل شدہ بچے کے سرخ خلیات کو تباہ کر دیتا ہے اور ماں کے جسم کو خود اینٹی Rhesus اینٹی باڈی بنانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس طرح مستقبل میں ہونے والے حمل کے دوران اس ماں کے جسم میں پرورش پاتے بچے کو خطرہ نہیں رہتا۔ 
اگر positive بلڈ گروپ کے بچے کی پیدائش کے بعد negative بلڈ گروپ کی خاتون کو یہ اینٹی Rhesus اینٹی باڈی کا انجکشن نہ لگے تو اس کے ہر اگلے positive بلڈ گروپ کے بچے کا دوران حمل مرنے کا خطرہ بڑھتا چلا جائے گا۔
۔۔۔negative بلڈ گروپ کی خواتین کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ negative 
بلڈ گروپ کے کسی مرد سے شادی کریں۔ اس طرح بچے بھی negative بلڈ گروپ کے ہوں گے اور حمل کے خطرات سے محفوظ رہینگے۔

۔۔۔۔۔۔۔ انتقال خون Transfusion ۔۔۔۔۔۔۔
جب کسی مریض کو خون دیا جاتا ہے تو مریض کی اپنی اینٹی باڈی اور انتقال شدہ سرخ خلیات کے درمیان ری ایکشن کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے جبکہ مریض کے اپنے سرخ خلیات اور انتقال شدہ اینٹی باڈی کے درمیان ری ایکشن کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔
ویسے تو ہر مریض کو وہی خون دیا جاتا ہے جیسا کہ خود اس کا اپنا خون ہے مگر کبھی کبھی جب مریض کے گروپ کا خون دستیاب نہ ہو تو دوسرے گروپ کا خون بھی (احتیاط کے ساتھ) دیا جا سکتا ہے مگر اس کے کچھ قواعد ہیں

۔۔negative 
گروپ کے مریض کو positive گروپ کا خون نہیں دیا جا سکتا البتہ positive گروپ کے مریض کو negative خون دیا جا سکتا ہے۔ 
۔۔AB 
گروپ کے مریض دوسرے گروپ کے لوگوں کا خون لے سکتے ہیں مگر انہیں خون دے نہیں سکتے۔
۔۔O 
گروپ کے لوگ دوسرے گروپ والوں کو خون دے سکتے ہیں مگر خود کسی دوسرے گروپ کا خون قبول نہیں کر سکتے یعنی O گروپ کے مریض کو صرف O گروپ کا ہی خون لگ سکتا ہے۔
۔۔A
گروپ کا انسان گروپ B کو اور B گروپ کا انسان گروپ A کو خون نہ دے سکتا ہے اور نہ لے سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
زیادہ تر ممالک میں گروپ O positive اور A positive بکثرت پایا جاتا ہے جبکہ گروپ AB negative بہت ہی کمیاب ہوتا ہے یعنی ایک فیصد کے لگ بھگ یا اس سے بھی کم۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ وراثت ۔۔۔۔۔۔۔
اگر ابا اور امی دونوں کا بلڈ گروپ O ہے تو بچوں کا گروپ بھی O ہوتا ہے۔ یعنی A, B یا AB نہیں ہو سکتا۔

اگر ابا اور امی دونوں کا بلڈ گروپ AB ہے تو کسی بھی بچے کا بلڈ گروپ O نہیں ہو سکتا۔ ہاں B,A اور AB ہو سکتا ہے۔

اگر ابا اور امی میں سے کسی ایک کا بلڈ گروپ AB ہے اور دوسرے کا O تو بچوں میں سے کسی کا بھی بلڈ گروپ AB یا O نہیں ہو سکتا۔ بچے یا تو A ہوں گے یا B۔

اگر ابا اور امی دونوں کا بلڈ گروپ negative ہے تو بچوں کا گروپ بھی negative ہوتا ہے۔ مگر اگر والدین positive ہوں تو بھی ان کے بچے negative ہو سکتے ہیں۔
ویسے تو ہر انسان کا بلڈ گروپ ساری زندگی ایک ہی رہتا ہے مگر انتہائ شاذ و نادر مثالیں دستیاب ہیں جن میں liver transplant اور bone marrow transplant کے بعد مریض کا بلڈ گروپ بدل گیا۔

Tuesday, November 26, 2019

منہ میں چھالے دانے ان کی وجوہات اور علاج

منہ میں چھالے کیوں ہوتے ہیں؟ وجوہات
کبھی کبھار اچانک منہ اندر سے پک جاتا ہے اور مرچوں والی چیزیں کھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسکی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔
کوئی زیادہ گرم شے پی لینے سے منہ اندر سے جل جاتا ہے 
بعض اوقات بخار کی شدت سے بھی منہ اندر سے پک جاتا ہے۔
معدے میں زیادہ گرمی سے منہ میں چھالے ہو جاتے ہیں
زیادہ تیزابیت والی غذائیں مسلسل کھانے سے منہ اندر سے پک جاتا ہے اور
 چھالے بن جاتے ہیں
مسلسل قبض سے گیس اور تیزابیت سے بھی منہ میں چھالے بن جاتے ہیں
ہارمونز کی تبدیلی سے منہ کے اندر چھالے ہو جاتے ہیں
 وٹامن بی کمپلیکس، وٹامن سی ،آئرن یا کوئی دوسری توانائی کی کمی سے منہ کے اند چھالے بن جاتے ہیں
جسم میں وٹامن ای کی کمی سے بھی چھالے بن جاتے ہیں اس کی کمی پوری کرنے کے لیئے روزانہ وٹامن ای کے کیپسول روزانہ استعمال کریں۔ مرہم کے لیئے ایک کیپسول کو کاٹ کر اس کا محلول بنا لیں اور اس محلول والے پیسٹ کو چھالوں پر لگا لیں یہ چھالے پر ہلکی کوٹنگ کردے گی جو زخموں کو انفیکشن سے بچائے گی اور اس کو جلدی ٹھیک بھی کرے گی
کسی ذہنی دباو یا پریشانی سے منہ کے اندر چھالے بن جاتے ہیں
 کسی الرجی یا انفیکشن سے بھی منہ اندر سے پک سکتا ہے
زیادہ زور سے برش کرنے سے بھی منہ اندر سے ذخمی ہو سکتا ہے اور چھالے بن سکتے ہیں

عموما" یہ دانے یا چھالے چھ سات دن کے اندر ٹھیک ہو جاتے ہیں اس کے علاج کے کچھ آسان ٹوٹکے

منہ کے چھالوں کا علاج

بیکنگ سوڈا یا میٹھا سوڈا
میٹھا سوڈا تیزابیت ختم کرنے کے لیئے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ جسم سے ہر قسم کی تیزابیت ختم کردیتا ہے لیکن اس کے زیادہ استعمال سے پیشاب سے بھی تیزابیت ختم ہو جاتی ہے جو کہ پھر گردوں میں پتھری کی وجہ بن سکتی ہے۔ یہ بیکٹیریا کو ختم کرتا ہے اور منہ کی انفیکشنز وغیرہ سے نجات دلاتا ہے۔ اور تیزابی کیفیت کو کم کرتا ہے۔
منہ کی تیزابیت ختم کرنے کیلئیے ایک کپ گرمم پانی میں ایک چمچ میٹھا سوڈا ڈال کر اس پانی سے کلیاں کریں۔ یا پھر پیسٹ بنا کر چھالوں پر لگا لیں۔


ناریل کا تیل
ناریل کا تیل قدرتی طور پر جراثیم کش ہوتا ہے۔ اس کو چھالوں پر لگایئں اوراس کو پینے سے جسم ٹھنڈا رہتا ہے اور دوبارہ چھالے نہیں بنتے۔

اگر چھالے پیٹ کی گرمی یا قبض سے ہوں تو ایسے میں اسپغول کا چھلکا استعمال کریں خشخاش بھی جسم کی حرارت کم کرنے میں مدد کرتی ہے۔
فوری درد سے آرام کے لیئے منہ کے اندر برف کے کیوب رکھیں یا پھر ملٹھی کے پاوڈر میں شہد اور گلیسرین ملا کر دانوں پر لگایئں۔ ملٹھی کے پاوڈر اور ہلدی کو ہلکے گرم دودھ میں ملاکر پینے سے منہ کا السر ختم ہو جاتا ہے۔