Translate

Showing posts with label Economic. Show all posts
Showing posts with label Economic. Show all posts

Tuesday, September 27, 2022

ڈار کی واپسی بمقابلہ ڈالر کی واپسی

اسحاق ڈار کی واپسی، کیا ڈالر کی بھی واپسی ہو گی؟
ن لیگ نے بالآخر مشکل حالات سے لڑنے کا تہیہ کر ہی لیا اور اپنے بہترین مہرے کو میدان میں اتار دیا. 

اسحاق ڈار کا مختصر تعارف:
اسحاق ڈار 1950 میں پیدا ہوئے، لاہور میں پلے بڑھے اور تعلیم حاصل کی، پنجاب یونیورسٹی میں بی کام فرسٹ پوزیشن میں پاس کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا، گورنمنٹ کالج میں تعلیم کے دوران میاں نواز شریف ان کے بیچ میٹ بھی رہے، پھر اسحاق ڈار نے برطانیہ سے چارٹرڈ اکاونٹنٹ کا پیشہ ورانہ سرٹیفیکیٹ حاصل کیا۔ یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والے وہ پہلے کم عمر ترین پاکستانی تھے۔
پیشے کے اعتبار سے اسحاق ڈار چارٹرڈ اکاونٹنٹ اور بزنس مین ہیں، انھوں نے کچھ عرصہ لندن میں جاب کی پھر لیبیا چلے گے جہاں سینئر آڈیٹر جنرل کے عہدے پر کام کرتے رہے، 1977 میں اسحاق ڈار پاکستان واپس آگئے، 1980 میں مسلم لیگ کی سنٹرل کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے سیاست کا آغاز کیا، 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد اسحاق ڈار پہلی دفعہ وزیر خزانہ بنے، 1999 کے مارشل لا کے بعد 2 سال کے لیے جیل میں قید رہے، 2004 میں اسحاق ڈار کے صاحبزادے کی نواز شریف کی بیٹی سے شادی ہو گئی اس طرح اسحاق ڈار کا شریف فیملی سے تعلق رشتہ داری میں بدل گیا۔  2008 کے الیکشن کے بعد یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں 2 سے 3 ماہ کے مختصر عرصہ کے لیے دوسری دفعہ وزیرخزانہ بنے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آئیڈیا اسحاق ڈار نے پیش کیا تھا مگر نام مختلف تھا، جسے بعدازاں پیپلزپارٹی نے بدل کر بینظیر انکم سپورٹ کردیا۔ وکی پیڈیا کیمطابق 2011 میں حکومت نے اسحاق ڈار کو پاکستان میں ان کی پارلیمانی خدمات کے عوض پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز دینے کا اعلان کیا مگر اسحاق ڈار نے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری سے یہ ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔ تیسری دفعہ اسحاق ڈار 2013 میں ن لیگ کے وزیر خزانہ بنے، اور 2017 تک وزیر خزانہ رہے، اس کے بعد پانامہ اور نیب کے کیسز بننے کیوجہ سے اسحاق ڈار اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے طیارے میں بیٹھ کر لندن چلے گئے جہاں سیاسی پناہ حاصل کر لی، اب 5 سال بعد اسحاق ڈار وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے وطن واپس آئے ہیں۔ چوتھی دفعہ وزارت خزانہ کا حلف اٹھا کر وہ سب سے زیادہ دفعہ وزیر خزانہ بننے کا اعزاز بھی حاصل کر لیں گے،  
سب سے پہلے مثبت پہلو،
ڈار کے خزانہ کے قلمدان سنبھالنے سے پہلا فائدہ تو یہ ہو گا کہ گومگو اور چہ میگوئیوں کا خاتمہ ہو گا، ڈار کی واپسی سے یہ بات تو طے ہو گئی کہ اب الیکشن اگلے سال طے شدہ وقت پر ہی ہوں گے، اس سے پہلے ہر قسم کے شارٹ کٹ کو بزور بازو یا بزور بوٹ کچل دیا جائے گا. یہ سیاسی استحکام کی طرف بہت اہم قدم ہے، اس سے اب PDM بشمول لندن لیگ ایک صفحہ پر آہی گئی ہے بالآخر، دیر آید درست آید. اب اس پیش رفت کا سردست پاکستان کی معیشت پر مثبت اثر پڑے گا اور ہرکس ناکس جان لے گا کہ اب مستقبل قریب میں کوئی سیاسی ایڈوانچر نہیں ہونے والا، اس سے سرمایہ کار کو اعتماد ملے گا، جس کے مثبت اثرات آنیوالے دنوں میں نظر بھی آیں گے. مزید ن لیگ اب اگلے الیکشن سے قبل اپنی ساکھ کو بہتر بنانے اور عوام کو ریلیف دینے کی سرتوڑ کوشش بھی کرے گی.


اب منفی پہلو
تاجر خاندان کو خاندانی کھاتے کی دیکھ بھال کے لیے بالآخر اپنا پرانا منشی واپس مل ہی گیا، گو یہ بہت ہی نچلے درجے کا اعتراض ہے، لیکن گزشتہ ادوار کی تاریخ اور حالیہ آڈیو لیکس اس اعتراض کو تقویت بخشتے ہیں، منشی گھر کا بھیدی بھی ہے اور خاندان کے معاشی مفادات کو یکجا رکھنے کے لیے آزمودہ بھی.


دوسرا اعتراض کہ ن لیگ بحیثیت ایک جماعت کب میچور اور منظم ہو گی، اسحاق ڈار کی واپسی کو پھر ن لیگ کی کچن کابینہ کی واپسی قرار دیا جا رہا ہے. ن لیگ اپنے اس دائرے سے کب باہر نکلے گی؟ یہ تو 6 ماہ میں ہی پتہ لگ گیا کہ کبھی نہیں نکلے گی.
تیسرا اور اہم اور ٹیکنیکل اعتراض. اسحاق ڈار صاحب کو ن لیگ کا ڈالر ایکسپرٹ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا. قارئین کو شیخ رشید کا چیلنج بھی یاد ہو گا اور اسحاق ڈار کا جواب 100 بھی یاد ہو گا. ن لیگ پچھلے دور حکومت میں ڈالر کے استحکام کو اپنا کارہائے نمایاں قرار دیتی ہے، گو اسی دوران پاکستان کا تجارتی خسارہ ازحد بڑھ گیا تھا اور ملکی ایکسپورٹ میں بڑھوتری خاک تنزلی ریکارڈ ہوئی تھی. 
مگر بحیثیت اسحاق ڈار صاحب نے ڈالر کو کنٹرول کیا، ملک میں سرمایہ بھی آیا، اور اسحاق ڈار نے ملکی ترقیاتی پروجیکٹز کو کماحقہ تیزی سے مکمل بھی کروایا.
لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہے، 2015 میں تیل کی قیمتیں ازحد گر گئی تھیں، اور دوسری طرف چین پاکستان کو ترقیاتی قرض دینے کو بھی تیار تھا، یعنی حلوہ پروگرام تھا. مگر اب دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں بھی آسمان کو چھورہی ہیں، یوکرین روس جنگ کی وجہ سے عالمی حالات بھی چینج ہیں، اور سب سے بڑھ کر چین مزید قرض دینے سے گریزاں ہے، مزید براں چین اپنی بجلی بنانے والی کمپنیوں کے بقایا جات کے بارے میں سوال بھی کررہا ہے، یاد رہے یہ وہی کمپنیاں ہیں جن سے ن لیگ نے عجلت میں بہت ہی مہنگے معاہدے کیے تھے، اس وقت بجلی تو پوری ہو گئی تھی لیکن اب وہی بجلی قابل استعمال نہیں رہ گئی ہے، اگر ایک طرف لوگ بل دیکھ کر خودکشیاں کررہے ہیں تو دوسری طرف چینی کمپنیاں اپنے بقایا جات کے لیے چینی حکومت پر دباو ڈال رہی ہیں. نتیجہ پاکستان اور چین کا قرض کا تعلق مخدوش ہوا جا رہا ہے، ایسے میں امریکہ imf وغیرہ بھی پاکستان پر چین سے ریلیف حاصل کرنے کے لیے دباو ڈال رہے ہیں،
جہاں تک ڈالر ایکسپرٹ کی بات ہے تو پاکستان کجا دنیا کی بڑی بڑی کرنسیاں ڈالر کے بالمقابل گر رہی ہیں، پاونڈ یورو اور بھارتی روپیہ تک گر رہے ہیں. ایسے میں ڈالر کو واپس 182 پر لانا کسی معجزے سے کم نہ ہو گا. یاد رہے عدم اعتماد سے قبل ڈالر 182 روپے کا تھا تو اصولاً ن لیگ کو ڈالر کو کم از کم تحریک انصاف کے 182 تک تو ضرور ہی لانا چاہیے، وگرنہ کپتان کی مقبولیت کا سحر شاید ٹوٹ نہ پائے، کیونکہ تحریک انصاف کا دوسرا ہتھیار 150 پٹرول کی قیمت والا تو بدستور اپنی جگہ قائم و دائم ہی ہو گا، تو ایسے میں ن لیگ کے پاس کھیلنے کے لیے بہت ہی کم کارڈ بچے ہیں.
ان سردیوں میں گیس بھی مزید مہنگی ہونے جارہی ہے جبکہ مہنگی بجلی کا جن تو پہلے ہی بوتل سے نکل کر ہر گھر ناچ رہا ہے، کیا ن لیگ اس جن کو واپس بوتل میں قید کر سکے گی؟ ڈار صاحب 5 سال بعد لوٹے ہیں مگر وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ان 5 سالوں حالات کس قدر آگے بڑھ چکے ہیں،

خیر ڈار صاحب منجھے ہوئے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں اور انھوں نے PHD ہولڈر مفتاح اسماعیل کی جگہ لی ہے، مفتاح اسماعیل ایک پڑھے لکھے اور کامیاب صنعتکار بھی ہیں، لیکن سیانے کہتے ہیں کہ پڑھی لکھی باتیں کتابوں میں ہی اچھی لگتی ہیں، میدان میں تو تجربہ کام آتا ہے، مفتاح اسماعیل بہت لگے بندھے حساب سے معاملات چلا رہے تھے اور کچھ دن قبل تک قوم کو خوشخبریاں سنا رہے تھے کہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا، ملک تو شاید دیوالیہ ہونے سے بچ ہی گیا ہو گا، لیکن پاکستانی عوام کا بھرکس نکل گیا ہے، بجلی پٹرول پر لگنے والے ٹیکسز اب ناقابل برداشت ہو چکے ہیں، لوگوں کے ماہانہ بل 20 بیس ہزار تک آ رہے ہیں، جن کی ماہانہ کل کمائی ہی کل 20 ہزار روپے ہے، ن لیگ دن دوگنی رات چوگنی عوام میں اپنی مقبولیت کھو رہی ہے، ایسے میں ضروری تھا کہ ن لیگ فائٹ بیک کرے، اس لیے ن لیگ نے اپنے معاشی ٹیم کے ترکش کا آخری تیر چلا دیا ہے، امید ہے اب کچھ مثبت خبریں آنا شروع ہوں گی، 


عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان میں بھی تیل کی قیمتیں کم ہوں گی، اس سال بارشیں بھی بھرپور ہوئی ہیں تو اس سال پن بجلی بھی زیادہ بنے گی اس سے بجلی کی قیمتوں میں بھی کچھ کمی ہو گی، ڈالر اور تیل کی قیمتیں گرچہ تحریک انصاف کے دور تک تو نہ گر سکیں لیکن قدرے ریلیف بھی ن لیگ کی گرتی ساکھ کو سہارا ضرور دے پائے گا، اور ن لیگ بھی اس ریلیف کو اپنی نئی معاشی پالیسی اور نئی ٹیم کے کھاتے ڈال کر شاباشی بٹورنے کی کوشش کرے گی، بلکہ شاید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پچھلی ناکامیوں کو پنڈی کے کھاتے ڈال کر نئی کامیابیوں کو قائد محترم کے عظیم ویژن اور تجربہ کار حکمت عملی کے کھاتے ڈال کر ایک نئی نظریاتی مگر توانا ن لیگ کے کھاتے ڈالا جائے گا، کیونکہ قرین قیاس یہ ہے کہ IMF سے مشکل ڈیل بھی ہو چکی ہے، ڈیل کی مشکل اور کڑوی گولی بھی مفتاح کے کھاتے کھا لی گئی ہے، اب ڈیل کے بعد ڈالرز آنیوالے ہیں تو یہی وقت ہے کہ ن لیگ لندن حکومت کی کمان سنبھالے اور کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دے۔

Monday, September 26, 2022

اوورسیز پاکستانی کا مخمصہ

 اوررسیز پاکستانی

سوال اور جواب

اوورسیز پاکستانی اس وقت پاکستانی معیشت کے لیے فرشتے جیسے حیثیت رکھتے ہیں،

پاکستان کا تجارتی خسارہ آپ کے علم میں ہی ہو گا، تو ایسے میں ان کے بھیجے گئے ڈالرز سے ہی ملکی معیشت سانس لے رہی ہے، پچھلے سال ایکسپورٹ31.76 جبکہ امپورٹ 80 ارب ڈالرز کے لگ بھگ رہی، 50 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ؟ ایسے میں اوورسیز کے 31.2 ارب ڈالرز تو کسی غنیمت سے کم نہیں. 

کل پاکستان مل کر 31.76 ارب ڈالرز کماتے ہیں جبکہ اکیلے 90 لاکھ اوورسیز پاکستانی 31.2 ارب ڈالر کماتے ہیں، اس حساب سے تو پھر ان کا پاکستان کی پالیٹکس میں اتنا ہی حصہ بنتا ہے. اور پھر ان کا اس قیمتی زرمبادلہ کے ضیاع پر زیادہ کڑنا اور بات کرنا بھی بنتا ہے۔



پاکستان کی اورسیز اور انسانی ترقی کی وزارت کے اعدادوشمار کے مطابق 85 لاکھ سے زائد پاکستانی دنیا کے مختلف خطوں میں روزگار اور تعلیم کے سلسلے میں مقیم ہیں۔


اوورسیز کن مشکلات سے بیرون ملک جاتے ہیں وہ بھی آپ کے علم میں ہی ہو گا، لیکن پھر بھی یہ لوگ اپنے ملک، بہن بھائیوں ماں باپ کو نہیں بھولتے، بلکہ سخت محنت مزدوری کرکے قیمتی زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں، جس زرمبادلہ سے پاکستان کی جونکیں بیوروکریٹ اور دیگر اشرافیہ برانڈڈ لگثری اشیا درآمد کرتی ہے،

سیاسی اختلاف کی بنا پر تنقید بڑی آسان ہے، لیکن ان ہماری سیاسی جماعتوں نے کون سی معاشی پالیسیاں بنائی ہیں جس سے ہمارا تجارتی خسارہ ختم ہو جاتا، ن لیگ 6٪ ترقی کے دعوے کرتی ہے، کتنی ایکسپورٹ بڑھی ان کے دور میں؟ تو ان حالات میں بیرون ملک پاکستانی ہی ملک چلا رہے ہیں،


جہاں تک پراپرٹی کی قدغن لگائی آپ نے، ملک میں پالیسیاں بنانا حکام کا کام ہے ناکہ انفرادی طور پر پیسے بھیجنے والوں کا، آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ پنجاب کے گاوں دیہات میں کون بنگلے کوٹھیاں بناتا ہے، اس سے کس طرح مقامی لوگوں کو گھر کے قریب روزگار ملتا ہے، اشرافیہ تو کوہسار مارکیٹ اور بحریہ کا رخ کرتی ہے، آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ کنسٹرکشن سے مزید کتنی انڈسٹریز چلتی ہیں، اور ان انڈسٹریز میں کس کو روزگار ملتا ہے،

پاکستان بیرون ملک مقیم فیملیوں کے لیے ہالیڈے ہوم بھی ہے، یہ لوگ بھی پاکستان زرمبادلہ لے کر آتے ہیں، ہم بدلے میں ان کو کیا دے رہے ہیں؟ ان کی پاکستان سے وابستگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہئیے ناکہ سیاسی اختلافات کی بنا ان کو متنفر کریں، اگر وہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کو سپورٹ کرتے ہیں، تو بقیہ سیاسی جماعتوں کو بھی ان کو بہتر پالیسیوں اور حکمت عملی سے اپنی جانب مبذول کرنا چائیے، ناکہ ان کے پاسپورٹ بلاک کرنے جیسے مطالبات کرنے چاہیئں،دنیا کے 100 سے زائد ممالک اپنے اوورسیز کو ووٹ کا حق دیتے ہیں، جن میں فرانس اٹلی برطانیہ امریکہ کینیڈا قابل ذکر ہیں، ہم فقط متعصبانہ سیاست کرنا جانتے ہیں، ایک سیاسی پارٹی کے کارکن بنا دلیل منطق بس اپنی پارٹی کو سپورٹ اور دفاع کرتے ہیں جبکہ مخالف پارٹی کی مخالفت برائے سیاست.

اوورسیز میں اکثر لوگ کس طرح جان پر کھیل کر ایران ترکی یونان سے یورپ جاتے ہیں، کن مشکلات سے ان ممالک میں سیٹ ہوتے ہیں اور روزی کماتے ہیں اور پاکستان بھیجتے ہیں، اگر کچھ سیاسی جاعتوں کو ان سے کینہ ہے تو ان سیاسی جماعتوں کے پاس اس زرمبادلہ کا کیا متبادل ہے؟


اگر پاکستان کے وزیر ڈالرز کی بھیک مانگنے بیرون ملک جاتے ہیں تو واپسی پر قیمتی زرمبادلہ سے لگثری آئٹم کس منہ سے خریدتے ہیں؟


سرکاری خرچے پر جاکر ذاتی شاپنگیں فرما رہے ہیں، کیا یہ پاکستان کے بھوکے لاوارث لوگوں کے ساتھ مذاق نہیں ہے؟ کیا ہمارے پاس ان سوالوں کے جواب ہیں؟

ایسے وقت جب ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پے کھڑا ہے، ڈالر کی قیمت کس قدر بڑھ چکی ہے، اس سال پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کے کتنے ڈالرز درکار ہیں، ایک ارب ڈالر کے لیے imf نے پاکستان کے معاشی نظام میں کیا کیا قدغن لگائی ہیں، کتنے نئے ٹیکسز لگائے ہیں، جن سے بجلی گیس پٹرول کس قدر مہنگے ہو گے ہیں، سٹیٹ بینک سے پاکستان کا کنٹرول ختم ہو گیا ہے، آگے نجانے کیا کیا ہو گا، تو ایسے میں جب حکومتی وزیر ہی برانڈ اور لگثرری درآمدات کی تشہیر کریں گے تو پھر باقی لوگوں کا کیا بنے گا؟ 
اگر ملک بچانا ہے تو ڈالر بچاو ملک بچاو