Translate

Wednesday, March 13, 2024

اداروں کی نجکاری؟

 اداروں کی نجکاری؟

عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ریاستی یا سرکاری انتظام میں چلنے والے کاروباری ادارے جنوبی ایشیا میں بدترین ہیں۔

وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملک کے مختلف سیکٹرز میں212، SOEs کام کررہے ہیں جن میں سے 197ادارے نقصان میں چل رہے ہیں ۔ 2016میں ان اداروں کے نقصانات ملکی جی ڈی پی کا 0.5 فیصد تھے جو 2021میں بڑھ کر جی ڈی پی کے 4 فیصد سالانہ سے زائد ہوچکے ہیں ۔ نقصانات میں چلنے والے ان اداروں میں تقریباً 450,000 افراد روزگار سے منسلک ہیں جنہیں تنخواہیں اور مراعات دینے کے باعث یہ ادارے سالانہ 458ارب روپے کانقصان کررہے ہیں. خسارے اور منافع میں چلنے والے حکومتی اداروں کا موازنہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ادارے جہاں حکومتی عمل دخل حد سے زیادہ تھا، ملازمین کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا، پروفیشنل اور تجربہ کار CEOs کے بجائے ناتجربہ کار ریٹائرڈ بیورو کریٹس کو اداروں کا سربراہ بنایا گیا، ضرورت سے زائد ملازمین کی بھرتی، کرپشن اور اقربا پروری کی وجہ سے یہ ادارے مسلسل خسارے میں جاتے رہے اور آج یہ سفید ہاتھی قومی خزانے پر ناقابل برداشت بوجھ بن گئے ہیں

سب سے زیادہ 10 خسارے میں چلنے والے ادارے

کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی 108.5 ارب روپے

نیشنل ہائی ویز اتھارٹی 94.3 ارب روپے

پاکستان ریلوے 50.2 ارب روپے

سکھر الیکٹرک پاور کمپنی 40.8 ارب روپے

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز 36.7 بلین روپے

سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ 21 روپے۔ 4 ارب

پاکستان اسٹیل ملز 20.6 ارب روپے

حیسکو 17.7 ارب روپے

پاکستان اسٹیٹ آئل 14.8 ارب روپے

پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی 14.6 ارب روپے

پی آئی اے کی بنیاد 29 اکتوبر 1946 کو اورینٹ ایئر ویز کے طور پرکلکتہ، برطانوی ہندوستان میں رکھی گئی،1949 تک، اورینٹ نے کراچی-دہلی-کولکتہ-ڈھاکا روٹ کی خدمت کے لیے تین Convair CV-240 حاصل کیے اور Convair ہوائی جہاز چلانے والی پہلی ایشیائی ایئر لائن بن گئی۔ اکتوبر 1953 میں حکومت پاکستان نے اورینٹ ائیرویز کو ضم کرکے پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کارپوریشن بنا دی۔ نئی ایئر لائن نے 1955 میں قاہرہ اور روم کے راستے لندن کے لیے بین الاقوامی خدمات کا آغاز کیا۔ 1960میں پی آئی اے بوئنگ 707 طیارے کو بطور کمرشل استعمال کرنے والی پہلی ایشیائی ائیر لائن تھی، نیز کمپنی پارفٹ ایبل ادارہ بن گئی۔ 2 جنوری 1962 کو پی آئی اے کے کیپٹن عبداللہ بیگ نے بوئنگ 720 بی پرلندن سے کراچی جاتے ہوئے کمرشل ایئر لائن کو 938.78 کلومیٹر فی گھنٹہ (582.98 میل فی گھنٹہ) کی رفتار پر اڑا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا، یہ ریکارڈ آج بھی برقرار ہے۔ .1964 میں یہ چین کے لیے پرواز کرنے والی پہلی غیر کمیونسٹ ایئر لائن بن گئی۔ 10 مئی 1964 کو، پی آئی اے ماسکو کے راستے یورپ کے لیے پروازیں پیش کرنے والی پہلی غیر سوویت ایئر لائن بن گئی۔ایئر لائن نے 1985 میں ایمریٹس کے قیام میں مدد کی۔1972 میں مسافروں کی تعداد 698،000 تھی جو 1976 میں 2.2 ملین تک پہنچ گئی نیز اسی دوران اس کا ریونیو بھی تیزی ے بڑھا۔ 2004 میں پی آئی اے بوئنگ 777-200LR کی لانچ کسٹمر بن گئی۔ 10 نومبر 2005 کو، پی آئی اے نے بوئنگ 777-200LR کا استعمال ایک کمرشل ہوائی جہاز کے ذریعے دنیا کی سب سے طویل نان اسٹاپ پرواز کو مکمل کیا۔ یہ پرواز ہانگ کانگ اور لندن کے درمیان مشرقی راستے پر 22 گھنٹے 22 منٹ تک جاری رہی۔



پاکستان میں پانچ ایئرلائنز ہیں جن میں سے چار نجی ہیں۔ سبھی ایک جیسا ہی کرایہ لیتے ہیں اور ایک ہی سطح کی سروس فراہم کرتے ہیں۔ اس کے باوجود چار نجی ایئر لائنز تو پیسہ کماتی ہیں اور ٹیکس ادا کرتی ہیں لیکن دوسری جانب پی آئی اے کو گزشتہ سال 172 ارب روپے کی فروخت پر 88 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ یہ 51 فیصد نقصان ہے اور یہ نقصان کا وہ تناسب جسے پورا کرنا مشکل ہے چاہے کوئی کتنی ہی کوشش کرلے۔  پی آئی اے کا اب تک کا مجموعی خسارہ 717 ارب روپے ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت 900 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ 

جتنی دیر آپکو یہ پڑھنے میں لگی اتنی دیر میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو 234,000 روپے کا نقصان ہو چکا جو تقریباً سات افراد کی کم از کم تنخواہ کے برابر ہے۔


پاکستان میں ایک مسافر طیارے پر 600 سے 700 افراد پر مشتمل عملہ موجود ہے جو دنیا کی کسی بھی منافع بخش ائیرلائن کے لیے مطلوبہ عملے کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے. دنیا کی صف اول کی ایئر لائنز میں ملازمین اور طیارے کا تناسب 200سے 220 ملازمین ہوتا ہے جبکہ پی آئی اے میں ملازمین اور طیارے کا تناسب 500 سے زیادہ ہے یعنی پی آئی اے میں ملازمین کا تناسب دنیا کی ایئر لائنز سے دگنے سے بھی زائد ہے. اس کے مقابلے میں قطر ائر لائن میں فی طیارہ ملازمین کی تعداد 133، ایمیریٹس میں 231، ترکش میں 94، جبکہ اتحاد ائر لائن میں 211 تھی۔ پی آئی اے کے پاس کل 31 جہاز ہیں، ان میں 15 کے لگ بھگ جہاز ایسے ہیں جو پی آئی اے نے لیز پر حاصل کر رکھے ہیں، کماتے روپے میں ہیں، ادائیگیاں ڈالر میں کرنا ہوتی ہیں

900 ارب روپے کی یہ رقم 15 آغا خان یونیورسٹی اسپتالوں، 60 لمس یونیورسٹیوں یا پورے پاکستان میں 18 ہزار اسکولوں کی تعمیر کے لیے کافی ہے۔

صرف گزشتہ 15 سالوں میں، ٹیکس دہندگان نے پاکستان ریلوے پر 783 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے جبکہ اس کی موجودہ مالیت تقریباً ایک ہزار ارب روپے ہے۔ ریلوے میں اس وقت 65 ہزار ملازمین ہیں جبکہ دوسری جانب ادارے کو ایک لاکھ 32 ہزار ریٹائرڈ ملازمین کو ہر ماہ پینشن دینی ہوتی ہے۔ ستر کی دہائی کے آخر تک پاکستان ریلوے ایک منافع بخش ادارہ تھا کیونکہ یہ کارگو کے شعبے میں بہت زیادہ کام کرتا تھا تاہم اس کے بعد سارا کارگو بزنس نجی اداروں کو منتقل ہو گیا۔

پاکستان سٹیل ملز25  ارب کی لاگت سے 1973 میں بنائی گئی

3500 ٹن فعال حالت میں اس کارخانے کی روزانہ ہیداوار تھی

14000 افراد اس مل میں کل وقتی یا جز وقتی ملازم ہیں

19000 ایکڑ سٹیل ملز کا ملکیتی رقبہ ہے جبکہ کارخانہ 4500 ایکٹر پر قائم ہے

110 میگا واٹ کا تھرمل بجلی گھر بھی مل میں واقع ہے جو نیشنل گرڈ کو بھی بجلی فراہم کرتا تھا

سنہ 2007ء تک پاکستان سٹیل ملز بھی ایک منافع بخش ادارہ تھا، جو نہ صرف ملکی ضروریات پوری کر رہی تھی بلکہ اس کی مصنوعات برآمد بھی کی جاتی تھیں لیکن پھر یہ منافع بخش ادارہ بھی خسارے کا شکار ہوتا چلا گیا اور 2015ء میں اس کی پیداوار کو بند کر نا پڑا۔ 2008ء سے 2023ء تک سٹیل ملز کا آپریشنل خسارہ 206 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ اربوں روپے کی مشینری ناکارہ ہو چکی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2015ء سے 2022ء تک ملک میں 18 ارب ڈالر کی سٹیل درآمد کی گئی ، یہی رقم پاکستان سٹیل مل پر خرچ کر کے اسے بحال کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت نے ایک تحریری بیان میں پاکستان سٹیل ملز کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ سندھ حکومت پاکستان اسٹیل ملز کی مکمل نجکاری کے خلاف ہے اور ادارے کے ملازمین کو بھی کسی صورت نوکریوں سے فارغ کرنے کے فیصلے کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔

پاکستان کے توانائی سیکٹر بالخصوص واپڈا کے ذیلی اداروں کے نقصانات ملکی معیشت کیلئے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بڑھ کر 2500ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جس کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔ آئی پی پیز معاہدے بھی پاور سیکٹر پر لٹکتی تلوار ہیں اور توانائی سیکٹر میں فوری اصلاحات کرکے بجلی کی چوری، ٹی اینڈ ڈی نقصانات اور گردشی قرضوں میں کمی لائی جائے ۔

22 جنوری 1991 کو نجکاری کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ 28 ستمبر 2000 کو ’’نجکاری کمیشن آرڈیننس 2000‘‘ کے تحت کمیشن کو ایک کارپوریٹ باڈی میں تبدیل کر دیا گیا تھا، جس سے اس کمیشن کی قانونی حیثیت مزید مضبوط ہو گئی تھی۔ 4 اگست 2017 کے بعد سے یہ کمیشن وفاقی حکومت میں نجکاری کی وزارت کے تحت کام کر رہا ہے۔

جنوری 1991 سے جون 2022 تک 178 سرکاری اداروں کی نجکاری کی جا چکی ہے۔ جبکہ ان 178 سرکاری اداروں کی نجکاری سے 649 ارب 11 کروڑ 40 لاکھ روپے حکومت پاکستان کے خزانے میں جمع ہوئے، 

یاد رہے کہ گزشتہ 6 مالی سالوں کے دوران وزارت نجکاری کو محکمہ فنانس کی جانب سے ایک ارب 9 کروڑ  60لاکھ  روپے اخراجات کی مد میں ادا کیے جا چکے ہیں، تاہم اس تمام عرصے میں وزارت نجکاری مالی سال 2018 سے مالی سال 2023 تک محض 2 ارب روپے کی نجکاری کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ رواں مالی سال 2024-2023 میں محکمہ نجکاری کو اخراجات کی مد میں 31 کروڑ روپے ادا کیے جائیں گے۔  

حوالہ جات:



Reference:

PIA goes from being a success story to the brink of collapse

Eye-watering losses