Translate

Showing posts with label Sports. Show all posts
Showing posts with label Sports. Show all posts

Saturday, October 7, 2023

ورلڈ کپ 2023، فیورٹزم اور پاکستان کا سیمی فائنل روڈ میپ

 ورلڈ کپ 2023، فیورٹزم اور پاکستان کا سیمی فائنل روڈ میپ

ورلڈ کپ کو لے کر آجکل ہر کوئی فیورٹ سیمی فائنلسٹ ٹیموں کی پیشن گوئیاں کر رہا ہے، 

اگر پیشن گوئیوں کو دیکھا جائے تو تین ٹیموں بھارت، انگلینڈ آسٹریلیا پر تقریباً سبھی متفق ہیں البتہ چوتھی ٹیم وائلڈ کارڈ ہے؟

 


اکثر ماہرین برصغیر کی علاقائی ٹیم ہونے کے ناتے پاکستان کو چوتھی ٹیم قرار دے رہے ہیں جبکہ نیوزی لینڈ انگلینڈ کیخلاف شاندار فتح کے بعد سیمی فائنل کی مضبوط امیدوار بن کر سامنے آئی ہے. 



ہالینڈ سے جیتنے کے بعد اگر پاکستان افغانستان سری لنکا بنگلہ دیش سے جیت بھی جاتا ہے تو بھی پاکستان کو بڑی ٹیموں میں سے کم از کم 2 میچز تو جیتنے ہی پڑیں گے ورنہ پھر وہی اگر مگر والے چکر ہوں گے. 

اگر ٹیموں پر نظر دوڑایں تو بڑی ٹیمیں اپنی پوری طاقت اور توازن کیساتھ میدان میں اتری ہیں، 

انگلینڈ تو گزشتہ کچھ عرصہ سے حیرت انگیز کھیل کا مظاہرہ کررہی ہے اور معین اور عادل کی شمولیت سے تقریباً بہترین متوازن سائیڈ ہے. 

آسٹریلیا ہمیشہ کی طرح ون ڈے کی مضبوط سائیڈ ہے اور اپنے بہترین پلیئرز کیساتھ ورلڈکپ میں موجود ہے. 

بھارت کی بیٹنگ تو ہمیشہ اس کا طرہ امتیاز رہا ہے وہیں پر اس کے اسپنر بھی خوب کردار نبھا رہے ہیں۔ جبکہ ون ڈے میں کسی ٹیم کے آل راونڈر ٹیم کے توازن کو مزید بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تو ہارڈک پانڈیا بھارت کے آل راونڈ ڈیپارٹمنٹ کو بہترین بنائے ہوئے ہیں، آ جاکہ بھارت کہیں نہ کہیں فاسٹ باولنگ ڈیپارٹمنٹ میں مار کھا رہی تھی اور پچھلے کافی عرصہ سے بمپرا کے جوڑی دار کی تلاش میں تھی، جو سراج کی ایشیا کپ میں پرفارمنس سے لگ بھگ پوری ہو گئی ہے، اب بھارت بلاشبہ ورلڈکپ کی فیورٹ ترین ٹیم بن چکی ہے. 

ان تین مضبوط ٹیموں کے بعد نیوزی لینڈ اور ساوتھ افریقہ چوتھی ممکنہ سیمی فائنلسٹ کے لیے پاکستان کی حریف ٹیمیں ہیں. ان دو میں سے ایک کیخلاف تو پاکستان کو لازماً جیتنا ہو گا. 

جہاں تک پاکستان کی ٹیم کا تعلق ہے تو پاکستان فل سٹرینتھ اور مطمئمن اسکواڈ کیساتھ ورلڈکپ میں نہیں اترا ہے، خاص کر ورلڈ کپ سے قبل ایشیا کپ میں بری کارکردگی سے نہ صرف پاکستان نمبر 1 ٹیم سے نیچے ڈراپ ہوا وہیں پاکستان کے کئی ڈیپارٹمنٹ میں نقائص بھی کھل کر سامنے آئے۔  

بہترین لائن لینتھ کے باولر نسیم شاہ کے ان فٹ ہونے کے بعد پاکستان کا فاسٹ باولنگ اٹیک ڈسٹرب ہو گیا ہے، اور اب پاکستان فاسٹ بولنگ اٹیک کی بجائے ڈسپلنڈ لائن لینتھ سے دفاع کی پوزیشن لے چکا ہے۔   

دوسری طرف پاکستان اسپین کے شعبے میں مسلسل مار کھا رہا ہے، پاکستان مستند اسپنرز کو کھلانے کی بجائے آل راونڈر اور پارٹ ٹائم اسپنرز پر بھروسہ کررہا ہے جو کہ سری لنکا جیسی بہ نسبت کم تجربہ کار بیٹنگ لائن کو بھی 300 کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ورلڈ کپ میں موجود ہر ٹیم کم از کم ایک سپیشلسٹ اسپنر کیساتھ تو ضرور کھیل رہی ہے۔

جبکہ پاکستان ابھی بھی شاداب اور نواز سے ڈنگ ٹپانے کی کوشش میں مبتلا ہے۔ شاداب کی فلائٹز اور شارٹ پچ بولز شاید ٹی 20 میں تو کارآمد ہوں کیونکہ ٹی 20 میں بیٹسمین جلدی میں ہوتے ہیں جبکہ ون ڈے میں بیٹسمین کے پاس وقت ہوتا ہے اور وہ بری بالز کا انتظار کرتے ہیں، تو ایسے میں شاداب کی شارٹ پچ بالز تو بالکل فری لنچ ثابت ہوتی ہیں۔ کئی ماہرین اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ پاکستان کو شاداب کی بجائے اسامہ میر کو کھیلانا چاہئے اور اگر شاداب کو بچانا مقصود ہے تو پھر نواز کی قربانی دینی چائیے، کیونکہ نواز ابھی تک بیٹنگ ڈیپتھ میں نہ تو کوئی میچ وننگ اننگز کھیل پائے ہیں اور نہ ہی اپنی بولنگ سے ویرات کو 15 رنز لینے سے روک پائے ہیں۔ سری لنکا سے ہارنے کے بعد سوشل میڈیا پر نواز کی جگہ عماد کو کھلانے کی پرزور مہم چلی تھی جو اتنی بے جا بھی نہ تھی کیونکہ بیٹنگ میں عماد کا کانفیڈینس لیول نواز سے بہت بہتر ہے اور عماد پاکستان کو اپنی بیٹنگ سے میچ بھی جتوا چکے ہیں لیکن مسئلہ وہیں اسپن کردار پے آکہ اٹکتا ہے، عماد ٹی 20 میں تو کارآمد ثابت ہوتے ہیں لیکن ون ڈے میں ان کا بریک چلنے کا گمان شاید کم ہی ہے۔ کیونکہ وہی بات ون ڈے میں بیٹسمین کے پاس رک کر پوائنٹ میں چوکا لگانے کا بہت وقت دستیاب ہوتا ہے۔ 

پاکستان آل راونڈ کے شعبے میں بھی کمزور ہے اور فہیم وغیرہ پر کیے گے مسلسل تجربات ابھی تک ناکام ہی رہے ہیں۔

بہترین اوپننگ سٹینڈ:

ایک متوازن اوپننگ سٹینڈ پاکستان کی بیٹنگ کا ہمیشہ خواب ہی رہا ہے کیونکہ پاکستان جلد وکٹ گرنے پر دباو کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور حالیہ میچوں میں فخر زمان بالکل آوٹ آف فارم جارہے ہیں۔ گو فخر زمان 2023 کے شروع میں ون ڈے رینکنگ میں نمبر 2 پر تھے مگر خراب کارکردگی کی بدولت ورلڈ کپ سے قبل وہ 11 نمبر تک نیچے جاچکے ہیں۔ 


فخر زمان نے ماضی چند بڑی اننگز کھیل رکھی ہیں اور ان کا ایسا میچ وننگ پلیئر سمجھا جاتا ہے جو اگر چل جائے تو تن تنہا ہی ٹیم کو میچ جتوا دیتا ہے اور ان کی اسی خوبی کو لے کر پاکستان ان کو مسلسل کھلائے جارہا ہے لیکن ایک اچھی بیٹنگ لائن میں کسی ایک پلئیر پر انحصار کی بجائے اگرسبھی پلئیرز اپنا حصہ ڈالتے جایں تو بیٹنگ کارکردگی میں تسلسل اور استحکام آتا ہے، اس لیے پاکستان کو کارکردگی کے تسلسل کو اپنی پالیسی بنانا چایئے۔ پاکستان کو بغیر کسی وکٹ کے نقصان کے آغاز چایئے،
 چوتھے نمبر پر رضوان اننگز کو استحکام تو 5 نمبر پر موجود سعود شکیل بیٹنگ ڈیپتھ مہیا کررہے ہیں۔ سعود شکیل کو بھی بالکل آخر میں اسکواڈ میں شامل کیا گیا ہے وجہ وہی سلمان آغا کی پارٹ ٹائم بولنگ، لیکن سعود شکیل سلمان آغا سے بہتر پرفارم کررہا ہے۔ اس لحاظ سے سوائے اوپننگ کے پاکستانی بیٹنگ لائن کافی مستحکم ہو چکی ہے، ضرورت ہے تو اب اوپننگ پر دھیان کی۔

کپتانی:

بابر کی لگی بندھی کپتانی بھی ہارنے کی صورت میں موضوع بحث بن ہی جاتی ہے۔ اسکواڈ سیلیکشن میں بابر پر دوستی کے الزام تو لگتے ہی رہتے ہیں البتہ میدان میں بھی کبھی تو ایسے لگتا ہے جیسے بابر بولرز کو لڑا نہیں بلکہ ان کے اوورز پورے کروا رہے ہوں. ایک چیز بابر کی فیور میں جاتی ہے جب وہ خود پرفارم کرتے ہیں تو ٹیم کا مورال اپ ہوتا ہے۔


بابر اعظم اس ورلڈ کپ میں نمبر 1 پلیئر کی حیثیت سے شریک ہو رہے ہیں، بابر اعظم اپریل 2021 میں نمبر 1 بیٹسمین بنے تھے اور ابھی تک اپنی کارکردگی سے اس پوزیشن پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ ان کے قریب ترین حریف شبھمن گل ان سے محض 19 پوائنٹس کی دوری پر ہیں۔ تو ایسے میں کارکردگی میں ذرا سی چوک ان سے نمبر 1 پوزیشن تو چھینے گی ہی ساتھ ورلڈ کپ میں سیمی فائنل میں نہ پہنچنے کی صورت میں شاید کپتانی بھی جاتی رہے، کیونکہ شاہین آفریدی کپتانی کے مضبوط امیدواربن کر کپتانی سے اب محض بابر کی چند غلطیوں کی دوری پر ہی ہیں۔ 
پاکستان 2023 میں 13 ورلڈ وکپ کھیلنے جا رہا ہے، گزشستہ 12 ورلڈ کپ میں پاکستان 4 دفعہ سیمی فائنل، ایک دفعہ فائنل رنراپ 1999، ایک دفعہ چیمپئن 1992 رہ چکا ہے، جبکہ پاکستان کی ورلڈ کپ میں بری ترین کارکردگی 2003 اور 2007 میں رہی جب قومی ٹیم 10 نمبر پر رہی۔ گو 2019 کے ورلڈکپ میں پاکستان سیمی فائنل تک نہیں پہنچ پائی تھی مگر پھر بھی پاکستان کی کارکردگی حوصلہ افزا رہی تھی جہاں پاکستان نے چند بڑی ٹیموں کو مات دی تھی۔  

پاکستان کا سیمی فائنل تک کا روڈ میپ

ورلڈ کپ میں 10 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ جن کی ورلڈ کپ سے قبل رینکنگ یہ ہے

1 انڈیا 117

2 پاکستان 116

3 آسٹریلیا 110

4 جنوبی افریقہ 108

5 انگلینڈ 105

6 نیوزی لینڈ 105

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

7 بنگلہ دیش 92

8 سری لنکا 91

9 افغانستان 78

14 نیدرلینڈز 37

ہر ٹیم ہر ٹیم کیساتھ ایک میچ کھیلے گی۔اس طرح ہر ٹیم 9 میچز کھیلے گی اور اگر کوئی ٹیم سارے میچز جیت جاتی ہے تو 18 پوائنٹ حاصل کرے گی اسی طرح بالترتیب 16 اور 14 پوائنٹس والی دوسری اور تیسری ٹیم ہو سکتی ہے۔ اس لحاظ سے 12 پوائنٹ حاصل کرنے والی ٹیم سیمی فائنل کی چوتھی ٹیم ہو سکتی ہے۔

اگر درج بالا رینکنگ کو دیکھا جائے اور اگر کوئی اپ سیٹ نہ ہو تو ٹاپ 6 ٹیمیں نیچے والی 4 ٹیموں سے 4 میچ جیت کر 8 پوائنٹس حاصل کر لیں گی۔ اس طرح ٹاپ 6 میں سے ہر ٹیم کے پاس 8 پوائنٹس ہوں گے، اب بقیہ 4 پوائنٹس اس کو ٹاپ 6 ٹیمز میں سے کسی 2 ٹیم سے جیت کر ہی حاصل کرنا ہوں گے اور دراصل یہی اہم ترین مقابلے ہوں گے۔ 

پاکستان کے میچز!

پاکستان بمقابلہ نیدرلینڈ، یہ میچ جیت کر پاکستان 2 پوائنٹ حاصل کرچکا ہے، گو یہ جیت ون سائیڈڈ نہیں تھی کیونکہ پاکستان کا یہ طرہ رہا ہے کہ پاکستان ورلڈ کپ میں اکثر کمزور ٹیموں سے ہارتا رہا ہے اور 38 پر 3 آوٹ ہونے پر تو تاریخ خود کو دہراتی محسوس ہورہی تھی مگر رضوان کے اعتماد اور سعود کی بہادری نے اس دفعہ تاریخ کے آگے بند باندھ دیا۔


میچ نمبر 2: پاکستان بمقابلہ سری لنکا، 

پاکستان اور سری لنکا ورلڈ کپ میں اب تک 7 مرتبہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکے ہیں اور ساتوں مرتبہ پاکستان کا پلہ بھاری رہا ہے، 

پاکستان 7، سری لنکا 0

پاکستان نے 2019 کے ورلڈ کپ میں سری لنکا کو ہرایا تھا۔ اسی طرح اگر آخری 5 ون ڈے میچوں کو دیکھا جائے تو ان میں سے 4 ون ڈے پاکستان نے جیتے ہیں۔  لیکن یاد رہے ابھی ایشیا کپ میں سری لنکا نے پاکستان کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ اسی طرح پچھلے ایشیا کپ 2022 کے ٹی20  فائنل میں بھی سری لنکا پاکستان کو ہرا چیمپئن بنا تھا۔ آخری 5 ٹی 20 میچوں میں بھی سری لنکا فتح یاب رہا ہے۔ سری لنکا کی اصل طاقت اس کی سپین بولنگ ہے جس سے پاکستان کو خبردار رہنا ہو گا، اور کسی ایڈوانچر کی بجائے لوز بالز کا انتظار کرنا ہو گا۔ پاکستان اگر پہلے بیٹنگ کرتا ہے تو اسے 300 سے اوپری ٹارگٹ دینا ہو گا، اور اگر پہلے بولنگ کرتا ہے تو سری لنکا کو 250 سے نیچے روکنا ہو گا۔

پاکستان کو جیتنا چایئے: 2 پوائنٹ

 

میچ نمبر 3: بھارت بمقابلہ پاکستان، 

اگر یہ کہا جائے کہ 14 اکتوبر کو پاکستان اور بھارت کا میچ دراصل اس ورلڈ کپ کا سب سے زیادہ جوش انگیز میچ ہو گا تو غلط نہ ہو گا۔ یہ میچ گجرات، احمدآباد کے نریندرمودی سٹیڈیم منعقد ہو گا۔ جس میں 132،000 تماشائیوں کی گنجائش ہے، اور میچ کے تقریبا" ٹکٹ فروخت ہو چکے ہیں، اس حساب سے 14 اکتوبر کو بھارت میں تہوار سا سماں ہو گا۔

گو مجموعی طور پر کھیلے گئے 134 میچز میں سے 73 میچ جیت کر پاکستان کو برتری حاصل ہے لیکن شومئی قسمت پاکستان بھارت کو اب تک ورلڈ کپ میں ہرا نہیں سکا ہے، پاکستان اور بھارت پہلی دفعہ 1992 کے ورلڈ کپ میں آمنے سامنے آئے تھے اور اب تک پاکستان اور بھارت ورلڈکپ میں 7 مرتبہ آپس میں کھیل چکے ہیں اور ساتوں مرتبہ ہی پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، 

پاکستان 0، بھارت 7

اب پھر سنہرا موقع ہے کہ اس مرتبہ بھارت کو بھارت میں ہرا کر موقع موقع کا جواب دیا جائے۔

پاکستان اور بھارت کی بیچ پہلا ون ڈے اکتوبر 1978 کو کوئٹہ میں کھیلا گیا تھا جو بھارت نے 4 رنز سے جیت لیا تھا۔

پاکستان بھارت کے بیچ کھیلے گئے اگر آخری 5 ون ڈے کو دیکھا جائے تو ان میں سے 4 میں انڈیا جیتا جبکہ ایک میچ بارش کی نذر ہو گیا۔ پاکستان انڈیا سے آخری دفعہ جون 2017 میں چیمپئن ٹرافی کے فائنل میں جیتا تھا- دونوں کے مابین آخری ون ڈے ایشیا کپ 2023 میں کھیلا گیا جس میں بھارت نے پاکستان کو شکست فاش سے دوچار کیا، بھارت نے 356 رنز بڑا ہدف دیا جس کے تعاقب میں پاکستان 128 رنز پر ڈھیر ہو گیا تھا میچ کی خاص بات بھارتی بیٹنگ ردھم اور لیفٹ آرم اسپنر کلدیپ یادیو کی 5 وکٹیں تھیں، جس نے پاکستان کو چاروں شانے چت کرکے رکھ دیا تھا۔



جہاں تک نریندر مودی سٹیڈیم کی پچ رپورٹ ہے تو یہ بیلینسڈ پچ ہے جہاں فاسٹ بولرز کو شروع میں باونس بھی ملتا ہے لیکن وقت گزرنے کیساتھ پچ سلو ہوتی جاتی ہے-جبکہ ڈے اینڈ نائٹ میچ کیصورت میں ڈیو (شبنم) فیکٹر بھی دوسری باری میں بولرز کے لیے مشکل کا باعث ہو سکتا ہے۔ یہاں 2010 میں افریقہ 365 رنز بنا چکا ہے، اس پر 29 میچز ہو چکے ہیں جن میں 16 دفعہ پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم ونر رہی ہے۔ جبکہ دوسری باری کھیل کر بھارت 2002 میں 325 رنز چیز بھی کرچکا ہے۔ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ اسی ورلڈ کپ کا اپنا پہلا میچ  اسی گراونڈ پر 5 اکتوبر کو کھیل چکے ہیں جس میں انگلینڈ نے پہلے کھیلتے ہوئے 282/9 رنز بنائے تھے جو نیوزی لینڈ نے 36 اوورز میں ایک وکٹ کے نقصان پر بآسانی چیز کر لیے تھے۔

اگر دونوں ٹیموں کی بات کی جائے تو بھارت ورلڈ کپ میں بہترین کھیل پیش کررہا ہے، جہاں پہلے میچ میں اس نے آسٹریلیا کو 200 سکور پر آوٹ کیا اور ہدف محض 4 وکٹ پر حاصل کرلیا، پھر افغانستان کو 272 تک روکا اور ہدف محض 2 وکٹ کے نقصان پر 35 اوورز میں ہی حاصل کرلیا. فی الوقت انڈیا بیٹنگ بولنگ دونوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے، بیٹنگ میں روہت شرما افغانستان کے خلاف بہترین فارم میں دکھائی دیے اور سینچری سکور کی، اسی طرح ویرات کوہلی بہترین ذمہ درانہ کھیل کا مظاہرہ کررہے ہیں اور آسٹریلیا کے خلاف جب 2 رنز پر 3 وکٹ گر چکی تھیں تو ویرات کوہلی نے نہایت ذمہ داری سے کھیلتے ہوئے ٹیم کو فتح سے ہمکنار کیا۔ اسی سبب انڈین شائقین ویرات کو مسیحا بھی کہتے ہیں۔ بولنگ میں بمرا 2 میچوں میں 6 وکٹیں لے چکے ہیں اور اچھی پیس میں ہیں، اور اسپن ڈیپارٹمنٹ بھارت کا ویسے ہی بہت مضبوط ہے۔ 

بھارت 4 مستند بیٹسمین، 4 سپیشلسٹ بولر جبکہ 2 آل راونڈرز اور 1 وکٹ کیپر بیٹسمین کیساتھ میدان میں اترتا ہے، اوورآل بھارت کی ٹیم بہترین متوازن ٹیم ہے۔ جس کو شکست دینا اب کسی چمتکار سے کم نہیں لگ رہا۔

جہاں تک پاکستان ٹیم کا تعلق ہے تو پاکستان ہمیشہ کی طرح اگر مگر کا شکار ہے، پاکستان کی ہالینڈ کے خلاف کارکردگی چیمپئن جیسی نہ تھی وہیں سری لنکا کے خلاف بھی پاکستان کی جیت معجزاتی ہی تھی، کہ ایسے چیز روز روز نہیں ہوتے۔

بیٹنگ میں اوپننگ پہلے میچ سے فیل رہی، دوسرے میچ میں امام الحق پھر ناکام رہے، اوپر سے بابر تاحال ناکام جا رہے ہیں۔ جو پاکستان کے لیے المیے سے کم نہیں۔ بابر اعظم اپنی آخری 5 اننگز میں محض 71 رنز ہی بنائے ہیں۔ البتہ پہلی دفعہ پاکستان کا مڈل آرڈر اپنا بھرپور رول ادا کررہا ہے۔

جہاں تک بولنگ کی بات ہے تو ورلڈ کپ سے قبل پاکستان کے فاسٹ بولنگ اٹیک کو بہترین قرار دیا جارہا تھا لیکن نسیم شاہ کی انجری سے فاسٹ بولنگ اٹیک گہنا گیا۔ اوپر سے شاہین شاہ آفریدی کو نہ تو ابھی تک سوئنگ مل پارہی ہے اور نہ ہی ان کی پیس نکل رہی ہے، بلکہ آخری میچ میں تو آفریدی 130سے 135 کلومیٹر کے لگ بھگ بولنگ کرتے دکھائی دیے۔ ایسی صورتحال میں پھر یہی آپشن بچتا ہے کہ بولرز رسک لینے کی بجائے ڈسپلنڈ لائن اور لینتھ پر توجہ دیں اور بیٹسمین کو رسک لینے دیں، 

پاکستان کا اسپن کا شعبہ تو ویسے ہی روبہ زوال ہے کہ پاکستان ثقلین اور سعید کے بعد کوئی ورلڈ کلاس اسپنر کھوجنے میں ناکام رہا ہے ایسے میں پاکستان پارٹ ٹائم اسپنرز سے کام چلا رہا ہے جو اوورز مکمل کرنے کیساتھ ہلکی پھلکی بیٹنگ بھی کرلیتے ہیں۔ تو ایسے میں سارا زور پھر بیٹنگ پر ہی پڑتا ہے، بیٹنگ میں پھر بابر کا فرنٹ سے لیڈ کرنا ہو گا تبھی ورلڈ کپ جیسا معرکہ سر ہو گا۔

ویسے بھی یہ ورلڈ کپ بھارت میں ہورہا ہے جہاں بولرز کی پٹائی تو ہونی ہی ہے، تو ایسے میں ڈسپپلنڈ لائن لینتھ سے مخالف کو کم سے کم ٹارگٹ تک روکا جائے اور پھر جوہر بیٹنگ میں دیکھایا جائے۔  

پاکستان 5 سپیشلسٹ بیٹسمین، 3 سپیشلسٹ بولرز، 2 پارٹ ٹائم بولر & بیٹسمین اور 1 وکٹ کیپر بیٹسمین کیساتھ میدان میں اتر رہا ہے۔ 

اگر اعدادوشمار پر مبنی حقیقی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کا جیتنا مشکل ہے لیکن اگر اعصابی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان سری لنکا کے خلاف تاریخ ساز فتح کے بعد بہت پراعتماد ہوگا اور اگر پاکستان بیٹنگ میں شروع کے پریشر کو ہینڈل کر گیا تو پھر پاکستان اسی اعتماد کے ریلے میں بھارت کو بہا لے جائے گا۔ 

پاکستان کے جیتنے کا چانس کم ہے : 0


میچ نمبر 4: آسٹریلیا بمقابلہ پاکستان، 

دونوں ورلڈ کپ میں 10 مرتبہ ٹکرا چکے ہیں، جن میں آسٹریلیا کا پلڑا بھاری رہا ہے۔

پاکستان 4، آسٹریلیا 6

دونوں کے بیچ ورلڈکپ 2023 کا میچ بنگلور کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا جو لگ بھگ بیٹنگ وکٹ ہے جہاں پر روہت شرما ڈبل سینچری بنا چکے ہیں، باونڈریز چھوٹی جبکہ آوٹ فیلڈ تیز ہے اننگز کے اختتامی اوورز میں زیادہ سکور بنتے ہیں یہاں افتخار احمد اور جوش اہم ثابت ہوسکتے ہیں، پہلے کھیلنے والی ٹیم کم از کم 320+ ہدف دینے کی کوشش کرے گی.

اوورآل پاکستان آسٹریلیا 107 میچز کھیل چکے ہیں جن میں سے 69 آسٹریلیا جبکہ 34 پاکستان نے جیتے ہیں۔ آخری ون ڈے میچ اور سیریز دونوں کے بیچ پاکستان میں 2022 میں کھیلی گئی تھی جس کے 3 میچز میں سے 2 پاکستان نے جیتے تھے۔ اس سے قبل پچھلے ورلڈ کپ 2019 کے میچ میں آسٹریلیا نے پاکستان کو شکست دی تھی۔ اس سے پہلے 2019 میں ہی کھیلے گئے 2 میچز میں بھی آسٹریلیا فتح یاب رہا تھا۔ اس طرح آخری کھیلے گئے 6 میچز سے پاکستان فقط 2 میچز ہی جیت پایا ہے اور وہ بھی ہوم گراونڈ پر، بھارت کی سرزمین پر دونوں ٹیمیں صرف ایک دفعہ مدمقابل آئی ہیں اور اس میں پاکستان فتح یاب رہا تھا۔

آسٹریلیا اس ورلڈ کپ میں ابھی تک 3 میچوں سے 2 اہم میچ ہار چکا ہے اور اب سیمی فائنل کی دوڑ میں شامل رہنے کے لیے پاکستان کیخلاف جیتنے کی بھرپور کوشش میں ہو گا، یاد رہے آسٹریلیا واحد ٹیم ہے جو 5 مرتبہ ورلڈ کپ جیت چکی ہے۔

پاکستان گرچہ اپنے 3 میچز سے 2 جیت چکا ہے مگر ابھی تک ایک بھی اہم میچ نہیں جیت پایا ہے۔ آخری میچ میں بھارت کیخلاف پاکستان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن تھی۔ پاکستان کے فاسٹ بولر تھکے ہوئے ہیں اوپنر چل نہیں رہے اور اسپن تو ویسے بیکار ہے، ایسے میں کوئی جادوئی پرفارمنس ہی پاکستان کو جتوا سکتی ہے۔

آج کے میچ میں آسٹریلیا فیورٹ ہے۔

پاکستان کے جیتنے کا چانس کم ہے : 0


میچ نمبر 5: پاکستان بمقابلہ افغانستان، 

پاکستان اور افغانستان ورلڈکپ 2019 میں پہلی مرتبہ آمنے سامنے آئے تھے اور اس میں پاکستان فتح یاب رہا تھا، 

پاکستان 1، افغانستان 0

اس میچ میں عماد وسیم مین آف دی میچ رہا تھا۔

پاکستان کو جیتنا چایئے: 2


میچ نمبر 6: پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ، 

پاکستان افریقہ ورلڈ کپ میں 5 مرتبہ ٹکرا چکے ہیں، 

پاکستان 2، ساوتھ افریقہ 3

2019 کے ورلڈ کپ میں پاکستان نے افریقہ کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ افریقہ 4 دفعہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنلز تک پہنچ چکی ہے مگر تاحال ورلڈ کپ نہیں جیت سکی۔

پاکستان کو جیتنا چایئے: 2


میچ نمبر 7: پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش، 

پاکستان اور مرتبہ بنگلہ دیش کا پہلی دفعہ ٹاکرا 1999 ورلڈ کپ میں ہوا تھا جو بنگلہ دیش کا پہلا ورلڈ کپ بھی تھا۔ اور اس میں بنگلہ دیش نے پاکستان کے خلاف اپ سیٹ کرتے ہوئے فتح سمیٹی تھی، 

پاکستان 1، بنگلہ دیش 1

یاد رہے اس ورلڈ کپ میں پاکستان رنر اپ رہا تھا اور اس طرح کی شکستوں پر پاکستان پر میچ فکسنگ جیسے الزامات بھی لگے تھے

پاکستان کو جیتنا چایئے: 2


میچ نمبر 8: نیوزی لینڈ بمقابلہ پاکستان، 

پاکستان اور نیوزی لینڈ پہلی دفعہ 1983 میں آمنے سامنے آئے تھے اور اب تک 9 میچز میں ٹکرا چکے ہیں، ان میں پاکستان کا پلہ بھاری رہا ہے۔ 

پاکستان 7، نیوزی لینڈ 2

پاکستان نے اپنا پہلا ون ڈے میچ بھی نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا تھا اور 1992 میں بھی نیوزی لینڈ کو ہرا کر فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تھا، پاکستان نے 2019 کے ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کو ہرایا تھا اس ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ رنر اپ رہا تھا۔ ٹی 20 ورلڈ کپ 2022 کے سیمی فائنل میں بھی پاکستان نیوزی لینڈ کو ہرا کر فائنل میں پہنچا تھا۔ نیوزی لینڈ 2 مرتبہ ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچ چکا ہے لیکن ابھی تک ورلڈ کپ جیت نہیں سکا ہے۔

 پاکستان کو جیتنا چایئے: 2


میچ نمبر 9: انگلینڈ بمقابلہ پاکستان، 

پاکستان انگلینڈ 10 مرتبہ آپس میں ٹکرا چکے ہیں، اور دونوں کا جیت کا تناسب لگ بھگ برابر ہی ہے، 

پاکستان 5، انگلینڈ 4

یاد رہے 1992 میں پاکستان انگلینڈ کو ہرا کر ہی ورلڈ چیمپئن بنا تھا۔ انگلینڈ 2019 کے ورلڈ کپ کا چیمپئن رہا تھا اور اسی ورلڈ کپ میں پاکستان نے گروپ سٹیج میچ میں انگلینڈ کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ لیکن حالیہ میچوں میں انگلینڈ کا پلڑا بھاری رہا ہے، انگلینڈ نے پاکستان کو پاکستان میں ٹیسٹ سیریز میں شکست سے دوچار کیا، آخری ٹی 20 ورلڈ کپ کے فائنل میں نومبر 22 کو پاکستان کو ہرا کر ورلڈ چیمپئن بنا۔

پاکستان کے جیتنے کا چانس کم ہے : 0

پاکستان کے میچز کا ٹیبل      میچ پوائنٹ    ٹوٹل

پاکستان بمقابلہ ہالینڈ :                 2     :     2

پاکستان بمقابلہ سری لنکا :            2     :     4

پاکستان بمقابلہ بھارت :                0     :     4

پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا :               0     :     4

پاکستان بمقابلہ افغانستان :              2     :     6

پاکستان بمقابلہ ساوتھ افریقہ :          2     :     8

پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش :            2     :     10

پاکستان بمقابلہ نیوزی لینڈ :           2     :     12

پاکستان بمقابلہ انگلینڈ :                0     :     12

ٹوٹل پوائنٹس : 12

یاد رہے پاکستان ورلڈ کپ 2019 میں 5 میچز جیتنے کے باوجود 11 پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل میں نہیں پہنچ پایا تھا۔ اس لیے پاکستان کو کم از کم 6 جیت درکار ہوں گی۔ کیونکہ کوئی آسان میچ بارش وغیرہ کی نظر ہونے سے پوائنٹس ضائع ہونے کا چانس بھی ہوسکتا ہے۔

گو یہ سفر آسان ہر گز نہیں ہو گا کیونکہ اس میں سری لنکا اور افغانستان جیسے چیلنجز درپیش تو ہوں گے ہی، تو اس میں نیوزی لینڈ اور افریقہ جیسے مشکل حریفوں کیخلاف بقا کی جنگ بھی لڑنی ہو گی۔

چوتھے راونڈ کے خاتمے پر ٹیبل پوزیشن!


آج ورلڈکپ 2023 کا چوتھا راونڈ ختم ہو گیا ہے، جس میں ہر ٹیم نے اپنے چار چار میچز کھیل لیے ہیں ،

اگر پوائنٹس ٹیبل کو دیکھیں تو نیوزی لینڈ اور بھارت اپنے سبھی میچز جیت کر ٹیبل کے ٹاپ پر ایلیٹ گروپ میں ہیں، 

نیوزی لینڈ نے اپنے 4 میچز میں سے ایک اہم میچ انگلینڈ سے جیتا ہے جبکہ بقیہ میچز چھوٹی رینکنگ والی ٹیموں سے جیتے ہیں، اور اب اس نے بھارت، آسٹریلیا، افریقہ، پاکستان اور سری لنکا کیساتھ کھیلنا ہے، ان میں سے کسی 2 ٹیم سے جیت کر نیوزی لینڈ سیمی فائنل میں پہنچ سکتا ہے۔

بھارت نے بھی 4 میچز جیتے ہیں لیکن ان میں سے 2 اہم میچ بھی جیتے ہیں، اس طرح بقیہ میچز میں سے اس نے 2 میچز نسبتا" کم رینکنگ والی ٹیموں سری لنکا اور ہالینڈ سے کھیلنے ہیں، اس طرح اس وقت سیمی فائنل میں پہنچنے کے سب سے زیادہ مستحکم چانس بھارت کے ہیں۔ بھارت کی ٹیم ویسے بھی بہت متوازن ہے اور اس کا ہر شعبہ اپنی جگہ بھرپور کارکردگی دکھا رہا ہے۔ اس لیے بھارت کا سیمی فائنل اور پھر فائنل تک پہنچنے کا قوی امکان ہے۔

تیسرے نمبر پر افریقہ ہے، افریقہ اس ورلڈ کپ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے گو افریقہ نے ہالینڈ سے ہار کر ایک بڑا اپ سیٹ کیا ہے، لیکن اس میچ کے علاوہ افریقہ کی اپنے سبھی میچز میں کمانڈنگ پوزیشن رہی،  اور اس نے آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی فیورٹ ٹیموں کو ہرا کر 6 پوائنٹس حاصل کیے ہیں، افریقہ کے اب بقیہ 5 میچز میں سے 2 بنگلہ دیش اور افغانستان کیساتھ ہیں، جو وہ جیت کر 10 پوائنٹس تک پہنچ سکتی ہے پھر اسے نیوزی لینڈ بھارت اور پاکستان میں سے کسی ایک سے 1 میچ جیتنا ہو گا اور وہ سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر جائے گی۔

چوتھے نمبر پر آسٹریلیا ہے گو اس کا ٹورنامنٹ میں آغاز اچھا نہیں تھا اور وہ افریقہ اور بھارت سے ہار چکا تھا مگر پاکستان کو ہرا کر وہ 4 پوائنٹس کیساتھ ٹیبل میں 4 نمبر پر براجمان ہو چکا ہے، آسٹریلیا کیساتھ اچھی بات یہ ہے کہ وہ زیادہ تر مشکل میچز کھیل چکا ہے اب وہ اپنے 3 میچز چھوٹی ٹیموں ہالینڈ، بنگلہ دیش اور افغانستان  سے جیت جاتا ہے تو پھر اسے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ میں سے کسی ایک ٹیم سے جیتنا ہو گا اور وہ سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر جائے گا۔

پانچویں نمبر پر پاکستان ہے، جس کے چار میچز کھیل کر 4 پوائنٹس ہیں، پاکستان اب اگر اگلے میچز میں سے افغانستان اور بنگلہ دیش سے جیت جاتا ہے تو اس کے پوائنٹس 8 ہو جایں گے جبکہ سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے 12 پوائنٹس درکار ہیں، تو پھر پاکستان کو افریقہ، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ میں سے 2 ٹیموں سے میچز جیتنے ہوں گے، جبکہ افریقہ اور نیوزی لینڈ ٹورنامنٹ میں بہت اچھی کارکردگی دیکھا رہے ہیں، اور پاکستان ٹیم کئی شعبوں میں کمزور ہے، ایسی صورتحال میں پاکستان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے چانس کم تر ہوتے نظر آتے ہیں۔

دفاعی چیمپئن انگلینڈ جو ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے فیورٹ ترین ٹیم تھی لیکن اس وقت وہ ٹیبل پر 9 نمبر پر موجود ہے، اس کو پہلے میچ میں نیوزی لینڈ نے بری طرح پیٹا پھر افغانستان اس کے خلاف اپ سیٹ کر گیا۔ اور آج افریقہ نے اس کی درگت بنا دی، انگلینڈ اکلوتا میچ بنگلہ دیش سے جیت پایا ہے، اب اگر انگلینڈ نے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنا ہے تو اس کے پاس اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے اب اس کو اپنے اگلے پانچوں میچز جیتنے ہوں گے جن میں سے اس نے 3 میچز بھارت، آسٹریلیا اور پاکستان کے خلاف کھیلنے ہیں، اس لحاظ سے انگلینڈ کا سفر مشکل تر ہو چکا ہے۔

اس وقت کی موجودہ صورتحال کیمطابق سیمی فائنل کی مضبوط امیدوار ٹیمیں یہ ہیں:

نیوزی لینڈ

بھارت

افریقہ

آسٹریلیا

ورلڈکپ 2023 کا پانچواں راونڈ مکمل ہو چکا ہے، اب ٹیم پوزیشن کافی کلئیر ہوچکی ہیں جس میں بھارت افریقہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا ٹاپ فور پر مستحکم ہوچکی ہیں، 

بھارت کے بقیہ 4 میچز سے 2 سری لنکا اور ہالینڈ سے ہیں ان میں ایک میچ بھی جیت کر بھارت کوالیفائی کرجائے گا

افریقہ اس ٹورنامنٹ میں بہت ہی اعلیٰ کھیل پیش کررہا ہے، ہالینڈ کا اس کے خلاف اپ سیٹ کے علاوہ افریقہ اپنے تمام میچز میں کمانڈنگ پوزیشن پے رہا ہے. اس کے ابھی 10 پوائنٹس ہیں اور اس کو کوالیفائی کرنے کے لیے محض ایک جیت درکار ہے، جبکہ اس کے بقیہ 4 میچز پاکستان، نیوزی لینڈ، بھارت اور افغانستان سے ہیں، افریقہ کی حالیہ پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے افریقہ کے سیمی فائنل میں کوالیفائی کے 99٪ چانسز ہیں 

نیوزی لینڈ کو کوالیفائی کرنے کے لیے کم از کم 2 میچز جیتنے ہیں، اس کے بقیہ 4 میچز آسٹریلیا افریقہ پاکستان اور سری لنکا کیساتھ ہیں، بظاہر نیوزی لینڈ کے 8 پوائنٹس ہیں لیکن اس کے مقابلے آسان حریفوں سے نہیں ہیں اس لیے نیوزی لینڈ کو ابھی محنت درکار ہے، نیوزی لینڈ کے کوالیفائی کرنے کے 75٪ چانسز ہیں 

آسٹریلیا چوتھی متوقع سیمی فائنلسٹ لگ رہی ہے، گو آسٹریلیا کی کارکردگی ورلڈکپ 2023 میں بہت ہائی نہیں رہی پھر بھی آسٹریلیا تین میچ جیت چکی ہے اور اس کو کوالیفائی کرنے کے لیے مزہد 6 پوائنٹس درکار ہیں، اس کے بقیہ 4 میچز میں سے 3 میچز جیتنے ہوں گے، آسٹریلیا کے افغانستان اور ہالینڈ کیخلاف 2 میچز نسبتاً آسان ہیں پھر آسٹریلیا کو انگلینڈ اور نیوزی لینڈ میں دونوں سے سے ایک میچ جیتنا ہوگا. آسٹریلیا کے چانسز 75٪ ہیں 

پانچویں نمبر پر سری لنکا، پاکستان اور افغانستان ہیں جنکے مشترکہ پوائنٹس 4 ہیں اور جن کو کوالیفائی کرنے کے لیے اپنے بقیہ چاروں میچز جیتنے ہیں اس حساب سے یہ ٹیمیں زیرو رسک پر ہیں اور ایک بھی میچ ہارنے پر ٹورنامنٹ سے باہر ہوسکتی ہیں. 

افغانستان سے ہارنے کے بعد پاکستان کوالیفائی دوڑ میں مشکلات کا شکار ہوچکا ہے، اب اس کو اپنے بقیہ چاروں میچز افریقہ، بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ سے جیتنے پڑیں گے، اور افریقہ اور نیوزی لینڈ بہترین فارم ہیں، اس طرح پاکستان کے کوالیفائی کے چانسز 5٪ سے بھی کم ہیں 

اب پاکستان سیمی فائنل میں کیسے جا سکتا ہے؟

ورلڈکپ کا 6 راونڈ ختم ہوچکا ہے جبکہ 7 راونڈ شروع ہوچکا ہے جس کا پہلا میچ پاکستان نے بنگلہ دیش کیساتھ کھیل لیا ہے، جس میں بالآخر پاکستان نے ہارنے کا سلسلہ توڑ دیا ہے اور اچھے مارجن سے جیت کر ٹیبل پر دوبارہ 5 نمبر پر آگیا ہے.

سیمی فائنل کی دوڑ کی اب صورتحال یہ ہے کہ بھارت 6 میچز جیت کر کوالیفائی کرچکا ہے، افریقہ کوالیفائی سے صرف ایک جیت کی دوری پر ہے، تیسری سیمی فائنل کی مضبوط امیداور آسٹریلیا ہے، جس کے پوائنٹس گو نیوزی لینڈ کے برابر ہیں مگر اس کے بقیہ میچز نسبتاً کمزور ٹیموں سے ہیں، آسٹریلیا افغانستان اور بنگلہ دیش سے جیت کر آرام سے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرسکتا ہے.

اب بچ جاتی ہے سیمی فائنل کی چوتھی ٹیم، جس کے لیے اب سارے اگر مگر اکٹھے ہوگے ہیں.

پوائنٹس کے حساب سے چوتھی ٹیم نیوزی لینڈ نظر آتی ہے جس کو کوالیفائی کرنے کے لیے محض 2 جیت درکار ہیں، لیکن اس کے میچز میں سے پہلا میچ افریقہ سے ہے، اور افریقہ کی حالیہ پرفارمنس کے مدنظر توقع ہے کہ افریقہ نیوزی لینڈ کو ہرا دے گا،

پھر نیوزی لینڈ کا اگلا میچ پاکستان سے ہے جو تقریباً کوارٹر فائنل کی سی حیثیت کا حامل ہے، اس کے بعد نیوزی لینڈ کا تیسرا میچ سری لنکا کیساتھ ہو گا، اگر نیوزی لینڈ پہلے 2 میچ ہار جاتا ہے جبکہ سری لنکا سے جیت جاتا ہے تو اس کے پوائنٹس 10 ہو جایں گے اور دوسری طرف اگر پاکستان اپنے بقیہ 2 میچز نیوزی لینڈ اور انگلینڈ (2019 کے ورلڈکپ میں پاکستان ان دونوں ٹیموں کو ہرا چکا ہے) سے جیت جاتا ہے تو پاکستان کے بھی 10 پوائنٹس ہوجایں گے، 

ایسے میں کوالیفائی کا فیصلہ نیٹ رن ریٹ پر ہو گا، فی الحال نیوزی لینڈ کا رن ریٹ پلس 1.2 ہے جبکہ پاکستان کا منفی 0.2 ہے. یاد رہے 2019 کے ورلڈکپ میں بھی پاکستان اور نیوزی لینڈ کے پوائنٹس برابر تھے اور نیوزی لینڈ بہتر رن ریٹ کی بنیاد پر کوالیفائی کرگیا تھا.

اس طرح پاکستان کا اب یہاں سے سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرجانا کسی معجزے سے کم نہیں ہوگا.

یہاں ایک اور نئے ابھرتے امیدوار کا ذکر نہ کرنا بددیانتی ہوگی، جی، افغانستان نے اپنے آخری 3 میچوں میں تین ورلڈ کپ چیمپئن ٹیموں کو شکست دی ہے اور وہ 6 میچوں میں 6 پوائنٹس کیساتھ پاکستان سے آگے ہے، اس کے بقیہ میچز ہالینڈ، آسٹریلیا اور افریقہ کیساتھ ہیں، اگر افغانستان ہالینڈ سے جیت لیتا ہے اور پھر افریقہ کو اپ سیٹ کردے تو افغانستان بھی سیمی فائنل کا مضبوط امیدوار بن سکتا ہے.



پاکستان نے بالآخر لگاتار 4 میچ ہارنے کے بعد ٹیم میں میرٹ پر مبنی تبدیلیاں کر ہی لیں جس کے مثبت نتائج بنگلہ دیش کے خلاف نظر بھی آئے. لیکن بابر اعظم کو یہ چیزیں سمجھنے تک پاکستان ورلڈ کپ سے تقریباً باہر ہو چکا ہے. بابر اعظم ضدی، ذاتی پسند ناپسند اور لگی بندھی کپتانی کے اس قدر قائل ہیں کہ جو نواز ٹی 20 ورلڈ کپ کے آخری اوور میں 16 رنز روکنے میں ناکام رہا اس کو ایشیا کپ میں ساتھ لے گے اور پھر آخری کیل افریقہ کے خلاف آخری وکٹ پر 4 رنز روکنے کے لیے بھی بال نواز کو تھما دی، اور ایک بار پھر جیتا ہوا میچ ہروا دیا.

ورلڈ کپ کے ابتدائی میچز میں فخر کے آوٹ فارم ہونے پر فخر کوعبداللہ شفیق سے بدل دیا مگر نہلے پر دہلے امام کو مسلسل ناکامی کے باوجود چانس دیتے چلے گے،

شاداب کی بری پرفارمنس پر بھی خاموش حمایت جاری رکھے رہے. اور حسن علی کو بھی مسلسل آزماتے چلے گے.

اب جب مسلسل ہار پر ہرطرف ہاہار مچی اور ذکا اشرف نے بھی توپ کا رخ بابر کی طرف کیا تب بابر نے ضد چھوڑتے ہوئے ٹیم میں تبدیلیاں کیں، ٹیم سیلیکشن دراصل ایک جمہوری طرز عمل کی طرح شفاف اور میرٹ پر ہونا چاہیے تھا مگر پاکستان سے یہیں پر چوک ہوگئی اور چیف سیلیکٹر میرٹ پر سیلیکشن کی بجائے ایک ایجنٹ کے طور پر کام کرتے نظر آئے. کھلاڑیوں اور اشتہاری کمپنی کے بیچ معاملات سیٹل کرتے رہے۔ اور اس بیچ جو ان کا اصل کام تھا وہ سایہ کارپوریشن کی نذر ہو گیا۔

2019 کے ورلڈ کپ میں بھی انضمام چیف سیلیکٹر تھے، انضمام کا کرکٹ کیرئیر تنازعات سے بھرا پڑا ہے، لیکن بار بار ایسے شخص کو وہی عہدہ دینا پاکستان میں اہلیت اور میرٹ کے قتل عام کی زندہ مثال ہے۔

آٹھویں راونڈ کی شروعات 

آٹھواں راونڈ ڈیتھ راونڈ ہے، اب اس میں ٹیمیں ورلڈکپ سے باہر ہونا شروع ہو جائیں گی، اور ٹاپ فور کلئیر ہوتی چلی جایں گے

ٹیبل پر ٹاپ 2 ٹیمیں تو پہلے ہی کنفرم ہو چکی ہیں، اب اگر مگر چل رہا ہے تو 4 ٹیموں میں، 


ان میں سے بھی آسٹریلیا کفرٹ زون میں ہے 

نیوزی لینڈ لاجیکلی بہتر پوزیشن پر ہے

افغانستان ایک اور اپ سیٹ کی تلاش میں ہے 

جبکہ پاکستان معجزے کے انتظار میں ہے

آج پاکستان اور نیوزی لینڈ کا بنگلورو میں میچ ہے جو دونوں ٹیموں کے لیے تقریباً کوارٹر فائنل کی سی حیثیت رکھتا ہے، جبکہ پاکستان کے لیے یہ میچ اچھے رن ریٹ سے جیتنا لازم ہے کیونکہ ایک تو نیوزی لینڈ کا رن ریٹ پاکستان سے بہتر ہے اور دوسرا 2 پوائنٹس بھی زیادہ ہیں،

نیوزی لینڈ کا نیٹ رن ریٹ پلس 0.484+ ہے 

جبکہ پاکستان کا منفی 0.024 ہے

پاکستان کو رن ریٹ بہتر کرنے کے لیے اچھے مارجن سے جیتنا ہو گا یعنی 

اگر سیکنڈ بیٹنگ کرے تو 15 اوورز قبل ٹارگٹ اچیوو کرنا ہو گا

اور پہلے بیٹنگ کی صورت میں کم از کم 84 رنز سے نیوزی لینڈ کو شکست دینا ہو گی. 

دوسری جانب بنگلورو میں 50 سے 90٪ بارش کے چانسز ہیں. اگر بارش سے میچ ڈرا ہوا تو دونوں ٹیموں کو 1-1 پوائنٹ ملے گا، نیوزی لینڈ کے فی الحال 8 پوائنٹس ہیں پھر نیوزی لینڈ کے 9 پوائنٹس ہو جایں گے، پھر اگر نیوزی لینڈ سری لنکا سے آخری میچ جیت جاتا ہے تو اس کے 11 پوائنٹس ہو جایں گے

جبکہ دوسری جانب پاکستان کے فی الوقت 6 پوائنٹس ہیں 1 پوائنٹ ملنے کی صورت میں پاکستان کے 7 پوائنٹس ہو جایں گے. پھر اگر پاکستان اپنا آخری میچ انگلینڈ سے جیت بھی جاتا ہے تو بھی پاکستان کے 9 پوائنٹس ہوں گے.

ادھر افغانستان کے 8 پوائنٹس ہو چکے ہیں اب اگر افغانستان اپنے بقیہ 2 میچوں میں سے 1 بھی جیت گیا تو اس کے 10 پوائنٹس ہو جایں گے

اب پاکستان کے سیمی فائنل میں جانے کے تقریباً سبھی رستے مسدود ہوتے نظر آتے ہیں

آٹھویں مرحلے کی شروعات پر پوائنٹ پوزیشن


کھیل نہایت دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکا ہے

ورلڈ کپ 2023 گروپ سٹیج میں سیمی فائنل کی جنگ اب اپنے کلائمیکس پر پہنچ گئی ہے،

بھارت اور افریقہ پہلے ہی سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرچکے ہیں،

آسٹریلیا کے بھی 7 میچ کھیل کر 10 پوائنٹس ہو چکے ہیں، اب اس کے بقیہ میچ 

افغانستان (7 نومبر) اور 

بنگلہ دیش (11 نومبر) 

سے ہیں، آسٹریلیا ان میں سے ایک میچ جیت کر کوالیفائی کرسکتا ہے، لیکن بالفرض وہ یہ دونوں میچز ہار جاتا ہے اور نیوزی لینڈ اور پاکستان اپنے بقیہ میچز جیت جاتے ہیں تو ان تینوں کے پوائنٹس برابر ہو جایں گے. پھر فیصلہ نیٹ رن ریٹ پرہو گا، جس میں آسٹریلیا کو نقصان ہوسکتا ہے کیونکہ میچز ہارنے کی صورت میں اس کا رن ریٹ بھی گرے گا.

دوسری پوٹینشل ٹیم نیوزی لینڈ ہے، جو رن ریٹ کے لحاظ سے پاکستان اور افغانستان دونوں سے بہتر پوزیشن میں ہے، اس لیے اگر وہ 

سری لنکا سے 9 نومبر 

کو جیت جاتا ہے تو اس کے کوالیفائی کے چانسز سب سے زیادہ ہیں، اور اگر بالفرض نیوزی لینڈ سری لنکا سے ہار بھی جاتا ہے تو بھی اس کی امید باقی ہو گی کہ افغانستان اپنے بقیہ دونوں میچز اور پاکستان انگلینڈ سے ہار جائے، ایسی صورت میں بھی نیوزی لینڈ، پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ پوائنٹس 8 رہ جایں گے، اور نیوزی لینڈ بہتر نیٹ رن ریٹ پر کوالیفائی کر جائے گا، سو نیوزی لینڈ نیٹ رن ریٹ کے حساب سے سیمی فائنل کا مضبوط امیدوار ہے۔

تیسرے نمبر پر افغانستان ہے جو پوائنٹس کے اعتبار سے نیوزی لینڈ اور پاکستان دونوں سے بہتر پوزیشن پر ہے، اس کے لیے آئیڈیل سچویشن تو یہی ہوسکتی ہے کہ وہ بقیہ دونوں میچز جیت کر 12 پوائنٹس کیساتھ کوالیفائی کرجائے لیکن اس کا اگلا 

میچ آسٹریلیا 7 نومبر

کیساتھ ہے اور آسٹریلیا بھی کوالیفائی کرنے کے لیے یہ میچ ہر صورت جیتنے کی کوشش کرے گا، تاہم اگر افغانستان اپنے بقیہ دو میچز میں سے ایک میچ جیت جاتا ہے تو پھر اس کو کوالیفائی کرنے کے لیے اپنا رن ریٹ بہتر کرنا ہو گا. افغانستان کا آخری گروپ میچ 

افریقہ کیساتھ 10 نومبر کو ہے،

چوتھی پرامید ٹیم پاکستان ہے، پاکستان کا کوالیفائی کرنے کا کیس اس لیے بھی کمزور ہے کیونکہ پاکستان کو اپنی جیت کیساتھ ساتھ دوسروں کی ہار کی بھی ضرورت ہے. کوالیفائی کی دوڑ میں پاکستان کی قریب ترین حریف نیوزی لینڈ ہے، پاکستان کے لیے بہترین سچویشن تو یہی ہو سکتی ہے کہ نیوزی لینڈ سری لنکا سے ہار جائے یا اس کا میچ بارش کیوجہ سے ڈرا ہو جائے، ورنہ اگر نیوزی لینڈ سری لنکا سے جیت جاتا ہے تو پھر پاکستان کو 

انگلینڈ 11 نومبر

سے بھارے مارجن سے لگ بھگ 150 یا 200 رنز سے جیتنا ہو گا، پاکستان کے لیے اتنی بڑی جیت یقیناً مشکل لگتی ہے، تو اب قدرت کا نظام ہی پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچا سکتا ہے،

لیکن ایک اچھی بات ہے کہ قومی ٹیم نے اپنے فینز کی امیدیں ورلڈ کپ کے اخیر تک بحال رکھی ہوئی ہیں. کیونکہ پاکستان کا انگلینڈ کیساتھ میچ سب سے آخر میں ہونا ہے، تو رن ریٹ وغیرہ وغیرہ کی امیدوں کا چاند آخر تک برقرار رہے گا۔

یاد رہے 2019 کے ورلڈکپ میں بھی پاکستان اور نیوزی لینڈ کے پوائنٹس برابر تھے اور نیوزی لینڈ بہتر رن ریٹ کی بنیاد پر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرگیا تھا. 

اب دیکھتے ہیں قدرت کا نظام کیا رنگ دیکھاتا ہے؟

Wednesday, December 7, 2022

Cricket vs Football, Which is Better

کرکٹ یا فٹبال؟

ساری دنیا فٹبال کے جنون میں پاگل ہو رہی ہے اور ہم ہیں کہ ٹیسٹ میچ سے ہی خوش ہورہے ہیں،


قطر نے فٹبال پر 220 ارب ڈالر نچھاور کردیے مگر ہم 5 یا 6 چمڑے کی بالوں سے پورے 5 دن کھیلتے رہے۔  ایسے میں تھوڑا بہت احساس کمتری تو بنتا ہے. 

ٹیسٹ میچ، میچ کیا ہے صبر کا احسن امتحان ہے، ایک بوریت سے بھرپور طویل صبر آزما کھیل، اور جہاں بوریت آ جائے تو وہاں کیا کھیل باقی رہتا ہے؟ کیونکہ کھیل کی روح تو دلچسپی اور کشش گہماگہمی ہے، 

خیر 30 میٹر دوری سے ایک جوان بھرپور رفتار سے بھاگ کر آتا ہے، اپنے بدن کی پوری طاقت بال میں سمیٹ کر بال کو ایک گولی کی مانند بیٹسمین کی طرف پھینکتا ہے مگر بیٹسمین آگے سے کمال شان بے نیازی سے بال کو بس لیفٹ کر دیتا ہے، واہ! کوئی کرکٹ کو نہ سمجھنے والا شخص یہ عمل اگر دوبارہ دیکھے تو شاید اپنا سر پیٹ لے، مگر ہمارے صبر اور شوق کو سلام کہ پھر اگلی بال کا انتظار کرتے ہیں، ٹیسٹ کرکٹ ایک تو بور اوپر سے طویل اور آخر 5 دن کی جدوجہد کے بعد بھی نتیجے کی کوئی گارنٹی نہیں اور بعض اوقات تو بے نتیجگی پر بھی فتح جیسا گمان، کیا یہ کھیل کی سپرٹ ہے؟ کیا کھیل ایسا بھی ہو سکتا ہے جس میں بزدلی بھی لائق تحسین ہو؟ 

ٹیسٹ کے طریق کار اور طوالت کو دیکھیں تو یہ بالکل ویلے لوگوں کا کھیل لگتا ہے۔ جنہیں کوئی کام دھندا نہ ہو فقط وقت گزاری درکار ہو۔ جی بالکل آپ صحیح سمجھے، کرکٹ واقعی ویلے مگر امیر لوگوں کا کھیل تھا، جنہیں فکر معاش سے زیادہ فکر وقت گزاری تھا، جس میں ان کی شان بھی قائم رہتی، امرا جب کھیلتے تھے تو غلام نوکر فیلڈنگ کرتے تھے۔ آقا بس چوکے لگاتے تھے۔



یونائیٹڈ کنگڈم آف برطانیہ انسانی معلومہ تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت تھی، اور اس سے بھی بڑھ کر مشرق مغرب میں نئی تہذیب کی دعویدار. اکثر لوگ انگریزوں کو حریص ڈاکو لٹیرے کہہ کر تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے سے گلوخلاصی کروا لیتے ہیں، مگر تصویر کا دوسرا رخ بھی اتنا ہی جاندار اور قابل تجسس ہے، انگریزوں نے دنیا بھر سے کیا کیا لوٹا، یہ غم داستان اپنی جگہ مگر دنیا کو کیا کیا دیا یہ بھی ایک بڑا توجہ طلب موضوع ہے، تعلیم و سائنس، ہنر و ٹیکنالوجی، معاشیات و کارخانہ گری، بہرحال ہمارا موضوع کھیل ہے۔ جی ہاں، اس وقت دنیا کے طول و عرض میں پائے جانیوالے اکثر و بیشتر کھیل بھی اسی برطانوی تسلط بنام نوآبادیاتی نظام کی دین ہیں۔

انگریزوں نے برصغیر پو لگ بھگ 200 سو سال حکومت کی، تو برطانیہ نے ہم کو فٹبال کیوں نہ دیا؟ فقط کرکٹ پر ہی اکتفا کیوں؟   

اس دلچسپ اور تیز رفتار کھیل کی ایک طویل تاریخ ہے، جس کی تاریخ 13ویں صدی سے ہے جب یہ پہلی بار گاؤں کے سبزہ زاروں اور انگلینڈ بھر کے کھیتوں میں کھیلا گیا تھا۔

اول جب انگریز ہندوستان آئے تو اس وقت ان کا قومی اور مقبول کھیل کرکٹ ہی تھا، سن 1700 میں انگریز برصغیر میں کرکٹ لائے اور لگ بھگ 1720 میں ہندوستان میں کرکٹ کا پہلا میچ کھیلا گیا جبکہ 1792 میں ہندوستان میں پہلے کرکٹ کلب کی بنیاد رکھی گئی۔ ہندوستان نے اپنا پہلا انٹرنیشنل ٹیسٹ میچ 1932 میں کھیلا اور اس طرح وہ ٹیسٹ کھیلنے والی دنیا کی 6ویں ٹیم بنی۔ 



فٹبال چونکہ برطانیہ میں بعدازاں تقریبا" 1863 کے بعد کہیں مقبول ہوا اس لیے تب تک کرکٹ برصغیر میں کرکٹ اپنی جگہ پہلے ہی بنا چکی تھی، سو فٹبال برصغیر میں نہ پنپ سکا،

دوم محکوم علاقوں پر حکومت کے لیے چونکہ اشرافیہ ہی وہاں تشریف لے جاتی تھی اور اشرافیہ کا پسندیدہ کھیل کرکٹ تھا، اس لیے جہاں اشرافیہ گئی وہاں کرکٹ پھیلی۔ جبکہ فٹبال برطانیہ کے مڈل کلاس ورکرز کا کھیل تھا، یہ ورکرز سائنس، تعلیم، صنعت اور ریلوے کے کام کے سلسلے میں دنیا کے جس خطے میں گئے وہاں اپنے ساتھ فٹبال بھی لے گئے، اس طرح یورپ وغیرہ میں فٹبال مقبولیت پاتا گیا، جبکہ محکوم قومیں اپنے سابق آقاوں کی روش پر کرکٹ کو ہی بڑا اور اہم کھیل سمجھ کر کھیلتے رہے۔

کرکٹ برصغیر کا مذہب بن چکا ہے اور اس کے سٹار دیوتا

اگر کرکٹ اور فٹبال کو بحیثیت درکار وسائل کے دیکھا جائے تو فٹبال کھیلنے کے لیے کھلاڑیوں کو ایک میدان کیساتھ فقط ایک فٹبال کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ کرکٹ کے لیے میدان کیساتھ مہنگی بال، مہنگا بلا اور اس سے بھی مہنگی کرکٹ کٹ۔ تو کرکٹ امیروں کا کھیل جبکہ کم خرچ فٹبال مڈل کلاس غریبوں کا کھیل ٹھہرا۔

فٹبال کے لیے چھوٹے گراونڈ سے بھی کام چل جاتا ہے لیکن کرکٹ کی شاٹ پڑوسیوں کی کھڑکی توڑ سکتی ہے، 

فٹبال پر موسمی اثرات کم ہوتے ہیں جبکہ کرکٹ اس معاملے میں بہت ہی نازک ہے اور اکثر میچ بارش کی نذر ہو جاتے ہیں۔

 اگر کرکٹ اور فٹبال کا تکینیکی موازنہ کریں تو مڈ فٹبالر 90 منٹ کے میچ میں لگ بھگ 7 کلومیٹر بھاگتا ہے اس کے مقابلے ٹی 20 کرکٹ میں فاسٹ بالر 700 میٹر بھاگتا ہے، فٹبالر کی تقریبا" زیادہ تر دوڑیں رائیگاں ہی جاتی ہیں جبکہ بالر کی ہر گیند پر ہی تقریبا" کچھ نہ کچھ گہماگہمی ضرور ہوتی ہے، فٹبالر کے 7 کلومیٹر بھاگنے کے باوجود اکثر میچ برابری پر ہی ختم ہوتے ہیں جبکہ کرکٹ میں ڈرا کے چانس تقریبا" نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

دنیائے فٹبال کے عصر حاضر کے دو عظیم ستارے


گو کرکٹ فٹبال سے طویل کھیل ہوتا ہے مگر آخری لمحات میں جب چند بالوں پے چند رنز درکار ہوتے ہیں تو کرکٹ کی دلچسپی اس وقت اپنے جوبن پر ہوتی ہے، فٹبال اس سے بالکل عاری ہے، پینلٹی شوٹز تو بس میچ کا نتیجہ نکالنے کا سادہ سا فارمولا ہے۔

فٹبال کے میچ میں سبھی کھلاڑیوں کو حسب توفیق اپنے جوہر دیکھانے کا موقع ملتا ہے جبکہ کرکٹ میں بابر اور کوہلی اکثر اکیلے ہی سارا میچ کھیل آتے ہیں۔ مزید براں فٹبال میں میچ کے دوران ہی متبادل کھلاڑیوں کی سہولت دستیاب ہوتی ہے، جبکہ کرکٹ میں نو چانس۔

اگر فٹنس اور ورزش کو دیکھا جائے تو فٹبال بیک وقت اپنے تقریبا" کھلاڑیوں کو بھرپور جسمانی سرگرمی مہیا کرتا ہے، جبکہ کرکٹ میں ایک وقت میں چند کھلاڑی ہی جسمانی گرمی کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں۔

فٹبال گو باہمی کشمکش، چھینا جھپٹی کا کھیل ہے مگر اس کی انجریز کے مقابلے کرکٹ کی انجریز بعض اوقات زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہیں کیونکہ کرکٹ ایک سخت بال کیساتھ کھیلا جاتا ہے، جس کو ہینڈل کرنا آسان نہیں ہوتا۔

اگر کھیل میں موجود ہنر اور تکنیکس کی بات کی جائے تو فٹبالر اپنے پاوں سے بال کو سوئنگ کرتے ہیں، اینگل بناتے ہیں، لمبی ککس لگاتے ہیں 

کرسٹینا رونالڈو کی لگائی گئی ککس پر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور بے ساختہ تحسین بلند ہوجاتی ہے


اور اپنے سر سے بھی خوب داد شجاعت بٹورتے ہیں، 

دنیائے فٹبال کے عطیم ترین مقبول ترین فٹبالر کرسٹینا رونالڈو لگ بھگ 10 فٹ کی فلائنگ ہیڈ کک لگاتے ہوئے

دوسری جانب کرکٹ میں زیادہ عوامل شامل حال ہوتے ہیں، ٹاس، علاقہ، علاقے کا موسم، پچ وغیرہ بہت اہم ہوتے ہیں، 

شعیب اختر دنیائے کرکٹ کی تیزترین بال 161.3 کلومیٹر کی سپیڈ سے کرواتے ہوئے


بات کرتے ہیں کرکٹ کے پیشن فاسٹ بولنگ کی اور اس کی صلاحیتوں کی، سپیڈ، فٹنس اور سوئنگ کی، جب فاسٹ بولر اپنے رن اپ سے کریز کی طرف دوڑ لگاتا ہے تو بتدریج جذبہ موجزن ہوتا ہے۔ سلو بولر کی گگلیاں اور اسپن کا جادو۔ پھر 160 کلومیٹر سپیڈ کی بال کو نہ صرف پرکھنا بلکہ 90 میٹر تک کا لمبا سٹروک بھی اچھالنا۔ جہاں بیٹسمین کی طرف آنیوالی ہر بال آخری بال ہو سکتی ہے، بیٹسمین کے پاس غلطی کے چانس نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ 

بریٹ لی: متواتر 150 کلومیٹر سے اوپر کی رفتار سے بیٹسمین پر حملے کرتے ہوئے 
اس کے مقابلے کرسٹینا رونالڈو کی کک تیزترین سمجھی جاتی ہے جس کی رفتار 130 کلومیٹر کے لگ بھگ ہوتی ہے۔

فٹبال تقریبا" پوری دنیا میں کھیلا اور دیکھا جاتا ہے، جبکہ کرکٹ مخصوص علاقوں میں مقبول ہے۔ فٹبال ورلڈ کپ پوری دنیا کا اجتماعی جشن بن چکا ہے اور ایک وقت میں دنیا ایک نقطہ مرکز پر مرکوز ہوتی ہے تو سیلیبریشن کا ایک پیک لیول پیدا ہوتا ہے، جو پوری دنیا کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے، جن ممالک کی ورلڈ کلاس ٹیمیں نہیں ہیں وہ بھی اس میڈیا ہائپ اور انفلونس کی زد میں آ ہی جاتے ہیں. کرکٹ کے فینز میں سے اگر انڈیا کے فینز نکال دو تو کرکٹ کی فین فالونگ دھڑم سے آدھی سے بھی کم رہ جائے گی. جب فٹبال کسی ایک ملک یا علاقے کا محتاج نہیں رہ گیا ہے، اس لیے وہ کرکٹ کی طرح ایک مخصوص ملک کی سیاست کا شکار بھی نہیں ہو پاتا. جبکہ ہندوستان نے کرکٹ کو بطور سیاسی ہتھیار بنا رکھا ہے جو کرکٹ کے جنٹلمین گیم ہونے پر بھی قدغن لگائے بیٹھا ہے. 

اگر شائقین کے اعتبار سے دیکھیں تو بلاوجہ فٹبال کہیں زیادہ آگے ہے، فٹبال کے لگ بھگ 3.5 سے 4 ارب فینز تو ہوں گے ہی جبکہ کرکٹ بمشکل 2.5 ارب تک فینز رکھتی ہے۔


کرسٹینا رونالڈو اس وقت مشہور ترین فٹبالر ہیں انکی دولت کا تخمینہ 500 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے، کرسٹینا خیراتی کاموں کی وجہ سے بھی مشہور ہیں انھوں نے ایک دفعہ ایک لاکھ ڈالر سے ایک غریب بچے کا علاج کروایا تھا۔

اسی طرح اگر بات کی جائے پیسے کی تو بھی فٹبال کہیں زیادہ آگے ہے،  

نیمار کو دوسرے فٹبال کلب نے 230 میلن ڈالر میں خریدا۔

ویرات کوہلی کی دولت کا اندازہ 127 ملین ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ فوربز کی رپورٹ کیمطابق فرینچ سٹار کلیان ایمباپے اس سیزن 128 ملین ڈالر کمایں گے۔

میسی اور ارجنٹائن کو ٹکر دینے والا فرانس کا فٹبالر
ایمباپے پیرس کے شمال میں ایک چھوٹے سے شہر بوندی میں پیدا ہوئے۔
کیمرون سے تعلق رکھنے والے ان کے والد مقامی کلب کے کوچ تھے۔
ان کا بیٹا فٹبال کے علاوہ کسی بھی چیز میں دلچسپی نہیں لیتا تھا۔
ایمباپے کے ذہن میں سوتے جاگتے فٹبال کا میچ چلتا رہتا تھا۔
ان کے بیڈروم میں رونالڈو اور زیدان کے پوسٹر لگے تھے جن کے وہ بچپن سے فین ہیں۔ 
نوجوانی میں ہی یہ نظر آنے لگا تھا کہ کلیان کے پاس ایک ہنر ہے۔ 10 سال کی عمر میں پیرس کے گرد یہ کہا جانے لگا کہ بوندی سے تعلق رکھنے والا ایک بچہ کافی اچھا فٹبالر ہے۔



 
اسی طرح فٹبال کی سونے سے بنی ٹرافی دنیا کی مہنگی ترین ٹرافی ہے.

اگر بات کی جائے مسلم کمیونٹی کی تو کیا پاکستان واحد مسلم ملک ہے جس نے ورلڈ کپ جیت رکھا ہے؟
مراکش کی ورلڈکپ 2022 میں اسپین کیخلاف جیت کو مسلمان اور عرب اپنی جیت قرار دے رہے ہیں حالانکہ مراکش عربی نہیں بلکہ افریقی ملک ہے، لیکن یہ سب فخر کرنے کی ایک وجہ ہے۔

مسلمان ممالک کی فٹبال ورلڈ کپ میں اب تک کی بہترین پرفارمنس ترکی کی ورلڈ کپ 2002 میں تیسری پوزیشن ہے۔ جبکہ پاکستان کرکٹ کا ناصرف ورلڈ کپ جیت چکا ہے بلکہ اسکے علاوہ بھی وہ کرکٹ کے کئی عالمی ریکارڈ رکھتا ہے۔ 
پاکستان نے اپنا پہلا انٹرنیشنل میچ 22 نومبر 1935 کو سندھ بمقابلہ آسٹریلیا کھیلا تھا۔ 
ون ڈے ورلڈ کپ 1992 : ونر
ون ڈے ورلڈ کپ 1999 : رنراپ
ٹی 20 ورلڈ کپ 2009 : ونر 
ٹی 20 ورلڈ کپ 2007 : رنراپ
ٹی 20 ورلڈ کپ 2022 : رنراپ
چیمپئین ٹرافی 2017: ونر

سیالکوٹ اور فٹبال
گرچہ پاکستان کی عالمی فٹبال رینکنگ 194 ہے مگر فٹبال تیار کرنے میں پاکستان کی رینکنگ دینا میں نمبر 1 ہے۔ اور اس کی وجہ ہے سیالکوٹ کا فٹبال سے تاریخی رشتہ. سیالکوٹ کو دنیا کا فٹ بال مینوفیکچرنگ دارالحکومت کہا جاتا ہے! سیالکوٹ فیفا ورلڈ کپ کا آفیشل فٹبال پرووائڈر ہے سیالکوٹ دنیا میں ہاتھ سے سلے ہوئے فٹ بالوں کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے، جہاں مقامی فیکٹریاں سالانہ 40-60 ملین فٹ بال تیار کرتی ہیں، جو کہ عالمی پیداوار کا تقریباً 60% بنتی ہے۔
سیالکوٹ پاکستان کے باقی حصوں کے مقابلے میں ایک امیر شہر ہے، جس کی جی ڈی پی $13 بلین ہے اور 2021 میں فی کس آمدنی کا تخمینہ $18500 ہے۔
سیالکوٹ سب سے پہلے نوآبادیاتی دور میں کھیلوں کے سامان کی تیاری کا مرکز بنا۔ برٹش انڈیا میں موجود انگریزوں کے کھیلنے کے لیے فٹبال برطانیہ سے بذریعہ بحری جہاز آتے تھے، ایک دفعہ جہاز لیٹ ہو گیا تو انگریز کھلاڑیوں کو پرانے فٹبال استعمال کرنے پڑے، ایسے میں ایک انگریز اپنے پرانے فٹبال کو مرمت کروانے سیالکوٹ کے بازار پہنچ گیا، فٹبال کی بہترین مرمت دیکھ کر انگریزوں نے فٹبال سیالکوٹ سے ہی بنوانے شروع کردیے۔ 
سیالکوٹ اب کھیلوں کے سامان کی ایک وسیع رینج تیار کرتا ہے، جس میں فٹ بال اور ہاکی اسٹکس، کرکٹ گیئر، دستانے شامل ہیں جو اولمپکس اور ورلڈ کپ پر مشتمل بین الاقوامی کھیلوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

 دل کہے کرکٹ، مگر دماغ کہے فٹبال

Monday, September 12, 2022

ناکامی کا پوسٹ مارٹم

ٹک ٹک آخر کب تک؟ 
کہتے ہیں کامیابی کے ہزار باپ جبکہ ناکامی یتیم ہوتی ہے. لیکن دراصل ناکامی مخفی غلطیوں کے عیاں ہونے اور پھر ان کی تصحیح کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے.
ورلڈ کپ سے قبل ٹیم کی سیلیکشن، کوچنگ اور تھنکنگ ٹینک کا بھانڈا پھوٹنا رائیگاں نہیں اگر غلطیوں کی درستی کرکے نئی حکمت عملی بنا کر اس کو انگلینڈ کے خلاف مشق کر لیا جائے.
سب سے پہلے تو نمبر 1 اور نمبر 2 کے چنگل سے ٹیم کو آزاد کر کے متبادل پلان بی اور سی تک مرتب کیا جائے.
بات یہاں تک پہنچ گئی ہے؟

گزشتہ رات کے ایشئین کپ 2022 کے فائنل میچ میں سری لنکا نے 58 پر 5 آوٹ ہو جانے کے باوجود 171 رنز جڑ دیے جبکہ دوسری جانب بابر کے آوٹ ہو جانے کے بعد پاکستانی مڈل آرڈر نے ٹی 20 میچ کو ٹیسٹ میچ میں بدل لیا اور مطلوبہ رن ریٹ کو 14 اور پھر 25 تک پہنچا دیا، 
جبکہ سری لنکا کی وکٹیں گرتی رہیں لیکن سری لنکن بیٹسمینوں نے رن ریٹ کو گرنے نہیں دیا، آخر پر جس کا ان کو فائدہ ہوا اور وہ ایک بڑا ٹوٹل کرنے میں کامیاب رہے. جلدی وکٹ کے گر جانے کی صورت میں پوری ٹیم کا لیٹ جانا پاکستان کا روز اول سے المیہ رہا ہے، اور پاکستان آج تک اس خوف سے باہر نہیں نکل سکا ہے. مصباح اور اب یوسف جیسے پرانی سوچ کے کوچز مسلط کرنے سے بیٹسمین آج بھی کھیلنے کی بجائے ٹک ٹک کرتے نظر آتے ہیں. 
بابر اعظم کو اوپننگ کرسی کی قربانی دینی ہو گی اور ٹیم کو لیفٹ رائٹ کمبینیشن کیساتھ میدان میں اترنا ہوگا.
فخر زمان ون ڈاون کی پوزیشن پر بالکل کنفیوز لگ رہے ہیں، وہ اس کشمکش کا شکار ہوتے ہیں کہ وکٹ بچانی ہے یا نیچرل گیم کھیلنی ہے، اسی کشمکش میں وہ بہت ہی عام سے انداز سے اپنی وکٹ تھرو کر رہے ہیں جبکہ پاکستانی تھنک ٹینک اونگ رہا ہے. فخر زمان کو اوپننگ سیٹ پر پروموٹ کرکے ٹیم کے لیے اچھے جارحانہ آغاز کی کوشش کی جانی چاہیے جبکہ اس پلان کی ناکامی کی صورت میں بابر ون ڈاؤن پر پھر وکٹ بچانے کے لیے تو موجود ہوں گے ہی.
پاکستان کے پاس اٹیک فرام ٹاپ کے لیے محمد نواز جیسا باصلاحیت آپشن بھی موجود ہے لیکن پاکستان کی ساری کیلکولیشن ڈیتھ اوورز کے معجزے پر اٹکی ہوئی ہے،
لیکن معجزے روز نہیں ہوتے اور اوپر سے سری لنکا کا اسپن جادو، جس کے سامنے پاکستان کا پاور ہٹنگ کا سارا پوٹینشل محض ایک اوور میں فارغ ہو گیا.
اگر اس بیٹنگ رینکنگ کو دیکھیں تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اس وقت فقط دو بیٹسمینوں کیساتھ کرکٹ کھیل رہا ہے، ان کے بعد 64 نمبر پر فخر زمان ہے اور پھر اس سے آگے 100 نمبر تک کوئی پاکستانی بیٹسمین نہیں ہے. مڈل آرڈر کی عدم موجودگی میں ورلڈ کپ جیتنا معجزہ ہی ہو سکتا ہے


اگر گزشتہ میچ میں مڈل اوورز میں رن ریٹ کو بہتر رکھا جاتا تو ڈیتھ اوورز میں دو چار چھکوں سے کام چل جاتا لیکن یہاں تو معاملہ ہر بال پر چھکے چوکے تک پہنچ گیا.
بات گھوم پھر کر افتخار اور خوشدل شاہ کی غیر منطقی سیلیکشن پر اٹکتی ہے. 32 سالہ افتخار کی حالیہ پرفارمنس متوازن مڈل آرڈر بیٹسمین جیسی بالکل بھی نہیں لگتی اور اگر ان کو پاور ہٹنگ کے طور پر ٹیم میں سیلیکٹ کیا گیا ہے تو پھر ٹیم میں کتنے پاور ہٹر ہونے چاہئیں؟ دو یا دو درجن؟




خوشدل شاہ نے ٹورنامنٹ میں بالکل ہانگ کانگ کے لیول کا کھیل پیش کیا ہے، کجا ورلڈ کپ 2022 میں تو مچل اسٹارک جیسے ہیوی ویٹ پیس باولرز ہوں گے اور ورلڈ کپ 2022 بھی آسٹریلیا جیسی باونس وکٹ پر ہونے جا رہا ہے. 


تو میرٹ پر افتخار اور خوشدل شاہ کی ورلڈ کپ ٹیم میں جگہ نہیں بنتی، بلکہ ان کی جگہ ینگ ٹیلنٹ پلئیرز کو موقع ملنا چاہئیے۔ شان مسعود نے پی ایس ایل کے علاوہ حال ہی میں انگلش کاونٹی کرکٹ میں بھی بہترین پرفارم کیا ہے، جو ان کی صلاحیتوں اور اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
Pakistan batter Shan Masood has embraced his opportunity to lead from the front at Derbyshire in all formats this summer as he and Mickey Arthur set the foundations for the club's ambition.07-06-2022

صائم ایوب ایک ابھرتا ینگ ٹیلنٹڈ پلئیر ہے۔ 
صائم ایوب ینگ ابھرتے ہوئے کھلاڑی ہیں انھوں نے حالیہ ٹی 20 نیشنل کپ میں اپنی کارکردگی سے توجہ حاصل کی ہے،  ٹورنامنٹ کی 12 اننگز میں 35 کی اوسط سے 416 رنز بنائے ہیں، اُن کا سٹرائیک ریٹ 155 رہا اور انھوں نے دو نصف سنچریاں بھی سکور کیں جن میں سب سے بڑا انفرادی سکور 92 ہے۔ یہ کارکردگی انھیں پلیئر آف دی ٹورنامنٹ بنا گئی لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کارکردگی نے سندھ کی ٹیم کو فاتح بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔


اگر باولنگ کی بات کی جائے تو پاکستان گزشتہ رات ایشئین کپ 2022 کے فائنل میں ایک جیتا ہوا میچ اپنی ناتجربہ کاری اور ناقص حکمت عملی کی بدولت ہار گیا، ایک وقت سری لنکا کے 58 رنز پر 5 کھلاڑی آوٹ تھے تو لگتا تھا کہ سری لنکا بمشکل 130 سے 140 رنز کر سکے گا، لیکن آخری 6 اوورز کے دوران راجہ پکشا نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا اور ٹارگٹ کو 171 کے ناقابل تسخیر ہندسے تک پہنچا دیا، 

اگر فائنل سکور کارڈ دیکھیں تو یہی 30 سے 40 رنز کا فرق پاکستان پورا نہ کر سکا۔
شاہین شاہ کی واپسی سے پاکستان کو ڈیتھ اوور کی باولنگ پلاننگ بھی بدلنی ہو گی، نسیم شاہ ڈیتھ اوور میں پچ بال کرتے ہیں جس کو سکوپ کرنا بیٹسمین کے لیے آسان ہدف ثابت ہوتا ہے، اس لیے پاکستان کو ڈیتھ اوور شاہین اور حارث روف سے کروانا چاہیں۔ جبکہ نسیم شاہ سے اوپننگ اور مڈل اوورز۔
آصف علی پاکستان کا موسٹ پاورفل پاور ہٹنگ ہتھیار ہے، لیکن پاکستان کو آصف علی کو مناسب وقت پر ہی استعمال کرنا ہو گا، آصف علی اسپینرز کے خلاف اٹیک کرنے میں یکسر ناکام نظر آئے ہیں، 
مزید براں پاکستان کو اپنے کوچز تبدیل کرنا ہوں گے اور یوسف اور ثقلین کی بجائے جدید ویثنری کوچز لانے ہوں گے،جو روایتی کرکٹ کی بجائے عالمی لیول کی جدید کرکٹ متعارف کروایں اور پاکستان کی ٹک ٹک سے جان چھڑوایں۔


شعیب ملک کی یہ ٹوئٹ نہایت معنی خیز اور توجہ طلب ہے کیونکہ حالیہ گزشتہ میچز میں ہم نے دیکھا ہے کہ کس طرح ناکام پرفارمنس کے باوجود بابر اعظم حسن علی کو ٹیم کا حصہ بنائے رکھ رہے تھے، یہ ذاتی پسند ناپسند میرٹ کی دشمن اور ٹیم ورک کمبینیشن کی قاتل بن جاتی ہے، پلئیرز پرفارمنس کی بجائے دوستی اور خوشامد پر زیادہ توجہ مبذول کرنا شروع کر دیتے ہیں، جبکہ قابل لوگ بددل ہونا شروع ہو جاتے ہیں، 



بابر اعظم ایک اچھا پلئیر ضرور ہے مگر ایک اچھا کپتان ثابت کرنا اس کے لیے ابھی بہت دور لگ رہا ہے۔ بلکہ اگر بابر کپتانی چھوڑ اپنی بیٹنگ پر توجہ دے تو وہ بیٹنگ میں پاکستان کے لیے بہتر طریقے سے کئی کارنامے انجام دے سکتا ہے۔
ورلڈ کپ 2022 سے قبل انگلینڈ کے خلاف سیریز پاکستان کے لیے بہت اچھا موقع ہے، جس میں پاکستان ایشئین کپ کی ناکامیوں کو دور کر سکتا ہے اور آسٹریلیا ورلڈ کپ کے لیے بہترین ٹیم روانہ کر سکتا ہے، وگرنہ نتیجہ ایشئین کپ سے زیادہ برا ہو سکتا ہے۔

My team for ENG Tour 1-Rizwan 2-Fakhar / Babar 3-Babar / Haris 4-Shan / (Nawaz) 5-Shoaib Malik 6-Nawaz / (Shan) 7-Shadab
8-Faheem / Wasim 
9-Rauf 10-Naseem 
11-Shaheen / Dahani

Interchangeable as per requirement and situation>
Muhammad Nawaz can be promoted in top order
Asif Ali may come early