Translate

Wednesday, December 7, 2022

Cricket vs Football, Which is Better

کرکٹ یا فٹبال؟

ساری دنیا فٹبال کے جنون میں پاگل ہو رہی ہے اور ہم ہیں کہ ٹیسٹ میچ سے ہی خوش ہورہے ہیں،


قطر نے فٹبال پر 220 ارب ڈالر نچھاور کردیے مگر ہم 5 یا 6 چمڑے کی بالوں سے پورے 5 دن کھیلتے رہے۔  ایسے میں تھوڑا بہت احساس کمتری تو بنتا ہے. 

ٹیسٹ میچ، میچ کیا ہے صبر کا احسن امتحان ہے، ایک بوریت سے بھرپور طویل صبر آزما کھیل، اور جہاں بوریت آ جائے تو وہاں کیا کھیل باقی رہتا ہے؟ کیونکہ کھیل کی روح تو دلچسپی اور کشش گہماگہمی ہے، 

خیر 30 میٹر دوری سے ایک جوان بھرپور رفتار سے بھاگ کر آتا ہے، اپنے بدن کی پوری طاقت بال میں سمیٹ کر بال کو ایک گولی کی مانند بیٹسمین کی طرف پھینکتا ہے مگر بیٹسمین آگے سے کمال شان بے نیازی سے بال کو بس لیفٹ کر دیتا ہے، واہ! کوئی کرکٹ کو نہ سمجھنے والا شخص یہ عمل اگر دوبارہ دیکھے تو شاید اپنا سر پیٹ لے، مگر ہمارے صبر اور شوق کو سلام کہ پھر اگلی بال کا انتظار کرتے ہیں، ٹیسٹ کرکٹ ایک تو بور اوپر سے طویل اور آخر 5 دن کی جدوجہد کے بعد بھی نتیجے کی کوئی گارنٹی نہیں اور بعض اوقات تو بے نتیجگی پر بھی فتح جیسا گمان، کیا یہ کھیل کی سپرٹ ہے؟ کیا کھیل ایسا بھی ہو سکتا ہے جس میں بزدلی بھی لائق تحسین ہو؟ 

ٹیسٹ کے طریق کار اور طوالت کو دیکھیں تو یہ بالکل ویلے لوگوں کا کھیل لگتا ہے۔ جنہیں کوئی کام دھندا نہ ہو فقط وقت گزاری درکار ہو۔ جی بالکل آپ صحیح سمجھے، کرکٹ واقعی ویلے مگر امیر لوگوں کا کھیل تھا، جنہیں فکر معاش سے زیادہ فکر وقت گزاری تھا، جس میں ان کی شان بھی قائم رہتی، امرا جب کھیلتے تھے تو غلام نوکر فیلڈنگ کرتے تھے۔ آقا بس چوکے لگاتے تھے۔



یونائیٹڈ کنگڈم آف برطانیہ انسانی معلومہ تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت تھی، اور اس سے بھی بڑھ کر مشرق مغرب میں نئی تہذیب کی دعویدار. اکثر لوگ انگریزوں کو حریص ڈاکو لٹیرے کہہ کر تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے سے گلوخلاصی کروا لیتے ہیں، مگر تصویر کا دوسرا رخ بھی اتنا ہی جاندار اور قابل تجسس ہے، انگریزوں نے دنیا بھر سے کیا کیا لوٹا، یہ غم داستان اپنی جگہ مگر دنیا کو کیا کیا دیا یہ بھی ایک بڑا توجہ طلب موضوع ہے، تعلیم و سائنس، ہنر و ٹیکنالوجی، معاشیات و کارخانہ گری، بہرحال ہمارا موضوع کھیل ہے۔ جی ہاں، اس وقت دنیا کے طول و عرض میں پائے جانیوالے اکثر و بیشتر کھیل بھی اسی برطانوی تسلط بنام نوآبادیاتی نظام کی دین ہیں۔

انگریزوں نے برصغیر پو لگ بھگ 200 سو سال حکومت کی، تو برطانیہ نے ہم کو فٹبال کیوں نہ دیا؟ فقط کرکٹ پر ہی اکتفا کیوں؟   

اس دلچسپ اور تیز رفتار کھیل کی ایک طویل تاریخ ہے، جس کی تاریخ 13ویں صدی سے ہے جب یہ پہلی بار گاؤں کے سبزہ زاروں اور انگلینڈ بھر کے کھیتوں میں کھیلا گیا تھا۔

اول جب انگریز ہندوستان آئے تو اس وقت ان کا قومی اور مقبول کھیل کرکٹ ہی تھا، سن 1700 میں انگریز برصغیر میں کرکٹ لائے اور لگ بھگ 1720 میں ہندوستان میں کرکٹ کا پہلا میچ کھیلا گیا جبکہ 1792 میں ہندوستان میں پہلے کرکٹ کلب کی بنیاد رکھی گئی۔ ہندوستان نے اپنا پہلا انٹرنیشنل ٹیسٹ میچ 1932 میں کھیلا اور اس طرح وہ ٹیسٹ کھیلنے والی دنیا کی 6ویں ٹیم بنی۔ 



فٹبال چونکہ برطانیہ میں بعدازاں تقریبا" 1863 کے بعد کہیں مقبول ہوا اس لیے تب تک کرکٹ برصغیر میں کرکٹ اپنی جگہ پہلے ہی بنا چکی تھی، سو فٹبال برصغیر میں نہ پنپ سکا،

دوم محکوم علاقوں پر حکومت کے لیے چونکہ اشرافیہ ہی وہاں تشریف لے جاتی تھی اور اشرافیہ کا پسندیدہ کھیل کرکٹ تھا، اس لیے جہاں اشرافیہ گئی وہاں کرکٹ پھیلی۔ جبکہ فٹبال برطانیہ کے مڈل کلاس ورکرز کا کھیل تھا، یہ ورکرز سائنس، تعلیم، صنعت اور ریلوے کے کام کے سلسلے میں دنیا کے جس خطے میں گئے وہاں اپنے ساتھ فٹبال بھی لے گئے، اس طرح یورپ وغیرہ میں فٹبال مقبولیت پاتا گیا، جبکہ محکوم قومیں اپنے سابق آقاوں کی روش پر کرکٹ کو ہی بڑا اور اہم کھیل سمجھ کر کھیلتے رہے۔

کرکٹ برصغیر کا مذہب بن چکا ہے اور اس کے سٹار دیوتا

اگر کرکٹ اور فٹبال کو بحیثیت درکار وسائل کے دیکھا جائے تو فٹبال کھیلنے کے لیے کھلاڑیوں کو ایک میدان کیساتھ فقط ایک فٹبال کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ کرکٹ کے لیے میدان کیساتھ مہنگی بال، مہنگا بلا اور اس سے بھی مہنگی کرکٹ کٹ۔ تو کرکٹ امیروں کا کھیل جبکہ کم خرچ فٹبال مڈل کلاس غریبوں کا کھیل ٹھہرا۔

فٹبال کے لیے چھوٹے گراونڈ سے بھی کام چل جاتا ہے لیکن کرکٹ کی شاٹ پڑوسیوں کی کھڑکی توڑ سکتی ہے، 

فٹبال پر موسمی اثرات کم ہوتے ہیں جبکہ کرکٹ اس معاملے میں بہت ہی نازک ہے اور اکثر میچ بارش کی نذر ہو جاتے ہیں۔

 اگر کرکٹ اور فٹبال کا تکینیکی موازنہ کریں تو مڈ فٹبالر 90 منٹ کے میچ میں لگ بھگ 7 کلومیٹر بھاگتا ہے اس کے مقابلے ٹی 20 کرکٹ میں فاسٹ بالر 700 میٹر بھاگتا ہے، فٹبالر کی تقریبا" زیادہ تر دوڑیں رائیگاں ہی جاتی ہیں جبکہ بالر کی ہر گیند پر ہی تقریبا" کچھ نہ کچھ گہماگہمی ضرور ہوتی ہے، فٹبالر کے 7 کلومیٹر بھاگنے کے باوجود اکثر میچ برابری پر ہی ختم ہوتے ہیں جبکہ کرکٹ میں ڈرا کے چانس تقریبا" نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

دنیائے فٹبال کے عصر حاضر کے دو عظیم ستارے


گو کرکٹ فٹبال سے طویل کھیل ہوتا ہے مگر آخری لمحات میں جب چند بالوں پے چند رنز درکار ہوتے ہیں تو کرکٹ کی دلچسپی اس وقت اپنے جوبن پر ہوتی ہے، فٹبال اس سے بالکل عاری ہے، پینلٹی شوٹز تو بس میچ کا نتیجہ نکالنے کا سادہ سا فارمولا ہے۔

فٹبال کے میچ میں سبھی کھلاڑیوں کو حسب توفیق اپنے جوہر دیکھانے کا موقع ملتا ہے جبکہ کرکٹ میں بابر اور کوہلی اکثر اکیلے ہی سارا میچ کھیل آتے ہیں۔ مزید براں فٹبال میں میچ کے دوران ہی متبادل کھلاڑیوں کی سہولت دستیاب ہوتی ہے، جبکہ کرکٹ میں نو چانس۔

اگر فٹنس اور ورزش کو دیکھا جائے تو فٹبال بیک وقت اپنے تقریبا" کھلاڑیوں کو بھرپور جسمانی سرگرمی مہیا کرتا ہے، جبکہ کرکٹ میں ایک وقت میں چند کھلاڑی ہی جسمانی گرمی کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں۔

فٹبال گو باہمی کشمکش، چھینا جھپٹی کا کھیل ہے مگر اس کی انجریز کے مقابلے کرکٹ کی انجریز بعض اوقات زیادہ مہلک ثابت ہوتی ہیں کیونکہ کرکٹ ایک سخت بال کیساتھ کھیلا جاتا ہے، جس کو ہینڈل کرنا آسان نہیں ہوتا۔

اگر کھیل میں موجود ہنر اور تکنیکس کی بات کی جائے تو فٹبالر اپنے پاوں سے بال کو سوئنگ کرتے ہیں، اینگل بناتے ہیں، لمبی ککس لگاتے ہیں 

کرسٹینا رونالڈو کی لگائی گئی ککس پر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور بے ساختہ تحسین بلند ہوجاتی ہے


اور اپنے سر سے بھی خوب داد شجاعت بٹورتے ہیں، 

دنیائے فٹبال کے عطیم ترین مقبول ترین فٹبالر کرسٹینا رونالڈو لگ بھگ 10 فٹ کی فلائنگ ہیڈ کک لگاتے ہوئے

دوسری جانب کرکٹ میں زیادہ عوامل شامل حال ہوتے ہیں، ٹاس، علاقہ، علاقے کا موسم، پچ وغیرہ بہت اہم ہوتے ہیں، 

شعیب اختر دنیائے کرکٹ کی تیزترین بال 161.3 کلومیٹر کی سپیڈ سے کرواتے ہوئے


بات کرتے ہیں کرکٹ کے پیشن فاسٹ بولنگ کی اور اس کی صلاحیتوں کی، سپیڈ، فٹنس اور سوئنگ کی، جب فاسٹ بولر اپنے رن اپ سے کریز کی طرف دوڑ لگاتا ہے تو بتدریج جذبہ موجزن ہوتا ہے۔ سلو بولر کی گگلیاں اور اسپن کا جادو۔ پھر 160 کلومیٹر سپیڈ کی بال کو نہ صرف پرکھنا بلکہ 90 میٹر تک کا لمبا سٹروک بھی اچھالنا۔ جہاں بیٹسمین کی طرف آنیوالی ہر بال آخری بال ہو سکتی ہے، بیٹسمین کے پاس غلطی کے چانس نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ 

بریٹ لی: متواتر 150 کلومیٹر سے اوپر کی رفتار سے بیٹسمین پر حملے کرتے ہوئے 
اس کے مقابلے کرسٹینا رونالڈو کی کک تیزترین سمجھی جاتی ہے جس کی رفتار 130 کلومیٹر کے لگ بھگ ہوتی ہے۔

فٹبال تقریبا" پوری دنیا میں کھیلا اور دیکھا جاتا ہے، جبکہ کرکٹ مخصوص علاقوں میں مقبول ہے۔ فٹبال ورلڈ کپ پوری دنیا کا اجتماعی جشن بن چکا ہے اور ایک وقت میں دنیا ایک نقطہ مرکز پر مرکوز ہوتی ہے تو سیلیبریشن کا ایک پیک لیول پیدا ہوتا ہے، جو پوری دنیا کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے، جن ممالک کی ورلڈ کلاس ٹیمیں نہیں ہیں وہ بھی اس میڈیا ہائپ اور انفلونس کی زد میں آ ہی جاتے ہیں. کرکٹ کے فینز میں سے اگر انڈیا کے فینز نکال دو تو کرکٹ کی فین فالونگ دھڑم سے آدھی سے بھی کم رہ جائے گی. جب فٹبال کسی ایک ملک یا علاقے کا محتاج نہیں رہ گیا ہے، اس لیے وہ کرکٹ کی طرح ایک مخصوص ملک کی سیاست کا شکار بھی نہیں ہو پاتا. جبکہ ہندوستان نے کرکٹ کو بطور سیاسی ہتھیار بنا رکھا ہے جو کرکٹ کے جنٹلمین گیم ہونے پر بھی قدغن لگائے بیٹھا ہے. 

اگر شائقین کے اعتبار سے دیکھیں تو بلاوجہ فٹبال کہیں زیادہ آگے ہے، فٹبال کے لگ بھگ 3.5 سے 4 ارب فینز تو ہوں گے ہی جبکہ کرکٹ بمشکل 2.5 ارب تک فینز رکھتی ہے۔


کرسٹینا رونالڈو اس وقت مشہور ترین فٹبالر ہیں انکی دولت کا تخمینہ 500 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے، کرسٹینا خیراتی کاموں کی وجہ سے بھی مشہور ہیں انھوں نے ایک دفعہ ایک لاکھ ڈالر سے ایک غریب بچے کا علاج کروایا تھا۔

اسی طرح اگر بات کی جائے پیسے کی تو بھی فٹبال کہیں زیادہ آگے ہے،  

نیمار کو دوسرے فٹبال کلب نے 230 میلن ڈالر میں خریدا۔

ویرات کوہلی کی دولت کا اندازہ 127 ملین ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔ جبکہ فوربز کی رپورٹ کیمطابق فرینچ سٹار کلیان ایمباپے اس سیزن 128 ملین ڈالر کمایں گے۔

میسی اور ارجنٹائن کو ٹکر دینے والا فرانس کا فٹبالر
ایمباپے پیرس کے شمال میں ایک چھوٹے سے شہر بوندی میں پیدا ہوئے۔
کیمرون سے تعلق رکھنے والے ان کے والد مقامی کلب کے کوچ تھے۔
ان کا بیٹا فٹبال کے علاوہ کسی بھی چیز میں دلچسپی نہیں لیتا تھا۔
ایمباپے کے ذہن میں سوتے جاگتے فٹبال کا میچ چلتا رہتا تھا۔
ان کے بیڈروم میں رونالڈو اور زیدان کے پوسٹر لگے تھے جن کے وہ بچپن سے فین ہیں۔ 
نوجوانی میں ہی یہ نظر آنے لگا تھا کہ کلیان کے پاس ایک ہنر ہے۔ 10 سال کی عمر میں پیرس کے گرد یہ کہا جانے لگا کہ بوندی سے تعلق رکھنے والا ایک بچہ کافی اچھا فٹبالر ہے۔



 
اسی طرح فٹبال کی سونے سے بنی ٹرافی دنیا کی مہنگی ترین ٹرافی ہے.

اگر بات کی جائے مسلم کمیونٹی کی تو کیا پاکستان واحد مسلم ملک ہے جس نے ورلڈ کپ جیت رکھا ہے؟
مراکش کی ورلڈکپ 2022 میں اسپین کیخلاف جیت کو مسلمان اور عرب اپنی جیت قرار دے رہے ہیں حالانکہ مراکش عربی نہیں بلکہ افریقی ملک ہے، لیکن یہ سب فخر کرنے کی ایک وجہ ہے۔

مسلمان ممالک کی فٹبال ورلڈ کپ میں اب تک کی بہترین پرفارمنس ترکی کی ورلڈ کپ 2002 میں تیسری پوزیشن ہے۔ جبکہ پاکستان کرکٹ کا ناصرف ورلڈ کپ جیت چکا ہے بلکہ اسکے علاوہ بھی وہ کرکٹ کے کئی عالمی ریکارڈ رکھتا ہے۔ 
پاکستان نے اپنا پہلا انٹرنیشنل میچ 22 نومبر 1935 کو سندھ بمقابلہ آسٹریلیا کھیلا تھا۔ 
ون ڈے ورلڈ کپ 1992 : ونر
ون ڈے ورلڈ کپ 1999 : رنراپ
ٹی 20 ورلڈ کپ 2009 : ونر 
ٹی 20 ورلڈ کپ 2007 : رنراپ
ٹی 20 ورلڈ کپ 2022 : رنراپ
چیمپئین ٹرافی 2017: ونر

سیالکوٹ اور فٹبال
گرچہ پاکستان کی عالمی فٹبال رینکنگ 194 ہے مگر فٹبال تیار کرنے میں پاکستان کی رینکنگ دینا میں نمبر 1 ہے۔ اور اس کی وجہ ہے سیالکوٹ کا فٹبال سے تاریخی رشتہ. سیالکوٹ کو دنیا کا فٹ بال مینوفیکچرنگ دارالحکومت کہا جاتا ہے! سیالکوٹ فیفا ورلڈ کپ کا آفیشل فٹبال پرووائڈر ہے سیالکوٹ دنیا میں ہاتھ سے سلے ہوئے فٹ بالوں کا سب سے بڑا پروڈیوسر ہے، جہاں مقامی فیکٹریاں سالانہ 40-60 ملین فٹ بال تیار کرتی ہیں، جو کہ عالمی پیداوار کا تقریباً 60% بنتی ہے۔
سیالکوٹ پاکستان کے باقی حصوں کے مقابلے میں ایک امیر شہر ہے، جس کی جی ڈی پی $13 بلین ہے اور 2021 میں فی کس آمدنی کا تخمینہ $18500 ہے۔
سیالکوٹ سب سے پہلے نوآبادیاتی دور میں کھیلوں کے سامان کی تیاری کا مرکز بنا۔ برٹش انڈیا میں موجود انگریزوں کے کھیلنے کے لیے فٹبال برطانیہ سے بذریعہ بحری جہاز آتے تھے، ایک دفعہ جہاز لیٹ ہو گیا تو انگریز کھلاڑیوں کو پرانے فٹبال استعمال کرنے پڑے، ایسے میں ایک انگریز اپنے پرانے فٹبال کو مرمت کروانے سیالکوٹ کے بازار پہنچ گیا، فٹبال کی بہترین مرمت دیکھ کر انگریزوں نے فٹبال سیالکوٹ سے ہی بنوانے شروع کردیے۔ 
سیالکوٹ اب کھیلوں کے سامان کی ایک وسیع رینج تیار کرتا ہے، جس میں فٹ بال اور ہاکی اسٹکس، کرکٹ گیئر، دستانے شامل ہیں جو اولمپکس اور ورلڈ کپ پر مشتمل بین الاقوامی کھیلوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

 دل کہے کرکٹ، مگر دماغ کہے فٹبال

No comments:

Post a Comment