Translate

Thursday, December 8, 2022

لاوڈ سپیکر کیسے حلال ہوا

لاوڈ سپیکر کیسے حلال ہوا؟
لاوڈ سپیکر پر پہلی تقریر امریکی صدر ولسن نے پہلی جنگ عظیم کے بعد کی.
Any Noise disturb you! and any disturbance can harm you

لاوڈ سپیکر کی مختصر ٹائم لائن!
1861: جوہان فلپ ریس نے ایک اسپیکر نصب کیا جس سے اس کے ٹیلی فون پر واضح ٹونز پیدا ہوتے تھے، لیکن آواز دب کر نکلی۔
1876: الیگزینڈر گراہم بیل کو پہلے لاؤڈ اسپیکر کا پیٹنٹ ملا، جس نے قابل فہم تقریر تیار کی۔
1877: ورنر وان سیمنز نے بیل کا ڈیزائن لیا اور برقی مقناطیسی کوائل سے چلنے والا اسپیکر بنایا، لیکن یہ کامیاب نہیں ہوا۔
1877: تھامس ایڈیسن نے ابتدائی سلنڈر فونوگراف میں آواز کو بڑھاوا دینے کے لیے کمپریسڈ ہوا کا استعمال کرتے ہوئے ایک نظام کو پیٹنٹ کیا لیکن اس میں اضافہ کے لیے سینگ لگے۔
1898: ہوریس شارٹ نے کمپریسڈ ہوا سے چلنے والے لاؤڈ اسپیکر کو پیٹنٹ کیا جو پچھلے اسپیکروں سے بہتر آواز پیدا کرتا ہے۔
1898: اولیور لاج نے 1898 میں پہلا تجرباتی حرکت پذیر کنڈلی لاؤڈ اسپیکر تیار کیا۔
1915: پیٹر ایل جینسن اور ایڈون پردھام نے پہلا عملی حرکت پذیر کوائل لاؤڈ اسپیکر ڈیزائن کیا۔
1924: جنرل الیکٹرک کے چیسٹر ڈبلیو رائس اور اے ٹی اینڈ ٹی کے ایڈورڈ ڈبلیو کیلوگ نے آواز کی لہریں پیدا کرنے کے لیے کوائل اور ڈایافرام کو حرکت دینے کے لیے مستقل مقناطیس اور انڈکشن کا استعمال کرتے ہوئے پہلی بار موونگ کوائل ٹیکنالوجی کو پیٹنٹ کیا۔
1924: برنسوک بالکے کولینڈر کمپنی نے متحرک لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ پہلا آل الیکٹرک ہوم فونوگراف متعارف کرایا۔
1924: والٹر ایچ شوٹکی اور ڈاکٹر ایرون گیرلاک نے ڈائیوڈس کا استعمال کرتے ہوئے پہلا ربن لاؤڈ اسپیکر ایجاد کیا۔
1930 کی دہائی: ربن لاؤڈ سپیکرز نے ایمپلیفیکیشن کو بہتر بنانے کے لیے ڈرائیوروں کو جوڑ دیا تھا۔
1937: Metro-Goldwyn-Mayer (یا MGM) نے شیئرر ہارن سسٹم متعارف کرایا، جس میں ہائی فریکوئنسی آوازوں کے لیے دو کمپریشن ڈرائیوروں کے ساتھ ایک ہی ہارن استعمال کیا گیا۔
1943: Altec Lansing نے ڈوپلیکس ڈرائیورز اور 604 اسپیکرز ایجاد کیے، جو بعد میں "وائس آف تھیٹر" کے نام سے مشہور ہوئے۔

لاوڈ سپیکر کا ہندوستان میں استقبال!
لاوڈ سپیکر ہندوستان پہنچا تو وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے اور اب بھی ہوتا رہتا ہے،
اس وقت کے جید عالم مولانا اشرف تھانوی نے سردست اس کو حرام قرار دیا.
 خیر چیز کام کی تھی، آواز میلوں دور زیادہ لوگوں تک پہنچائی جاسکتی تھی، اس لیے معاملہ گھومتا گھامتا سائنس کے ایک ٹیچر نندن لال کے پاس پہنچ گیا.
مزے کی بات اس سے پہلے ہندوستان میں ٹیلی فون کو حلال جبکہ گراموفون بیچارے کو حرام قرار دیا جاچکا تھا. اور لاوڈ سپیکر کو بھی ہندوستانی گراموفون سے مطابقت رکھنے والا کوئی آلہ سمجھ رہے تھے. اور اسی بنا فی الحال لاوڈ سپیکر شدید آزمائشی دور سے گزر رہا تھا
اس پر مزہ مزید اس وقت دوبالا ہو گیا جب ریڈیو بھی کہیں سے ہندوستان آن پہنچا.
مولانا تو استقبال کے لیے تیار بیٹھے تھے، اور ریڈیو ایسے کیسے بچ کر نکل جاتا. مولانا صاحب نے ریڈیو سے متعلق فتویٰ دیا کہ جس ریڈیو پر گانا سنا جائے گا پھر اس ریڈیو پر دینی چیز سننا قطعاً حرام ہے.(دور جدید میں جیسے جس یوٹیوب پر گانے فلمیں چلتی ہوں بعین فتویٰ پھر اس پر مولانا کا گولڈن پلے بٹن حرام ہی بنتا ہے شاید؟). 
اب آگے پیچھے دایں بائیں حتیٰ کہ عرب سے بھی لاوڈ سپیکر کے استعمال کی خبریں آنے لگیں تو علماء نے اس معاملے میں ریڈیو پاکستان کو خط لکھا.
ریڈیو پاکستان کے ماہرین نے جواب میں لکھا کہ چونکہ سپیکر میں وہی آواز نقل ہوتی ہے لہذا 1951 میں جاکر لاوڈ سپیکر حلال ہوگیا.
اب اگر محلے میں چار مساجد ہیں تو بیک وقت چاروں سپیکر چل رہے ہوتے ہیں، سمجھ نہیں آتی کس کی پیروی کریں، لیکن یہ چونکہ عوامی اور انسانی مسئلہ ہے لہذا اس کو تو چھوڑیں. یہ سوچیں گورے کیسی کیسی عجیب عجیب چیزیں ایجاد کرکے ہم کو مشکلات میں ڈالے رکھتے ہیں،

No comments:

Post a Comment