Translate

Tuesday, November 22, 2022

Pakistan Default Risk 2022

ہچکولے کھاتی معیشت کی کشتی، اب ڈوبی کہ کل ڈوبی
حالات بد سے بدتر ہوتے جاتے ہیں. کریڈٹ ڈیفالٹ کا رسک مستقل خطرہ بن چکا ہے. یہ اس سال کے شروع میں محض 4٪ تھا جو اکتوبر میں 52٪ تھا اور اب 92٪ کو کراس کررہا ہے.
https://jang.com.pk/news/1161900

کریڈٹ ڈیفالٹ سوایپ کیا ہے؟
ملک دیوالیہ کیسے ہوتا ہے اور دیوالیہ ہونے کے کیا نقصانات اور کیا نتائج ہوتے ہیں؟ 
جب ملک بیرونی قرضوں کی یا پھر درآمدات کی ادائیگیاں کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے تب ملک معاشی طور پر دیوالیہ سمجھا جاتا ہے. 
آئندہ کوئی ملک یا بینک وغیرہ اس کو قرضہ نہیں دیتا، 
اس کی کریڈٹ ریٹنگ گر جاتی ہے اور باقی ممالک ادارے اس کے ساتھ کاروباری معاہدے وغیرہ کرنے سے کتراتے ہیں. 
بیرونی قرضے وقت پر ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے اس کے بیرونی اثاثہ جات وغیرہ قبضے میں لے لیے جاسکتے ہیں، 
اس کی درآمدات بند ہو سکتی ہے جس سے ملک میں اشیاء کی قلت ہو جاتی ہے، خاص کر پٹرولیم مصنوعات جیسا کہ حال ہی میں سری لنکا میں ہوا. 
اس ملک کی اپنی کرنسی تیزی سے گرنا شروع کردیتی ہے، جیسا کہ وینزویلا میں ہوا، اس کی کرنسی اتنی بے وقعت ہو گی کے سڑکوں پر بکھری تھی اور لوگ اس پر چل رہے تھے. 
پاکستان بھی قرضوں کے اس نہ ختم ہونیوالے سائیکل میں پھنس چکا ہے. جس کی نہ کوئی ترکیب ہے اور نہ کوئی حل، بہت قرضے لوٹانے کے لیے پھر اور قرضے لیتے جاو لیتے جاو۔ پاکستان کے برے ہوتے ہوئے معاشی اور سیاسی حالات دیکھیں تو بار بار خیال آتا ہے کہ سیاسی جماعتیں کس شوق میں اقتدار میں آتی ہیں؟ نہ کوئی معاشی پلان نہ کوئی مستقبل بینی بس کرسی میں نے لینی، فقط اقتدار کے شوق میں مررہی ہیں گولیاں کھا رہی ہیں مگر پہنچنا اسلام آباد ہی ہے، زندہ یا مردہ؟
موجودہ حالات دیکھیں تو لگتا ہے کہ ن لیگ اقتدار میں فقط اپنے گناہ بخشوانے ہی آئی تھی. 
مریم کو پروانہ رہائی مل گیا. 
وڈے کو سفارتی پاسپورٹ اور چھوٹے کا وزارت عظمیٰ کا تڑکا لگ گیا.
لیکن اس سب میں پاکستان کا کیا بنا؟ عوام کو کیا ملا؟
پاکستان کے حالات تو وہی رہے بلکہ بد سے بدتر ہورہے؟ 
پھر 13 جماعتوں کا ملک گیر عظیم ترین اتحاد بھی کس کام آیا؟ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، نام نہاد ہی سہی تھا مگر بیانیہ بھی گیا اور بھرم بھی رائیگاں.
بڑا شہرہ تھا شہباز سپیڈ کا. اب نہ سپیڈ نظر آتی ہے نہ کوئی شوبازی ہی دل بہلاتی ہے.
اسحاق ڈارترکش کا آخری تیر تھا، مگر بجھا بجھا، بے بسی کی تصویر دوست ملکوں سے معجزوں کے انتظار میں بیچارا.
ڈوبنا مقدر تھا تو ملاح کی تبدیلی کی کیا ضرورت تھی؟ اسی کے گناہ اسی کے سر چڑھنے دیتے. جہاں اتنا صبر کیا تھا کچھ ماہ اور کرلیتے، خلق خدا خود اسے تخت سے اتار پھینکتی نہ رہتا بانس اور نہ اب بجتی بانسری. مگر اقتدار اور کرسی کا لالچ شاید اس دنیا کا سب سے بڑا لالچ ہے.
سال 2022ء کو معاشی لحاظ سے دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک دور رواں سال کے ابتدائی 4 ماہ کا ہے۔ جس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت قائم رہی جبکہ باقی دور جس میں مسلم لیگ (ن) کی زیرِ قیادت اتحادی حکومت قائم ہے۔
عمران خان کے خلاف 10 اپریل کو تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی تو اس وقت روپے کی قدر 186.72 روپے تھی جو بڑھ کر 240 روپے تک جا پہنچی تھی اور دمِ تحریر 224 روپے پر موجود ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے بنیادی شرح سود جو اس سال اپریل میں 11 فیصد کے لگ بھگ تھی وہ 5 فیصد اضافے کے بعد 16 فیصد ہوگئی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح جو اپریل میں 13.4 فیصد پر تھی اب بڑھ کر 26 فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔
اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 6 ارب ڈالر سے زائد کے زرِمبادلہ ذخائر موجود ہیں جبکہ عمران خان کی حکومت کے اختتام کے وقت اسٹیٹ بینک کے پاس 10 ارب ڈالر سے زائد موجود تھے۔ 



مانا کہ پی ٹی ائی کے دور میں کوئی دودھ شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں، مگراس وقت کے معاشی اعشاریے دیکھیں اور آج کے اعشاریے دیکھیں تو زمین آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے
جیسی بھی تھی پی ٹی آئی کی جی ڈی پی گروتھ 6 کے قریب چل رہی تھی. اب تو بیچ بچاو کی لگی پڑی ہے
پی ٹی آئی کوئی مثالی معاشی دور تو ہرگز نہ تھا مگر تاریخ میں پہلی بار ملکی ایکسپورٹ 30 ارب ڈالر سے اوپر جاپہنچی تھیں اور صنعتیں 12٪ سے پھل پھول رہی تھیں، اب ہر ماہ سنتے ہیں کہ ایکسپورٹ میں تنزلی ہے صنعتیں خواب خرگوش کے مزے لینے لگی ہیں۔
روشن ڈیجیٹل اکاونٹ بلاشبہ کپتان کا کارنامہ گردانا جا سکتا ہے، کہ تاریخ میں پہلی بار ترسیلات زر 31 ارب ڈالر سے اوپر جارہی تھیں اور اس اکاؤنٹ میں 5.7 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری بھی آئی تھی. 


مگر اب ہر روز سنتے ہیں کہ جب سے ن لیگ نے آئینی طریقے سے کپتان کو ہٹایا ہے تب سے دن رات تنزلی ہی تنزلی ہے، اور ہنڈی کا کاروبار پھر چاندی چمکا رہا ہے.
کہاں گے دعوے؟ ڈالر 200 کا کرنے کے؟ یاد رہے کپتان کو 182 پر آیئنی دیس نکالا ملا تھا.


ٹنڈ کرواتے اولے برسے کی مانند نئے سیٹ اپ کو ہنی مون پیریڈ میں ہی سیلاب نے آن لیا، اوپر سے روس یوکرین جنگ، اور رہتی کسر کووڈ کے بعد اچانک سرگرمیوں کی تیزی سے پیدا شدہ مہنگائی اور پھر عالمی کساد بازاری۔ مگر جناب عالمی کساد بازاری تو لگ بھگ طے شدہ ہی تھی. اگر یہ نظر نہیں آئی تو پھر 40 سالہ سیاسی تجربہ کس کام کا؟
ساری عقل و دانش تجربہ کاری اک طرف، مگر ہوس اقتدار اک طرف. وزیراعظم بننا تھا بن گے، کیس معاف کروانے تھے کروا لیے. مگر شاید گھاٹا کا سودا ہی کیا، بھرم بھی گیا اور الیکشن بھی. اب موہوم سی امید کہ کپتان کو کوئی ان دیکھی طاقت کسی طریقے رستے سے ہٹا دے تو ن لیگ پھر اکیلی معاشی چیمپئین. مگر ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش میں خجل خواری نکلے.
دعا ہے اس وینٹی لیٹر پے لیٹی معیشت کو کسی دوست ملک یا کسی بینک سے وقتی آکسیجن مل جائے،
https://jang.com.pk/news/1161900

جب قرض واپس کرنے کے لیے قرض لینے پڑیں تب دراصل ایسا ملک دیوالیہ ہی ہوتا ہے، لیکن اس کو عارضی سہاروں کی بنیاد پر چلایا جارہا ہوتا ہے تاآنکہ وہ ملک معاشی اصلاحات کرے اور اس گھن چکر سے نکل آئے، مگر پاکستان کے موجودہ حکمرانوں، سیاستدانوں اور اشرافیہ کی پالیسیاں دیکھتے ہوئے ایسا فی الوقت ہوتا نظر نہیں آتا، 
بس وینٹی لیٹر کی مصنوعی آکسیجن پر جب تک جیے تب تک نہال. کیونکہ یہاں سب کی منزل کرسی ہے ناکہ معاشی بہتری۔ 

No comments:

Post a Comment