Translate

Wednesday, October 19, 2022

پاکستان اور افغانستان کی کرکٹ جنگ

برصغیر میں کرکٹ سیاست کیسے بن گئ؟

کرکٹ کو جینٹلمین گیم کہا جاتا ہے یعنی شرفا کا کھیل۔ لیکن یہ کھیل برصغیر میں سیاست اور جنگ کیسے بن گیا؟ ایک طرف ہندوستان پاکستان کیخلاف کرکٹ کو بطور سیاسی ہتھیار استعمال کررہا ہے تو دوسری جانب اب افغانستان سے پیچیدہ تعلقات کے اثرات بھی کرکٹ کے میدانوں میں خوب جھلکنے لگے ہیں. 

جب ہم افغانستان کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم سب کے ذہنوں میں کچھ تصویریں ہوتی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر خبروں سے تشکیل پاتی ہیں۔ برقعہ میں ایک عورت، کلاشنکوف کے ساتھ داڑھی والا مرد، اور صحرا کی طرح کے مناظر۔ افغان آبادی کو اس کی پیچیدگی، تین جہتی اور نسلی اور مذہبی تنوع میں شاذ و نادر ہی کبھی دیکھا گیا ہو؟


برصغیر میں پاکستان اور بھارت روایتی حریف مشہور تھے، لیکن اب یہ گیٹگری بڑھ چکی ہے، اب پاکستان اور افغانستان بھی روایتی حریف بن چکے ہیں۔

افغانستان کی کرکٹ جس کو چلنا پاکستان نے سیکھایا وہ پاکستان کی حریف کیسے بن گی؟ 

اگر بات کی جائے کرکٹ پلٰیرز کی تو کئی افغانی سٹار پلئیر پاکستان میں پیدا ہوئے، پاکستان میں پلے بڑھے اور پاکستان میں ہی کرکٹ کھیلنا بھی سیکھی. 


دوسری طرف پاکستان کرکٹ بورڈ نے افغان کرکٹ کو ہر طرح سے سپورٹ کیا، افغانستان کا پہلا کوچ پاکستان سے تھا، پاکستان نے افغان کرکٹ بورڈ کی مالی امداد کی. اس کا بنیادی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں مدد دی۔ نتیجتاً افغان کرکٹ پاکستان کرکٹ بورڈ کی بھرپور تعریف کرتا تھا لیکن پھر اچانک کابل حکومت کی پالیسیاں بدلیں تو افغان کرکٹ بورڈ بھی رنگ بدلتا گیا. افغان حکومت کے بھارت کی طرف جھکاو کے بدلے بھارت نے افغانستان میں کرکٹ گراونڈ بنوائے اور بورڈ کی مالی اعانت بھی شروع کردی. افغان کرکٹرز کو آئی پی ایل کی کشش بھی بہا لے گئی. نتیجتاً پاکستان اور افغانستان کرکٹ بورڈز اور مینجمنٹ میں فاصلے پیدا ہو گے. 


افغانستان کے بارے میں ایک ضرب المثل مشہور ہے ”اللہ آپ کو کوبرا سانپ کے زہر، شیر کے دانتوں اور افغان کے انتقام سے بچائے


کھادا پیتا لاہے داتے باقی احمد شاھے دا 

لوٹ مار کی شہرت اور لالچ کا یہ عالم تھا کہ جب بھی وہ لشکر لے کر پنجاب کی طرف روانہ ہوتا تھا افغانستان میں آباد قبائل کا جم غفیر اس لشکر میں شامل ہو جاتا تھا۔ یہ قبیلے ان پہاڑی اور بارانی علاقوں کے باشندے تھے جہاں کھیتی باڑی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اور لوٹ مار کے بغیر زندہ رہنا دشوار تھا۔ غنیمت کا حصول روزگار کا مسلمہ ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔


پھر تاریخ نے پلٹا کھانا شروع کیا رنجیت سنگھ نے اس یورش کو پچھے دھکیلنا شروع کیا اور غزنی کی دیواروں تک بند باندھ دیا، جس کو بعدازاں برٹش دور میں بھی قائم رکھا گیا،

پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ گذشتہ ہزار سال میں پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے ہندوستان کے روایتی فاتحین پشتونوں (افغانوں) کی یلغارپسپا کی۔ غیر ملکی حملہ آوروں کو شکست دیتے اور مقامی علاقوں کو زیرِ نگیں کرتے ان کا راج شمال مغرب میں درّہ خیبر سے مشرق میں دریائے سُتلج تک اور برصغیر پاک و ہند کی شمالی حد سے جنوب کی طرف (عظیم ہندوستانی) صحرائے تھر تک پھیلا ہوا تھا۔ لاہور صدر مقام تھا۔


حالیہ تاریخ میں اہم موڑ اس وقت آیا جب یوریشین بھورے ریچھ نے کابل پر لال جھنڈا گاڑھا 

تو گرم ہوائیں مشرق سے مغرب کو چلنا شروع ہو گئیں. 

یہیں سے ان دونوں کی حالیہ تاریخ نے نیا جنم لینا شروع کیا جس نے پچھلی تاریخ پر لکیر پھیرتے ہوئے نیا مظلومیت کا باب لکھنے کی کوشش شروع کر دی. یہ پاک افغان تاریخ اور تعلقات کا ٹرننگ پوائنٹ بنا، یہیں سے پاکستان مخالف تحاریک کا آغاز بھی ہوا ہے، اور اب یہ طبقہ ان گرم ہواوں کو پھر مغرب سے مشرق کو چلتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے.


ہندوکش کی اونچے پہاڑوں میں گھرا دشوار گزار رستوں اور نیم ہموار زمین پر مشتمل افغانستان کا علاقہ اپنے جغرافیے کی بنا سلطنتوں کا قبرستان بھی کہلواتا ہے، 


جہاں تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت اور سپرپاور برطانیہ اینگلو-افغان جنگ میں بے بس نظر آئی وہیں پر روس و امریکہ بھی ہزیمت اٹھا چکے. مگر جہاں تک ناقابل فتح کی بات ہے، تو اس علاقے کو ایرانی منگول اور سکندر فتح کرچکے، لیکن دوام فقط جنگ و جدل زوال کو رہا. جہاں مقامی لوگ بیرونی لوگوں کو علاقے سے بھگاتے رہے وہیں پر انھوں نے اپنے حکمرانوں کو بھی زیادہ دیر تخت نصیب نہیں ہونے دیا. علاقے میں تین تین حکومتیں بنی رہیں کابل ہرات اور قندھار کے تخت الگ الگ تھے.

افغانستان کی مختصر ٹائم لائن:

افغانستان مشرق وسطیٰ‘وسطی ایشیا‘ بر صغیر ہند اور مشرق بعید کے لیے راہداری رہا ہے

سکندر اعظم ‘چنگیز خان‘ امیرتیمور‘مغل حکمرانوں اور ایرانی حکمرانوں کی داستانوں کا امین ہے۔ سکندر اعظم نے اپنے ہاتھیوں اور تیس ہزار کے لشکر کو یہاں سے گزارنے کیلئے تین سال لگا دیے۔ 

1186ء تک یہ علاقہ غزنویوں کے زیر تسلط رہا‘ 

1219 ء میں چنگیز خان کی فوجوں نے بلخ اور ہرات کو تاراج کر کے انسانی سروں کے مینار بنائے ۔

1381ء میں تیمور نے ہرات فتح کیا۔

1500 ء میں بابر نے ازبکستان کی وادی فرغانہ سے نکل کر کابل اور پھر دہلی کو فتح کیا ۔

1600ء میں مغربی افغانستان پر ایران کے صفوی خاندان کی حکومت قائم ہوئی۔

1709ء میں میرا ویس نے‘ جو قندھار کا سردار تھا صفوی بادشاہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ 

1747ء میں لویہ جرگہ منعقد ہوا جس نے احمد شاہ ابدالی کو افغانستان کا پہلا بادشاہ مقرر کر دیا۔ 

1761ء میں ابدالی نے ہندو مرہٹوں کو شکست دینے کے بعد دہلی کے بعد کشمیر پر بھی قبضہ کر لیا۔

1772ء میں احمد شاہ ابدالی پچاس سال کی عمر میں قندھار کے مشرقی پہاڑی سلسلہ کوہ سلیمان میں اس دنیا سے رخصت ہوا تواس کے بیٹے تیمور شاہ نے قندھار کی بجائے کابل کو اپنا دارالحکومت بنا لیا۔

1780ء میں درانیوں نے وسط ایشیا کے سب سے اہم اور بڑے حاکم امیر آف بخاراسے ایک معاہدہ کیا جس کی رو سے دریائے آمو کووسط ایشیا اور نئی افغان ریاست کے درمیان سرحد بنا دیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ نئے افغانستان کی شمالی سرحد وں کا با قاعدہ تعین کیا گیا۔

1880ء سے 1901ء تک کابل کے تخت پر امیر عبد الرحمن کی حکومت رہی اور اسی کے دور میں 12 نومبر 1893ء کو انگریزوں نے ہندوستان اور افغانستان کے درمیان وہ تاریخی معاہدہ کرایاجو ڈیورنڈ لائن کے نام سے مشہور ہے۔ عبدالرحمن کے بعد جب اس کا بیٹا حبیب اﷲ حکمران بنا تو اس نے بھی 1905ء میں ڈیورنڈ لائن کی توثیق کی۔ ڈیورنڈ لائن پر 1919ء میں مشہور راولپنڈی معاہدہ ہوا اور 1921ء میں برطانوی اور افغان وزیر خارجہ کے درمیان لندن میں اینگلو افغان معاہدہ کے نام سے دونوں ملکوں کے درمیان ڈیورنڈ لائن کو باقاعدہ سرحد تسلیم کرنے کے معاہدے پر دستخط ہوگئے،

1926 میں امان اللہ نے امارت کی بجائے بادشاہت کا اعلان کیا اور خود کو بادشاہ قرار دیا۔ اس نے جدت کے کئی منصوبوں کا ایک سلسلہ شروع کیا، لویہ جرگہ، قومی کونسل کی طاقت کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ جس کے رد عمل میں اس کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہو گئی۔

1929ء میں حبیب خان (تاجک النسل) نے کابل پر قبضہ کر لیا‘حبیب خان ایک ڈاکو تھا اس نے علاقے کے سرداروں کو پیسہ وغیرہ بانٹ کر ساتھ ملا لیا اور امان اﷲ خاں کو بھگا دیا۔ حبیب کا باپ پانی پلانے والا تھا یعنی "سقہ" اسی مناسبت سے حبیب کو بچہ سقہ کہتے ہیں اور اس کے دور کو بچہ سقہ کا دور حکومت کہا جا تا ہے۔

1929 میں امان  کے فرار کے بعد نادر شاہ محسود اور وزیر قبائل کی فوج کے ساتھ افغانستان واپس آیا اور حبیب کو قتل کر کے افغانستان کا بادشاہ بن گیا۔ مرنے سے پہلے حبیب کے یہ الفاظ تھے "میرے پاس اللہ سے مانگنے کو کچھ نہیں ہے، اس نے مجھے وہ سب کچھ دیا ہے جس کی میں نے خواہش کی تھی۔ اللہ نے مجھے بادشاہ بنایا ہے"

1933 میں ایک 16 سالہ طالبعلم عبد الخالق جو ہزارہ برادری سے تعلق رکھتا تھا اس نے نادر شاہ کو ہزارہ برادری کے برخلاف پالیسیوں کی بنیاد پر قتل کر ڈالا

1933 میں ظاہر شاہ 17 سال کی عمر میں بادشاہ بنا۔ 

1934 میں امریکہ نے افغانستان کو تسلیم کر لیا۔

1944ء میں  ظاہر شاہ نے برطانیہ کو خط لکھا کہ  ڈیورنڈ لائن کے جنوب اور مشرق میں رہنے والے پشتونوں کی سرحد وں میں تبدیلی کی جائے لیکن برطانیہ نے کہا کہ ڈیورنڈ لائن مستقل سرحد ہے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ برطانوی حکومت و پارلیمنٹ نے 1955، 1956 اور 1960ء میں معاہدہ ڈیورنڈ لائن کی توثیق کی۔

1953 میں بادشاہ کا کزن داود خان وزیراعظم بنا۔

1956 میں روس نے مدد کا اعلان کیا اور دونوں ملک قریبی اتحادی بن گئے۔

1957 میں داود خان نے لڑکیوں کو تعلیم اور کام کی اجازت دی۔


1965 میں افغانستان میں کمیونسٹ پارٹی بنی۔

1973 میں جب ظاہر شاہ اٹلی کے دورے پر تھا داود نے اس کا تختہ الٹ کر بادشاہت ختم کردی اور خود صدر بن گیا۔

1978 میں کمیونسٹ پارٹی نے داود خان کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا، 

1979 میں کمیونسٹ پارٹی کے آپسی جھگڑوں اور مجاہدین سے بچاو کے لیے 24 دسمبر کو روسی افواج افغانستان میں داخل ہوگئیں۔

1982 میں 30 لاکھ کے قریب افغان پاکستان جبکہ 15 لاکھ کے قریب ایران بھاگ گئے۔ دیہاتی علاقوں میں مجاہدین نے قبضہ کرلیا جبکہ شہری علاقوں پر روس نے۔

1984 میں اسامہ بن لادن مجاہدین کی مدد کے لیے افغانستان آیا۔

1986 میں مجاہدین امریکہ برطانیہ چین سعودیہ پاکستان اور دیگر سے بڑے پیمانے پر مدد پارہے تھے۔

1988 میں اسامہ بن لادن نے القاعدہ کی بنیاد رکھی۔

1989 میں روسی فوج افغانستان سے نکل گئی۔ 



اگر حالیہ واقعات کی بات کی جائے تو افغانستان کی سوچ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، مذہبی سوچ "جس کی آبیاری کی جاتی رہی ہے" اور قوم پرستی کی سوچ "جس کو کاونٹر کرنے کے لیے بزعم اول الذکر کو سپورٹ کیا جاتا رہا ہے، گو افغان جہاد کے بعد سے افغانستان پر سیاسی طور پر مذہبی گروپ غالب ہیں لیکن قوم پرست طبقے کو بھی جبھی موقع ملتا ہے وہ اس کارڈ کو استعمال کرکے مذہبی کارڈ کو کاونٹر کرنے اور افغانستان کا نیا قومی بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش ضرور کرتا ہے، اس کی حالیہ مثالیں حامد کرزئی اور اشرف غنی ہیں، مگرسعودی عرب کے ریالوں سے اگائی گئی فصل ہنوز غالب ہے چہ جایئکہ امریکی ڈالر بے اثر رہے کیونکہ وہ عوام پر نہیں بلکہ خواص پر لگائے جارہے تھے۔ اور خواص کبھی بھی عوام سے مخلص نہیں ہوتے، کیونکہ دونوں کے مفادات میں ٹکراو ہوتا ہے۔



بیسویں صدی کی تاریخ میں افغانستان سپرپاورز کی جنگ کی آماجگاہ بنا رہا ہے۔ مگر اپنے جغرافیائی، معاشی، سماجی اور کلچرل اسٹرکچر کی بنا بیرونی حملہ آوروں کو ٹکنے نہیں دیتا۔ کیونکہ جنگ کی صورت مقامی لوگوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ زیادہ نہیں ہوتا جبکہ بیرونی حملہ آوروں کے پاس پانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔

درج بالا حقائق کے مدنظر افغانستان ہر لحاظ سے ایک مشکل فریق رہا ہے، اس لیے کسی بھی کے لیے اس کے ساتھ نبھاو آسان ہرگز نہیں ہے۔ پاکستان کو بھی پھونک پھونک کر ہی قدم رکھنے ہوں گئے۔


حوالہ جات:

بچہ سقہ؟؟؟

پاکستان افغانستان کنفیڈریشن کا منصوبہ جسے امریکہ نے رد کر دیا تھا


No comments:

Post a Comment