Translate

Friday, November 20, 2020

Sigmund Freud

سگمنڈ فرائڈ بابائے تحلیلِ نفسی

 تحلیل نفسی میری تخلیق ہے۔ دس برس تک میں اکیلا اس میں الجھا رہا۔ اس نئے شعبے نے میرے ہم عصروں میں جس غصے کو جنم دیا، میں تنہا اعتراضات کی صورت میں اسے برداشت کرتا رہا۔ اب جب کہ اس میدان میں اور بھی مصالحین آچکے ہیں تو میں یہ باورکرنے میں حق بجانب ہوں کہ تحلیل نفسی کو مجھ سے بہتر سمجھنے والا اور کوئی نہیں


تحلیل نفسی کے معنی ہیں اپنے نفس (ذہن) کی کیفیتوں کو ٹٹولنا اور ان شگافوں کو دریافت کرنا جو انسانی سوچ میں پڑ گئے ہیں۔یعنی اس طریقہ علاج سے مریض کے لاشعور تک رسائی کرنا اور لاشعور کو واپس شعور میں لانا ہے۔ تحلیل نفسی کا طریقہ یہ ہے کہ معمول کو بستر پر آرام سے لٹادیا جاتا ہے اور اسے ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اوپر استغراق کی کیفیت طاری کرکے مطالعہ ذات کی کوشش کرے اور اس کے ذہن میں جتنے خیالات یکے بعد دیگرے آرہے ہیں، انھیں بے تکلف اور بے تکان بیان کرتا چلا جائے

سگمنڈ فرائیڈ نے انسانی دماغ  کا ایک جغرافیائی  مفروضہ تیار کیا  جس کیمطابق دماغ کو تین حصوں میں میں تقسیم کیا 

 شعور، (دماغ کا فعال ترین حصہ یعنی عقل)

 تحت شعور  : ( عمومی یادداشت کا حصہ)

اور لاشعور: جذبات، میلانات اور نظریات کا حامل دماغی حصہ ہے جو بےچینی، تنازعات اور درد سے منسلک ہوتے ہیں فرائڈ کیمطابق لاشعور شعور سے کہیں زیادہ بڑا ہوتا ہے مگر اکثر یہ ہم سے مخفی ہی رہتا ہے کبھی کبھار خوابوں میں ہم اس تک رسائی حاصل کرتے ہیں،


فرائیڈ کے مطابق یہ تینوں دماغ کے جسمانی حصے نہیں بلکہ دماغی عمل کے حصے ہیں

فرائڈ نے مریض کیساتھ بات چیت ٹاک تھراپی کو اپنا یا فرائیڈ نے ہمیں بتایا کہ کسی مریض کی گفتگو کو اگر توجہ سے سنا جائے تو اس بارے میں بہت علم ہو جاتا ہے کہ اس کا تحت الشعور کیا بتا رہا ہے اور یہ سب انقلابی باتیں ہیں۔ فرائڈ آزاد تلازمہِ خیال کے تحت مریضوں کے لاشعور میں چھپی باتوں کو اگلواتا۔

اینا او ہسٹیریا کی مریض تھی جو ان دنوں یورپ میں ایک عام بیماری تھی۔ جب جوزف برائر اس مریضہ کا علاج کر رہے تھے تو مریضہ ان کے عشق میں گرفتار ہوگئی تھی۔ ایک دن مریضہ نے برائر کو خبر سنائی کہ وہ حاملہ ہو گئی ہے۔ اس نے کہا کہ وہ سب لوگوں کو بتائے گی کہ ڈاکٹر برائر نے اسے حاملہ کیا ہے۔

ڈاکٹر برائر جو ایک شریف النفس انسان تھے بہت گھبرائے۔ چونکہ ان کے بیوی اور بچے بھی تھے اس لیے وہ بدنامی کے خوف سے شہر چھوڑ کر چلے گئے۔ جب فرائڈ نے اینا او کا علاج شروع کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ وہ حاملہ نہ تھی۔ اس کا اپنے آپ کو حاملہ ظاہر کرنا اس کی نفسیاتی بیماری کا عارضہ تھا۔ علاج کے دوران پتہ چلا کہ اسے اپنے بوڑھے باپ کی تیمار داری کی وجہ سے اپنے منگیتر سے ملاقات کا وقت نہیں ملتا ۔اسی دوران بروئر کو احساس ہوا کہ جب وہ لڑکی اپنے گھر کے حالات بیان کرتی ہے تو ا س کے مرض کی علامات میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔بروئر نے جس کا یہ نتیجہ نکالا کہ اس کی بیماری کی اصل وجہ محبت کی جنوں خیزی اور فرض کی شدت کا آپس میں تصادم ہے ۔


جب وہ لڑکی جی بھر کر بھڑاس نکال لیتی تو افاقہ محسوس کرتی ۔بروئر کے ساتھ موجود فرائیڈ جو اس تمام کاروائی میں شامل تھااور نہایت غور و خوض کر رہا تھا اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر مریض اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرے تو اس کی ہسٹریائی علامات دور ہو سکتی ہیں

فرائڈ نے اپنی نفسیاتی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا کہ ہسٹیریا کا مرض ان عورتوں کو ہوتا ہے جو اپنے جنسی جذبات خواہشات او تضادات کو اپنے لاشعور میں دھکیل دیتی ہیں شعور و لاشعور میں کشمکش پیدا ہوتی ہے اور الجھا ہوا لاشعور دھیرے دھیرے  ایک آتش فشاں بنتا جاتا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ فرائڈ نے ہسٹیریا کے مرض کا نفسیاتی علاج دریافت کیا اور بہت سے مریضوں کا کامیاب علاج کیا۔ کچھ عرصہ بعد فرائڈ اور برائر نے مل کر ہسٹیریا پر ایک مقالہ بھی لکھا۔

فرائڈ نے اپنے طریقہِ علاج کو PSYCHOANALYSIS کا نام دیا۔ فرائڈ نے یہ دریافت کیا کہ مریض اپنے ماضی کے جذبات اور احساسات اپنے معالج کی طرف TRANSFER کرتا ہے اور اپنے حال کو ماضی کے آئینے میں پرکھتا ہے جو اسے حقیقت سے دور لے جاتا ہے ۔ نفسیاتی علاج میں جوں جوں مریض ماضی کے تعصبات سے چھٹکارا پاتا ہے وہ موجودہ حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے جس سے وہ صحتمند ہونا شروع ہو جاتا ہے 

 فرائڈ نے  یہ تصور پیش کیا کہ وہ جذبات و احساسات جنہیں انسانی ذہن تکلیف دہ سمجھتا ہے اسے اپنے لاشعور میں دھکیل دیتا ہے  جہاں وہ طویل مدت تک پڑے رہتے ہیں اور کبھی نہ کبھی انسان کو ڈسٹرب ضرور کرتے ہیں، ایسی انہونی یا نامکمل خوہشات کے لیئے فرائڈ نے ایک دلچسپ طریقہ SUBLIMATION کی نشاندہی کی کہ جس کو اپنا کر ایسی خواہشات کو تکمیل تک پہنچایا جاسکے، مثلا اگر کسی کو تشدد پسند ہے تو وہ کشتی کے کھیل کو اپنا لے   

فرائڈ کی خوابوں پر  تحقیق   کیمطابق خوابوں کے نفسیاتی مطالب ہوتے ہیں 

 فرائڈ کو اپنی زندگی میں طب اور سائنس کا تو کوئی ایوارڈ نہیں ملا لیکن انہیں ادب کا GOETHE AWARD ملا تھا۔ فرائڈ کو ادب سے بہت دلچسپی تھی۔ ان کا OEDIPUS COMPLEX کا تصور یونانی ادب سے ماخوز ہے

 فرائڈ کیمطابق دبی ہوئی جنسی خواہشات عموما ذہنی بیماری یانیوراسس (Neurosis) کے ظہور میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں

 فرائڈ کا خیال تھا کہ شاعر ادیب ڈرامہ نگار اور ناول نگار وجدانی طور پر اور اپنے مشاہدات اور واردات سے انسانی نفسیات کے ان رازوں سے واقف ہو جاتے ہیں اور ان کا اپنے فن اورادب میں اظہار کرتے ہیں جنہیں ماہرینِ نفسیات اور سائنسدان بعد میں دریافت کرتے ہیں۔

فرائڈ کے باطل نظریات: اُنہوں نے نفسیات کی دنیا میں جو انقلابی نظریات متعارف کروائے، اُن میں ایڈی پس کمپلیکس تھیوری بھی شامل تھی، جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ بچے اپنے والدین میں مخالف جنس کی جانب کشش محسوس کرتے ہیں۔ جہاں ایک بڑا حلقہ فرائیڈ کے نظریات کو سراہتا تھا، وہیں بہت سے حلقے اُنہیں ہدفِ تنقید بھی بناتے تھے اور یہ نظریہ عمومی طور پر  غلط ثابت ہوا ہے

اس کا یہ خیال کہ عورتیں نامکمل مرد ہوتیں ہیں غلط ثابت ہوا ہے ایک جگہ فرائڈ لکھتا ہے ”عورت سے صرف تین طرح کے تعلقات ہوسکتے ہیں جنم دینے والی ماں۔ اس کی ہم نوالہ اور ہم بستر۔ اور اسے تباہ و برباد کرنے والی۔ یا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ماں ہی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ یہ تینوں روپ دھارتی ہے۔ ماں تو وہ خود ہی ہے، پھر وہ محبوبہ جس کے روپ میں مادرانہ جھلک نظر آتی ہے اور آخر میں دھرتی ماتا جو اسے اپنے اندر چھپا لیتی ہے

سگمنڈ فرائڈ کا ایک بہت بڑا ناقد Burrhus Frederic Skinner (March 20, 1904 – August 18, 1990) 

سکنر بذات خود رویہ پرست (انسانی رویہ کی جانچ پڑتال کرنے والا) تھا، سکنر کا نظریہ بڑا سادہ سا تھا، اس کا کہنا تھا کہ ہم کیسے ایک ایسی چیز کو لاشعور کو اپنی تحقیقات کی بنیاد بنا سکتے ہیں کہ جو ہم کو نظر ہی نہیں آتی جبکہ رویہ اور اعمال کی تو ہم براہ راست نگرانی کرسکتے ہیں اور ان سے نتائج اخذ کرسکتے ہیں 

فرائڈ ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے لیکن وہ مذہبی اعتقادات پر کھل کر تنقید کرتے تھے

فرائڈ کیمطابق جوں جوں سائنس کا دائرہِ اثر بڑھے گا مذہب کا دائرہِ کار تنگ ہوتا جائے گا

فرائڈ کے باپ نے چالیس سال کی عمر میں انیس سال کی  نوخیز لڑکی سے شادی کی جس کے بطن سے فرائیڈ 6 مئی 1856ء میں  چیک ری پبلک میں پیدا ہوا۔اگر فرائڈ کے بچپن کے حالات کو دیکھا جائے تو نفسیاتی پیچیدگیاں فرائڈ کو ورثے میں ملیں ایک طرف اس کی جواں سال ماں جو اس کے باپ سے عمر میں کہیں چھوٹی تھی جسے دیکھ دیکھ فرائڈ کو اپنی ماں کی محرومیوں پر ترس آتا تھا  تو دوسری طرف اس کا کٹر مذہبی کرخت باپ۔ مذہب سے چڑ شاید اس کو اسی وجہ سے بچپن سے ہی ہو گئی تھی۔ جب وہ چاربرس کا تھا اس کا خاندان ویانا منتقل ہوگیا جہاں  اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہ ڈاکٹر بنا اور ویانا میں ہی بطور معالج کام شروع کیا 



سائکو اینالسس کے علاوہ اگر کوئی چیز ہر وقت فرائڈ کیساتھ نظر آتی ہے تو وہ سلگتی سگار تھی۔ سگار اسے پی رہی تھی مگر وہ بدستور سگار پیتا رہا۔ اس  معاملے میں اس نے خواہش کو عقل پر فوقیت دی۔ اسے منہ کا کینسر ہو گیا۔ اس کے متعد آپریشنز ہوئے۔ بالآخر اس نے اپنے معالج ڈاکٹر میکس شور سے التجا کی کہ وہ  مارفین کا ڈوز بڑھا کرسیوسائیڈ ٹوئرزم کے تحت  اس کی زندگی کا خاتمہ کردے فرائڈ تئیس ستمبر 1939 کو وفات پا گیا۔

Sigmund Freud's Books

1. 1891 On Aphasia

2. 1895 Studies on Hysteria (co-authored with Josef Breuer)

3. 1899 The Interpretation of Dreams

4. 1901 On Dreams (abridged version of The Interpretation of Dreams)

5. 1904 The Psychopathology of Everyday Life PDF Book

6. 1905 Jokes and Their Relation to the Unconscious

7. 1905 Three Essays on the Theory of Sexuality

8. 1907 Delusion and Dream in Jensen's Gradiva

9. 1910 Five Lectures on Psycho-Analysis

10. 1910 Leonardo da Vinci, A Memory of His Childhood

11. 1913 Totem and Taboo: Resemblances between the Psychic Lives of Savages and Neurotics

12. 1915–17 Introductory Lectures on Psycho-Analysis

13. 1920 Beyond the Pleasure Principle

14. 1921 Group Psychology and the Analysis of the Ego

15. 1923 The Ego and the Id

16. 1926 Inhibitions, Symptoms and Anxiety

17. 1926 The Question of Lay Analysis

18. 1927 The Future of an Illusion

19. 1930 Civilization and Its Discontents

20. 1933 New Introductory Lectures on Psycho-Analysis

21. 1939 Moses and Monotheism

22. 1940 An Outline of Psychoanalysis

23. 1967 Thomas Woodrow Wilson: A Psychological Study, with William C. Bullit



No comments:

Post a Comment