Translate
Wednesday, May 12, 2021
Jerusalem is Converging Point of Three Big Religions
Friday, November 13, 2020
History of Kashmir Issue in Urdu
تنازعہ
کشمیر کی تاریخ
ایک روایت کیمطابق لفظ کشمیر سنسکرت کے لفظ کاسمیرا سے بنا ہے، کاسمیرا سے مراد پانی سے عاری زمین تھی،
وادی کشمیر برصغیر کے انتہائی شمال مغرب میں واقع ہے۔
کشمیر کے تین دریا سندھ جہلم چناب کشمیر کی تین وادیوں میں بہتے ہیں، سندھ لداخ سے گلگت بلتستان سے ہوتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں داخل ہو جاتا ہے، دریائے جہلم پیر پنجال سے نکلتا ہے اور مظفرآباد میں دریائے نیلم سے ملکر کشمیر کی مین درمیانی وادی میں بہتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں داخل ہو جاتا ہے، دریائے چناب کی وادی کشمیر کے خطے کا جنوبی حصہ بناتی ہے جس میں جموں کا تقریباً تمام علاقہ شامل ہے۔ اس کے بعد دریائے چناب بھی پنجاب کے میدانوں میں داخل ہو جاتا ہے۔
کشمیریوں
نے کئی صدیاں پانڈو، موریا، کوشان، گوناندیا، کرکوٹا، اتپالا اور لوہارا جیسے بیرونی
حکمرانوں کے تحت گزاریں۔ کشمیر کی تاریخ کو عام طور پر چار ادوار میں تقسیم کیا
جاتا ہے: ہندو راجاؤں کا قدیم دور، جس کی تفصیل کلہن پنڈت کی لکھی ہوئی قدیم کتاب
'راجترنگنی' میں ملتی ہے، کشمیری مسلمانوں کا دور، جنھیں سلاطین کشمیر کہا جاتا
ہے، مغل دور جسے شاہان مغلیہ کہا جاتا ہے اور پٹھانوں کا دور جسے شاہان درانی کہا
جاتا ہے
آٹھویں
صدی میں عرب مسلمانوں نے اس کو فتح کرنے کی متعدد کوششیں کیں۔
گیارہویں
صدی میں جب محمود غزنوی نے پنجاب پر حملہ کیا تو
راجہ چنپالہ نے کشمیر کے راجہ سمگرام
سے مدد مانگی۔ راجہ سمگرام نے بڑی فوج مدد کےلیے بھیجی۔ سلطان محمود غزنوی
نے راجہ چنپالہ کو شکست دینے کے بعد کشمیر کے راجہ کو سبق سکھانے کے لیے کشمیر کا
رخ کیا۔ راجہ قلعہ بند ہو گیا اور محمود ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد خراب موسم
برفباری کی وجہ سے ناکام واپس لوٹ گیا۔
چودویں
صدی میں لداخ سے بھاگا ہوا ایک بدھ شہزادہ
رنچن پہلے کشمیر کا وزیراعظم بنا اور پھر تیرہ سو بیس میں کشمیر کا بادشاہ بن گیا۔
رنچن نے مسلم صوفی بزرگ بلبل شاہ کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام صدرالدین رکھا۔ اس طرح صدرالدین کشمیر کا پہلا
مسلمان بادشاہ بن گیا۔
صدرالدین
(رنچن) نے سوات سے آئے ہوئے مسلم شاہ میر کو اپنا وزیراعظم بنایا۔صدرالدین کی وفات
کے بعد شاہ میر نے تیرہ صد انتالیس میں
کشمیر میں مسلم بادشاہت کی بنیاد رکھی۔ جو پندرہ سو اکسٹھ تک قائم رہی اس دور میں
اسلام کشمیر میں خوب پھیلا مسلم بادشاہ باہر سے آرٹسٹ لائے جنہوں نے مقامی لوگوں
کو سیکھایا اور کشمیری شال ایک برانڈ بن گئی۔
پندرہ سو اسی میں مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور اس کو اپنی سلطنت کا ایک صوبہ بنا لیا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ
رنجیت سنگھ سکرچکیہ مثل (سکرچکیا مثل راوی اور چناب دریاؤں کے درمیانی علاقے پرمشتمل تھی، گوجرانوالا اس کا صدر مقام تھا) کے سردار مہان سنگھ کے ہاں 13 نومبر 1780ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوا۔ باپ کی وفات پر 12 سال کی عمر میں سردار بنا سولہ سال کی عمر میں کنہیا مثل (فتح گڑھ کوریاں، بٹالا اور گرداس پورکا علاقہ) کی مہتاب کور سے شادی ہوئی اس وقت پنجاب میں سکھوں کے بارہ علاقے یا مثلیں تھیں اس شادی سے سکرچکیا اور کنہیا مثلوں کی دشمنی ختم اور طاقت دوگنی ہو گئی |
مغل سلطنت کے کمزور ہوتے ہی افغانستان کے احمد شاہ درانی نے
1752 میں پنجاب کے آخری مغل گورنر میر منو کو شکست دے کر پنجاب پر قبضہ کرلیا۔مگر جلد ہی مرہٹوں نے 1758 میں
احمد شاہ درانی کے بیٹے تیمور شاہ کو شکست دے کر لاہو ر ڈیرہ غازیخان کشمیر اور اٹک تک کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔1761
میں احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی لڑائی میں مرہٹوں کو شکست دے کر دوبارہ ان
علاقوں پر قبضہ کر لیا۔پنجاب کے سکھ سرداروں نے کبھی ابدالی کا میدان جنگ میں
سامنا نہ کیا بلکہ ہر دفعہ ابدالی کی علاقے میں آمد پر سکھ چھپ جایا کرتے تھے۔
رنجیت سنگھ نے اپنی طاقت بڑھانے کے لیے دوسری شادی نکئی مثل
میں کی رنجیت سنگھ جلد ہی علاقائی طاقت بن گیا۔ ادھر1772 میں احمد شاہ ابدالی کی وفات
کے بعد ان کا پنجاب پر اقتدار کمزور پڑتا چلا گیا۔لاہور پر امرتسر کی بھنگی مثل نے
قبضہ کرلیا۔بھنگی مثل اور سرچکیہ مثل کی دیرینہ دشمنی چل رہی تھی۔1799 میں رنجیت
سنگھ نے بھنگی مثل کو شکست دے کر لاہور پر قبضہ کرلیا اور خود کو پنجاب کا مہاراجہ
قرار دیا۔رنجیت سنگھ نے ان علاقوں کا افغان حملہ آوروں کیخلاف کامیابی سے دفاع کیا
اور 1819 میں کشمیر پر بھی
قبضہ
کر لیا جس پر کشمیری مسلمانوں نے بغاوت اور بھرپور مزاحمت کی لیکن مہاراجہ کی تیس ہزار سپاہ نے بزور بازو کشمیر پر قبضہ کر لیا کشمیری مسلمانوں کی مزاحمتی گوریلا جدوجہد 1837 کے بعد بھی جاری رہی جس کو دبانے کے لیئے راجہ گلاب سنگھ نے پونچھ پر حملہ کیا اسی گلاب سنگھ نے آگے چل کر سکھ اور انگریزوں کی 1846 کی جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دیا اور انعام میں انگریزوں نے جموں کشمیر راجہ گلاب سنگھ کو بیچ دیا ۔
گلاب سنگھ جاموال
گلاب سنگھ جاموال جموں کے ڈوگرہ راجہ کشور سنگھ کا بیٹا تھا۔گلاب سنگھ مہاراجہ رنجیت کی فوج میں بھرتی ہو گیا اور اپنی قابلیت اور پے در پے فتوحات کی بنا پر مہاراجہ کی فوج کا سب سے بہترین سپہ سالار بن کر ابھرا۔اس نے لداخ اور بلتستان (بلتستان کے آخری راجہ احمد شاہ کو شکست دیکر) کے علاقوں کی فتح کیا۔ مہاراجہ رنجیت نے اس کو جموں کا راجہ بنایا اور جہلم بھیرہ روہتاس اور گجرات میں جاگیریں عطا کیں۔
مہاراجہ رنجیت کی وفات کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کی سلطنت پر قبضہ کر لیا۔ مگر بوجوہ کمپنی نے پچھتر لاکھ سکہ رائج الوقت بعوض جنگی زرتلافی ریاست کشمیر دریا راوی سے دریا سندھ کے درمیان گلاب سنگھ کے حوالے کردی۔
مہاراجہ گلاب سنگھ نے اٹھارہ سو چھیالیس میں کشمیر میں ڈوگرہ راج کی بنیاد رکھی جو تقسیم ہند انیس صد سینتالیس تک قائم رہا مہاراجہ نے اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں انگریزوں کا بھرپور ساتھ دیا۔گلاب سنگھ کے بیٹے رنبیر سنگھ نے اٹھارہ سو ساٹھ میں ہنزہ تک کے علاقے کو اپنی قلمرو میں شامل کرلیا مگر بعد ازاں روس کے خطرے کے پیش نظر برٹش راج نے اٹھارہ سو نواسی میں گلگت ایجنسی کے تحت یہ علاقے اپنے انتظام میں لے لیے ۔تقسیم ہند کے وقت اس علاقے کے عوام نے انڈیا کیساتھ الحاق کو مسترد کر دیا۔اور گلگت سکاوٹس نے میجر ولیم کے زیر کمان مہاراجہ کے خلاف کامیاب بغاوت کی اور اس کو مہاراجہ سے آزاد کروا لیا۔ بعد ازاں پاکستان نے انیس صد انچاس میں آزاد کشمیر کیساتھ کراچی میں کیے گے ایک معاہدئے کے تحت اس کا انتظام اپنے ہاتھ لے لیا۔ انیس صد چوہتر میں ذوالفقار بھٹو نے گلگت ایجنسی کو برائے راست وفاق کے انڈر کردیا ۔ دو ہزار نو میں صدر آصف زرداری نے گلگت بلتستان میں قانون ساز اسمبلی تشکیل دی اور اس کو نیم صوبائی حیثیت دے دی ۔ قانونی طور پر یہ اس وقت نہ ریاست ہے اور نہ صوبہ ۔
کشمیر اور آزادی کی تحریک
ڈوگرہ راج ایک مکمل سامراجی نظام تھا جس کا واحد مقصد کشمیری مسلمانوں کو بزور بازو غلام بنائے رکھنا تھا۔ گلاب سنگھ نے کشمیر کی تمام زمینوں کا خود کو مالک قرار دیا۔ کشمیری کسان اپنی ہی زمینوں کے مزارعے بن گئے اور راجہ کو ٹیکس دینے پر مجبور ہو گئے۔1930 میں ان مظالم کے خلاف کسانوں نے احتجاج کیا۔ اور پھر احتجاجات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
تیرہ جولائی 1931 کو حکومت مخالف تقریر کرنے کے جرم میں بند ایک باغی عبدالقدیر کے خلاف فیصلہ آنا تھا جس کو سننے کے لیے سرینگر کی سینٹرل جیل کے باہر لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ جمع تھی، گورنر نے ان سب کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر دیے اور وہاں تعینات پولیس نے ان پر گولی چلا دی۔ اس دن وہاں بیس کشمیری موقع پر ہی ہلاک ہو گئے، تب سے 13 جولائی کو کشمیر میں یوم شہدا کے طور پر منایا جاتا ہے انگریزوں نے ایسی شورشوں سے نپٹنے کے لیے مہاراجہ کی مدد کے لیے اپنی فوج بھی بھیج دی مگر مہاراجہ کے خلاف اب تحریک چل نکلی تھی. یہاں تحریک ایک نیا رنگ اختیار کرتی ہے جو آگے چل کر اس تحریک کو این نیا موڑ دے گی اور کشمیر بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔
شیخ عبداللہ 5 دسمبر 1905 تا 8 ستمبر 1982
سنہ 1932 تک اس تحریک میں اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان شامل ہو چکے ہیں اس دوران اس تحریک کی قیادت شیخ عبداللہ سنبھالتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک وسیع پیمانے پر پھیل جاتی ہے۔ شیخ عبداللہ قید و رہا ہوتے ہیں مہاراجہ کسانوں کو زمینیں واپس کرنے کا وعدہ کرتا ہے شیخ عبداللہ ایک پاپولر لیڈر کے طور پر ابھرتا ہے، تاہم یہ کھیل جاری رہتا ہے
سنہ 1935 سے شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ پریم ناتھ بزاز بھی ہیں یہ دونوں مل کر مہاراجہ کے خلاف اخبار نکالتے ہیں
سنہ 1938 میں شیخ عبداللہ مسلم کانفرنس کا نام بدل کر ’نیشنل کانفرنس‘ رکھتے ہیں اور اس کی رکنیت غیر مسلمانوں کے لیے بھی کھول دی گئی۔ شیخ عبداللہ اس کا منشور رکھتے ہیں کہ ہل چلانے والے کو زمین کی ملکیت دو، اسے غربت اور افلاس سے نکالو اورایک نیا لال پرچم لانچ کرتے ہیں جس پر ایک ہل بنا ہوا ہے اور سرینگر کے مرکزی علاقہ شیخ باغ کا نام ماسکو کے ریڈ سکوائر کے نام پر لال چوک رکھا گیا۔ شیخ عبداللہ قطعی طور پر سوشلزم کی طرف جھکاو رکھتے ہیں اور دو قومی نظریہ کی بجائے ون نیشن تھیوری ان کی سیاست کا مرکزی جزو ہے قائد اعظم نے 1944 میں کشمیر کا دورہ کیا اور دو ماہ کشمیر میں قیام بھی کیا اس دوران قائد اعظم نے شیخ عبداللہ سے ملاقات کی اور اس کو پاکستان میں شامل ہونے کے لیئے قائل کرنے کی کوشش کی، قائد اعظم نے اس سے کہا کہ آپ ایک ایسی قوم پر کیسے اعتبار کرسکتے ہیں جو آپ کے ہاتھوں سے پانی پیناتک پاپ سمجھتی ہے۔ اُن کے سماج میں آپ کے لئے کوئی جگہ نہیں، وہ آپ کو ملیچھ سمجھتے ہیں۔” قائداعظم نے یہاں تک کہا کہ ”وقت آئے گا جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے مگر شیخ عبداللہ نے قائداعظم کو دوٹوک انداز میں جواب دیا۔
سنہ 1941 میں غلام عباس نے مسلم کانفرنس کو دوبارہ شروع کیا اور سیاسی سرگرمیوں کو تیز کیا
سنہ 1946 میں شیخ محمد عبداللہ نے’کوئِٹ کشمیر‘ یعنی ’کشمیر چھوڑ‘ تحریک کا آغاز کیا
کشمیر تقسیم ہند کے بعد
جب انڈیا 15 اگست 1947 کو اپنا پہلا یوم آزادی منا رہا تھا تب کشمیری یوم پاکستان منا رہے تھے۔ اس سے ہندوستان کے کرتا دھرتوں میں جو کشمیر پر قبضے کی نظر جمائے بیٹھے تھے ان میں تشویش پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی اور انھوں نے اپنے پلان پر تیزی سے کام شروع کر دیا۔ سب سے پہلے انھوں نے مسلمانوں کے اکثریتی پریشر کو کم کرنے اور ممکنا بغاوت کو وقت سے پہلے ہی کچلنے کے لیئے مسلح کارروائیاں شروع کیں ان کارروائیوں میں ڈوگرہ فوج کے ساتھ آر ایس ایس اور سکھوں کے مسلح گروہ بھی مل گئے
اس زمانے میں کلکتہ سے شائع ہونے والے معتبر روزنامے ’دی سٹیٹس مین‘ کے ایڈیٹر این اسٹیفنز نے لکھا کہ کشمیر میں ان واقعات کا آغاز اگست میں ہوا اور گیارہ ہفتوں کے دوران لگ بھگ پانچ لاکھ افراد(مسلمان) ہلاک ہو گئے اور دو لاکھ کے قریب فرار یا گم ہو گئے
لندن سے شائع ہونے والے اخبار ٹائمز نے 10 اکتوبر 1947 کو اپنی اشاعت میں لکھا کہ اس عرصے کے دوران ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد دو لاکھ 37 ہزار تھی
ان واقعات کے ردعمل میں مقامی مسلمانوں نے سردار عبد القیوم خان کی قیادت میں متحد ہو کر جوابی کارروائی کی اور میرپور سے ڈوگرہ فوج کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے. مظفر آباد میں ڈوگرہ فوج میں شامل مسلمان فوجی اپنے کمانڈر لیفٹننٹ کرنل اور اس کے عملے کو قتل کر کے ڈوگرہ راج کیخلاف بغاوت کردی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں ڈوگرہ راجہ بھاگ کر جموں چلا گیا اور پھر کبھی بھی راجدھانی سری نگر واپس نہیں آیا۔ نہ خود کشمیر کا بلا شرکت غیرے حکمران رہ سکا اور نہ کشمیریوں کو ان کا حق دے سکا.
ڈوگرہ مظالم کی خبریں جب سرحدی قبائل تک پہنچی تو وزیرستان کے محسود اور آفریدی قبائل مسلمانوں کی مدد کے لیے کشمیر روانہ ہوئے اور 25 اکتوبر کی شب بارہمولا تک پہنچ گئے جہاں سے سری نگر ایک رات کی دوری پر تھا اور کشمیر کی آزادی بھی اتنی ہی دور تھی
مگر یہاں ان قبائلیوں سے چوک ہو گئی اوریہ آگے بڑھنے کی بجائے مال غنیمت لوٹنے اور ہوس پرستی میں الجھ کر رہ گئے
ادھر ہندوستان نے جموں میں چھپے مہاراجہ سے الحاق کا لیٹر سائن کروایا(نامور برطانوی تاریخ دان Alastair Lamb اپنی کتاب'' برتھ آف ٹریجڈی: کشمیر 1947ء ‘‘ میں چیلنج کیا ہے کہ اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ سامنے آئے میں ثابت کروں گا کہ کشمیر کا بھارت سے الحاق کرنے کیلئے خط سری نگر سے راجہ نے نہیں لکھا گیا بلکہ یہ خط دہلی میں ٹائپ کرنے کے بعد 26 اکتوبر 1947ء کو راجہ سے جموں میں اس پر بزورِ دستخط کروائے گئے) اور اپنی فوجیں کشمیر اتار دیں ماونٹ بیٹن نے تمام ہوائی جہاز کانگریس کے حوالے کردیے (اس واقعے کی منظر کشی کرتے ہوئے ایک مصنف آئن سٹیفنز نے لکھتا ہے کہ اس مرحلے پر گورنمنٹ ہاؤس انڈیا جنگ زدہ دفتر کا ماحول پیش کر رہا تھا جبکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس جنگ کے پرعزم سپہ سالار دکھائی دے رہے تھے) اور ہندوستانی فوج مجاہدین کے سری نگر ائیر پورٹ پہنچنے سے پہلے سری نگر لینڈ کرگئی جبکہ دوسری جانب پاکستان کی فوج کے جنرل گریسی نے قائد اعظم کا کشمیر فوج بھیجنے کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور اس طرح کشمیر کی آزادی جو محض ایک رات کی دوری پر تھی وہ ستر سال گزرنے کے بعد بھی ممکن نہ ہو سکی
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کو عجلت میں کشمیر میں مجاہدین بھیجنے چاہیئے تھے کیا کشمیر کو حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرنی چایئے تھی یا پھر کچھ وقت انتظار کیا جاتا تاآنکہ لوگ خود ہی مہاراجہ کیخلاف اٹھ کھڑے ہوتے اور کشمیر آزاد ہوجاتا اور نہ بھارت کو دراندازی کا موقع ملتا
مگر ریاست حیدرآباد اورجونا گڑھ کی مثال دیکھتے ہوئے اس وقت یہ ایک معجزہ ہی ہو سکتا تھا. دراصل عجلت میں کی گئی نامکمل تقسیم 1947 میں بندر بانٹ بن گئی، جس کے ہاتھ جو لگا اس نے ہتھیا لیا، کشمیر بھی تاریخ کی اسی ستم ظریفی کا شکار ہوا، کچھ پاکستان کو مل گیا اور زیادہ حصہ بمطابق جثہ بڑے طاقتور کو مل گیا، اب ستر سالوں سے محض لکیر پیٹی جارہی ہے،
اگر کشمیر کیساتھ پاکستان کی جذباتی وابستگی کو دیکھا جائے تو اس کے نام پر فوجی آمروں نے خود داد شجاعت سمیٹی اور اقتدار پر بھی قابض رہے مگر نتیجہ صفر ہی رہا.
ترکی اسرائیل اور فلسطین تنازعے پر ایک اصولی موقف رکھتا ہے، اور اس کا اعادہ بھی کرتا رہتا ہے مگر اس کے باوجود وہ اسرائیل سے ناصرف سفارتی تعلقات رکھتا ہے بلکہ معاشی تعلقات بھی بہتر سے بہتر کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے، اور تو اور سعودی عرب اور امارات کو ہی دیکھ لیں،
جب تک ایسے لکھاری دونوں طرف موجود ہیں تب تک عوام پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی جنگ پر کمربستہ رہے گی.
Tuesday, July 9, 2019
ِIran & America Conflict in Urdu
ایران امریکہ کی ممکنہ معاذآرائی. اور پاکستان کا کردار
سعودی عرب اور یمن کی صورتحال
ایران یمن میں حوثی باغیوں کو بدستور جدید ہتھیار مہیا
کر رہا ہے. جس کے جواب میں سعودی عرب نے امریکہ کو استعمال کرنے کی پلاننگ کی ہے جس
کے لیے ایک طرف وہ امریکہ کو سو ارب ڈالر دے رہا ہے تو دوسری طرف اسرائیل کی حمایت
کا یقین بھی دلایا گیا ہے. ابھی حال ہی میں یمن سے سعودی آئل کنوؤں پر ڈرون حملہ اور
خلیج میں چار ٹینکروں پر حملہ کے بعد امریکہ نے سعودیہ کو آٹھ ارب ڈالر کا جدید اسلحہ
دینے کا عندیہ دیا ہے
یمن کی صورتحال: حوثی (زیدی شیعہ) قبیلہ ہے جنکی تعداد لگ بھگ ایک
کروڑ تیس لاکھ ہو گی جو یمن کی آبادی کا چالیس پینتالیس پرسنٹ ہو گا۔ زیدی شیعے سنیوں
سے بہت کم اختلاف رکھتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران میں اثنا عشری (بارہ
امام) شیعہ غالب ہیں۔عقیدت اور نظریات کے حوالے سے حوثیوں اور ایرانیوں میں کوئی اتحاد
نہیں رہا ہاں البتہ دونوں اسرائیل کے مخالف ہیں۔ اور اس بات پر ایک دوسرے کی حمایت
بھی کرتے رہے ہیں۔ پچاس سال قبل تک زیدی قبائل یمن کے کچھ علاقوں پر حکمران بھی تھے
اور ان کے سعودی عرب سے بہت اچھے تعلقات بھی تھے۔ پھر 1990 میں حوثیوں نے مذہبی انقلاب
(أنصار الله) کا نعرہ لگایا۔ اور حکومت (زیدی صدر) کیخلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ یہ انقلاب
ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور یہاں سے یمن کے حالات خراب ہونا شروع ہوئے اور یمن بیرونی
طاقتوں کے ہتھے چڑھ گیا شمالی کوریا اور القاعدہ جیسی تنظیمیں بھی میدان میں کود پڑیں۔
حالات اس وقت انتہا کو پہنچ گئے جب باغیوں نے 2014 میں یمن کے دارلحکومت پر قبضہ کر
لیا۔تب سے اب تک بالادستی کی جنگ جاری ہے۔
امریکہ اور مشرق وسطی
امریکہ تیل سے مالا مال مشرق وسطیٰ میں بالوساطت اسرائیل اپنا مکمل
کنٹرول بڑھانا چاہتا
ہے. اس کے لیے اس نے یمن تنازعے کو استعمال کرتے ہوئے عرب ممالک
کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور اب وہ ایران کو باقاعدہ فکس کرنے کی پلاننگ
کر رہا
ہے.یا کم از کم خلیج میں دباو بڑھا کر ایران کی آئل ایکسپورٹز کو بالکل بند کر دینا
چاہتا ہے.
ٹرمپ اور ایران
امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے اور وہ دنیا کیساتھ سو
سالہ جنگی تاریخ رکھتا ہے. اس اپ اندازہ لگا سکتے ہو کہ جنگ کی امریکن پالیسیز میں
کس قدر اہمیت ہے. دوم جنگ وہ اچھی ہوتی ہے جس میں آپ کو فتح حاصل ہو چاہے کسی بھی قیمت
پر تو اس جنگ کے گناہ چھپ جاتے ہیں. ٹرمپ ابھی تک اس فیلڈ میں کوئی کارہائے نمایاں
ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں ان کی واحد شام میں مہم جوئی کسی منڈھے نہیں چڑھی. الیکشن
سر پر ہے ٹرمپ کو الیکشن سلوگن چاہیے. ٹرمپ ایران کیساتھ کیے گئے اوبامہ کے معاہدے
کے روز اول سے مخالف ہے. ایران کی مشرق وسطیٰ اور یمن میں مداخلت ٹرمپ کو مہم جوئی
کا جواز مہیا کرتی ہے.
پاکستان کے ایران کیساتھ سرد تعلقات اور ایران کا انڈیا کی طرف
جھکاو فطری طور پر پاکستان کو سعودی عرب کی طرف جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے. رہی سہی
کسر پاکستان کی موجودہ کمزور معاشی حالت اور اسی تناظر میں سعودیہ اور یواے ای کی طرف
سے دی جانیوالی حالیہ امداد پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھ دینے کے لیے کافی ہو گی
ایران کا انقلاب اور موجودہ صورتحال
ایران 1979 تک اسرائیل اور امریکہ کا دوست اور قریبی اتحادی تھا. سنہ 1948 میں اپنے قیام کے ساتھ ہی اسرائیل کے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم ہوئے۔ ایران ترکیہ کے بعد دوسرا اسلامی ملک تھا جس نے یہودی ریاست اسرائیل کو تسلیم کیا۔ مئی 1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کے حل کے لیئے 11 ممالک (آسٹریلیا، کینیڈا، چیکوسلواکیہ، گوئٹے مالا، بھارت، ایران، نیدرلینڈز، پیرو، سویڈن، یوروگوئے اور یوگوسلاویہ) کی کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی نے فلسطین کا دو ریاستی حل پیش کیا صرف 3 ممالک بھارت یوگوسلاویہ اور ایران نے اس کی مخالفت کی۔ بعدازاں ایران نے اقوام متحدہ میں بھی فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف ووٹ دیا۔ اسرائیل ایران کو عرب ریاستوں کے خلاف اپنا اتحادی سمجھتا تھا۔ ایران اسرائیل سے باہر دوسری بڑی یہودی برادری کا گھر بھی رہا ہے۔ آج بھی 20,000 سے زیادہ یہودی ایران میں آباد ہیں۔
سعودی عرب اور یمن کی صورتحال
ایران یمن میں حوثی باغیوں کو بدستور جدید ہتھیار مہیا کر رہا ہے. جس کے جواب میں سعودی عرب نے امریکہ کو استعمال کرنے کی پلاننگ کی ہے جس کے لیے ایک طرف وہ امریکہ کو سو ارب ڈالر دے رہا ہے تو دوسری طرف اسرائیل کی حمایت کا یقین بھی دلایا گیا ہے. ابھی حال ہی میں یمن سے سعودی آئل کنوؤں پر ڈرون حملہ اور خلیج میں چار ٹینکروں پر حملہ کے بعد امریکہ نے سعودیہ کو آٹھ ارب ڈالر کا جدید اسلحہ دینے کا عندیہ دیا ہےامریکہ اور مشرق وسطی
امریکہ تیل سے مالا مال مشرق وسطیٰ میں بالوساطت اسرائیل اپنا مکمل کنٹرول بڑھانا چاہتاہے. اس کے لیے اس نے یمن تنازعے کو استعمال کرتے ہوئے عرب ممالک کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور اب وہ ایران کو باقاعدہ فکس کرنے کی پلاننگ
کر رہا ہے.یا کم از کم خلیج میں دباو بڑھا کر ایران کی آئل ایکسپورٹز کو بالکل بند کر دینا چاہتا ہے.
ٹرمپ اور ایران
امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے اور وہ دنیا کیساتھ سو سالہ جنگی تاریخ رکھتا ہے. اس اپ اندازہ لگا سکتے ہو کہ جنگ کی امریکن پالیسیز میں کس قدر اہمیت ہے. دوم جنگ وہ اچھی ہوتی ہے جس میں آپ کو فتح حاصل ہو چاہے کسی بھی قیمت پر تو اس جنگ کے گناہ چھپ جاتے ہیں. ٹرمپ ابھی تک اس فیلڈ میں کوئی کارہائے نمایاں ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں ان کی واحد شام میں مہم جوئی کسی منڈھے نہیں چڑھی. الیکشن سر پر ہے ٹرمپ کو الیکشن سلوگن چاہیے. ٹرمپ ایران کیساتھ کیے گئے اوبامہ کے معاہدے کے روز اول سے مخالف ہے. ایران کی مشرق وسطیٰ اور یمن میں مداخلت ٹرمپ کو مہم جوئی کا جواز مہیا کرتی ہے. پھر ایران میں مذہبی انقلاب آیا یہ انقلاب دراصل مرگ بر امریکہ انقلاب تھا مگر اس پر شیعہ مذہبی انقلابیوں نے قبضہ کر لیا اور اس انقلاب نے ایران کو بنیاد پرست شیعہ مذہبی ریاست بنا دیا، ایران ایک مشکل سے نکل کر دوسری مشکل کے منہ میں چلا گیا. امریکہ اور اسرائیل
دشمن قرار دیے گئے اور کئی دہائیوں تک ایرانی قوم کے اندر امریکہ دشمن عزائم بھرے جاتے
رہے. جس کے نتیجے میں آج ایرانی قوم امریکہ کیساتھ جنگ میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار
بیٹھی ہے.شیعہ ریاست کو اپنے قیام کیساتھ ہی سنی العقائد ریاستوں کی جانب سے بھرپور مخالفت ملی۔ اورعراق نے ایران پر جنگ مسلط کردی۔ عالمی طاقتوں نے عراق کے ذریعے ایران کو تباہ کرنے
کی مسلسل آٹھ سال کوشش کی مگر ایران کی شیعہ ریاست کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ جو کہ ایرانی قوم کے لیے حوصلہ افزا پوائنٹ ہے۔ جب اسرائیل نے 1982ء میں ملک کی خانہ جنگی میں مداخلت کے لیے جنوبی لبنان میں فوج بھیجی تو خمینی نے ایرانی پاسداران انقلاب کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں مقامی شیعہ ملیشیاؤں کی حمایت کے لیے روانہ کیا۔ حزب اللہ ملیشیا، جو اس حمایت سے پروان چڑھی، آج لبنان میں براہ راست ایرانی پراکسی سمجھی جاتی ہے۔2006 اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے خلاف ایک ماہ تک جنگ کی لیکن بھاری ہتھیاروں سے لیس تنظیم کو کچلنے میں ناکام رہا۔مگر جب تک عراق میں صدام کی حکومت رہی تب تک ایران کی خطے میں سیاسی سرگرمیاں اور مداخلتیں محدود رہیں ایران فی الوقت یمن میں حوثی باغیوں کی مدد کررہا ہے لبنان میں حزب الللہ شیعہ ملیشیا کی مدد کررہا ہے شام میں صدر بشار الاسد کے ساتھ کھڑا ہے عراق میں شیعہ حکومت کی مدد کر رہا ہے اس سب کیوجہ سے ایران نے سعودی عرب اور اسرائیل کو اپنا مشترکہ دشمن بنا لیا ہے اور ان دونوں کا سرپرست امریکہ ہے۔
ایران کا سب سے موثر ہتھیار آبنائے ہرمز ہے
آبنائے ہرمز تیل کی گزرگاہ کے حساب سے دنیا کی سب سے بڑی گزرگاہ ہے
جس سے دنیا کا تقریبا پچیس فیصد تیل گزرتا ہے۔ یہ تیل دنیا کے بڑے بڑے ممالک چین جاپان انڈیا پاکستان اور کوریا جیسے ممالک کو جاتا ہے
آبنائے ہرمز کی چوڑائی کسی مقام پر صرف انتالیس کلو میٹرز رہ جاتی ہے
اور آبنائے کو بند کرنا ایران کے لیے چنداں مشکل نہیں۔ اور اس کے بند ہونے سے آدھی دنیا کا نظام رک سکتا ہے اور دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی اس لیئے یہ ممالک جنگ کی ہر گز حمایت نہیں کریں گے۔.
چین اور روس اس صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں
روس ایران کا دیرینہ اتحادی ہے اور شام کے واقعے
کے بعد قوی امکان ہے کہ وہ امریکہ کو ایران کے خلاف فری ہینڈ ہرگز نہیں دیگا ایران
کئی ممالک کیساتھ تجارت روسی روبل میں کرتا ہے جو اس کے روس پر اعتماد کی بڑی نشانی
ہے. دوسری طرف چائنہ خطے کی ابھرتی تجارتی طاقت ہے اور اس کے بحرہ عرب میں کشیدگی پر
شدید تحفظات ہیں. چائنہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ امریکہ کو ہمیں نہیں بتانا چاہیے کہ ہم
کس سے تیل خریدیں اور کس سے ناں خریدیں. مزید مشرق وسطیٰ سے قطر اور ترکی کی جانب سے
بھی جنگ کی شدید مخالفت سامنے آ سکتی ہے. یورپ تاحال جنگ کو بلاجواز اور بے محل قرار
دے رہا ہے. یورپ بخوبی واقف ہے کہ کشیدگی سے عالمی مارکیٹ شدید متاثر ہو گی
مشرق وسطی کی تشویشناک کا صورتحال کا اصل ذمہ دار
اگر معاملے کو باریکی سے دیکھا جائے تو ایران امریکہ کے ہاتھ مضبوط
کر رہا ہے. کل تک جو عرب ممالک اسرائیل سے دور تھے وہ آج ایران کی غلط پالیسیوں کی
وجہ سے اسرائیل سے جا ملے ہیں.
مسلمان اپنی تباہیوں کے خود ذمہ دار ہیں. کبھی صدام کو ہیرو بنا لیتے ہیں جس نے مسلم امہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا تو کبھی خمینی کے جنونی انقلاب سے دنیا کو فتح کرنے چل پڑتے ہیں. مسلمانوں کو من حیث القوم جذباتیت کے سراب سے نکل کر حقائقیت کے میدان میں اترنا ہوگا اور محض جذبے کی بجائے عقل علم ٹیکنالوجی کو اپنانا ہوگا.
ایران کا سب سے موثر ہتھیار آبنائے ہرمز ہے
آبنائے ہرمز تیل کی گزرگاہ کے حساب سے دنیا کی سب سے بڑی گزرگاہ ہے
جس سے دنیا کا تقریبا پچیس فیصد تیل گزرتا ہے۔ یہ تیل دنیا کے بڑے بڑے ممالک چین جاپان انڈیا پاکستان اور کوریا جیسے ممالک کو جاتا ہے
آبنائے ہرمز کی چوڑائی کسی مقام پر صرف انتالیس کلو میٹرز رہ جاتی ہے
اور آبنائے کو بند کرنا ایران کے لیے چنداں مشکل نہیں۔ اور اس کے بند ہونے سے آدھی دنیا کا نظام رک سکتا ہے اور دنیا میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں گی اس لیئے یہ ممالک جنگ کی ہر گز حمایت نہیں کریں گے۔.