Translate

Wednesday, May 12, 2021

Jerusalem is Converging Point of Three Big Religions

یروشلم! اے ارض مقدس تیرا تقدس انسانوں کے لیے کس قدر صبرآزما ثابت ہوا ہے؟ 
یروشلم دنیا کا اکلوتا شہر ہے جس پر دنیا کے تین بڑے مذاہب مذہبی بنیادوں پر حق ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں، اور جہاں پر بات مذہب اور اعتقاد کی آجاتی ہے وہاں پھر ساری دلیلیں اور اصول جواب دے جاتے ہیں،
یہودی پچھلے تین ہزار سال سے، عیسائی 2 ہزار سال سے جبکہ مسلمان 1400 سال سے مذہبی وابستگی رکھتے ہیں، شہر میں 1204 یہودیوں کے معبد، 158 چرچ جبکہ 73 مساجد ہیں، 
اس میں یہودیوں کا تابوت سکینہ، ہیکل سلیمانی اور دیوار گریہ ہیں، 
عیسائیت کیمطابق حضرت عیسٰی علیہ السلام کو جلجثة‎ میں کروسیفائی کیا گیا اور یہیں سے دوبارہ زندہ اٹھائے جائیں گے، عیسائی اس جگہ کی زیارت کے لیے مقدس سفر کرتے ہیں اور ایسا کرنے والا خود کو گناہوں سے پاک تصور کرتا ہے، بائبل میں 632 دفعہ یروشلم کا ذکر آیا ہے، 
مسلمانوں کے لیے یہ مکہ مدینہ کے بعد تیسرا متبرک مقدس ترین شہر ہے، مسلمانوں کا قبلہ اول اور مسجد اقصٰی ہے، یہیں سے پیغمبر اسلام صلعم معراج پر تشریف لے گئے، مسجد اقصی کی زیارت مسلمانوں کے لیے باعث ثواب ہے۔ قرآن پاک میں بھی مسجد اقصی کا ذکر ہے
”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالٰی ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے (سورہ الاسرائیل آیت نمبر 1)“
حدیث کیمطابق دنیا میں سب سے پہلے مسجد حرام خانہ کعبہ تعمیر کی گئی پھر اس کے 40 سال بعد مسجد اقصی بنائی گئی۔
مسلمان شروع میں مسجد اقصی کی طرف منہ کرکے ہی نماز پڑھتے رہے،

یروشلم کو اب تک دو دفعہ مکمل طور پر تباہ کیا گیا، 23 دفعہ محاصرہ کیا گیا، 44 دفعہ اس پر قبضہ کیا گیا اور 52 دفعہ اس پر حملہ کیا گیا،  
یروشلم کی مختصر ٹائم لائن! 
5000: قبل مسیح: ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے مطابق سات ہزار سال قبل بھی یروشلم میں انسانی آبادی موجود تھی۔ اس طرح یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے
1700: آرکیالوجسٹ کیمطابق سترہویں صدی قبل مسیح میں کنعانیوں نے یروشلم کے مشرق کی طرف پانی کے نظام کے لیے پتھروں کی دیواریں بنائی۔
1550-1400: اس علاقے کو مصریوں نے اپنی قلمرو میں شامل کر لیا.
1000:  قبل مسیح: پیغمبر حضرت داؤد نے شہر فتح کر کے اسے اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنا لیا
960 قبل مسیح: حضرت داؤد کے بیٹے پیغمبر حضرت سلیمان نے یروشلم میں معبد تعمیر کروایا جسے ہیکلِ سلیمانی کہا جاتا ہے
589: قبل مسیح: بخت نصر نے شہر کو تاراج کر کے یہودیوں کو ملک بدر کر دیا
539: قبل مسیح: ہخامنشی حکمران سائرس اعظم نے یروشلم پر قبضہ کر کے یہودیوں کو واپس آنے کی اجازت دی۔
30: عیسوی: رومی سپاہیوں نے یسوع مسیح کو مصلوب کیا
638: مسلمان یروشلم کو پہلی بار قبضہ کرتے ہیں 
691: اموی حکمران عبدالملک نے قبۃ الصخرا (ڈوم آف دا راک) تعمیر کروایا
1071: فاطمی سلطنت کی یروشلم پر گرفت کمزور پڑتے ترک کمانڈر اتسز نے یروشلم پر قبضہ کرلیا
1077َ: یروشلم میں بغاوت کے سبب اتسز کو دوبارہ یروشلم پر قبضہ کرنا پڑا اور اس نے تمام باغیوں کو قتل کروا دیا 
1095: یروشلم پر مسلمانوں کی کمزور پڑتی گرفت اور مسیح زائرین کی بڑھتی شکایات کے تحت بازنطین حکمرانوں نے پوپ اربن ٹو سے مدد کی درخواست کی، پوپ اربن ٹو نے یورپ میں بیت المقدس کی آزادی کی تحریک چلا دی پوپ نے یورپ میں افواہ پھیلا دی کہ یسوع دوبارہ نازل ہو کر مسیحیوں کے تمام مسائل کا خاتمہ کر دیں گے اور پوری دنیا پر انھی کی حکومت ہو گی لیکن یہ تبھی ہو گا جبھی پہلے یروشلم کو مسلمانوں سے آزاد کروایا جائے مزید پوپ نے یہ افواہ بھی چلا دی کہ جو کوئی بھی بیت المقدس کی زیارت کرے گا اور مقدس جنگ میں حصہ لے گا وہ چاہے کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو بخش دیا جائیگا اور داخل در جنت کیا جائے گا، اس کے نتیجے میں یورپ سے لاکھوں صلیبی جنگجووں نے یروشلم پرپہلا صلیبی حملہ کیا جو ناکام رہا،  
1099: متعدد کوششوں کے بعد بالآخر مسیحی صلیبیوں نے یروشلم پر قبضہ کر لیا اور شہر میں موجود تقریبا سبھی مسلمانوں کو قتل کر دیا،
1187: تقریبا ایک صدی کے بعد دو اکتوبر بروز شب معراج صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ یروشلم پر صلیب ہٹا کر چاند لہرا دیا، مسیحیوں کے لیے عام معافی بعوض زرتلافی کا اعلان کیا گیا


1229: فریڈرک دوم نے بغیر لڑے یروشلم حاصل کر لیا
1244: دوبارہ مسلمانوں کا قبضہ
1517: سلطان سلیم اول نے یروشلم کو عثمانی سلطنت میں شامل کر لیا
1917: انگریزی جنرل ایلن بی عثمانیوں کو شکست دے کر شہر میں داخل ہو گیا
1947: اقوامِ متحدہ نے شہر کو فلسطینی اور یہودی حصوں میں تقسیم کر دیا
1948: اسرائیل کا اعلانِ آزادی، شہر اسرائیل اور اردن میں تقسیم ہو گیا
1967: عرب 6 روزہ جنگ کے نتیجے میں دونوں حصوں پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا
1993: میں اوسلو معاہدہ کیا گیا جس میں فلسطین نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو تسلیم کیا۔
1995: اوسلو 2 معاہدہ بمقام مصر میں کیا گیا۔ جس میں مغربی کنارے کو تین حصوں ABC میں تقسیم کیا گیا اور فلسطینی اتھارٹی کو کچھ مزید اختیارات دیے گئے۔ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر نیتن یاہو نے ان معاہدوں کو ارائیل کے لیے خطرہ قرار دیا جس کے نتیجے میں ایک انتہا پسند یہودی نے اسرائیلی وزیراعظم اسحاق کو قتل کر دیا۔
2020: ٹرمپ نےامن معادے کے نام پراسرائیل کو سفارت خانہ متنازعہ یروشلم میں شفٹ کرنیکی حمایت کردی اور ساتھ پورے فلسطین کو ہڑپ جانے کی بھی شہ دی

حالیہ مختصر تاریخ؛ پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے ترکی کو شکست دے کر یروشلم پر قبضہ کرلیا تو دنیا بھر سے یہودیوں نے یروشلم (قومی گھر) میں بسنا شروع کردیا
تصویر بشکریہ الجزیرہ


 یہودیوں نے جب قدم جما لیے تو انہوں نے آزاد یہودی ریاست کے لیے عسکری تحریکیں چلانا شروع کردیں بالآخر 1948 میں برطانیہ اسرائیل سے بھاگ گیا اور اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو حصوں مسلم اور یہودی حصوں میں تقسیم کردیا جبکہ یروشلم بیت المقدس الگ بین الاقوامی شہر قرار دیا گیا، مگر بعدازاں اسرائیل نے بزور بازو فلسطین کے مزید علاقے بھی ہتھیالیے اور رہی سہی کسر ٹرمپ نے نام نہاد امن منصوبے کے نام پر اسرائیل کو پورے فلسطین پر قبضہ کی اجازت دے کر نکال دی جس پر اسرائیل تیزی سے عملدرآمد کا خواہشمند ہے جس کی راہ میں زبانی مزاحمت کے سوا کچھ خاص رکاوٹ نظر نہیں آرہی.
موجودہ تنازعہ میں اسرائیلی مشرقی یروشلم میں آباد مسلمانوں کو اپنے گھروں سے نکال رہے ہیں، ان گھروں کا معاملہ بڑا پیچیدہ ہے، فلسطینیوں کیمطابق وہ یہاں 1950 سے رہ رہے ہیں جن کے حقوق ملکیت کے ثبوت کے طور پر ان کے پاس اردن کی وزارت خارجہ کی دستاویزات ہیں جبکہ یہودی تنظیم کیمطابق انھوں نے یہاں 1885 میں رہائش بنائیں جو کہ 1948 کی جنگ میں کھو دیں، اس علاقہ پر اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ میں قبضہ کیا تھا اس سے پہلے یہ علاقہ اردن کے پاس تھا، اسرائیلی عدالتیں پہلے ہی ایک ترمیمی قانون کے تحت فلسطینیوں کو ان مکانات سے بے دخل کرچکی ہے، 
مشرقی یروشلم میں اب بھی مسلمان اکثریت میں یعنی ساٹھ فیصد ہیں، اور وہ چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم ان کا دارالحکومت بن جائے، مشرقی یروشلم میں پرانی آبادی ہے اور اسی میں مقدس مقامات ہیں 
جن میں مسجد اقصٰی، قحبہ الصخرہ، القدس، مغربی دیوار، مقدس چرچ (مقام عیسٰی علیہ السلام) وغیرہ. 


شہر کی کل آبادی 936000 کے قریب ہے جس میں سے ساڑھے پانچ لاکھ کے قریب اسرائیلی جبکہ ساڑھے تین لاکھ سے زائد فلسطینی آباد ہیں 
فلسطین کا مغربی حصہ جس کو غزہ پٹی کہتے ہیں، یہ پٹی 41 کلومیٹر لمبی جبکہ 6 سے 12 کلومیٹر چوڑی ہے، اس کی آبادی بیس لاکھ جبکہ رقبہ محض 365 کلومیٹر ہے، آبادی 6000 لوگ فی کلومیٹر بنتی ہے اس طرح یہ دنیا کا تیسرا گنجان آباد ترین علاقہ ہے.
یہ مشرق کی طرف سے اسرائیل سے محصور ہے جبکہ مغرب میں سمندر ہے صرف اس کا ایک جنوبی کونہ مصر کی سرحد سے ملتا ہے جہاں رفاع بارڈر کراسنگ ہے، سخت پابندیوں کیوجہ سے اسرائیل اور مصر والی سرحدیں بالکل بند ہیں جس کی وجہ سے غزہ میں پانی، بجلی ادویات وغیرہ کی شدید قلت ہو جاتی ہے، غزہ میں 99٪ سنی مسلمان ہیں۔
کہنے کو تو غزہ فلسطین کے ماتحت ہے لیکن درحقیقت غزہ کا کنٹرول حماس (سنی سیاسی و عسکری تنظیم) کے پاس ہے حماس کی بنیاد 1987 میں رکھی گئی حماس نے 2006 کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی، اور یہاں حماس کے عسکری ٹھکانے بھی ہیں جہاں سے تل ابیب پر راکٹ چھوڑے جاتے ہیں، حماس کی بڑی طاقت یہی راکٹ ہیں، جن سے متعلق قیاس آرائیاں ہیں کہ ان کو مصر سے سرنگوں کے ذریعے غزہ میں سمگل کیا جاتا ہے یا پھر غزہ میں ہی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں تیار کیا جاتا ہے جن سے متعلق اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایسی فیکٹریوں کو بنانے میں ایرانی عسکری ماہرین نے مدد کی ہے، اس کے علاوہ قطر اور ترکی حماس کی ہرسطح پر سپورٹ کرتے ہیں اور حماس کو پرامن سیاسی جماعت قرار دیتے رہے ہیں. 
حماس ان راکٹوں سے اسرائیل کو نشانہ بناتا ہے ان میں اکثر میزائل اسرائیلی آئرن ڈوم سسٹم سے روک لیے جاتے ہیں مگر آئرن ڈوم بھی اسرائیل کو سو فیصدی دفاع میں ناکام رہا ہے آئرن ڈوم اسرائیل کی کمپنی رفائیل کا تیار کردہ دفاعی نظام ہے یہ دفاعی سسٹم 4 کلومیٹر سے لے کر 70 کلومیٹر تک کی رینج سے فائر کیے گئے میزائل کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر اس کی کامیابی کی شرح 80 فیصد کے لگ بھگ ہے اس لیے پھر جواباً اسرائیل ان علاقوں پر جہازوں سے بمباری کرتا رہتا ہے جس سے زیادہ تر نہتے فلسطینی ہی نقصان اٹھاتے ہیں، لیکن چونکہ ہردو طرف یہ جنگ مقدس ہے اس لیے ہر دو طرف مرنا مارنا باعثِ ثواب سمجھا جاتا ہے، حماس ایک چھوٹا سا گروہ ہے جبکہ اسرائیل ایک جدید طاقتور ملک ہے جس کو مغرب کے بہت سے طاقتور ممالک کی حمایت و امداد بھی حاصل ہے (امریکا میں یہودیوں کی طاقتور لابیز ہیں یہودیوں کا (امریکی) فنانس، میڈیا اور انٹرنیٹ کے شعبوں پر صریح غلبہ ہے جو اسرائیل اور فلسطین کے بحران کے بارے میں واشنگٹن کے پرو اسرائیل مؤقف کی تشکیل کرتا ہے) اس کی ڈرون ٹیکنالوجی دنیا میں نمبرون ہے اور اس کی جدید ٹیکنالوجی کے کئی طاقتور ملک گاہک ہیں 
الجیریا، صومالیہ، لیبیا، شمالی کوریا، ایران، عراق، کویت، لبنان، سعودی عرب، شام، یمن، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، برونائی، ملائیشیا اور انڈونیشیا اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے، مگر ٹرمپ کے دور میں ہونے والی ایڈوانسمنٹ( یو اے ای اوپن تسلیمات جبکہ سعودیہ درپردہ) کے نتیجے میں اسرائیل پر عرب پریشر بالکل ختم کردیا ہے، یاد رہے اسرائیل کے جغرافیائی طور پر موثر ترین مقابل ملک مصر اور اردن تیس چالیس قبل ہی اسرائیل کے آگے سر تسلیم خم کرچکے ہیں اور دبئی کے گھٹنے ٹیکنے کے بعد امید ہے اور پھر بھائی لوگ جلد سرتسلیم خم کرلیں گے
حماس اسرائیل کا آخری ترنوالہ ہے جس کو اسرائیل جلد از جلد نپٹا دینا چاہتا ہے، چاہے اس کے لیے کتنے ہی بیگناہ انسان مار دیے جایں، کیونکہ یہ مقدس جنگ ہے😭

حوالہ جات:

No comments:

Post a Comment