Translate

Wednesday, May 5, 2021

Karl Marx


 کارل مارکس

آج بتاریخ  مئی 1818 سائنسی اشتراکیت کا بانی کارل مارکس ایک بہ نسبت خوشحال گھرانے میں جرمنی میں پیدا ہوا، جس کے پیش کردہ اینٹی سرمایہ دارنہ نظام نے بیسویں صدی میں دنیا کو دو نہجوں پر پہنچا دیا، کارل شاید بیسویں صدی میں ڈسکس کی جانیوالی سب سے بڑی ہستی رہی ہے، آج بھی کارل کے کم سے کم ڈیڑھ دو ارب تو معتقد ہوں گے ہی،



کارل کے خیال میں تمام فلسفیوں نے اب تک دنیا کی فقط تشریحات ہی کی تھیں جبکہ اصل مسئلہ اس دنیا کو تبدیل کرنے کا ہے، اس سلسلے میں (اقتصادیات میں) اس کے دوست فریڈرک اینگلز نے اس کی مدد کی، یہاں فریڈرک اینگلز کا تذکرہ نہ کرنا بڑی زیادتی ہو گی۔

اینگلز ایک دولت مند صنعتکار کا بیٹا تھا، ینگلز 28نومبر1820ءکو بارمن میں پیدا ہوا۔ اس کا خاندان مذہباً پروٹسٹنٹ تھا۔ اینگلز باپ کے ساتھ اس کے بزنس کو تو سنبھال رہا تھا ، مگر کہتا اسے ”کتے کی زندگی“ تھا۔ 20سال کی عمر ہی میں وہ مذہب سے بےزار ہو گیا۔ اس نے صحافت میں قسمت آزمائی کی مگر معاشی ضروریات سے مجبور ہو کر دوبارہ بزنس کی طرف لوٹ آیا۔ 50 سال کی عمر تک وہ اچھا خاصا سرمایہ دار بن چکا تھا اور اپنے خاندان کے علاوہ مارکس کے خاندان کو بھی سپورٹ کرتا تھا۔ اس کا مطالعہ وسیع تھا۔ بارہ زبانوں کا ماہر تھا۔ انگریزی وہ اہل زبان کی مانند بولتا تھا، فارسی سیکھنے میں اسے صرف3 دن لگے،
مارکس کوکیمونزم کی طرف حقیقی طور پر موڑنے کی ذمہ داری 24سالہ فریڈرک اینگلز پر ہی عائد ہوتی ہے۔ 

 

کارل نے معاشیات کو عقل کی بجائے احساس پر استوار کرنے کی سچے دل سے کوشش کی، 

کارل مارکس دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے سرمایہ دارانہ نظام کی تیز رفتار پیداوار کا مقابلہ کرنے کے لیے کمیونزم کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی(گو کارل نے سوشلزم کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کا دعویٰ کیا مگر سوشلزم سائنسی اصولوں پر پورا نہیں اترتا جیسا کہ مارکس کے نظریات میں سائنسی بنیادوں پر سوشلزم کے نفاذ اور بعد از اثرات کی بالکل درست پیش گوئی دستیاب نہیں ہے). 

کارل مارکس سے پہلے سوشلزم محض اخلاقی نظام تھا، مارکس نے اس کو عملی بنیادوں پر استوار کرنے کا نظام پیش کیا، مارکس کی خود کی زندگی ٹیلنٹ اور پذیرائی میں فرق کی بھرپور عکاس تھی جس کو ایک مساواتی نظام یعنی کمیونزم سے ہی ختم کیا جا سکتا تھا. کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کی بے رحمی اور خود غرضی کا اپنی ذاتی زندگی پر مبنی عملی نمونہ پیش کیا. 

کارل کے مشاہدے کا یورپ دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کی اٹھان کا دور تھا (مرکنٹائل ازم سے سرمایہ داری )، یہی دور تھا جب لوگ تیزی سے امیر ہورہے تھے اور سرمایہ دار طبقہ بن رہا تھا، ایک ایلیٹ کلاس جو اپنے سرمایے کے بل بوتے پر اپنے منافع کے لیے بشمول ریاست کے ہرادارے کو استعمال کرسکتی تھی، تو دوسری طرف بالکل الٹ طرف مزدور طبقے کی محرومیوں اور بے بسی میں مزید اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا، 

انڈسٹریلائزیشن ( مشینی صنعت کاری نے روایتی ہنرمندی کے پیمانے بدل دیے اور روایتی اسلوب والا طبقہ بری طرح متاثر اور خفا ہوا اور کارل کا موضوع بھی یہی طبقہ ہے، کارل کے بقول جس طرح مسیح علیہ السلام انسانوں کا مذہبی ذمہ اٹھاتے ہیں عین اسی طرح شہری کی تمام ضروریات ریاست اپنے سر اٹھاتی ہے) کے پروان نے تیز رفتار ترقی کے حامل نو دولتیے پیدا کیے تھے، اور ساتھ ہی ساتھ اس نظام میں گھسٹتے مزدور بھی،متوسط ہنر مند طبقہ سرمایہ دار کا دست و بازو بن کر سہولیات سمیٹ رہا تھا تو غیر ہنرمند طبقہ اس سے مزید کمزور ہوتا چلا جا رہا تھا، یعنی طبقاتی تقسیم بڑھتی چلی جا رہی تھی، مارکس کو لگا تیزی سے ترقی کرتے امیر لوگ ساری دنیا کے معاشی نظام کے مالک بن جائیں گے، جس میں وہ اپنے منافع کے فیصلے  (کارٹلائزیشن) کریں گے ( سرمایہ دار جب بھی مل بیٹھتے ہیں تو اپنے منافع کی کوئی نئی سازش تیار کرتے ہیں : آدم سمتھ 1776)، وہ اپنی مرضی کی دنیا تخلیق کریں گے جس کی بنیاد ہوس لالچ اور منافع پر ہو گی جو زیادہ ڈیمانڈ اور من پسند سپلائی کو بنائے رکھے گی سرمایہ دار اس دنیا کا ناخدا بن بیٹھے گا جو اپنے فائدے کے لیے دنیا کو کسی بھی جوکھم میں دھکیل دے گا اور ایسا کرتے ہوئے وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں ایسا کرنے دو یا پھر ہمیں تنہا چھوڑ دو(لیسز فئیر)،

مجھ سے نفع کے بارے میں بات نہ کرو، جیہ، یہ ایک گندا لفظ ہے۔
پنڈت جواہر لعل نہرو انڈیا کے پہلے وزیراعظم تھے، وہ کافی حد تک سوشلزم کی طرف جھکاو رکھتے تھے، انھوں نے شروع میں ہی بڑی انڈسٹریوں کو نیشنلائز کر لیا، نہرو نے سٹیٹ اونڈ اکانومی کو بڑھاوا دیا، مگر انڈیا کی اکانومی پھل پھول نہ سکی، حتیٰ کہ 1990 میں انڈیا دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ تب انڈیا نے معاشی اصلاحات کیں جن کے تحت لائسنس راج ختم کردیا گیا اور سٹیٹ اونرشپ کی بجائے لبرلڈ پبلک سیکٹر نجی کاری کو اپنایا گیا۔ ان اصلاحات کے فوری اور بہتر نتائج برآمد ہوئے
2.5 سال کے اندر مہنگائی اگست 1991 میں 17 فیصد کی چوٹی سے گر کر تقریباً 8.5 فیصد رہ گئی۔
زرمبادلہ کے ذخائر جون 1991 میں 1.2 بلین ڈالر سے بڑھ کر 1994 میں تقریباً 15 بلین ڈالر ہو گئے۔
جی ڈی پی کی شرح نمو 1991-1992 میں 1.1 فیصد سے بڑھ کر 1992-1993 میں 4 فیصد ہوگئی
مالیاتی خسارہ 1990-1991 میں 8.4% سے کم ہو کر 1992-1993 میں 5.7% ہو گیا۔
1990-1991 اور 1993-1994 کے درمیان برآمدات تقریباً دوگنی ہو گئیں۔
اس کے بعد انڈیا نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اس کو دوبارہ کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑا۔

آج گرچہ کارل کے اکثر نظریات اور پیشن گوئیاں وقت نے غلط ثابت کردی ہیں. سوشلزم سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ لینے میں ناکام رہا ہے، 

جہاں کمیونزم کا تجربہ کیا گیا وہاں پر دکانوں پر لوگوں کی لائنیں لگی دیکھی گئی اور کمیونزم کو طنزا" قلت کا معیشت کا نام دیا گیا.  اور کئی ملکوں میں کارل کے نام پر نافذ کیا گیا (اپنے اپنے انداز میں) نظام فیل ہوگیا (کچھ ممالک جیساکہ چین نے کمیونزم میں ردوبدل کی جس کو کمیونزم 2.0 کا نام دیا گیا، جس سے چین نے حیران کن تیز رفتار ترقی کی) مگر پھر بھی کارل کا پیش کردہ نظام سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ہر دور میں چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے جب جب سرمایہ دارانہ نظام پے  برا وقت آئیگا کارل پھر سے یاد آئے گا، سرمایہ دارانہ نظام آزاد منڈی کے تحت سرحدوں کی پابندیوں سے ماورا خود بنتا بگڑتا رہتا ہے جیسے کوئی غیر مرئی قوت اسے چلا رہی ہو، مگر غیر مرئی ہاتھ کی توجیح یہ ہے کہ وہاں کوئی غیر مرئی ہاتھ تھا ہی نہیں : جوزف اسٹگلیز

وہ وقت دور نہیں جب دنیا کو سوشلزم 15٪ اور کیپٹلزم 85٪ کو جوڑ کے دیکھنا ہو گا۔ اور یہی کارل کی فتح ہو گی،


حوالہ جات:

کیا آپ اس مارکس کو جانتے ہیں؟ (پہلا حصہ)

کمیونزم 2.0: چین، سرمایہ دارانہ نظام اور نئے سوشلزم کی مقبولیت

کارل مارکس اور سرمایہ دارانہ نظام

کمیونزم ، کیپٹلزم اور سوشلزم کے درمیان فرق

کیا آئی ٹی کی صنعت ملکی معیشت کو سہارا دے سکتی ہے؟

کارل مارکس کی سالگرہ اور بائیں بازو کا زوال


Reference: 

Reform or Revolution

No comments:

Post a Comment