کارل مارکس
آج بتاریخ مئی 1818 سائنسی اشتراکیت کا بانی کارل مارکس ایک بہ نسبت خوشحال گھرانے میں جرمنی میں پیدا ہوا، جس کے پیش کردہ اینٹی سرمایہ دارنہ نظام نے بیسویں صدی میں دنیا کو دو نہجوں پر پہنچا دیا، کارل شاید بیسویں صدی میں ڈسکس کی جانیوالی سب سے بڑی ہستی رہی ہے، آج بھی کارل کے کم سے کم ڈیڑھ دو ارب تو معتقد ہوں گے ہی،
کارل کے خیال میں تمام فلسفیوں نے اب تک دنیا کی فقط تشریحات ہی کی تھیں جبکہ اصل مسئلہ اس دنیا کو تبدیل کرنے کا ہے، اس سلسلے میں (اقتصادیات میں) اس کے دوست فریڈرک اینگلز نے اس کی مدد کی، یہاں فریڈرک اینگلز کا تذکرہ نہ کرنا بڑی زیادتی ہو گی۔
کارل نے معاشیات کو عقل کی بجائے احساس پر استوار کرنے کی سچے دل سے کوشش کی،
کارل مارکس سے پہلے سوشلزم محض اخلاقی نظام تھا، مارکس نے اس کو عملی بنیادوں پر استوار کرنے کا نظام پیش کیا، مارکس کی خود کی زندگی ٹیلنٹ اور پذیرائی میں فرق کی بھرپور عکاس تھی جس کو ایک مساواتی نظام یعنی کمیونزم سے ہی ختم کیا جا سکتا تھا. کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کی بے رحمی اور خود غرضی کا اپنی ذاتی زندگی پر مبنی عملی نمونہ پیش کیا.
کارل کے مشاہدے کا یورپ دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کی اٹھان کا دور تھا (مرکنٹائل ازم سے سرمایہ داری )، یہی دور تھا جب لوگ تیزی سے امیر ہورہے تھے اور سرمایہ دار طبقہ بن رہا تھا، ایک ایلیٹ کلاس جو اپنے سرمایے کے بل بوتے پر اپنے منافع کے لیے بشمول ریاست کے ہرادارے کو استعمال کرسکتی تھی، تو دوسری طرف بالکل الٹ طرف مزدور طبقے کی محرومیوں اور بے بسی میں مزید اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا،
انڈسٹریلائزیشن ( مشینی صنعت کاری نے روایتی ہنرمندی کے پیمانے بدل دیے اور روایتی اسلوب والا طبقہ بری طرح متاثر اور خفا ہوا اور کارل کا موضوع بھی یہی طبقہ ہے، کارل کے بقول جس طرح مسیح علیہ السلام انسانوں کا مذہبی ذمہ اٹھاتے ہیں عین اسی طرح شہری کی تمام ضروریات ریاست اپنے سر اٹھاتی ہے) کے پروان نے تیز رفتار ترقی کے حامل نو دولتیے پیدا کیے تھے، اور ساتھ ہی ساتھ اس نظام میں گھسٹتے مزدور بھی،متوسط ہنر مند طبقہ سرمایہ دار کا دست و بازو بن کر سہولیات سمیٹ رہا تھا تو غیر ہنرمند طبقہ اس سے مزید کمزور ہوتا چلا جا رہا تھا، یعنی طبقاتی تقسیم بڑھتی چلی جا رہی تھی، مارکس کو لگا تیزی سے ترقی کرتے امیر لوگ ساری دنیا کے معاشی نظام کے مالک بن جائیں گے، جس میں وہ اپنے منافع کے فیصلے (کارٹلائزیشن) کریں گے ( سرمایہ دار جب بھی مل بیٹھتے ہیں تو اپنے منافع کی کوئی نئی سازش تیار کرتے ہیں : آدم سمتھ 1776)، وہ اپنی مرضی کی دنیا تخلیق کریں گے جس کی بنیاد ہوس لالچ اور منافع پر ہو گی جو زیادہ ڈیمانڈ اور من پسند سپلائی کو بنائے رکھے گی سرمایہ دار اس دنیا کا ناخدا بن بیٹھے گا جو اپنے فائدے کے لیے دنیا کو کسی بھی جوکھم میں دھکیل دے گا اور ایسا کرتے ہوئے وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں ایسا کرنے دو یا پھر ہمیں تنہا چھوڑ دو(لیسز فئیر)،
آج گرچہ کارل کے اکثر نظریات اور پیشن گوئیاں وقت نے غلط ثابت کردی ہیں. سوشلزم سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ لینے میں ناکام رہا ہے،
جہاں کمیونزم کا تجربہ کیا گیا وہاں پر دکانوں پر لوگوں کی لائنیں لگی دیکھی گئی اور کمیونزم کو طنزا" قلت کا معیشت کا نام دیا گیا. اور کئی ملکوں میں کارل کے نام پر نافذ کیا گیا (اپنے اپنے انداز میں) نظام فیل ہوگیا (کچھ ممالک جیساکہ چین نے کمیونزم میں ردوبدل کی جس کو کمیونزم 2.0 کا نام دیا گیا، جس سے چین نے حیران کن تیز رفتار ترقی کی) مگر پھر بھی کارل کا پیش کردہ نظام سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ہر دور میں چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے جب جب سرمایہ دارانہ نظام پے برا وقت آئیگا کارل پھر سے یاد آئے گا، سرمایہ دارانہ نظام آزاد منڈی کے تحت سرحدوں کی پابندیوں سے ماورا خود بنتا بگڑتا رہتا ہے جیسے کوئی غیر مرئی قوت اسے چلا رہی ہو، مگر غیر مرئی ہاتھ کی توجیح یہ ہے کہ وہاں کوئی غیر مرئی ہاتھ تھا ہی نہیں : جوزف اسٹگلیز
وہ وقت دور نہیں جب دنیا کو سوشلزم 15٪ اور کیپٹلزم 85٪ کو جوڑ کے دیکھنا ہو گا۔ اور یہی کارل کی فتح ہو گی،
حوالہ جات:
کیا آپ اس مارکس کو جانتے ہیں؟ (پہلا حصہ)
کمیونزم 2.0: چین، سرمایہ دارانہ نظام اور نئے سوشلزم کی مقبولیت
کارل مارکس اور سرمایہ دارانہ نظام
کمیونزم ، کیپٹلزم اور سوشلزم کے درمیان فرق
کیا آئی ٹی کی صنعت ملکی معیشت کو سہارا دے سکتی ہے؟
کارل مارکس کی سالگرہ اور بائیں بازو کا زوال
Reference:
No comments:
Post a Comment