Translate

Friday, November 13, 2020

History of Kashmir Issue in Urdu

تنازعہ کشمیر کی تاریخ

ایک روایت کیمطابق لفظ کشمیر سنسکرت کے لفظ کاسمیرا سے بنا ہے، کاسمیرا سے مراد پانی سے عاری زمین تھی، 

وادی کشمیر برصغیر کے انتہائی شمال مغرب میں واقع ہے۔

14 اگست1947 ء تک انگریزی دورِ حکومت میں ریاست جموں وکشمیر کا مجموعی رقبہ 135942 مربع کلومیٹر تھا، جس میں صوبہ جموں کا رقبہ 19921 مربع کلومیٹر، صوبہ کشمیر کا رقبہ 13742 مربع کلومیٹر اور صوبہ لداخ کا رقبہ 102285 مربع کلومیٹر تھا اور1941 کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی 4021616 تھی
پہلی پاک بھارت جنگ کشمیر پر 22 اکتوبر 1947 سے 5 جنوری 1949 تک تقریباٍ ایک سال دو ماہ پندرہ دن جاری رہی
جنگ بندی لائن کے بعد ریاست جموں وکشمیر کی صورتحال یوں ہوئی کہ مقبوضہ جموں 19921 مربع کلو میٹر، بھارتی مقبوضہ کشمیر 11093 مربع کلومیٹر، بھارتی مقبوضہ لداخ15901 مربع کلو میٹر، پاکستان میں آزادکشمیر 6669 مربع کلو میٹر، گلگت بلتستان 47983 مربع کلو میٹر اور 1962 کی بھارت چین جنگ کے بعد چین کے پاس لداخ کا 14983 مربع کلو میٹر کا علاقہ آگیا جس میں بھارت چین جنگ کے فوراً بعد پاکستان کی جانب سے لداخ میں دیا گیا 3006 مربع کلو میٹر کا علاقہ بھی شامل ہے۔

کشمیر کے تین دریا سندھ جہلم چناب کشمیر کی تین وادیوں میں بہتے ہیں، سندھ لداخ سے گلگت بلتستان سے ہوتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں داخل ہو جاتا ہے، دریائے جہلم پیر پنجال سے نکلتا ہے اور مظفرآباد میں دریائے نیلم سے ملکر کشمیر کی مین درمیانی وادی میں بہتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں داخل ہو جاتا ہے، دریائے چناب کی وادی کشمیر کے خطے کا جنوبی حصہ بناتی ہے جس میں جموں کا تقریباً تمام علاقہ شامل ہے۔ اس کے بعد دریائے چناب بھی پنجاب کے میدانوں میں داخل ہو جاتا ہے۔



کشمیریوں نے کئی صدیاں پانڈو، موریا، کوشان، گوناندیا، کرکوٹا، اتپالا اور لوہارا جیسے بیرونی حکمرانوں کے تحت گزاریں۔ کشمیر کی تاریخ کو عام طور پر چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: ہندو راجاؤں کا قدیم دور، جس کی تفصیل کلہن پنڈت کی لکھی ہوئی قدیم کتاب 'راجترنگنی' میں ملتی ہے، کشمیری مسلمانوں کا دور، جنھیں سلاطین کشمیر کہا جاتا ہے، مغل دور جسے شاہان مغلیہ کہا جاتا ہے اور پٹھانوں کا دور جسے شاہان درانی کہا جاتا ہے

آٹھویں صدی میں عرب مسلمانوں نے اس کو فتح کرنے کی متعدد کوششیں کیں۔

گیارہویں صدی میں جب محمود غزنوی نے پنجاب پر حملہ کیا تو  راجہ چنپالہ نے کشمیر کے راجہ سمگرام  سے مدد مانگی۔ راجہ سمگرام نے بڑی فوج مدد کےلیے بھیجی۔ سلطان محمود غزنوی نے راجہ چنپالہ کو شکست دینے کے بعد کشمیر کے راجہ کو سبق سکھانے کے لیے کشمیر کا رخ کیا۔ راجہ قلعہ بند ہو گیا اور ‏محمود ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد خراب موسم برفباری کی وجہ سے ناکام واپس لوٹ گیا۔

چودویں صدی میں لداخ سے بھاگا ہوا  ایک بدھ شہزادہ رنچن پہلے کشمیر کا وزیراعظم بنا اور پھر تیرہ سو بیس میں کشمیر کا بادشاہ بن گیا۔ رنچن نے مسلم صوفی بزرگ بلبل شاہ کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا اور اپنا نام  صدرالدین رکھا۔ اس طرح صدرالدین کشمیر کا پہلا مسلمان بادشاہ بن گیا۔

صدرالدین (رنچن) نے سوات سے آئے ہوئے مسلم شاہ میر کو اپنا وزیراعظم بنایا۔صدرالدین کی وفات کے بعد شاہ میر  نے تیرہ صد انتالیس میں کشمیر میں مسلم بادشاہت کی بنیاد رکھی۔ جو پندرہ سو اکسٹھ تک قائم رہی اس دور میں اسلام کشمیر میں خوب پھیلا مسلم بادشاہ باہر سے آرٹسٹ لائے جنہوں نے مقامی لوگوں کو سیکھایا اور کشمیری شال ایک برانڈ بن گئی۔

پندرہ سو اسی میں مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر پر قبضہ کر لیا اور اس کو اپنی سلطنت کا ایک صوبہ بنا لیا۔


مہاراجہ رنجیت سنگھ

رنجیت سنگھ سکرچکیہ مثل (سکرچکیا مثل راوی اور چناب دریاؤں کے درمیانی علاقے پرمشتمل تھی، گوجرانوالا اس کا صدر مقام تھا) کے سردار مہان سنگھ کے ہاں 13 نومبر 1780ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوا۔  باپ کی وفات پر 12 سال کی عمر میں سردار بنا سولہ سال کی عمر میں کنہیا مثل (فتح گڑھ کوریاں، بٹالا اور گرداس پورکا علاقہ) کی مہتاب کور سے شادی ہوئی اس وقت پنجاب میں سکھوں کے بارہ علاقے یا مثلیں تھیں اس شادی سے سکرچکیا اور کنہیا مثلوں کی دشمنی ختم اور طاقت دوگنی ہو گئی
یہ دور برصغیر میں طاقت کی ابتلا کا دور تھا،طاقت کے پرانے مراکز دم توڑ رہے تھے اور نئی طاقتیں اپنے آپ کو منوانے اور قدم جمانے میں لگیں تھیں۔ مرکز میں مغل راج  کمزور ہو چکا تھا اور اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا۔ افغانستان اور ایران سے آئے روز حملے ہو رہے تھے جن کی پہلی یلغار پنجاب کو ہی جھیلنی پڑتی تھی۔

مغل سلطنت کے کمزور ہوتے ہی افغانستان کے احمد شاہ درانی نے 1752 میں پنجاب کے آخری مغل گورنر میر منو کو شکست دے کر پنجاب  پر قبضہ کرلیا۔مگر جلد ہی مرہٹوں نے 1758 میں احمد شاہ درانی کے بیٹے تیمور شاہ کو شکست دے کر لاہو ر ڈیرہ غازیخان  کشمیر اور اٹک تک کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔1761 میں احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی لڑائی میں مرہٹوں کو شکست دے کر دوبارہ ان علاقوں پر قبضہ کر لیا۔پنجاب کے سکھ سرداروں نے کبھی ابدالی کا میدان جنگ میں سامنا نہ کیا بلکہ ہر دفعہ ابدالی کی علاقے میں آمد پر سکھ چھپ جایا کرتے تھے۔

رنجیت سنگھ نے اپنی طاقت بڑھانے کے لیے دوسری شادی نکئی مثل میں کی رنجیت سنگھ جلد ہی   علاقائی طاقت بن گیا۔  ادھر1772 میں احمد شاہ ابدالی  کی  وفات کے بعد ان کا پنجاب پر اقتدار کمزور پڑتا چلا گیا۔لاہور پر امرتسر کی بھنگی مثل نے قبضہ کرلیا۔بھنگی مثل اور سرچکیہ مثل کی دیرینہ دشمنی چل رہی تھی۔1799 میں رنجیت سنگھ نے بھنگی مثل کو شکست دے کر لاہور پر قبضہ کرلیا اور خود کو پنجاب کا مہاراجہ قرار دیا۔رنجیت سنگھ نے ان علاقوں کا افغان حملہ آوروں کیخلاف کامیابی سے دفاع کیا اور 1819  میں  کشمیر  پر  بھی   قبضہ  کر  لیا جس پر کشمیری مسلمانوں نے بغاوت اور بھرپور مزاحمت کی لیکن مہاراجہ کی تیس ہزار سپاہ نے بزور بازو کشمیر پر قبضہ کر لیا کشمیری مسلمانوں کی مزاحمتی گوریلا جدوجہد 1837 کے بعد بھی جاری رہی جس کو دبانے کے لیئے راجہ گلاب سنگھ نے پونچھ پر حملہ کیا اسی گلاب سنگھ نے آگے چل کر سکھ اور انگریزوں کی 1846 کی جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دیا اور انعام میں انگریزوں نے جموں کشمیر راجہ گلاب سنگھ کو بیچ دیا ۔



گلاب سنگھ جاموال

گلاب  سنگھ  جاموال  جموں  کے  ڈوگرہ  راجہ  کشور  سنگھ  کا  بیٹا  تھا۔گلاب  سنگھ   مہاراجہ  رنجیت  کی  فوج  میں  بھرتی  ہو  گیا  اور  اپنی  قابلیت  اور  پے  در  پے  فتوحات  کی  بنا  پر  مہاراجہ  کی  فوج  کا  سب  سے  بہترین  سپہ  سالار  بن  کر  ابھرا۔اس  نے  لداخ  اور  بلتستان  (بلتستان  کے  آخری  راجہ  احمد  شاہ  کو  شکست  دیکر)  کے  علاقوں  کی  فتح  کیا۔  مہاراجہ  رنجیت  نے  اس  کو  جموں  کا  راجہ  بنایا  اور  جہلم  بھیرہ  روہتاس  اور  گجرات  میں  جاگیریں  عطا  کیں۔

مہاراجہ  رنجیت  کی  وفات  کے  بعد  ایسٹ  انڈیا  کمپنی  نے  اس  کی  سلطنت  پر  قبضہ  کر  لیا۔  مگر  بوجوہ  کمپنی  نے  پچھتر  لاکھ  سکہ  رائج  الوقت  بعوض  جنگی  زرتلافی  ریاست  کشمیر  دریا  راوی  سے  دریا  سندھ  کے  درمیان    گلاب  سنگھ  کے  حوالے  کردی۔



مہاراجہ  گلاب  سنگھ  نے  اٹھارہ  سو  چھیالیس  میں  کشمیر  میں  ڈوگرہ  راج  کی  بنیاد  رکھی  جو  تقسیم  ہند  انیس  صد  سینتالیس  تک  قائم  رہا  مہاراجہ  نے  اٹھارہ  سو  ستاون  کی  جنگ  آزادی  میں  انگریزوں  کا  بھرپور  ساتھ  دیا۔گلاب  سنگھ  کے  بیٹے  رنبیر  سنگھ  نے  اٹھارہ  سو  ساٹھ  میں  ہنزہ  تک  کے  علاقے  کو  اپنی  قلمرو  میں  شامل  کرلیا  مگر  بعد  ازاں  روس  کے  خطرے  کے  پیش  نظر  برٹش  راج  نے  اٹھارہ  سو  نواسی  میں  گلگت  ایجنسی  کے  تحت  یہ  علاقے  اپنے  انتظام  میں  لے  لیے  ۔تقسیم  ہند  کے  وقت  اس  علاقے  کے  عوام  نے  انڈیا  کیساتھ  الحاق  کو  مسترد  کر  دیا۔اور گلگت  سکاوٹس  نے   میجر  ولیم  کے  زیر  کمان  مہاراجہ  کے  خلاف  کامیاب  بغاوت  کی  اور  اس  کو  مہاراجہ  سے  آزاد  کروا  لیا۔  بعد  ازاں  پاکستان  نے  انیس  صد  انچاس  میں  آزاد  کشمیر  کیساتھ  کراچی  میں  کیے  گے    ایک معاہدئے  کے  تحت  اس  کا  انتظام    اپنے  ہاتھ    لے  لیا۔  انیس  صد  چوہتر  میں  ذوالفقار  بھٹو  نے  گلگت  ایجنسی  کو  برائے  راست  وفاق  کے  انڈر  کردیا ۔  دو  ہزار  نو  میں  صدر  آصف  زرداری  نے  گلگت  بلتستان  میں  قانون  ساز  اسمبلی  تشکیل  دی  اور  اس  کو  نیم  صوبائی  حیثیت   دے  دی  ۔  قانونی  طور  پر  یہ  اس  وقت  نہ  ریاست  ہے  اور  نہ  صوبہ ۔

 کشمیر اور آزادی کی تحریک

ڈوگرہ راج ایک مکمل سامراجی نظام تھا جس کا واحد مقصد کشمیری مسلمانوں کو بزور بازو غلام بنائے رکھنا تھا۔  گلاب سنگھ نے کشمیر کی تمام زمینوں کا خود کو مالک قرار دیا۔ کشمیری کسان اپنی ہی زمینوں کے مزارعے بن گئے اور راجہ کو ٹیکس دینے پر مجبور ہو گئے۔1930 میں ان مظالم کے خلاف کسانوں نے احتجاج کیا۔ اور پھر احتجاجات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

تیرہ جولائی 1931 کو حکومت مخالف تقریر کرنے کے جرم میں بند ایک  باغی عبدالقدیر کے خلاف فیصلہ آنا تھا جس کو سننے کے لیے سرینگر کی سینٹرل جیل کے باہر لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ جمع تھی، گورنر نے ان سب کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر دیے اور وہاں تعینات پولیس نے ان پر گولی چلا دی۔ اس دن وہاں بیس کشمیری موقع پر ہی ہلاک ہو گئے، تب سے 13 جولائی کو کشمیر میں یوم شہدا کے طور پر منایا جاتا ہے انگریزوں نے ایسی شورشوں سے نپٹنے کے لیے مہاراجہ کی مدد کے لیے اپنی فوج بھی بھیج دی مگر مہاراجہ کے خلاف اب تحریک چل نکلی تھی. یہاں تحریک ایک نیا رنگ اختیار کرتی ہے جو آگے چل کر اس تحریک کو این نیا موڑ دے گی اور کشمیر بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔

شیخ عبداللہ 5 دسمبر 1905 تا 8 ستمبر 1982

سنہ 1932 تک اس تحریک میں اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان شامل ہو چکے ہیں  اس دوران اس تحریک کی قیادت شیخ عبداللہ سنبھالتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک وسیع پیمانے پر پھیل جاتی ہے۔ شیخ عبداللہ قید و رہا ہوتے ہیں مہاراجہ کسانوں کو زمینیں واپس کرنے کا وعدہ کرتا ہے شیخ عبداللہ ایک پاپولر لیڈر کے طور پر ابھرتا ہے، تاہم یہ کھیل جاری رہتا ہے



سنہ 1935 سے شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ پریم ناتھ بزاز بھی ہیں  یہ دونوں مل کر مہاراجہ کے خلاف اخبار نکالتے ہیں

 سنہ 1938 میں شیخ عبداللہ مسلم کانفرنس کا نام بدل کر ’نیشنل کانفرنس‘ رکھتے ہیں اور اس کی رکنیت غیر مسلمانوں کے لیے بھی کھول دی گئی۔ شیخ عبداللہ اس کا منشور رکھتے ہیں کہ ہل چلانے والے کو زمین کی ملکیت دو، اسے غربت اور افلاس سے نکالو اورایک نیا لال پرچم لانچ کرتے ہیں جس پر ایک ہل بنا ہوا ہے اور سرینگر کے مرکزی علاقہ شیخ باغ کا نام ماسکو کے ریڈ سکوائر کے نام پر لال چوک رکھا گیا۔ شیخ عبداللہ قطعی طور پر سوشلزم کی طرف جھکاو رکھتے ہیں اور دو قومی نظریہ کی بجائے ون نیشن تھیوری ان کی سیاست کا مرکزی جزو ہے قائد اعظم نے 1944 میں کشمیر کا دورہ کیا اور دو ماہ کشمیر میں قیام بھی کیا اس دوران قائد اعظم نے شیخ عبداللہ سے ملاقات کی اور اس کو پاکستان میں شامل ہونے کے لیئے قائل کرنے کی کوشش کی، قائد اعظم نے اس سے کہا کہ آپ ایک ایسی قوم پر کیسے اعتبار کرسکتے ہیں جو آپ کے ہاتھوں سے پانی پیناتک پاپ سمجھتی ہے۔ اُن کے سماج میں آپ کے لئے کوئی جگہ نہیں، وہ آپ کو ملیچھ سمجھتے ہیں۔” قائداعظم نے یہاں تک کہا کہ ”وقت آئے گا جب آپ کو میری بات یاد آئے گی اور آپ افسوس کریں گے مگر شیخ عبداللہ نے قائداعظم کو دوٹوک انداز میں جواب دیا۔

ہمارا راستہ پاکستان نہیں بلکہ مہاتما گاندھی کا ہندوستان ہے: شیخ عبداللہ

نیشنل کانفرنس کے کارکنوں نے اکتوبر 1947 میں پاکستان کے حمایت یافتہ مجاہدین کا مقابلہ کیا اور بھارتی فوج کا بھرپور ساتھ دیا وہیں اس جماعت کے قائد شیخ محمد عبداللہ نے اس وقت کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے بھارت سے مشروط الحاق کی حمایت کی.


سنہ 1941 میں غلام عباس نے مسلم کانفرنس کو دوبارہ شروع کیا اور سیاسی سرگرمیوں کو تیز کیا

سنہ 1946 میں شیخ محمد عبداللہ نے’کوئِٹ کشمیر‘ یعنی ’کشمیر چھوڑ‘ تحریک کا آغاز کیا

1947 میں شیخ محمد عبداللہ کشمیر کے سب سے بڑے رہنما تھے اور 'شیر کشمیر' کہلاتے تھے۔ اگر وہ چاہتے تو کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنا سکتے تھے اگر وہ چاہتے تو کشمیر باآسانی پاکستان میں شامل ہو سکتا تھا لیکن وہ کشمیر اور پاکستان کے بیچ دیوار بن گئے انہوں نے پاکستان پر بھارت کو ترجیح دی اور خودمختاری سے مایوس ہو کر بھارت سے الحاق کی بھرپور حمایت کی جس کے بعد ہی بھارت نے اپنی فوج کشمیر روانہ کی تھی۔
https://www.independenturdu.com/node/110931


انڈین فوج کی آمد کے بعد شیخ عبداللہ کشمیر کے وزیراعظم بنے۔ 5 فروری 1948 (پانچ فروری پاکستان میں کشمیر کیساتھ یوم یکجہتی کے طور پر 1990 سے باقاعدگی سے منایا جاتا ہے) کو اقوام متحدہ کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ قبائلی حملہ آوروں نے ہماری سرزمین پر حملہ کیا ، انھوں نے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کیا - جن میں زیادہ تر ہندو اور سکھ تھے ، اور مسلمان بھی تھے ، انھوں نے ہزاروں ہندوؤں ، سکھوں اور مسلمانوں کی لڑکیوں کو اغوا کیا ، ہماری املاک لوٹ لی اور قریب قریب ہمارے دارالحکومت سری نگر کے دروازوں تک پہنچ گئے تھے۔

کشمیر تقسیم ہند کے بعد

جب انڈیا 15 اگست 1947 کو اپنا پہلا یوم آزادی منا رہا تھا تب کشمیری یوم پاکستان منا رہے تھے۔ اس سے ہندوستان کے کرتا دھرتوں میں جو کشمیر پر قبضے کی نظر جمائے بیٹھے تھے ان میں تشویش پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی اور انھوں نے اپنے پلان پر تیزی سے کام شروع کر دیا۔ سب سے پہلے انھوں نے مسلمانوں کے اکثریتی پریشر کو کم کرنے اور ممکنا بغاوت کو وقت سے پہلے ہی کچلنے کے لیئے مسلح کارروائیاں شروع کیں ان کارروائیوں میں ڈوگرہ فوج کے ساتھ آر ایس ایس اور سکھوں کے مسلح گروہ بھی مل گئے

اس زمانے میں کلکتہ سے شائع ہونے والے  معتبر روزنامے ’دی سٹیٹس مین‘ کے ایڈیٹر این اسٹیفنز نے لکھا کہ کشمیر میں ان واقعات کا آغاز اگست میں ہوا اور گیارہ ہفتوں کے دوران لگ بھگ پانچ لاکھ افراد(مسلمان) ہلاک ہو گئے اور دو لاکھ کے قریب فرار یا گم ہو گئے

لندن سے شائع ہونے والے اخبار ٹائمز نے 10 اکتوبر 1947 کو اپنی اشاعت میں لکھا کہ اس عرصے کے دوران ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد دو لاکھ 37 ہزار تھی 

ان واقعات کے ردعمل میں مقامی مسلمانوں نے سردار عبد القیوم خان کی قیادت میں متحد ہو کر جوابی کارروائی کی اور میرپور سے ڈوگرہ فوج کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے. مظفر آباد میں ڈوگرہ فوج میں شامل مسلمان فوجی اپنے کمانڈر لیفٹننٹ کرنل اور اس کے عملے کو قتل کر کے ڈوگرہ راج کیخلاف بغاوت کردی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں ڈوگرہ راجہ بھاگ کر جموں چلا گیا اور پھر کبھی بھی راجدھانی سری نگر واپس نہیں آیا۔ نہ خود کشمیر کا بلا شرکت غیرے حکمران رہ سکا اور نہ کشمیریوں کو ان کا حق دے سکا.

کابل اور کشمیر کا تعلق بہت پرانا ہے۔ 1947ء میں کابل کے ایک عالم دین ملا صاحب شور بازار کو جموں و کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی اطلاعات ملیں تو انہوں نے اپنے پیروکاروں کو کشمیر میں جہاد کا حکم دیا جس کے بعد افغانستان اور پاکستان کے کئی قبائل نے کشمیر کا رخ کیا۔ 
ذرا سوچئے! کشمیریوں کا جرم کیا ہے؟ اُن کا جرم آزادی سے محبت ہے۔ اُن کا جرم پاکستان سے محبت ہے۔ بھارت اُنہیں سب کچھ دینے کیلئے تیار ہے لیکن کشمیریوں کو صرف پاکستان چاہئے۔ کیا ہم پاکستانی اپنے وطن سے اتنی محبت کرتے ہیں جتنی محبت کشمیریوں کو پاکستان سے ہے؟ وقت آ گیا ہے کہ ہم کشمیریوں کیلئے اسی طرح کھڑے ہو جائیں جیسے وہ پاکستان کیلئے کھڑے ہیں۔ وہ پاکستانیوں سے زیادہ پاکستانی ہیں۔ کشمیریوں سے بے وفائی پاکستان سے بے وفائی ہے۔ آج ہمیں پوری دنیا کو یہ بتانے کی ضرورت ہے بھارت کی طرف سے کشمیریوں پر نئی فوج کشی اور لائن آف کنٹرول پر کلسٹر بموں کے استعمال کے پیچھے یہ خوف ہے کہ اگر امریکہ کابل سے نکل گیا تو کشمیر دنیا کا فوکس بن جائیگا۔ بھارت کچھ بھی کر
لے کشمیری اپنی آزادی چھین کر رہیں گے۔

https://jang.com.pk/news/666327-hamid-mir-column-5-8-2019


ڈوگرہ مظالم کی خبریں جب سرحدی قبائل تک پہنچی تو وزیرستان کے محسود اور آفریدی قبائل مسلمانوں کی مدد کے لیے کشمیر روانہ ہوئے اور 25 اکتوبر کی شب بارہمولا تک پہنچ گئے جہاں سے سری نگر ایک رات کی دوری پر تھا اور کشمیر کی آزادی بھی اتنی ہی دور تھی



مگر یہاں ان قبائلیوں سے چوک ہو گئی اوریہ آگے بڑھنے کی بجائے مال غنیمت لوٹنے اور ہوس پرستی میں الجھ کر رہ گئے

ادھر ہندوستان نے جموں میں چھپے مہاراجہ سے الحاق کا لیٹر سائن کروایا(نامور برطانوی تاریخ دان Alastair Lamb  اپنی کتاب'' برتھ آف ٹریجڈی: کشمیر 1947ء ‘‘ میں چیلنج کیا ہے کہ اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ سامنے آئے میں ثابت کروں گا کہ کشمیر کا بھارت سے الحاق کرنے کیلئے خط سری نگر سے راجہ نے نہیں لکھا گیا بلکہ یہ خط دہلی میں ٹائپ کرنے کے بعد 26 اکتوبر 1947ء کو راجہ سے جموں میں اس پر بزورِ دستخط کروائے گئے) اور اپنی فوجیں کشمیر اتار دیں ماونٹ بیٹن نے تمام ہوائی جہاز کانگریس کے حوالے کردیے (اس واقعے کی منظر کشی کرتے ہوئے ایک مصنف آئن سٹیفنز نے لکھتا ہے کہ  اس مرحلے پر گورنمنٹ ہاؤس انڈیا جنگ زدہ دفتر کا ماحول پیش کر رہا تھا جبکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اس جنگ کے پرعزم سپہ سالار دکھائی دے رہے  تھے)  اور ہندوستانی فوج مجاہدین کے سری نگر ائیر پورٹ پہنچنے سے پہلے سری نگر لینڈ کرگئی جبکہ دوسری جانب پاکستان کی فوج کے جنرل گریسی نے قائد اعظم کا کشمیر فوج بھیجنے کا حکم ماننے سے انکار کردیا اور اس طرح کشمیر کی آزادی جو محض ایک رات کی دوری پر تھی وہ ستر سال گزرنے کے بعد بھی ممکن نہ ہو سکی

نتیجتاً مہاراجہ نے 26 اکتوبر 1947 کو اپنی ریاست کے انڈیا سے الحاق کی تحریری درخواست کی جو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اگلے دن اس شرط کے ساتھ قبول کر لی کہ دراندازوں سے ریاست خالی ہونے پر ریاست کے مقدر کا فیصلہ عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا۔
1949 میں جنگ بندی کے بعد پاکستان اور انڈیا دونوں کے پاس کشمیر کا بالترتیب ایک تہائی اور دو تہائی حصے کا کنٹرول رہا اور سیز فائر لائن قائم ہوئی جسے بعد میں لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے 21 اپریل 1948 کو ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں اس مسئلے کے حل کے لیے تین مرحلہ وار نکات تجویز کیے گئے۔
پاکستان کشمیر سے اپنے تمام شہری واپس بلوائے
انڈیا کشمیر میں صرف اتنی فوج رکھے جو کہ امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہو
انڈیا اقوامِ متحدہ کا نامزد کردہ رائے شماری کمشنر تعینات کرے جو ریاست میں غیر جانبدار رائے شماری کروائے


یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کو عجلت میں کشمیر میں مجاہدین بھیجنے چاہیئے تھے کیا کشمیر کو حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرنی چایئے تھی یا پھر کچھ وقت انتظار کیا جاتا تاآنکہ لوگ خود ہی مہاراجہ کیخلاف اٹھ کھڑے ہوتے اور کشمیر آزاد ہوجاتا اور نہ بھارت کو دراندازی کا موقع ملتا



مگر ریاست حیدرآباد اورجونا گڑھ کی مثال دیکھتے ہوئے اس وقت یہ ایک معجزہ ہی ہو سکتا تھا. دراصل عجلت میں کی گئی نامکمل تقسیم 1947 میں بندر بانٹ بن گئی، جس کے ہاتھ جو لگا اس نے ہتھیا لیا، کشمیر بھی تاریخ کی اسی ستم ظریفی کا شکار ہوا، کچھ پاکستان کو مل گیا اور زیادہ حصہ بمطابق جثہ بڑے طاقتور کو مل گیا، اب ستر سالوں سے محض لکیر پیٹی جارہی ہے، 

بھارت نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے 5 اگست 2019 کو کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کردیا
سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی کا کہنا ہے کہ آج کشمیر میں ہر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ کیا بٹوارے کے بعد انڈیا سے جا ملنے کا فیصلہ درست تھا یا نہیں؟
اقوام متحدہ میں کس نے ہمارے لیے بات کی؟ عمران خان صاحب نے بات کی اور کشمیریوں کو یہ اچھا لگا۔ اس وقت کشمیر میں نوجوانوں میں بہت زیادہ انڈیا مخالف جذبات پیدا ہو گئے ہیں۔

مہاراجہ ہری سنگھ اور جواہر لعل نہرو کے درمیان جو الحاق ہوا، اُس کی کچھ شرائط تھیں۔ انڈیا نے مان لیا تھا کہ کشمیر ایک الگ ملک ہے اور انڈیا کے ساتھ مشروط الحاق کرے گا۔ ان شرائط میں انڈین حکومت کا دائرہ اختیار صرف خارجی امور، کرنسی اور مواصلاتی نظام تک محدود تھا۔ ہماری ریاست کا اپنا پرچم، اپنا صدر، اپنا وزیراعظم اور قانون سازی کے اختیارات تھے۔ 



کشمیر پاکستان کے لیے ایسی کڑوی گولی بن چکی ہے جس کو نہ نگل سکتے ہیں نہ تھوک سکتے ہیں پاکستان نے کشمیر کو واگزار کروانے کی ماضی میں متعدد کوششیں کررکھی ہیں مگر نتیجہ ندارد پاکستان ایک طرف کشمیر کے نام پر ہر سال 1500 ارب روپے دفاعی بجٹ میں جھونک دیتا ہے تو دوسری طرف اس خرچ کا حاصل وصول آج تک گھاٹے میں ہی ہے اس وجہ سے پاکستان کا بجٹ ہمیشہ خسارے میں ہی رہتا ہے ترقیاتی انسانی فلاحی فنڈز سکڑ جاتے ہیں ملکی ترقی جمود کا شکار رہتی ہے اور نتیجتاً پاکستان قرضے لینے پر مجبور رہتا ہے پھر جو ممالک ادارے قرضے دیتے ہیں وہ پاکستان اور کشمیر پر من چاہی پالیسیاں بھی مسلط کرتے ہیں یعنی جس مقصد کے لیے قرضہ لیتے ہیں وہ مقصد انھی قرض دہندگان کے ہاتھوں فوت بھی ہوجاتا ہے ہاں البتہ اس چکر میں کچھ موٹے جرنیلوں کا پیٹ ضرور بھرتا رہتا ہے عوام کو سوکھے نعرے ملتے ہیں اور کشمیر کی آزادی کا خواب، پاکستان 65 میں آپریشن جبرالٹر کے باعث جنگ بھگت چکا ہے اور یہ جنگ کشمیر کی آزادی سے زیادہ 65 کے انتخابات کی دھاندلی کو چھپانے کی غرض سے کی گئی تھی کیونکہ اس سے محض تین سال پہلے جب چائنہ میں 1962 میں لداخ کے محاذ پر بھارت کو بری طرح پھنسا رکھا تھا تو چین نے اس وقت کے صدر ایوب کو پیغام بھیجا تھا کہ یہی وقت ہے کہ آگے بڑھ کر کشمیر کو آزاد کروا لیا جائے مگر ایوب اپنے اقتدار کے خاتمے کے ڈر سے امریکہ کے اجازت نامے کے بنا یہ رسک نہیں لے سکتے تھے مگر پھر اسی 65 کی جنگ کے خمیازے میں بنگلہ دیش سے بھی ہاتھ دھودئیے پھر اسی کشمیر کی آزادی کے نام پر 99 میں کارگل آپریشن کی آڑ میں ایک اور تباہ کن آمریت بھگت چکا ہے اور آج بھی قوم کو مژدہ سنایا جاتا ہے کہ اگر نواز شریف گھٹنے نا ٹیکتا تو موصوف بہادر کشمیر کو تقریبا آزاد کروا چکے تھے لیکن پوچھا جائے کہ پھر 99 سے 2008 تک کس نے روکے رکھا کشمیر کو آزاد کروانے سے؟ 
سلامتی کونسل نے آسٹریلیا کے ایک جج اوون ڈکسن کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالث مقرر کیا۔ 
ڈکسن نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کو چار زونز میں تقسیم کر دیا جائے۔ کشمیر، جموں، لداخ اور آزاد کشمیر و شمالی علاقہ جات۔ پھر ان چاروں زونز میں ضلع بہ ضلع رائے شماری کرائی جائے۔
بعد ازاں ڈکسن نے چناب فارمولا پیش کیا جسکے تحت دریائے چناب کو بنیاد بنا کر تقسیم کرنے کی تجویز پیش کی گئی تاکہ کپواڑہ، سرینگر، بارہ مولا، اسلام آباد، پلوامہ، بڈگام، پونچھ اور راجوری پاکستان میں آ جائیں اور جموں بھارت میں چلا جائے۔ پاکستان نے یہ تجویز بھی مسترد کر دی۔ 
جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے مرحوم رہنما امان اللہ خان نے اپنی آپ بیتی ’’جہدِ مسلسل‘‘ (جلد سوم) میں لکھا ہے کہ اُنکی جماعت نے 1987ء میں خود مختار کشمیر کیلئے مسلح جدوجہد جنرل ضیاء الحق کی تائید و حمایت سے شروع کی لیکن جنرل ضیاء کی موت کے بعد جے کے ایل ایف کے مقابلے پر حزب المجاہدین کو کھڑا کر دیا گیا، اسکے باوجود 1995ء میں کشمیر اپنی آزادی کے قریب تھا۔
2007ء میں پرویز مشرف اور منموہن سنگھ مسئلہ کشمیر کے اُس حل پر متفق ہو گئے جو پہلی دفعہ اوون ڈکسن نے پیش کیا تھا اور بعد ازاں نہرو نے بھی یہی فارمولا پیش کیا تھا
ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں اپنی کتاب The Myth of Independence میں لکھا تھا کہ نہرو کی سوچ وہی ہے جو آر ایس ایس کے لیڈر ساوارکر کی تھی۔ یہ اکھنڈ بھارت پر یقین رکھتے ہیں اور ناصرف کشمیر پر قبضے کی کوشش کرینگے بلکہ پاکستان کو بھی توڑنے کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے چار سال بعد پاکستان ٹوٹ گیا۔ بھٹو نے لکھا تھا کہ پاکستان کیخلاف ہر سازش میں بھارت کو امریکہ کی تائید حاصل رہی ہے اور آئندہ بھی حاصل رہے گی۔ یہ دونوں ملکر پاکستان کا وجود مٹانا چاہتے ہیں اور کشمیری پاکستان کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں بھٹو کو ہم نے پھانسی پر لٹکا دیا لیکن بھٹو کی وارننگ کو نظر انداز نہ کریں کیونکہ دشمن کی نظر صرف آزاد کشمیر پر نہیں بلکہ پاکستان پر بھی ہے۔


اگر کشمیر کیساتھ پاکستان کی جذباتی وابستگی کو دیکھا جائے تو اس کے نام پر فوجی آمروں نے خود داد شجاعت سمیٹی اور اقتدار پر بھی قابض رہے مگر نتیجہ صفر ہی رہا.

کیا ہم کو اپنی کشمیر پالیسی پر نظر ثانی نہیں کرنی چایئے؟ باقی دنیا کی طرح کشمیر پر اپنا اصولی موقف رکھیں لیکن اس کے ساتھ دنیا کیساتھ باقی معاملات تو چلتے رہنے دیں؟
تائیوان پر چین کی پالیسی ہی دیکھ لیں؟ چین تائیوان کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے، اس کی الگ آزاد ملک حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا  مگر اس کے باوجود وہ تائیوان سے تجارت بھی کرتا ہے۔ 
تائیوان۔چین کا اِس پر دعویٰ ہے، چین کہتاہے کہ یہ اُس کا ’اٹوٹ انگ‘ ہے،جو ملک تائیوان کو تسلیم کرتا ہے چین اُس سے تعلقات نہیں رکھتا ، امریکہ تائیوان کا حامی ہے، اکثر چین اور امریکہ کی تائیوان کے معاملے پر ٹھن جاتی ہے ،حالات خراب بھی ہوجاتے ہیں ، چین حملہ کرنے کی دھمکیاں بھی دیتا ہے ،ادھر سے امریکہ جوابی کارروائی کی تنبیہ کرتا ہے
لیکن اِن تمام ’انوکھی مشکلات ‘ کے باوجود تائیوان کی تجارت امریکہ سے بھی ہے اور چین سے بھی، تائیوان کی کمپنیاں چین میں بلا روک ٹوک کام کرتی ہیں، چینی ارب پتی تائیوان میں تجارت کرتے ہیں ، تائیوان کی برآمدات کا 42فیصد چین اور ہانگ کانگ میں جاتا ہے جبکہ 15فیصد امریکہ میں ۔
سوال یہاں یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ تائیوان میں ہوسکتا ہے تو کشمیر میں کیوں نہیں ہوسکتا ؟ 
ہم صرف اپنے مسائل کو انوکھا سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں ۔جیسے دنیا نے اِن مسائل کا حل نکالا ہے ویسے ہی ہم نے بھی نکالنا ہے ، مثلاً کشمیر پر اپنا حق قائم رکھتے ہوئے ہم بھی بھارت سے تجارت کرسکتے ہیں ، سرحدیں کھول سکتے ہیں ، ہم کیوں دنیا کا واحد خطہ بنے بیٹھے ہیں جہاں ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کے ملک میں بلا روک ٹوک آجا نہیں سکتے؟
https://jang.com.pk/news/1180676


انڈیا اور چین کی مثال ہی لے لیں۔
انڈیا چین کے کئی ازلی سرحدی تنازعات ہیں، جہاں ان کی شدید جھڑپیں بھی ہوتی رہتی ہیں، ان کے مابین 1962 میں ایک جنگ بھی ہو چکی ہے، مزید انڈیا اینٹی چین مغربی امریکی گروپس کا بھی ممبر ہے، مگر اس سب کے باوجود دونوں ممالک کے مابین 115 ارب ڈالر کی تجارت ہوتی ہے۔
ترکی کی ہی مثال دیکھ لیں

ترکی اسرائیل اور فلسطین تنازعے پر ایک اصولی موقف رکھتا ہے، اور اس کا اعادہ بھی کرتا رہتا ہے مگر اس کے باوجود وہ اسرائیل سے ناصرف سفارتی تعلقات رکھتا ہے بلکہ معاشی تعلقات بھی بہتر سے بہتر کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے، اور تو اور سعودی عرب اور امارات کو ہی دیکھ لیں،
ہم اپنی راہ داری کے آپشن کھول دیں‘ ہم بھارت اور سینٹرل ایشیااور چین اور بحیرہ عرب کے درمیان ہیں‘ چین کو گوادر اور بھارت کو سینٹرل ایشیا اور سینٹرل ایشیا کو بھارت کی ضرورت ہے لہٰذا ہم اگر اپنی تجارتی سرحدیں کھول دیں۔
بھارت کے ٹرک افغانستان‘ ایران اور ازبکستان جائیں اور وہاں سے را مٹیریل لے کر بھارت جانے لگیں‘ہم اگر اسی طرح سی پیک مکمل کرلیتے ہیں اور چین اور عرب دنیا ہمارے ذریعے ایک دوسرے سے تجارت کرتی ہے تو اس میں ہمارا کیا نقصان ہے؟ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے عمران خان اور جنرل باجوہ سے کہا تھا‘ آپ ایک ایک ارب ڈالر کے لیے رو رہے ہیں۔
آپ آج بھارت کو افغانستان تک راستہ دے دیں‘ آپ 50 بلین ڈالرز سالانہ کما لیا کریں گے‘ یہ مشورہ ٹھیک تھا مگر شاید ہم ابھی مزید جوتے کھانا چاہتے ہیں‘ میری درخواست ہے آپ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی بحال کر دیں اور راہ داری بھی دے دیں‘ اس سے روزگار بھی ملے گا اور ہمارے معاشی وسائل بھی بہتر ہو جائیں گے۔ بشکریہ رونامہ ایکسپریس


لیکن افسوس ہر دو طرف ایسے دانشور بھی ہیں جو کشمیر کو زندگی موت کا مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور کشمیر پر جنگ جدل اور خون بہانے کے لیے عوام کو اکساتے ہیں، پاکستان کے معتبر صحافی حامد میر کے خیالات ہی دیکھ لیں
اولیاء کی سرزمین کو مزید خونریزی سے بچانا صرف پاکستان کی نہیں بلکہ باقی دنیا کی بھی ذمہ داری ہے اس لئے دنیا سُن لے کہ اگر بھارت مقبوضہ علاقے میں ظلم سے باز نہ آیا تو پھر آزاد کشمیر اور پاکستان کے لوگ لائن آف کنٹرول کو اپنے خون سے سرخ کرنے سے گریز نہ کریں گے۔

 جب تک ایسے لکھاری دونوں طرف موجود ہیں تب تک عوام پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی جنگ پر کمربستہ رہے گی.
کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے کسی آئوٹ آف باکس حل کی تلاش کی جائے جس سے کشمیریوں کی آزادی کی آسیں پوری بھی ہوں اور برصغیر جنگ و جدل سے بچا رہے۔
اس مضمون میں زیادہ تر حقائق اے جی نورانی کی کتاب آرٹیکل 370 اور کشمیر پر لیمب کی کتاب و دیگر کتب سے لیے گئے ہیں

ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم بھارت کو ہیرو جبکہ پاکستان کو ویلن بنا کر پیش کریں اور بیٹن سرکار کو معصوم غلطیوں سے پاک، تقسیم کے فارمولے کیمطابق کشمیر کی 3 میں سے 2.5 چیزیں پاکستان کی فیور میں جاتی تھیں اور پھر حیدرآباد اور جوناگڑھ ہڑپنے کے بعد نہرو کو کشمیر پر اپنی جذباتی وابستگی وغیرہ کی قربانی دینی چاہیے تھی، اس سے بھارت کو دوہرا فائدہ ہونا تھا، ایک پاکستان کیساتھ تعلقات بہتر ہوتے دوسرا پاکستان کے چین کیساتھ تعلقات خراب ہو جانے تھے، نہرو یہ باتیں جانتا تھا مگر نہرو دل کے ہاتھوں مجبور تھا

دوسری طرف پاکستان بھی کشمیر کے مسئلے کو حل کروانے میں ناکام رہا ہے، اور درج بالا حقائق سے عیاں ہوتا ہے کہ ہردوطرف ارباب اختیار کا مقصد کشمیر کی آزادی نہیں رہا بلکہ کشمیر کے نام پر غریب عوام کے پیٹ کاٹ کر اپنے پیٹ پالے جارہے ہیں۔

حوالہ جات:

No comments:

Post a Comment