کرونا وائرس کیا ہے؟
کرونا وائرس
دراصل خدا کا نازل کردہ ایک عذاب ہے خدا ہم سے ناراض ہو بیٹھا ہے اس لیے اس نے یہ
عذاب بھیجا ہے سو جب تک ہم اپنے گناہوں کا کفارہ ادا نہیں کرتے یہ عذاب نہیں ٹلے
گا؟
انسان کی
مادی ترقی نظام قدرت کے ساتھ مسلسل کھلواڑ تھا انسان کی خوغرضانہ پیداوار کی
چمنیاں کالا دھواں چھوڑ رہی تھیں جس کی
ناگوار بو سے قدرت کے نتھنے سکڑ رہے تھے سو
تنگ آمد بجنگ آمد قدرت حرکت میں آگئی قدرت نے اس وائرس کے ذریعے دھواں چھوڑتی چمنیوں
کو بند کردیا اور یہ مادہ پرست انسان کے لیے آخری تنبیہ ہے کہ نظام قدرت کے ساتھ
چھیڑ چھاڑ ہمیشہ کے لیے بند کردے؟
دنیا کے
فرعونوں نے کشمیر اور فلسطین میں کرفیو
لگا رکھا ہے جس پر دنیا خاموش تھی تو خدا نے پوری دنیا میں ہی کرفیو لگا دیا؟
فرانس نے
عورتوں کے حجاب پر پابندی لگائی تھی سو خدا نے مردوں پر بھی حجاب لگا دیا ؟
چند بگڑی
عورتوں نے کہا میرا جسم میری مرضی تو خدا نے کہا پھر ٹھیک ہے میری قدرت میری مرضی
؟
انسان نے
حلال حرام کے فرق کو ترک کردیا تھا تو خدا نے حرام جانوروں کی ممانعت میں چھپی
حکمت دیکھا دی اور انسان کو بتا دیا کہ اگر خدا کی قائم کردہ حدوں کو انسان توڑے
گا تو پھر خدا اس کو ایسے بھی اپنی حدیں قائم کرکے دیکھائے گا اب انسان حرام تو
کجا حلال جانور کھانے سے بھی محروم ہے؟
یہ وائرس
دراصل امریکہ کا نیا حیاتیاتی جنگی
ہتھیار ہے جس سے امریکہ اپنے مخالفین کو معاشی طور پر تباہ کرنا چاہتا ہے اور جس
کی ویکسین دراصل اسرائیل پہلے سے بنا کر بیٹھا ہے اور صرف اپنے تسلیم کرنے والے ممالک کو ہی دے گا
یعنی حیاتیاتی بلیک میلنگ اور اکیسویں صدی کا نیو ورلڈ آرڈر؟
انسان سائنس
کے بل پر خدا بن بیٹھا تھا اور خدا کے تخلیقی افعال میں چھیڑ خانی کا مرتکب ہو رہا
تھا سو خدا نے یہ وائرس بھیج کر انسان کو تنبہیہ کی ہے کہ تم محض ایک ننھے جرثومے
کی مار ہو اس لیے حیاتیاتی انجنئیرنگ سے کھیلنا بند کردو ؟
یہ خدا کی
طرف سے انسان کی آزمائش کا وقت ہے انسان راہ راست کو پکڑ لیں اور خدا کو طرف رجوع
کریں جبکہ اہل ایمان ثابت قدم رہیں اور خدا کے حضور گڑگڑا کر مناجات کریں اس لیے مذہبی مقامات کھول دیے جایں تاکہ خدا کی
حضور گڑگڑا کردعائیں مانگی جایں اور اس آزمائش کے وقت خدا کے حضور ثابت قدم رہ کر
اس آزمائش میں سرخرو ہوا جائے ؟
سو جتنے منہ
اتنی باتوں کے مصداق جہاں اس وائرس کا کوئی سرا کھنمبا نہیں مل رہا وہیں ہر ایک اس
کو اپنی منطق اپنی عقل کیمطابق سجھنے کی کوشش کررہا ہے اور ساتھ افواہ ساز ذہن بھی
وقت سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ جہاں پل بھر کو حقیقت آنکھ سے مفر ہوتی ہے سازشی
تھیوریں کے سرخیل ایسی بلندوبالا حسین
بلڈنگ کھڑی کرتے ہیں کہ پل بھر کو تو عقل سلیم بھی محو ہو جاتی ہے مگر اک افسوس
سدا رہے گا کہ پھر جب بھی ایسی بلڈنگ گرتی ہے نہ قاضی ملتا ہے نہ وکیل ملتا ہے نہ
ان کی عقل کو ہی کوئی تنبیہہ ہوتی ہے ہاں
مگراگر کہیں منہدم عمارت کی کسی اینٹ پے
لگی مٹی بھی بچی مل گئی تو پھر اسی پے تکیہ اور حجت لاطائل
لیکن حقیقت برعکس
درج بالا کے یوں ہے ان میں سے کوئی کھانستا بھی ہے تو وہ حیاتیاتی انجنئیرنگ کے
مراکزکو بھاگتاہے اور ان میٹریلزم کے علمداروں کے میٹریل سے بنے وینٹی لینٹڑ
ڈھونڈتا ہے اور ساتھ دل ہی دل میں دعائیں کرتا ہے کہ خدایا حیاتیاتی چھیڑخانی کے یہی مجرم جلد
از جلد اس وائرس کی ویکسین بنالیں
اور دوسری طرف
وہ مجرم ہیں کہ جن پر یہ سب الزام ہیں وہ اپنے اوپر لگے الزامات سے بالاتر ہو کر
اس وائرس کا حقیقی حل ڈھونڈ رہے ہیں
ایسا حل جس
سے نا خدا ناراض ہو گا نہ قدرت منتقم ہو گی
ایسا حل جو
پنڈت کو بھی صحتیاب کرے گا اور ملا کو بھی اس سے شفا ملے گی
ایسا حل جو
کلیسا بھی کھول دے گا اور کعبہ بھی کھو دے
گا
جو بند سرحدیں
بھی کھول دے گااور گھروں کے آنگن بھی کھول دے گا
مگر وہ نہ کھول سکا تو شایدان فتنہ پردازوں کے
دماغوں پے لگی جہالت کی گریں نہ کھول سکے گا
یہ دنیا
باطل قرار پائے دلائل کو جلد بھول جاتی ہے جبکہ حسن اتفاقات میں پھر نئے معجزے
تراش لیتی ہے اور انھی چھوٹے چھوٹے کنکروں پر پھر مفروضات کی بڑی بڑی عمارات تعمیر
کرلیتی ہے
یہ بھی
المیہ ہے کہ انسان ایسی آزمائشوں کو بھول جاتا ہے یہ وبا انسان کے لیے مقام عبرت
بھی ہے کہ بلین ڈالرز کے بجٹ سے بنائے گئے ایٹم بم سے وہ اس چھوٹے سے وائرس کو
مارنے سے قاصر ہے سو انسان کو اپنے بلین ڈالرز بجٹز میں وائرس کو بھی جگہ دینی
ہوگی کیونکہ مستقبل کو ایٹم بم سے خطرہ نہیں جتنا ان دیکھے دشمن سے ہے
آج دنیا
یکسر بدل چکی ہےگلوبل ویلج کٹ چکا ہے انسان انسان سے بیگانہ ہو چکا ہے ٹیکنالوجیز کے چیمپئن خدائی مدد ڈھونڈتے پھر رہے
ہیں کوئی کچھ نہیں بتا سکتا وائرس کے بعد
والی زندگی کیسی ہو گی مگر جیسی بھی ہو گی یہ طے ہے کہ یہ وبا انسان کی سوچ اور اپروچ پے کچھ انمٹ بھدے
نقش ضرور چھوڑے گئی
ایسی وبائیں
پہلے بھی آتی رہیں مگر ٹیکنالوجی کے زعم
میں مبتلا انسان ان وباوں کو زمانہ جاہلیت
کی وبائیں سمجھ کر بھلا چکا تھا مگر اس وبا نے اس کی جدید ٹیکنالوجی کا پول کھول
کر رکھ دیا ہے اور اس کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ انسان کو انسان بن کر سوچنا
ہو گا ملکر ان دیکھے مشترکہ دشمن کیخلاف لڑنا ہوگا جدید ٹیکنالوجی کو باہم مقابلہ
بازی اور انسان پر آزمانے کی بجائے انسان کی بقا کے لیے استعمال کرنا ہو گا
No comments:
Post a Comment