عظیم
بھارت کی عظیم توجیہات
مذہبی
اعتبار سے بھارت دنیا کا امیر ترین ملک ہے کیونکہ اس کے پاس کم و بیش 20لاکھ
بھگوان ہیں جو دنیا میں موجود کسی بھی دوسرے مذہب سے زیادہ ہیں۔امریکی مزاح نگار مارک ٹوئن
مہابھارت
بھگوانوں کا دیس ہے جہاں ہر کام کا الگ سے بھگوان موجود ہے یعنی ضرورت ایجاد کی
ماں جس کو جو کام پڑا اسی کا بھگوان موجود ہوا اس قدر عقائد ہیں تو اسی قدر ان
عقائد پر عمل کرنے کی من چاہی مرضی بھی موجود ہے یعنی کہ مجموعہ عقائد ہے یہ باہر
سے ایک جیسا نظر آنیوالا مذہب اندر سے مختلف
عقائد کے لحاظ سے بہت مختلف ہے ایسے لگتا ہے جیسے ہر کسی نے اپنی اپنی مرضی کے
عقائد اپنا لیے ہوں اور اسی لیے یہ دنیا
کا واحد مذہب ہے جس کا کوئی یکتا بانی نہیں ہے اور نہ ہی اس مذہب کی ابتدا کے بارے
کسی کو علم ہےحتیٰ کہ اس مذہب کا کوئی باقاعدہ نام نہ تھا بیرونی(ایرانی ) لوگوں
نے اس کے پیروکاروں کو ہند کے علاقے کی مناسبت سے ہندو کہا جسے بعدازاں انگریزوں
نے اپنی آسانی کے لیےان تمام مجموعہ اعتقادات اور مختلف بھگوانوں کی پوجا کرنے
والوں کو ایک لفظ ہندومت میں سمو دیا ۔ ایسے عقائد میں ستی بھی ایک عقیدہ تھا جس میں شوہر کے مر جانے پر اس کی بیوہ کو زندہ جلنا ہوتا تھا اس عقیدہ کا گو مذہبی کتب میں ذکر نہ تھا مگر انگریز بمشکل زور بازو اس رسم کو ختم کرپائے تھے یہ اتنی راسخ العقیدہ رسم تھی کہ جس کو مسلمان بھی اپنے ہزار سالہ اقتدار میں ختم نہیں کروا پائے تھے سو اس پر انگریز سرکار کو ایک سیلوٹ تو بنتا ہے
مگر انگریز کیا کیا ختم کرواتے بیچارے مغربی بنگال میں آج بھی گجن میلے میں بھگوان شیو کے قہر سے بچنے کے لیے لوگ خود کو لوہے کی سلاخوں پر لٹکاتے ہیں اور خود کو اذیت دیتے ہیں تاکہ بھگوان شیو ان سے ناراض ہو کر ان کی پکی ہوئی فصلیں خراب نہ کردے
دوسرا اس مذہب میں دوسرے مذاہب کو کھا جانے کی بھی بڑی صلاحیت موجود رہی ہے لیکن
حالیہ کچھ صدیوں سے اس کی اس صلاحیت میں شدید کمی آئی ہے وجہ کچھ بھی رہی ہو مگر
جب تک یہ دوسرے مذاہب کو کھاتا رہا یہ ہندوستان میں راج کرتا رہا
گو ہندوازم محض مجموعہ عقائد ہے مگر پھر بھی اس کے ماننے والوں کا اس پر اعتقاد قابل
رشک ہے۔ ذیل میں کچھ اکابرین کے عقائد اور اعتقادات پیش خدمت ہیں
1. بھگوان گنیش کے دھڑ پر ہاتھی
کا سر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ قدیم بھارت میں ہزاروں سال پہلے کاسمیٹک سرجری
دریافت ہو چکی تھی:
نریندرا مودی
2. رامائن میں ایک بادشاہ کا ذکر ہے جس
کے پاس 24قسم کے جہاز تھے اور وہ ان جہازوں کو سری لنکا کے اڈوں پر اتارا کرتا تھا
۔ جنوبی ریاست آندھر ا پردیش کی یونیورسٹی کے وائس چانسلر نگیشو ر رائو
3. آئزک نیوٹن اور آئن اسٹائن ایسے نوسر باز ہیں
جو ہندوستانی باشندوں کی سائنسی تحقیق لے اُڑے۔ہمارا مطالبہ ہے کہ دریافت کی گئی کشش ثقل کی
لہروں کا نام ’’نریندرامودی لہریں‘‘ رکھنا چاہئے: تامل ناڈو یونیورسٹی کے پروفیسرڈاکٹر کے جے
کرشنن
4. سیتا جی کی پیدائش ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی زندہ مثال
ہے کیونکہ انہیں مٹی کے گھڑے سے پیدا کیا گیا اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قبل از
مسیح کے زمانے میں یہاں ٹیسٹ ٹیوب ٹیکنالوجی موجود تھی گوگل جیسی ٹیکنالوجی قدیم بھارت میں موجود تھی، براہ راست نشریات کا
تصور موجود تھا اور صحافت کا آغاز بھی سب سے پہلے بھارت میں ہوا: ریاست اترپردیش
کے نائب وزیراعلیٰ دنیش شرما
5. انٹرنیٹ سب سے پہلے ہندوستانیوں نے ایجاد کیا: وزیراعلیٰ بپلب کمار دیو
6. نیوٹن سے کئی سو سال قبل بھارتی منتری ’’لاء آف موشن‘‘ پیش کر چکے تھے ۔رائٹ برادران
کے جہاز اڑانے سے 800سال پہلے ایک بھارتی سائنسدان شواکر بابوجی تلپڈے جہاز ایجاد
کر چکے تھے اور سب سے پہلے طیاروں کا ذکر ’’رامائن ‘‘ میں ملتا ہے: وزیرتعلیم ستیپال سنگھ
7. آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ تو تمام حیوان
خارج کرتے ہیں مگر گائے وہ محیر العقول جانور ہے جو آکسیجن ہی خارج کرتی ہے: وزیر تعلیم راجھستان
8. گائے ایک چلتا پھرتا شفا خانہ ہے جس میں ہر
بیماری کا علاج ہے۔گھروں میں گائے کے گوبر کا لیپ کرنے سے تابکاری سے محفوظ رہا جا
سکتا ہے: راجستھان ہائیکورٹ کے
سابق جج مہیش چند شرما
درج بالا باتوں پر اگر آپ کو یقین نہیں آ رہا تو
یہ آپ ہی کی کم عقلی ہوسکتی ہے کیونکہ ایک ارب زیادہ ہیں یا آپ واحد عقلمند؟ اور
پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ خود بھی کئی ایسے ملتے جلتے توہمات کا شکار ہوں جن
کو بخود آپ برحق جانتے ہوں چھوڑنے میں تھوڑا بہت فرق ہو سکتا ہے مگر بنیادی فلسفہ
آپ کے نظریات کا بھی وہی ہو جو مندرجہ بالا حضرات کا ہے پھر عقل سلیم کیسی؟ پھر
شرم کیسی؟ کیا اعتقاد کے اس حمام میں سبھی ننگے نہیں ہیں؟
تو پھر کیوں ناں آو رل مل دھمال پایے
اک دوجے تے آپاں رنگ پایے تے
ایک دوجے نے اپنے رنگ وچ رنگیے
مذہبی
اعتبار سے بھارت دنیا کا امیر ترین ملک ہے کیونکہ اس کے پاس کم و بیش 20لاکھ
بھگوان ہیں جو دنیا میں موجود کسی بھی دوسرے مذہب سے زیادہ ہیں۔امریکی مزاح نگار مارک ٹوئن
مہابھارت
بھگوانوں کا دیس ہے جہاں ہر کام کا الگ سے بھگوان موجود ہے یعنی ضرورت ایجاد کی
ماں جس کو جو کام پڑا اسی کا بھگوان موجود ہوا اس قدر عقائد ہیں تو اسی قدر ان
عقائد پر عمل کرنے کی من چاہی مرضی بھی موجود ہے یعنی کہ مجموعہ عقائد ہے یہ باہر
سے ایک جیسا نظر آنیوالا مذہب اندر سے مختلف
عقائد کے لحاظ سے بہت مختلف ہے ایسے لگتا ہے جیسے ہر کسی نے اپنی اپنی مرضی کے
عقائد اپنا لیے ہوں اور اسی لیے یہ دنیا
کا واحد مذہب ہے جس کا کوئی یکتا بانی نہیں ہے اور نہ ہی اس مذہب کی ابتدا کے بارے
کسی کو علم ہےحتیٰ کہ اس مذہب کا کوئی باقاعدہ نام نہ تھا بیرونی(ایرانی ) لوگوں
نے اس کے پیروکاروں کو ہند کے علاقے کی مناسبت سے ہندو کہا جسے بعدازاں انگریزوں
نے اپنی آسانی کے لیےان تمام مجموعہ اعتقادات اور مختلف بھگوانوں کی پوجا کرنے
والوں کو ایک لفظ ہندومت میں سمو دیا ۔ ایسے عقائد میں ستی بھی ایک عقیدہ تھا جس میں شوہر کے مر جانے پر اس کی بیوہ کو زندہ جلنا ہوتا تھا اس عقیدہ کا گو مذہبی کتب میں ذکر نہ تھا مگر انگریز بمشکل زور بازو اس رسم کو ختم کرپائے تھے یہ اتنی راسخ العقیدہ رسم تھی کہ جس کو مسلمان بھی اپنے ہزار سالہ اقتدار میں ختم نہیں کروا پائے تھے سو اس پر انگریز سرکار کو ایک سیلوٹ تو بنتا ہے
مگر انگریز کیا کیا ختم کرواتے بیچارے مغربی بنگال میں آج بھی گجن میلے میں بھگوان شیو کے قہر سے بچنے کے لیے لوگ خود کو لوہے کی سلاخوں پر لٹکاتے ہیں اور خود کو اذیت دیتے ہیں تاکہ بھگوان شیو ان سے ناراض ہو کر ان کی پکی ہوئی فصلیں خراب نہ کردے
دوسرا اس مذہب میں دوسرے مذاہب کو کھا جانے کی بھی بڑی صلاحیت موجود رہی ہے لیکن حالیہ کچھ صدیوں سے اس کی اس صلاحیت میں شدید کمی آئی ہے وجہ کچھ بھی رہی ہو مگر جب تک یہ دوسرے مذاہب کو کھاتا رہا یہ ہندوستان میں راج کرتا رہا
گو ہندوازم محض مجموعہ عقائد ہے مگر پھر بھی اس کے ماننے والوں کا اس پر اعتقاد قابل
رشک ہے۔ ذیل میں کچھ اکابرین کے عقائد اور اعتقادات پیش خدمت ہیں مگر انگریز کیا کیا ختم کرواتے بیچارے مغربی بنگال میں آج بھی گجن میلے میں بھگوان شیو کے قہر سے بچنے کے لیے لوگ خود کو لوہے کی سلاخوں پر لٹکاتے ہیں اور خود کو اذیت دیتے ہیں تاکہ بھگوان شیو ان سے ناراض ہو کر ان کی پکی ہوئی فصلیں خراب نہ کردے
دوسرا اس مذہب میں دوسرے مذاہب کو کھا جانے کی بھی بڑی صلاحیت موجود رہی ہے لیکن حالیہ کچھ صدیوں سے اس کی اس صلاحیت میں شدید کمی آئی ہے وجہ کچھ بھی رہی ہو مگر جب تک یہ دوسرے مذاہب کو کھاتا رہا یہ ہندوستان میں راج کرتا رہا
تو پھر کیوں ناں آو رل مل دھمال پایے
ایک دوجے نے اپنے رنگ وچ رنگیے
No comments:
Post a Comment