جہانگیر ترین ایک اور چلا ہوا کارتوس
مگر اس کارتوس کو جاوید ہاشمی یا ریحام سے منطبق کرنا مناسب
نہ ہو گا
کیونکہ مذکور بالا میں سے بی بی کے انکشافات تو محض ذاتی
عناد برمبنی تھے اس لیے وہ عمران خان پر پھبتی کسنے کے کام تو آسکتے ہیں مگر خان
کی سیاست کو ان انکشافات سے کچھ خاص فرق نہیں پڑا
باغی نے عمران خان کے قبل از وقت اقتدار کے خواب ضرور چکنا چور کردیئے تھے مگر وہ خلل وقتی ثابت ہوا اور خان کی تھرڈ فورس پرواز پھر بھی جاری رہی جو بالآخر اقتدار پر منتج ہوئی کیونکہ باغی کا کنٹینر پر کردار محض شو بوائے کا سا تھا اور اس کی دسترس اشاروں کنایوں تک ہی تھی لیکن پھر بھی اس کی بروقت بغاوت کو سلام اس نے اشاروں اشاروں میں اتنا تو کر دیا کہ وطن عزیز کے شرفا کی لونڈی جمہوریت اک بار پھر سے بکنے سے بچ گئی مگر باغی بیچارہ پرانے کیمپ جاکر واقعی چلا ہوا کارتوس ثابت ہوا
اب آتے ہیں خان کے تیسرے کارتوس جہانگیر ترین کی طرف
جہانگیر ترین کا کیس درج بالا سے بالکل مختلف ہے کیونکہ
جہانگیر ترین کا تحریک انصاف میں بہت
مضبوط کردار رہا ہے خاصکر وفاق اور پنجاب
کی حکومت بنوانے میں جہانگیر خان ترین نے کلیدی کردار ادا کیا تو یقینا"جہانگیر
ترین کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہو گا
جہانگیر ترین بنگلہ دیش میں پیدا ہوئے لاہور سے بزنس کی
ڈگری لی اور سیاست میں آنے سے قبل لیکچرر اور بینکر بھی رہ چکے ہیں ان کی شادی ایک
سیاسی گھرانے (jahangir tareen Family) میں ہوئی اور اپنے بہنوئی کی ڈگری نہ ہونے کے سبب ان جگہ الیکشن لڑا وہ پاکستان کی سیاست میں اس وقت وارد ہوئے جب جمہوریت اشرافیہ
کی زر خرید باندی بنی ہوئی تھی الیکٹیبلز کی منڈی لگی ہوئی تھی اور جمہوریت کی دوڑ میں جیتنے والے گھوڑوں
کی مانگ عروج پر تھی
اس سیاسی پس منظر میں جہانگیر خان ترین جوڑ توڑ کے لیے مشہور چوہدری پرویز الہی کے مشیربنے بعدازاں وہ اپنے بیک گراونڈ کی بدولت جلد ترقی کرکے وفاقی وزیر صنعت بن گئے اور اس دوران ان کا شوگر کا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا
دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں وہ مسلم لیگ فنکشنل کے پارلیمنٹ میں پارلیمانی لیڈر بنے اور اسی دور حکومت میں انھوں نے ایک فارورڈ بلاک ترین گروپ بنایا تحریک انصاف جوائن کرنے سے قبل وہ اپنی سیاسی پارٹی بنانے پر بھی غور کرتے رہے کہ اس اثنا میں ان کو نوآموز سیاسی پارٹی تحریک انصاف میں اپنے خوابوں کی تکمیل ہوتی نظر آئی اور دو ہزار گیارہ میں وہ پارلیمنٹ سے استعفی دیکر پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے
دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں جب پی ٹی آئی بڑے بڑے جلسوں کے انعقاد کے باوجود ہار گئی تو یہ جہانگیر ترین ہی تھے جو اپنے سیاسی تجربے کی بنا پرعمران خان کو نظریاتی سیاست سے الیکٹیبلز کی روایتی سیاست کی طرف لے کر آئے اور یہیں سے عمران خان دو کشتیوں کے سوار ہو گئے گو یہ ترکیب حصول اقتدار کے لیے تو کامیاب رہی اور جہانگیر ترین عمران خان کو پاکستان کے مروجہ آزمودہ طریقو ں سے اقتدار میں تو لے آئے مگر پارٹی کا نظریاتی رکن جہانگیر ترین کا روز اول سے ہمیشہ کے لیےمخالف ہوگیا لیکن اگر بلا تعصب دیکھا جائے تو یہ گروپ آج جس اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے وہ اسی روایتی سیاست کا مرہون منت ہے جس کا گوہر نایاب جہانگیر ترین نے خان صاحب کے مشکل دماغ میں مشکل سے ڈالا تھا جہانگیر ترین نے خان صاحب کو باور کروایا کہ اگر محض نظریات میں دم ہوتا تو پی ٹی آئی دو ہزار تیرہ کا الیکشن ہی نہ ہارتی
دو ہزار سترہ میں سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد جہاں ایک طرف
جہانگیر ترین کی اپنی سیاست عملی طور پرختم ہو تی نظر آرہی تھی (وہیں
سونے پے سہاگہ ان کا بیٹا (jahangir tareen Son) علی خان ترین بھی ان کی اپنی سیٹ ضمنی الیکشن میں ہار
گیا) مگر جہانگیر ترین نے ہمت نہ ہارنے کا
فیصلہ کیا اور پھر خلق نے دیکھا کہ کس طرح ایک پارلیمنٹ سے نکالا ہوا شخص اسی
پارلیمنٹ میں اپنی من پسند حکومت بنانے کے لیے تگ و دو کررہا تھا
تحریک انصاف کی وفاق اور پنجاب میں حکومت بنوانے پر ان کے لیے تمغہ حسن کارکردگی تو بنتا تھا مگر عملی سیاست میں ان کا مقام کہیں ٹھہرتا نظر نہیں آتا تھا کہ عملا" اقتدار کی مسند پر کچھ اور لوگ بشمول نظریاتی کارکنوں اور جہانگیر ترین کے مخالف گروپ کے لوگ بیٹھ چکے تھے اور اختیارملنے کے بعد وہ طاقتور تو ہو ہی گئے تھے تو طاقت کا غرور بھی بنتا تھا اورغرور کا تقاضا تھا کہ اپنے حریفوں کو نیچا دیکھایا جائے، اختیار حاکم بنتے ہی سب سے پہلے اپنے مربی سے جان چھڑاتا ہے بھلا اختیار کب کسی بے اختیار کی غلامی کرتا ہے اختیار کو مروت کے دائرہ اختیار سے نکلنا ہی ہوتا ہے سو وہ نکل کے رہا
پاکستان میں حالیہ چینی اور آٹے کے بحران نے جہاں ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام پر ایک بار پھر بھرپور چوٹ لگائی کہ کس طرح چند سرمایہ داروں نے مل کر ناجائز منافع خوری کی عوام بلکتی رہی جبکہ حکومت بے بس کھڑی تماشہ دیکھتی رہی وہیں تحریک انصاف کی حکومت کی بدانتظامی بھی کھل کر سامنے آئی اور جب تحریک انصاف کو اپنی نااہلی اور خاص کر عمران خان کو اپنے وسیم اکرم پلس کو ڈیفینڈ کرنا مشکل ہو گیا تو عمران خان نے نظریاتی سیاست کے پیچھے چھپنے کا فیصلہ کیا جس میں فی الفور بلاشبہ مدح سرائی ہی مدح سرائی تھی اور پارٹی کے اندر جہانگیر ترین کیخلاف کب سے گھات لگایا طبقہ حرکت میں آیا اور عمران خان کو بھی ممکنہ رستہ جہانگیر ترین کی قربانی میں ہی نظر آیا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ خان صاحب اس بار بھی سیاسی سکورنگ کے موڈ میں ہیں یا پھر وہ شوگر کے دیرینہ مسائل کو حل بھی کرپائیں گے کیونکہ شوگر کئی دہائیوں سے باقاعدہ مقتدر حلقوں کا کاروبار بن چکا ہے اور اس کا شئیر ہر حکومت میں موجود ہوتا ہے لہذا اس مافیا پر ہاتھ ڈالنا اپنی اقتدار کی کرسی کے پاوں کاٹنے کے مترادف ہے
اب دیکھنا ہے کہ جہانگیر ترین ایک چلا ہوا کارتوس ثابت ہوتے ہیں یا پھر سابقین کے برخلاف ان کی مخالفت پی ٹی آئی کو مہنگی پڑ سکتی ہے کیونکہ ان کے انکشافات کہ جو پہلے ہی زبان زد عام ہیں کہ کس طرح دانہ دانہ موتی موتی اڑن طشتری (jahangir tareen helicopter) میں ڈھو ڈھو کر انھوں نے اقتدار کی تسبیح پروہی ہے وہی تسبیح جو خان صاحب ٹرمپ کے حضور بھی جپتے رہے اور امت مسلمہ کے دل موہتے رہے وہی تسبیح کہ جس کا دانہ دانہ اپنی ہستی میں وہ کرامت رکھتا ہے جو پی ٹی آئی کی نظریاتی جیت بدترین ہارس ٹریڈنگ میں بدل سکتا ہے جس کو کیش کرنے کے لیے پرانی سیاسی پارٹیاں پیش پیش ہوں گی پھر پی ٹی آئی کو بقا کے لیے اپنی نظریاتی اساس دوبارہ الف سے شروع کرنی ہو گی اور دوبارہ اقتدار پانے کے لیے چیتھڑے چیتھڑے نظریاتی شہادت کیش کروا پائے گی یا قوم اس کی ملی جلی نظریاتی شہادت کو سابقہ کارکردگی کی کسوٹی پر پرکھے گی
قرین قیاس تو یہی ہے کہ جہانگیر ترین جلد بازی اور ہلکے پن کا مظاہرہ شاید نہ کریں لیکن اگر ان کی ساکھ پر ضرورت سے زیادہ پریشر آتا ہے تو میڈیا کے لیے کم از کم کچھ مواد جلد ضرور مہیا ہو جائیگا
جب حکومت چینی سے بنے گی تو پھر چینی مہنگی تو ہو گی ناں میرے مرشد
No comments:
Post a Comment