پاکستان میں کس کس وزرائے اعظمیٰ کے ساتھ کیا کیا سلوک کیا گیا
کل شام کسی کام سے باہر نکلنا ہوا تو دیکھا مسجد کی نکر پر دو بوڑھے نماز کی ادائیگی کے بعد کسی مسئلے پر بات چیت کررہے تھے. جب ان کے پاس سے گزرہوا تو وہ اس نکتے پر پہنچے تھے. "بھارت نے اپنے ایٹم بمب کے خالق کو ملک کا صدر بنایا جبکہ ہم نے ڈاکٹر قدیر کو ذلیل و خوار کیا. ہم ہیرو کش قوم ہیں" اس بات پر دونوں بوڑھوں کا اتفاق لگ رہا تھا. دونوں کی عمر لگ بھگ ستر سے اسی سال تھی. یعنی کہ میرے وطن عزیز کی عمر جتنی. بیشک وہ ایک عام زد بات کررہے تھے مگر کیا ان کی عمر تجربہ اور تجزیہ ستر سالوں پر محیط نہیں تھا. وہ عام محب وطن سے شہری تھے جو باتوں کی گہرائی تک کبھی نہیں جاتے جو ہمیشہ حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار رہتے ہیں. لیکن کیا قومیں اسی طرح کی سوچوں سے ہی نہیں بنتی؟ میں اس کا جواب آپ پر چھوڑتا ہوں.
کل ایک سابق وزیراعظم شاہد خاقان کو گرفتاری کرلیا گیا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ کس اہلیت کا وزیراعظم تھا کرپٹ تھا یا نہیں تھا بہرکیف ہمارا وزیراعظم تھا اور ہمارے ہی نظام سے ابھر کر آیا تھا اگر وہ غلط تھا تو ہم اور ہمارا نظام بھی غلط ہے. ہم اور ہمارا نظام پہلے ان کو کرپشن کرنے دیتے ہیں پھر اسی کرپشن پر بوقت ضرورت ان کو پکڑ لیتے ہیں جیسے چوہے کو ڈبل روٹی دکھا کر کڑوکی میں پھنسایا جاتا ہے. دوسرا زاویہ نظر یہ ہو سکتا ہے کہ اگر ہمارا نظام پنپ رہا ہے سیکھ رہاہے تو پھر ہم سیکھنے اور نتھرنے کے عمل کو باربار روک کیوں دیتے ہیں جس سے ہماری پچھلی ساری کیتی کرائی کھو پڑ جاتی ہے.اور پھر ایک نیا پتلی تماشہ لگا دیا جاتا ہے یا ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ عہدہ بھی خود سنبھال لیا جاتا ہے اور ہم بھی بخوشی سرتسلیم خم کردیتے ہیں. ہمیں گزشتہ کرپشن کے قصے دن رات سنائے جاتے ہیں پتہ تب لگتا ہے جب موصوف کے دوبئی اور لندن میں جائیدادوں کے انبار نکلتے ہیں. تب پھر ہماری امید اور حب الوطنی پرانے چور کو بھول کر نئے مسیحا کے پیچھے چل پڑتی ہے.
پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت میں جس میں وزیراعظم ملک کا سب سے بااختیار عہدہ ہوتا ہے. لیکن کیا ہمارے ملک میں وزراء عظمیٰ کو واقعی وہ عزت اور اختیارات ملتے رہے ہیں جس کے وہ حقدار تھے یا پھر واقعی ہم نے فقط پتلی تماشہ لگا رکھا ہے جمہوریت کے نام پر؟
پاکستان میں تقریباً اب تک سترہ وزیراعظم بنے ہیں جن میں سے ایک بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرپایا ہے. وجوہات کچھ بھی رہی ہوں ہم کو اپنے رویوں اور عدم مستقل مزاجی پر ضرور نظرثانی کرنی ہوگی. گھر کے باغیچے میں لگے پھول دار پودے روز نہیں بدلے جاتے. نئے پھول اگانے کیلیے وقت لگتا ہے.
پاکستان کے پہلے وزیراعظم کو چار سال دو ماہ کی حکومت کے بعد گولی مار دی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف انڈیا کے پہلے وزیراعظم لگاتار سولہ سال حکومت کرتے ہیں اور پھر اندرا گاندھی لگاتار گیارہ سال وزیراعظم رہتی ہیں جبکہ مودی لگاتار دوسری ٹرم کیلیے براجمان ہوچکے ہیں . اس سے پہلے منموہن سنگھ بھی لگاتار دس سال حکومت
کرچکے ہیں
اس طرح کی لگاتار پارٹنر شپ سے ایک طرف ملک میں سیاسی استحکام ہوتا ہے تو دوسری طرف معاشی پالیسیوں میں تسلسل ہوتا ہے جس سے ملک کی کم از کم کوئی ایک معاشی سیاسی سمت تو طے پا جاتی ہے. اور پھر اہم بات کسی پارٹی یا وزیراعظم کے دل میں کارکردگی کے لیے کم وقت کا کوئی ذعم نہیں رہ جاتا. وہ سیاسی شہید نہیں بنتے بلکہ اپنی سیاسی موت آپ مرتے ہیں.
اس کے برعکس ہم نے اپنے وزراء اعظم کو کتنا کتنا وقت دیا اور انکو کیسی عزت دیتے رہے؟
حسین شہید سہروردی کو ایبڈو کی خلاف ورزی پر 1962 میں گرفتار کیاگیا اور الیکشن گزر جانے کے بعد رہا کردیا گیا. وہ سیاست سے دستبردار ہوگے.
ذوالفقار علی بھٹو کو 1977 کو قتل کے مشورے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔اور پھانسی دے دی گئ
بینظیر بھٹو کو مارچ 1981 میں بنا کسی کیس کے گرفتار کیا گیا اور تین سال قید رکھا گیا بعدازاں ان کو بھی اپنے ہی ملک میں قتل کردیا گیا
نواز شریف کو پہلی دفعہ 1999 میں گرفتار کیا گیا اور بیرونی ممالک کی مداخلت پر جلاوطن کیا گیا. پھر دوسری دفعہ کرپشن پر 2018 میں گرفتار کیا گیا اور تاحال قید ہیں.
یوسف رضا گیلانی کو2012 میں خط نہ لکھنے کی پاداش میں کچھ سیکنڈ کے لیے گرفتار کیا گیا اور وزارت اعظمی سے فارغ کرکے رہا کردیا گیا.
نواز شریف خوش کن ہیوی مینڈیٹ کیساتھ وزیراعظم بنتے ہیں مگر غلطی سے خود کو وزیراعظم بھی سمجھتے ہیں نتیجہ وہی چکی کے ڈھائی پاٹ جس کو ووٹ میں نہ ہرا سکو اسے عدل سے نپٹا دو
گو موجود حکومت کی بنیاد سیاسی طور پر بہت نازک سہی مگر ان کو پانچ سال کم از کم اور معاشی پالیسیوں کے تسلسل کے لیے کم از کم دس سال ملنے چاہئیں. کیونکہ بیرونی اور اندرونی قرضوں اور امپورٹ ایکسپورٹ کے موجودہ فرق کو جس طرح ملکی معیشت اب بھگت رہی ہے یہ نہ ہوکہ اگلی حکومت کو موجودہ سختی کیوجہ سے قدرے آسان ماحول ملے اور وہ پھر وہی پرانی روش اختیار کرے اور ہم پھر دس پیچھے چلے جائیں. اس لیے معاشی پالیسی کے تسلسل کے لیے کم از کم دس سال لگاتار ایک ہی پالیسی بہت ضروری ہیں.
No comments:
Post a Comment