آئی ایم ایف اور پاکستان
ہر ممبر ملک
imf کو فنڈ دیتا ہے اور اسی کیمطابق بوقت ضرورت اس سے اپنے کوٹے تک کا
قرضہ لے سکتا ہے لیکن اگر کوئی ملک اس کوٹہ سے زیادہ لینا چاہے تو یہ قرضہ پھر شرائط
کیساتھ ملتا ہے۔ آئی ایم ایف اورجنوبی ایشیا پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ بار imf پروگرام حاصل کر چکا ہےپاکستان = 23 بارسری لنکا = 16بنگلہ دیش = 12افغانستان = 11نیپال = 8انڈیا = 7 (بھارت آخری دفعہ 1993 میں آئی ایم ایف گیا تھا اور 2000 تک اپنے سارے قرضے لوٹا کر خدا حافظ کہہ چکا ہے)کتاب کے مختلف مضامین بتاتے ہیں کہ پاکستان کی پالیسیاں بیرون ملک بنتی ہیں، حکومتیں بیرون ملک بنتی ہیں اور اسٹریٹجک راستے اور قدرتی وسائل مفت یا معمولی نرخوں پر دیے جاتے ہیں۔ 1947 کے بعد جب پاکستان نے ’آزادی‘ حاصل کی تو کچھ بھی نہیں بدلا۔ اور اپنے وسائل اور راستے مفت دینے کے بعد ہم بجٹ سپورٹ کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں۔1958 میں پاکستان پہلی دفعہ گیا۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں آئی ایم ایف سے ضرورت سے زیادہ قرض لینے کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے پیداوار، سرمایہ کاری اور روزگار کی ترقی میں کمی آئی، آمدنی کی تقسیم میں عدم توازن پیدا ہوا، غربت میں اضافہ ہوا، جس کے ملک کے سماجی اور سیاسی تانے بانے پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے۔ یہ کتاب اس بات کو سامنے لاتی ہے کہ کس طرح ریاستی طاقت کا استعمال ریاست کو منہدم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ہمیں 1945 سے پہلے موجود نوآبادیاتی عالمی نظام کی طرف لے جایا جا سکے۔ "آئی ایم ایف کا متبادل" زراعت، صنعت، ادائیگیوں کے توازن کے لیے آؤٹ آف دی باکس حل پیش کرتا ہے۔ عوامی مالیات، قدرتی وسائل، سیاسی معیشت، تعلیم، گورننس، نجکاری اور لبرلائزیشن کے مسائل جو ریاست پاکستان کو متاثر کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے جو حکمت عملی وضع کی گئی ہے ان کا اطلاق ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ وغیرہ کے دیگر ممالک پر ہوتا ہے جنہیں آئی ایم ایف سے قرضے لینے کی وجہ سے اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ میں نے جموں و کشمیر اور افغانستان کے مسائل کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے ہماری معیشت، سیاست اور معاشرت کو شدید متاثر کیا ہے اور ان کے حل کی پیشکش کی ہے۔
ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں گے، ہمیں آئی ایم ایف کے پاس لے جایا گیا۔ آئی ایم ایف پروگرام اصلاحات کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ مواقع اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک تعلق ہے، جس کا بوجھ متوسط اور نچلے طبقے پر پڑتا ہے، پاکستان کو اپنے معاشی مسائل کے حل کیلیے آئی ایم ایف کا متبادل رستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر شاہدہ
پاکستان کا کوٹہ 0.43٪ ہے مگر پاکستان اس سے 200٪ زیادہ قرضہ لینا
چاہ رہا ہے۔ اس لیے پاکستان کو قرضہ سخت شرائط پر ہی ملا ہے۔ ماضی میں پاکستان کو
قرضے کچھ شرائط اور امریکہ کی سفارش کیساتھ ملتے رہے ہیں کیونکہ امریکہ بینک کا سب
بڑا ڈونر اور شئیر 17٪ ہولڈر ہے (جبکہ چائنہ کا 6٪ شئیر ہے) ۔جبکہ اس بار امریکہ نے بجائے سفارش کے الٹا چائنہ کے قرضوں پر اعتراض
کھڑا کر دیا جس سے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا۔
آئی ایم ایف پیکیج کی شرائط
نئے ٹیکسز: 650 ارب
سبسڈی کا
خاتمہ: 700 ارب
روپے کی قدر
فری فلوٹ: ڈالر جہاں تک مرضی جائے
بجلی کی قیمتیں:
25٪ اضافہ
گیس کی قیمتیں:
200٪ اضافہ
نقصان والے
اداروں کی نجکاری
ترقیاتی فنڈ:
زیرو
دوسرے ملکوں کو پاکستان قرضہ کی واپسی موخر کرے جن میں چین کے 19 سعودیہ 3 کے اور دوبئی کے 2 ارب
ڈالرز ہیں۔ تاکہ آئی ایم ایف کی دی گئی رقم چائنہ کے پاس نہ جائے۔
نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں وفاق کا حصہ بڑھانے کے لیے صوبوں سے
مذاکرات کیے جائیں۔
اس کے نتائج
جی ڈی پی
گروتھ: 3.29٪ گذشتہ نو سال کی کم ترین سطح
تک گر جائیگی
غربت: 40
لاکھ نئے غریب پیدا ہوں گے
بیروزگاری:
10 لاکھ مزید بیروزگار پیدا ہوں گے
پاکستانی
کرنسی خطے کی کمزور ترین کرنسی بن چکی ہے جو 155 سے 170 تک گر سکتی ہے
اسٹاک
ایکسچینج 53،000 انڈیکس سے گر کر 33،000 انڈیکس آ چکی ہے
افراط زر
مہنگائی 5.8٪ سے 10٪ تک جا سکتی ہے
شرح سود 15٪
تک جا سکتی ہے
فائدے
آئی ایم ایف
کو اپنا قرضہ بمعہ سود واپس مل جائیگا اور پاکستان کو کچھ اور بینکوں سے بھی قرضے
مل پائیں گئے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔
اب دیکھنا
یہ ہے کہ یہ حکومت کس طرح ان شرئط سے نبٹتی ہے اور اس کے اثرات غربت مہنگائی کساد
بازاری کو زائل کر پاتی ہے۔ اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال پاتی ہے۔ یا دعوے ملین
ٹری میٹرو ایک کروڑ نوکریوں کی طرح دعوے ہی رہیں گے
ہر ممبر ملک
imf کو فنڈ دیتا ہے اور اسی کیمطابق بوقت ضرورت اس سے اپنے کوٹے تک کا
قرضہ لے سکتا ہے لیکن اگر کوئی ملک اس کوٹہ سے زیادہ لینا چاہے تو یہ قرضہ پھر شرائط
کیساتھ ملتا ہے۔
آئی ایم ایف اورجنوبی ایشیا
پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ بار imf پروگرام حاصل کر چکا ہے
پاکستان = 23 بار
سری لنکا = 16
بنگلہ دیش = 12
افغانستان = 11
نیپال = 8
انڈیا = 7 (بھارت آخری دفعہ 1993 میں آئی ایم ایف گیا تھا اور 2000 تک اپنے سارے قرضے لوٹا کر خدا حافظ کہہ چکا ہے)
کتاب کے مختلف مضامین بتاتے ہیں کہ پاکستان کی پالیسیاں بیرون ملک بنتی ہیں، حکومتیں بیرون ملک بنتی ہیں اور اسٹریٹجک راستے اور قدرتی وسائل مفت یا معمولی نرخوں پر دیے جاتے ہیں۔ 1947 کے بعد جب پاکستان نے ’آزادی‘ حاصل کی تو کچھ بھی نہیں بدلا۔ اور اپنے وسائل اور راستے مفت دینے کے بعد ہم بجٹ سپورٹ کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں۔1958 میں پاکستان پہلی دفعہ گیا۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں آئی ایم ایف سے ضرورت سے زیادہ قرض لینے کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے پیداوار، سرمایہ کاری اور روزگار کی ترقی میں کمی آئی، آمدنی کی تقسیم میں عدم توازن پیدا ہوا، غربت میں اضافہ ہوا، جس کے ملک کے سماجی اور سیاسی تانے بانے پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے۔ یہ کتاب اس بات کو سامنے لاتی ہے کہ کس طرح ریاستی طاقت کا استعمال ریاست کو منہدم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ہمیں 1945 سے پہلے موجود نوآبادیاتی عالمی نظام کی طرف لے جایا جا سکے۔ "آئی ایم ایف کا متبادل" زراعت، صنعت، ادائیگیوں کے توازن کے لیے آؤٹ آف دی باکس حل پیش کرتا ہے۔ عوامی مالیات، قدرتی وسائل، سیاسی معیشت، تعلیم، گورننس، نجکاری اور لبرلائزیشن کے مسائل جو ریاست پاکستان کو متاثر کر رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے جو حکمت عملی وضع کی گئی ہے ان کا اطلاق ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ وغیرہ کے دیگر ممالک پر ہوتا ہے جنہیں آئی ایم ایف سے قرضے لینے کی وجہ سے اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ میں نے جموں و کشمیر اور افغانستان کے مسائل کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے ہماری معیشت، سیاست اور معاشرت کو شدید متاثر کیا ہے اور ان کے حل کی پیشکش کی ہے۔
ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں گے، ہمیں آئی ایم ایف کے پاس لے جایا گیا۔ آئی ایم ایف پروگرام اصلاحات کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ مواقع اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک تعلق ہے، جس کا بوجھ متوسط اور نچلے طبقے پر پڑتا ہے، پاکستان کو اپنے معاشی مسائل کے حل کیلیے آئی ایم ایف کا متبادل رستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر شاہدہ
پاکستان کا کوٹہ 0.43٪ ہے مگر پاکستان اس سے 200٪ زیادہ قرضہ لینا
چاہ رہا ہے۔ اس لیے پاکستان کو قرضہ سخت شرائط پر ہی ملا ہے۔
ماضی میں پاکستان کو
قرضے کچھ شرائط اور امریکہ کی سفارش کیساتھ ملتے رہے ہیں کیونکہ امریکہ بینک کا سب
بڑا ڈونر اور شئیر 17٪ ہولڈر ہے (جبکہ چائنہ کا 6٪ شئیر ہے) ۔
جبکہ اس بار امریکہ نے بجائے سفارش کے الٹا چائنہ کے قرضوں پر اعتراض
کھڑا کر دیا جس سے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا۔
آئی ایم ایف پیکیج کی شرائط
نئے ٹیکسز: 650 ارب
سبسڈی کا
خاتمہ: 700 ارب
روپے کی قدر
فری فلوٹ: ڈالر جہاں تک مرضی جائے
بجلی کی قیمتیں:
25٪ اضافہ
گیس کی قیمتیں:
200٪ اضافہ
نقصان والے
اداروں کی نجکاری
ترقیاتی فنڈ:
زیرو
دوسرے ملکوں کو پاکستان قرضہ کی واپسی موخر کرے جن میں چین کے 19 سعودیہ 3 کے اور دوبئی کے 2 ارب
ڈالرز ہیں۔ تاکہ آئی ایم ایف کی دی گئی رقم چائنہ کے پاس نہ جائے۔
دوسرے ملکوں کو پاکستان قرضہ کی واپسی موخر کرے جن میں چین کے 19 سعودیہ 3 کے اور دوبئی کے 2 ارب
ڈالرز ہیں۔ تاکہ آئی ایم ایف کی دی گئی رقم چائنہ کے پاس نہ جائے۔
نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں وفاق کا حصہ بڑھانے کے لیے صوبوں سے
مذاکرات کیے جائیں۔
اس کے نتائج
جی ڈی پی
گروتھ: 3.29٪ گذشتہ نو سال کی کم ترین سطح
تک گر جائیگی
غربت: 40
لاکھ نئے غریب پیدا ہوں گے
بیروزگاری:
10 لاکھ مزید بیروزگار پیدا ہوں گے
پاکستانی
کرنسی خطے کی کمزور ترین کرنسی بن چکی ہے جو 155 سے 170 تک گر سکتی ہے
اسٹاک
ایکسچینج 53،000 انڈیکس سے گر کر 33،000 انڈیکس آ چکی ہے
افراط زر
مہنگائی 5.8٪ سے 10٪ تک جا سکتی ہے
شرح سود 15٪
تک جا سکتی ہے
فائدے
آئی ایم ایف
کو اپنا قرضہ بمعہ سود واپس مل جائیگا اور پاکستان کو کچھ اور بینکوں سے بھی قرضے
مل پائیں گئے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔
اب دیکھنا
یہ ہے کہ یہ حکومت کس طرح ان شرئط سے نبٹتی ہے اور اس کے اثرات غربت مہنگائی کساد
بازاری کو زائل کر پاتی ہے۔ اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال پاتی ہے۔ یا دعوے ملین
ٹری میٹرو ایک کروڑ نوکریوں کی طرح دعوے ہی رہیں گے
No comments:
Post a Comment