Translate

Showing posts with label معیشت. Show all posts
Showing posts with label معیشت. Show all posts

Saturday, June 25, 2022

China Economic Friend or Trade Enemy of Pakistan?

 چین معاشی دوست یا تجارتی دشمن؟

 فروری 2009ء میں پاکستان اور چین نے آزاد تجارتی معاہدہ کیا جس سے دونوں ممالک کی تجارت جو 2002ء میں صرف 1.3ارب ڈالر تھی، 2020ء میں بڑھ کر 20ارب ڈالر تک پہنچ گئی جس میں چین سے پاکستان کو 18 ارب ڈالر اور پاکستان سے چین کو 2 ارب ڈالر کی ایکسپورٹس ہوئیں۔ اس معاہدے سے چین نے 60 فیصد اور پاکستان نے صرف 4فیصد فائدہ اٹھایا لیکن پاک چین FTA کے دوسرے مرحلے میں چین نے پاکستان کو 363 اشیاء ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی اجازت دی ہے جس سے 2021ء میں دونوں ممالک کی تجارت بڑھ کر 27.82 ارب ڈالر ہوگئی جس میں چین سے پاکستان ایکسپورٹ 24.23ارب ڈالر اور پاکستان سے چین ایکسپورٹ 69 فیصد اضافے سے 3.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔



چینی قرضے

سنہ 2000 سے لے کر سنہ 2017 تک چین نے پاکستان کو 34 ارب 40 کروڑ ڈالرز کا قرض دیا ہے، سی پیک سے قبل سنہ 2002 سے 2012 کے دوران ، چین سے 84 فیصد قرضہ پاکستان میں مرکزی حکومتی اداروں کو دیا گیا تھا۔ لیکن چین نے سی پیک کے منصوبے کے اعلان کے بعد حکمت عملی بدلتے ہوئے وفاقی حکومت کے علاوہ بھی حکومتی اداروں کو قرض دیا۔



چین پاکستان اقتصادی راہدری یعنی سی پیک کی مد میں دی گئی 90 فیصد رقم قرضوں می شکل میں ہے اور پاکستانی حکومت پر ذمہ داری ہے کہ وہ ان قرضوں کو سالانہ 3.76 فیصد کی اوسط سود کے ساتھ ادا کرے۔ 



چینی قرضوں کی شرح سود عموماً 4 فیصد کے قریب ہوتی ہے جو بینکوں کی شرح سود کے برابر ہے تاہم عالمی بینک یا فرانس اور جرمنی جیسے ممالک کے قرضوں سے چار گنا زیادہ ہے۔

اسی طرح عالمی سطح پر دیکھا جائے تو چینی قرضہ لوٹانے کی مدت بھی عموماً کم ہوتی ہے یعنی اکثر دس برس سے کم۔ اس کے مقابلے میں دیگر ادارے یا ممالک ترقی پزیر ممالک کو جو ریاعتی قرضے دیتے ہیں وہ 28 برس کے لیے ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ چین کے سرکاری بینک وغیرہ جو قرض دیتے ہیں اس میں یہ شرط شامل ہوتی ہے کہ قرض لینے والا ملک کسی آف شور اکاؤنٹ میں کم از کم اتنی رقم ضرور رکھے گا، جو چین قرض نہ لوٹانے کی صورت میں نکلوا سکتا ہو۔

پاکستان نے مارچ میں 2.3 ارب ڈالرز چین کو قرض واپس کر دیا تھا۔ جون کے مہینے میں دوبارہ وہی قرض لیا جا رہا ہے۔ اس کی شرائط بھی زیادہ سخت ہیں۔ چین نے پاکستان کو پابند کیا ہے کہ قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں رہنا ضروری ہے۔ ورلڈ بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک کے بعد پاکستان نے سب سے زیادہ قرض چین سے لے رکھا ہے، جس کے سود کی ادائیگی بروقت کی جا رہی ہے۔

 

اورنج لائن اور سی پیک جیسے پراجیکٹس کے قرضے بڑے مہنگے ثابت ہوئے ہیں اور اس طرح کے پراجیکٹس کی 'مینٹیننس کاسٹ' یا دیکھ بھال کی لاگت بہت زیادہ ہوتی ہے جو کہ شرح سود سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اور یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ان بڑے منصوبوں سے ہم کتنا اور کب کمائیں گے۔ 

اورنج لائن ٹرین 1.6 ارب ڈالر کی لاگت میں آدھا قرض چین سے حاصل کیا گیا ہے، پنجاب حکومت 2024 سے 2036 تک اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کا قرض ادا کرے گی۔ پنجاب حکومت 12 سال تک سالانہ 19 ارب پہلی ملکی لائٹ ریل کے قرض پر سود کے طور پر ادا کرے گی۔ اندرونی و بیرونی قرضوں میں اتار چڑھاؤ سے اورنج  ٹرین کی قسط میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اورنج ٹرین کے قرض کی قسط 17 ارب روپے سے بڑھ کر 20 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔  اورنج ٹرین کے لئے 165 ارب روپے کے قرض کی ادائیگی تلوار بن کر لٹکنے لگی۔  اگر ہم میٹرو کا ٹکٹ 240 روپے رکھیں تو بھی ہم بڑی مشکل سے قسطیں ادا کرسکیں گے‘ ہم 20 روپے چارج کر کے قرضہ کیسے ادا کریں گے؟

 پاکستان کو ملک چلانے کے لیے اگلے سال تقریباً 41 ارب ڈالر قرض لینے ہوں گے اور اگر اسی طرز پر معیشت چلائی گئی تو دو سالوں میں یہ ڈیمانڈ 80 ارب ڈالر سے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ ان حالات میں چین کی جانب سے پاکستان کو اصلاحات کروائے بغیر قرض دینا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ اس وقت پاکستان پر قرضوں کا سب سے بڑا بوجھ چین کے قرضوں کا ہے


چین سے ملنے والے قرض پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں۔ چین کے باقی دنیا کی نسبت پاکستان کے ساتھ کیے گئے معاہدے زیادہ سخت ہیں۔ مارچ کے مہینے میں پاکستان کے مشکل حالات کے باوجود چین نے پاکستان سے قرض واپس لیا تھا۔ چینی قرضوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جس مقصد کے لیے قرض دیے جاتے ہیں اس کے نتائج دیکھے بغیر اگلا قرض دے دیا جاتا ہے جو  کرپشن اور مس مینجمنٹ کا باعث بن رہے ہیں

آئی ایم ایف اور CPEC

آئی ایم ایف میں 25 فیصد شیئر امریکہ کا ہے اس لیے ہر کام میں ان کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔

آئی ایم ایف کی سود کی شرح یا ریٹ آف انٹرسٹ بہت کم ہوتا ہے، تقریباً ایک فیصد۔ وہ قرضوں کی واپسی میں زیادہ سے زیادہ چار سال تک کی چھوٹ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف صورت حال کو دیکھتے ہوئے ان کا قرضوں کی واپسی کا عرصہ بھی بہت لمبا ہوتا ہے

آئی ایم ایف کا قرضہ بنیادی طور پر بیلنس آف پیمنٹ (ادائیگی کے توازن) کے لیے ہوتا ہے۔ بیلنس آف پیمنٹ کی مشکلات اس وقت ہی دور ہوں گی جب ہماری برآمدات بڑھیں گی اور ہماری قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت میں بہتری آئے گی۔

پاکستان میں سنہ 1980 سے آئی ایم ایف کے 14 مالی پروگرام چل چکے ہیں جن میں سنہ 2013 میں تین سال کے لیے لیا جانے والا 6.7 ارب ڈالر کا قرض بھی شامل ہے۔



ازراہ تفنن: سب سے پہلے آئی ایم ایف جانے کا شرف محترم عظیم لیڈر جناب ایوب کو حاصل ہوا. اس کے بعد تو جیسے پاکستانی جغادری لٹیرے سیاستدانوں کے ہاتھ خفیہ خزانہ لگ گیا. جب بھی ڈالرز کی ضرورت محسوس ہوئی ملک میں معاشی اصلاحات کرنے کی بجائے آئی ایم ایف سے الٹی سیدھی شرائط پر ڈالرز پکڑے اپنی حکومت کے ڈنگ ٹپائے اور پھر اگلی آنیوالی حکومت جانے اور آئی ایم ایف کی شرائط جانیں. یہ ملک 64 سال سے قرضوں کی بیساکھیوں پر چل رہا ہے اور اب تو آئی ایم ایف جانا اور ڈالرز حاصل کر لینا باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کا کوئی عظیم چیمپین لیڈر بھی آئی ایم ایف کے کلرکوں کے جوتوں کی خاک برابر نہیں" 

آئی ایم ایف کے مطابق چینی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ قرضہ 23 ارب ڈالر ہے جبکہ چینی کمرشل بینکوں کی جانب سے فراہم کردہ قرضہ تقریباً 7 ارب ڈالر ہے۔

حقیقت میں اصل دوست آئی ایم ایف ہے نہ کہ چین۔ اگر ملک میں چھ ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا ہو رہا ہے تو وہ آئی ایم ایف ہی کی بدولت ہے۔ پاکستان کو چین سے لیے گئے مہنگے قرضوں اور معاہدوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ 

 آئی ایم ایف چین کے قرضوں کے حوالے سے ماضی میں بھی اعتراضات کرتا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے چینی آئی پی پیز کو 50 ارب روپے کی ادائیگی پر آئی ایم ایف نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف اگلے مرحلے میں پاکستان پر چین سے مزید قرض لینے پر پابندی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس سے پاکستان کے لیے وقتی طور پر مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں لیکن اس سے معاشی سمت درست ہونے میں مدد مل سکتی ہے

چین پاکستان کے ساتھ دوستی کا دعویدار ہے لیکن حقیقت میں پاکستان اس کے قرضوں کے بوجھ میں جکڑ گیا ہے۔ سری لنکا کے ڈیفالٹ کرنے کی ایک بڑی وجہ چینی کمرشل قرضے بھی ہیں۔ پاکستان کا چین پر بڑھتا ہوا انحصار پاکستان کو سری لنکا جیسی صورت حال سے دو چار کر سکتا ہے۔

قرضوں کے اثرات اور نتائج

مسئلہ قرضوں کا نہیں مسئلہ یہ ہے کہ ہماری قرضے کو سروس یا ادا کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات نہیں بڑھ رہیں اور ہم نے اس کی طرف توجہ بھی نہیں دی اور مہنگے قرضے لیے۔ ہمارا ڈیٹ لیول یونان کے مقابلے میں بہت کم ہے ان کا تقریباً 300 فیصد تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال جاپان ہے جس کا ڈیٹ لیول تقریباً 250 فیصد کے قریب ہے۔ مسئلہ زیادہ قرضوں کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ ہم نے قرض لے کر منافع بخش منصوبوں میں لگانے کی بجائے سیاسی پروجیکٹز اور اپنی عیاشیوں میں اڑا دیے۔

نوٹ: درج بالا حقائق مختلف سورسز سے کاپی کیے گئے ہیں،

https://www.independenturdu.com/node/115626
https://cpec.punjab.gov.pk/urdu/faqs
https://cpecinfo.com/%D8%B3%DB%8C-%D9%BE%DB%8C%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B3%D8%A7%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%D8%B5%D9%88%D9%84/
https://urdu.geo.tv/latest/277490-
https://www.independenturdu.com/node/110536
https://www.dawnnews.tv/news/1049873

Wednesday, May 5, 2021

Karl Marx


 کارل مارکس

آج بتاریخ  مئی 1818 سائنسی اشتراکیت کا بانی کارل مارکس ایک بہ نسبت خوشحال گھرانے میں جرمنی میں پیدا ہوا، جس کے پیش کردہ اینٹی سرمایہ دارنہ نظام نے بیسویں صدی میں دنیا کو دو نہجوں پر پہنچا دیا، کارل شاید بیسویں صدی میں ڈسکس کی جانیوالی سب سے بڑی ہستی رہی ہے، آج بھی کارل کے کم سے کم ڈیڑھ دو ارب تو معتقد ہوں گے ہی،



کارل کے خیال میں تمام فلسفیوں نے اب تک دنیا کی فقط تشریحات ہی کی تھیں جبکہ اصل مسئلہ اس دنیا کو تبدیل کرنے کا ہے، اس سلسلے میں (اقتصادیات میں) اس کے دوست فریڈرک اینگلز نے اس کی مدد کی، یہاں فریڈرک اینگلز کا تذکرہ نہ کرنا بڑی زیادتی ہو گی۔

اینگلز ایک دولت مند صنعتکار کا بیٹا تھا، ینگلز 28نومبر1820ءکو بارمن میں پیدا ہوا۔ اس کا خاندان مذہباً پروٹسٹنٹ تھا۔ اینگلز باپ کے ساتھ اس کے بزنس کو تو سنبھال رہا تھا ، مگر کہتا اسے ”کتے کی زندگی“ تھا۔ 20سال کی عمر ہی میں وہ مذہب سے بےزار ہو گیا۔ اس نے صحافت میں قسمت آزمائی کی مگر معاشی ضروریات سے مجبور ہو کر دوبارہ بزنس کی طرف لوٹ آیا۔ 50 سال کی عمر تک وہ اچھا خاصا سرمایہ دار بن چکا تھا اور اپنے خاندان کے علاوہ مارکس کے خاندان کو بھی سپورٹ کرتا تھا۔ اس کا مطالعہ وسیع تھا۔ بارہ زبانوں کا ماہر تھا۔ انگریزی وہ اہل زبان کی مانند بولتا تھا، فارسی سیکھنے میں اسے صرف3 دن لگے،
مارکس کوکیمونزم کی طرف حقیقی طور پر موڑنے کی ذمہ داری 24سالہ فریڈرک اینگلز پر ہی عائد ہوتی ہے۔ 

 

کارل نے معاشیات کو عقل کی بجائے احساس پر استوار کرنے کی سچے دل سے کوشش کی، 

کارل مارکس دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے سرمایہ دارانہ نظام کی تیز رفتار پیداوار کا مقابلہ کرنے کے لیے کمیونزم کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کی(گو کارل نے سوشلزم کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کا دعویٰ کیا مگر سوشلزم سائنسی اصولوں پر پورا نہیں اترتا جیسا کہ مارکس کے نظریات میں سائنسی بنیادوں پر سوشلزم کے نفاذ اور بعد از اثرات کی بالکل درست پیش گوئی دستیاب نہیں ہے). 

کارل مارکس سے پہلے سوشلزم محض اخلاقی نظام تھا، مارکس نے اس کو عملی بنیادوں پر استوار کرنے کا نظام پیش کیا، مارکس کی خود کی زندگی ٹیلنٹ اور پذیرائی میں فرق کی بھرپور عکاس تھی جس کو ایک مساواتی نظام یعنی کمیونزم سے ہی ختم کیا جا سکتا تھا. کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کی بے رحمی اور خود غرضی کا اپنی ذاتی زندگی پر مبنی عملی نمونہ پیش کیا. 

کارل کے مشاہدے کا یورپ دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی کی اٹھان کا دور تھا (مرکنٹائل ازم سے سرمایہ داری )، یہی دور تھا جب لوگ تیزی سے امیر ہورہے تھے اور سرمایہ دار طبقہ بن رہا تھا، ایک ایلیٹ کلاس جو اپنے سرمایے کے بل بوتے پر اپنے منافع کے لیے بشمول ریاست کے ہرادارے کو استعمال کرسکتی تھی، تو دوسری طرف بالکل الٹ طرف مزدور طبقے کی محرومیوں اور بے بسی میں مزید اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا، 

انڈسٹریلائزیشن ( مشینی صنعت کاری نے روایتی ہنرمندی کے پیمانے بدل دیے اور روایتی اسلوب والا طبقہ بری طرح متاثر اور خفا ہوا اور کارل کا موضوع بھی یہی طبقہ ہے، کارل کے بقول جس طرح مسیح علیہ السلام انسانوں کا مذہبی ذمہ اٹھاتے ہیں عین اسی طرح شہری کی تمام ضروریات ریاست اپنے سر اٹھاتی ہے) کے پروان نے تیز رفتار ترقی کے حامل نو دولتیے پیدا کیے تھے، اور ساتھ ہی ساتھ اس نظام میں گھسٹتے مزدور بھی،متوسط ہنر مند طبقہ سرمایہ دار کا دست و بازو بن کر سہولیات سمیٹ رہا تھا تو غیر ہنرمند طبقہ اس سے مزید کمزور ہوتا چلا جا رہا تھا، یعنی طبقاتی تقسیم بڑھتی چلی جا رہی تھی، مارکس کو لگا تیزی سے ترقی کرتے امیر لوگ ساری دنیا کے معاشی نظام کے مالک بن جائیں گے، جس میں وہ اپنے منافع کے فیصلے  (کارٹلائزیشن) کریں گے ( سرمایہ دار جب بھی مل بیٹھتے ہیں تو اپنے منافع کی کوئی نئی سازش تیار کرتے ہیں : آدم سمتھ 1776)، وہ اپنی مرضی کی دنیا تخلیق کریں گے جس کی بنیاد ہوس لالچ اور منافع پر ہو گی جو زیادہ ڈیمانڈ اور من پسند سپلائی کو بنائے رکھے گی سرمایہ دار اس دنیا کا ناخدا بن بیٹھے گا جو اپنے فائدے کے لیے دنیا کو کسی بھی جوکھم میں دھکیل دے گا اور ایسا کرتے ہوئے وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں ایسا کرنے دو یا پھر ہمیں تنہا چھوڑ دو(لیسز فئیر)،

مجھ سے نفع کے بارے میں بات نہ کرو، جیہ، یہ ایک گندا لفظ ہے۔
پنڈت جواہر لعل نہرو انڈیا کے پہلے وزیراعظم تھے، وہ کافی حد تک سوشلزم کی طرف جھکاو رکھتے تھے، انھوں نے شروع میں ہی بڑی انڈسٹریوں کو نیشنلائز کر لیا، نہرو نے سٹیٹ اونڈ اکانومی کو بڑھاوا دیا، مگر انڈیا کی اکانومی پھل پھول نہ سکی، حتیٰ کہ 1990 میں انڈیا دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ تب انڈیا نے معاشی اصلاحات کیں جن کے تحت لائسنس راج ختم کردیا گیا اور سٹیٹ اونرشپ کی بجائے لبرلڈ پبلک سیکٹر نجی کاری کو اپنایا گیا۔ ان اصلاحات کے فوری اور بہتر نتائج برآمد ہوئے
2.5 سال کے اندر مہنگائی اگست 1991 میں 17 فیصد کی چوٹی سے گر کر تقریباً 8.5 فیصد رہ گئی۔
زرمبادلہ کے ذخائر جون 1991 میں 1.2 بلین ڈالر سے بڑھ کر 1994 میں تقریباً 15 بلین ڈالر ہو گئے۔
جی ڈی پی کی شرح نمو 1991-1992 میں 1.1 فیصد سے بڑھ کر 1992-1993 میں 4 فیصد ہوگئی
مالیاتی خسارہ 1990-1991 میں 8.4% سے کم ہو کر 1992-1993 میں 5.7% ہو گیا۔
1990-1991 اور 1993-1994 کے درمیان برآمدات تقریباً دوگنی ہو گئیں۔
اس کے بعد انڈیا نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اس کو دوبارہ کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑا۔

آج گرچہ کارل کے اکثر نظریات اور پیشن گوئیاں وقت نے غلط ثابت کردی ہیں. سوشلزم سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ لینے میں ناکام رہا ہے، 

جہاں کمیونزم کا تجربہ کیا گیا وہاں پر دکانوں پر لوگوں کی لائنیں لگی دیکھی گئی اور کمیونزم کو طنزا" قلت کا معیشت کا نام دیا گیا.  اور کئی ملکوں میں کارل کے نام پر نافذ کیا گیا (اپنے اپنے انداز میں) نظام فیل ہوگیا (کچھ ممالک جیساکہ چین نے کمیونزم میں ردوبدل کی جس کو کمیونزم 2.0 کا نام دیا گیا، جس سے چین نے حیران کن تیز رفتار ترقی کی) مگر پھر بھی کارل کا پیش کردہ نظام سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ہر دور میں چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے جب جب سرمایہ دارانہ نظام پے  برا وقت آئیگا کارل پھر سے یاد آئے گا، سرمایہ دارانہ نظام آزاد منڈی کے تحت سرحدوں کی پابندیوں سے ماورا خود بنتا بگڑتا رہتا ہے جیسے کوئی غیر مرئی قوت اسے چلا رہی ہو، مگر غیر مرئی ہاتھ کی توجیح یہ ہے کہ وہاں کوئی غیر مرئی ہاتھ تھا ہی نہیں : جوزف اسٹگلیز

وہ وقت دور نہیں جب دنیا کو سوشلزم 15٪ اور کیپٹلزم 85٪ کو جوڑ کے دیکھنا ہو گا۔ اور یہی کارل کی فتح ہو گی،


حوالہ جات:

کیا آپ اس مارکس کو جانتے ہیں؟ (پہلا حصہ)

کمیونزم 2.0: چین، سرمایہ دارانہ نظام اور نئے سوشلزم کی مقبولیت

کارل مارکس اور سرمایہ دارانہ نظام

کمیونزم ، کیپٹلزم اور سوشلزم کے درمیان فرق

کیا آئی ٹی کی صنعت ملکی معیشت کو سہارا دے سکتی ہے؟


Reference: 

Reform or Revolution

Thursday, June 20, 2019

IMF & PAKISTAN, BAILOUT PACKAGE 2019 in Urdu

آئی ایم ایف اور پاکستان
ہر ممبر ملک imf کو فنڈ دیتا ہے اور اسی کیمطابق بوقت ضرورت اس سے اپنے کوٹے تک کا قرضہ لے سکتا ہے لیکن اگر کوئی ملک اس کوٹہ سے زیادہ لینا چاہے تو یہ قرضہ پھر شرائط کیساتھ ملتا ہے۔ 
آئی ایم ایف اورجنوبی ایشیا 
پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ بار imf پروگرام حاصل کر چکا ہے
پاکستان = 23 بار
سری لنکا = 16
بنگلہ دیش = 12
افغانستان = 11
نیپال = 8
انڈیا = 7 (بھارت آخری دفعہ 1993 میں آئی ایم ایف گیا تھا اور 2000 تک اپنے سارے قرضے لوٹا کر خدا حافظ کہہ چکا ہے)
کتاب کے مختلف مضامین بتاتے ہیں کہ پاکستان کی پالیسیاں بیرون ملک بنتی ہیں، حکومتیں بیرون ملک بنتی ہیں اور اسٹریٹجک راستے اور قدرتی وسائل مفت یا معمولی نرخوں پر دیے جاتے ہیں۔  1947 کے بعد جب پاکستان نے ’آزادی‘ حاصل کی تو کچھ بھی نہیں بدلا۔  اور اپنے وسائل اور راستے مفت دینے کے بعد ہم بجٹ سپورٹ کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں۔1958 میں پاکستان پہلی دفعہ گیا۔  1980 کی دہائی کے آخر میں آئی ایم ایف سے ضرورت سے زیادہ قرض لینے کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے پیداوار، سرمایہ کاری اور روزگار کی ترقی میں کمی آئی، آمدنی کی تقسیم میں عدم توازن پیدا ہوا، غربت میں اضافہ ہوا، جس کے ملک کے سماجی اور سیاسی تانے بانے پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے۔  یہ کتاب اس بات کو سامنے لاتی ہے کہ کس طرح ریاستی طاقت کا استعمال ریاست کو منہدم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ہمیں 1945 سے پہلے موجود نوآبادیاتی عالمی نظام کی طرف لے جایا جا سکے۔ "آئی ایم ایف کا متبادل" زراعت، صنعت، ادائیگیوں کے توازن کے لیے آؤٹ آف دی باکس حل پیش کرتا ہے۔  عوامی مالیات، قدرتی وسائل، سیاسی معیشت، تعلیم، گورننس، نجکاری اور لبرلائزیشن کے مسائل جو ریاست پاکستان کو متاثر کر رہے ہیں۔  پاکستان کے لیے جو حکمت عملی وضع کی گئی ہے ان کا اطلاق ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ وغیرہ کے دیگر ممالک پر ہوتا ہے جنہیں آئی ایم ایف سے قرضے لینے کی وجہ سے اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔  میں نے جموں و کشمیر اور افغانستان کے مسائل کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے ہماری معیشت، سیاست اور معاشرت کو شدید متاثر کیا ہے اور ان کے حل کی پیشکش کی ہے۔
ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں گے، ہمیں آئی ایم ایف کے پاس لے جایا گیا۔  آئی ایم ایف پروگرام اصلاحات کے بارے میں نہیں ہے۔  بلکہ یہ مواقع اور آئی ایم ایف کے درمیان ایک تعلق ہے، جس کا بوجھ متوسط ​​اور نچلے طبقے پر پڑتا ہے، پاکستان کو اپنے معاشی مسائل کے حل کیلیے آئی ایم ایف کا متبادل رستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر شاہدہ
پاکستان کا کوٹہ 0.43٪ ہے مگر پاکستان اس سے 200٪ زیادہ قرضہ لینا چاہ رہا ہے۔ اس لیے پاکستان کو قرضہ سخت شرائط پر ہی ملا ہے۔ 
ماضی میں پاکستان کو قرضے کچھ شرائط اور امریکہ کی سفارش کیساتھ ملتے رہے ہیں کیونکہ امریکہ بینک کا سب بڑا ڈونر اور شئیر 17٪ ہولڈر ہے (جبکہ چائنہ کا 6٪ شئیر ہے) ۔
جبکہ اس بار امریکہ نے بجائے سفارش کے الٹا چائنہ کے قرضوں پر اعتراض کھڑا کر دیا جس سے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا۔
 آئی ایم ایف پیکیج  کی  شرائط 
 نئے ٹیکسز: 650 ارب
سبسڈی کا خاتمہ: 700 ارب
روپے کی قدر فری فلوٹ: ڈالر جہاں تک مرضی جائے
بجلی کی قیمتیں: 25٪ اضافہ
گیس کی قیمتیں: 200٪ اضافہ
نقصان والے اداروں کی نجکاری
ترقیاتی فنڈ: زیرو  
 دوسرے ملکوں کو  پاکستان  قرضہ  کی واپسی موخر کرے جن  میں  چین  کے 19 سعودیہ 3 کے اور دوبئی کے 2 ارب 
ڈالرز  ہیں۔  تاکہ  آئی  ایم  ایف  کی  دی  گئی  رقم  چائنہ  کے  پاس  نہ  جائے۔
نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں وفاق کا حصہ بڑھانے کے لیے صوبوں سے مذاکرات کیے جائیں۔
اس کے نتائج
جی ڈی پی گروتھ:  3.29٪ گذشتہ نو سال کی کم ترین سطح تک گر جائیگی
غربت: 40 لاکھ نئے غریب پیدا ہوں گے
بیروزگاری: 10 لاکھ مزید بیروزگار پیدا ہوں گے
پاکستانی کرنسی خطے کی کمزور ترین کرنسی بن چکی ہے جو 155 سے 170 تک گر سکتی ہے
اسٹاک ایکسچینج 53،000 انڈیکس سے گر کر 33،000 انڈیکس آ چکی ہے
افراط زر مہنگائی 5.8٪ سے 10٪ تک جا سکتی ہے
شرح سود 15٪ تک جا سکتی ہے

فائدے
آئی ایم ایف کو اپنا قرضہ بمعہ سود واپس مل جائیگا اور پاکستان کو کچھ اور بینکوں سے بھی قرضے مل پائیں گئے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ حکومت کس طرح ان شرئط سے نبٹتی ہے اور اس کے اثرات غربت مہنگائی کساد بازاری کو زائل کر پاتی ہے۔ اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال پاتی ہے۔ یا دعوے ملین ٹری میٹرو ایک کروڑ نوکریوں کی طرح دعوے ہی رہیں گے