Translate

Saturday, June 25, 2022

China Economic Friend or Trade Enemy of Pakistan?

 چین معاشی دوست یا تجارتی دشمن؟

 فروری 2009ء میں پاکستان اور چین نے آزاد تجارتی معاہدہ کیا جس سے دونوں ممالک کی تجارت جو 2002ء میں صرف 1.3ارب ڈالر تھی، 2020ء میں بڑھ کر 20ارب ڈالر تک پہنچ گئی جس میں چین سے پاکستان کو 18 ارب ڈالر اور پاکستان سے چین کو 2 ارب ڈالر کی ایکسپورٹس ہوئیں۔ اس معاہدے سے چین نے 60 فیصد اور پاکستان نے صرف 4فیصد فائدہ اٹھایا لیکن پاک چین FTA کے دوسرے مرحلے میں چین نے پاکستان کو 363 اشیاء ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی اجازت دی ہے جس سے 2021ء میں دونوں ممالک کی تجارت بڑھ کر 27.82 ارب ڈالر ہوگئی جس میں چین سے پاکستان ایکسپورٹ 24.23ارب ڈالر اور پاکستان سے چین ایکسپورٹ 69 فیصد اضافے سے 3.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔



چینی قرضے

سنہ 2000 سے لے کر سنہ 2017 تک چین نے پاکستان کو 34 ارب 40 کروڑ ڈالرز کا قرض دیا ہے، سی پیک سے قبل سنہ 2002 سے 2012 کے دوران ، چین سے 84 فیصد قرضہ پاکستان میں مرکزی حکومتی اداروں کو دیا گیا تھا۔ لیکن چین نے سی پیک کے منصوبے کے اعلان کے بعد حکمت عملی بدلتے ہوئے وفاقی حکومت کے علاوہ بھی حکومتی اداروں کو قرض دیا۔



چین پاکستان اقتصادی راہدری یعنی سی پیک کی مد میں دی گئی 90 فیصد رقم قرضوں می شکل میں ہے اور پاکستانی حکومت پر ذمہ داری ہے کہ وہ ان قرضوں کو سالانہ 3.76 فیصد کی اوسط سود کے ساتھ ادا کرے۔ 



چینی قرضوں کی شرح سود عموماً 4 فیصد کے قریب ہوتی ہے جو بینکوں کی شرح سود کے برابر ہے تاہم عالمی بینک یا فرانس اور جرمنی جیسے ممالک کے قرضوں سے چار گنا زیادہ ہے۔

اسی طرح عالمی سطح پر دیکھا جائے تو چینی قرضہ لوٹانے کی مدت بھی عموماً کم ہوتی ہے یعنی اکثر دس برس سے کم۔ اس کے مقابلے میں دیگر ادارے یا ممالک ترقی پزیر ممالک کو جو ریاعتی قرضے دیتے ہیں وہ 28 برس کے لیے ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ چین کے سرکاری بینک وغیرہ جو قرض دیتے ہیں اس میں یہ شرط شامل ہوتی ہے کہ قرض لینے والا ملک کسی آف شور اکاؤنٹ میں کم از کم اتنی رقم ضرور رکھے گا، جو چین قرض نہ لوٹانے کی صورت میں نکلوا سکتا ہو۔

پاکستان نے مارچ میں 2.3 ارب ڈالرز چین کو قرض واپس کر دیا تھا۔ جون کے مہینے میں دوبارہ وہی قرض لیا جا رہا ہے۔ اس کی شرائط بھی زیادہ سخت ہیں۔ چین نے پاکستان کو پابند کیا ہے کہ قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں رہنا ضروری ہے۔ ورلڈ بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک کے بعد پاکستان نے سب سے زیادہ قرض چین سے لے رکھا ہے، جس کے سود کی ادائیگی بروقت کی جا رہی ہے۔

 

اورنج لائن اور سی پیک جیسے پراجیکٹس کے قرضے بڑے مہنگے ثابت ہوئے ہیں اور اس طرح کے پراجیکٹس کی 'مینٹیننس کاسٹ' یا دیکھ بھال کی لاگت بہت زیادہ ہوتی ہے جو کہ شرح سود سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اور یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ان بڑے منصوبوں سے ہم کتنا اور کب کمائیں گے۔ 

اورنج لائن ٹرین 1.6 ارب ڈالر کی لاگت میں آدھا قرض چین سے حاصل کیا گیا ہے، پنجاب حکومت 2024 سے 2036 تک اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کا قرض ادا کرے گی۔ پنجاب حکومت 12 سال تک سالانہ 19 ارب پہلی ملکی لائٹ ریل کے قرض پر سود کے طور پر ادا کرے گی۔ اندرونی و بیرونی قرضوں میں اتار چڑھاؤ سے اورنج  ٹرین کی قسط میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اورنج ٹرین کے قرض کی قسط 17 ارب روپے سے بڑھ کر 20 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔  اورنج ٹرین کے لئے 165 ارب روپے کے قرض کی ادائیگی تلوار بن کر لٹکنے لگی۔  اگر ہم میٹرو کا ٹکٹ 240 روپے رکھیں تو بھی ہم بڑی مشکل سے قسطیں ادا کرسکیں گے‘ ہم 20 روپے چارج کر کے قرضہ کیسے ادا کریں گے؟

 پاکستان کو ملک چلانے کے لیے اگلے سال تقریباً 41 ارب ڈالر قرض لینے ہوں گے اور اگر اسی طرز پر معیشت چلائی گئی تو دو سالوں میں یہ ڈیمانڈ 80 ارب ڈالر سے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ ان حالات میں چین کی جانب سے پاکستان کو اصلاحات کروائے بغیر قرض دینا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ اس وقت پاکستان پر قرضوں کا سب سے بڑا بوجھ چین کے قرضوں کا ہے


چین سے ملنے والے قرض پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں۔ چین کے باقی دنیا کی نسبت پاکستان کے ساتھ کیے گئے معاہدے زیادہ سخت ہیں۔ مارچ کے مہینے میں پاکستان کے مشکل حالات کے باوجود چین نے پاکستان سے قرض واپس لیا تھا۔ چینی قرضوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جس مقصد کے لیے قرض دیے جاتے ہیں اس کے نتائج دیکھے بغیر اگلا قرض دے دیا جاتا ہے جو  کرپشن اور مس مینجمنٹ کا باعث بن رہے ہیں

آئی ایم ایف اور CPEC

آئی ایم ایف میں 25 فیصد شیئر امریکہ کا ہے اس لیے ہر کام میں ان کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔

آئی ایم ایف کی سود کی شرح یا ریٹ آف انٹرسٹ بہت کم ہوتا ہے، تقریباً ایک فیصد۔ وہ قرضوں کی واپسی میں زیادہ سے زیادہ چار سال تک کی چھوٹ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف صورت حال کو دیکھتے ہوئے ان کا قرضوں کی واپسی کا عرصہ بھی بہت لمبا ہوتا ہے

آئی ایم ایف کا قرضہ بنیادی طور پر بیلنس آف پیمنٹ (ادائیگی کے توازن) کے لیے ہوتا ہے۔ بیلنس آف پیمنٹ کی مشکلات اس وقت ہی دور ہوں گی جب ہماری برآمدات بڑھیں گی اور ہماری قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت میں بہتری آئے گی۔

پاکستان میں سنہ 1980 سے آئی ایم ایف کے 14 مالی پروگرام چل چکے ہیں جن میں سنہ 2013 میں تین سال کے لیے لیا جانے والا 6.7 ارب ڈالر کا قرض بھی شامل ہے۔



ازراہ تفنن: سب سے پہلے آئی ایم ایف جانے کا شرف محترم عظیم لیڈر جناب ایوب کو حاصل ہوا. اس کے بعد تو جیسے پاکستانی جغادری لٹیرے سیاستدانوں کے ہاتھ خفیہ خزانہ لگ گیا. جب بھی ڈالرز کی ضرورت محسوس ہوئی ملک میں معاشی اصلاحات کرنے کی بجائے آئی ایم ایف سے الٹی سیدھی شرائط پر ڈالرز پکڑے اپنی حکومت کے ڈنگ ٹپائے اور پھر اگلی آنیوالی حکومت جانے اور آئی ایم ایف کی شرائط جانیں. یہ ملک 64 سال سے قرضوں کی بیساکھیوں پر چل رہا ہے اور اب تو آئی ایم ایف جانا اور ڈالرز حاصل کر لینا باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کا کوئی عظیم چیمپین لیڈر بھی آئی ایم ایف کے کلرکوں کے جوتوں کی خاک برابر نہیں" 

آئی ایم ایف کے مطابق چینی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ قرضہ 23 ارب ڈالر ہے جبکہ چینی کمرشل بینکوں کی جانب سے فراہم کردہ قرضہ تقریباً 7 ارب ڈالر ہے۔

حقیقت میں اصل دوست آئی ایم ایف ہے نہ کہ چین۔ اگر ملک میں چھ ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا ہو رہا ہے تو وہ آئی ایم ایف ہی کی بدولت ہے۔ پاکستان کو چین سے لیے گئے مہنگے قرضوں اور معاہدوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ 

 آئی ایم ایف چین کے قرضوں کے حوالے سے ماضی میں بھی اعتراضات کرتا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے چینی آئی پی پیز کو 50 ارب روپے کی ادائیگی پر آئی ایم ایف نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف اگلے مرحلے میں پاکستان پر چین سے مزید قرض لینے پر پابندی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس سے پاکستان کے لیے وقتی طور پر مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں لیکن اس سے معاشی سمت درست ہونے میں مدد مل سکتی ہے

چین پاکستان کے ساتھ دوستی کا دعویدار ہے لیکن حقیقت میں پاکستان اس کے قرضوں کے بوجھ میں جکڑ گیا ہے۔ سری لنکا کے ڈیفالٹ کرنے کی ایک بڑی وجہ چینی کمرشل قرضے بھی ہیں۔ پاکستان کا چین پر بڑھتا ہوا انحصار پاکستان کو سری لنکا جیسی صورت حال سے دو چار کر سکتا ہے۔

قرضوں کے اثرات اور نتائج

مسئلہ قرضوں کا نہیں مسئلہ یہ ہے کہ ہماری قرضے کو سروس یا ادا کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات نہیں بڑھ رہیں اور ہم نے اس کی طرف توجہ بھی نہیں دی اور مہنگے قرضے لیے۔ ہمارا ڈیٹ لیول یونان کے مقابلے میں بہت کم ہے ان کا تقریباً 300 فیصد تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال جاپان ہے جس کا ڈیٹ لیول تقریباً 250 فیصد کے قریب ہے۔ مسئلہ زیادہ قرضوں کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ ہم نے قرض لے کر منافع بخش منصوبوں میں لگانے کی بجائے سیاسی پروجیکٹز اور اپنی عیاشیوں میں اڑا دیے۔

نوٹ: درج بالا حقائق مختلف سورسز سے کاپی کیے گئے ہیں،

https://www.independenturdu.com/node/115626
https://cpec.punjab.gov.pk/urdu/faqs
https://cpecinfo.com/%D8%B3%DB%8C-%D9%BE%DB%8C%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B3%D8%A7%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%D8%B5%D9%88%D9%84/
https://urdu.geo.tv/latest/277490-
https://www.independenturdu.com/node/110536
https://www.dawnnews.tv/news/1049873

No comments:

Post a Comment