Translate

Sunday, June 7, 2020

New Asian Order! China or India?

نیو ایشئین آرڈر چین یا بھارت؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی کی اجیت دوول ڈاکٹرائن اب تک بری طرح فیل ہوئی ہے اس کے مقابلے پاکستان نے کرتار پور بارڈر کھول کراسے مزید ہزیمت سے دوچار بھی کیا مگر جو لوگ نیشنلزم کا ووٹ لے کر آئے ہیں وہ بگڑتی صورتحال میں مزید نیشنلزم کی طرف ہی جایں گئے
بھارت نے پہلے پاکستان میں کمزور حکومت بنتے ہی کشمیر کی قانونی حیثیت ختم کرنے جیسا بڑا اقدام کر ڈالا اب اسی طرح وہ چائنہ کے امریکہ کیساتھ بگڑتے تعلقات کا عسکری سیاسی اور معاشی طور پر فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے انڈیا سوچ رہا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھا کر دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن جائے گا اور ساتھ ہی ایشیا میں مغرب کی آشیر باد سے اپنا اثررسوخ بھی بڑھا لے گا

حالیہ صورتحال میں انڈیا وادی گلوان میں اپنی طاقت بڑھا رہا ہے   



  چین نے کچھ لینے دینے کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے اپنے تمام ہمسایوں کیساتھ سرحدی معاملات طے کرلیے ہیں جہاں تک کے افغانستان کو متنازعہ علاقہ پورے کا پورا دے کر تصفیہ کیا تو پاکستان کیساتھ تقریبا ساٹھ اور چالیس کی ریشو سے معاملات نبٹا لیے۔مگر واحد ہمسایہ بھارت کیساتھ چین سرحدی تنازعات ختم کرنے میں ناکام رہا اور بھارت کیساتھ فی الوقت قائم سرحدی لائن دراصل دونوں طرف کی افواج کی ایکچوئل پوزیشن لائن ہے جسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا نام دیا گیا ہے
لائن آف ایکچوئل کنٹرول Line Actual Control ایسا بارڈر ہوتا ہے جو بزور بازو قائم ہوتا ہے اور پھر جس کا جہاں زور لگے وہیں نیا کنٹرول بڑھا لیا جاتا ہے اس لیے اس قسم کے بارڈر پر ہر وقت غیر یقئنی کی صورتحال رہتی ہے اور جھڑپ چھینا جھپٹی کی کشمکش جاری رہتی ہے 
جبکہ پاکستان اور انڈیا کے مابین کشمیر میں بارڈر کو لائن آف کنٹرول LOC کہا جاتا ہے لائن آف کنٹرول بھی متنازع سرحد ہوتی ہے مگر دونوں ممالک اس لائن کے کنٹرول کو تسلیم کرتے ہیں اسکے علاوہ ایک ورکنگ باونڈری Working Boundary بھی ہوتی ہے یہ بھی متنازع بارڈر ہوتا ہے مگر اس کی بھی دونوں ممالک پاسداری کرتے ہیں تاآنکہ متنازع علاقہ کا تصفیہ نہ ہو جائے
بھارت نے حال ہی میں دریائے شیوک کیساتھ 255 کلو میٹر طویل سڑک کی تعمیر مکمل کی ہے جو بھارت کو قراقرم سے ملاتی ہے


بھارت گلوان کے  ملٹری بیس کو بیک وقت چین اور پاکستان کیخلاف استعمال کرنا چاہتا ہے بھارت کے اس ملٹری بیس سے پاکستان کے پانی اور سی پیک پر بھی اس کا اثر بڑھ سکتا ہے کیونکہ حال ہی میں ورلڈ بینک اور عالمی اداروں کے انکار کے باوجود چائنہ نے پاکستان کیساتھ بھاشا ڈیم کی تعمیر کا معاہدہ بھی کیا ہے 

ان عالمی اداروں نے بھارت کے دباو پر ہی انکار کیا تھا بھارت سمجھتا ہے یہی وقت ہے ایک تیر سے تین شکار کرنے کا مگر چائنہ نے وادی گلوان پر قبضہ کرکے دریائے شیونک بھی عبور کر لیا 


جہاں پاکستان کی کمزور ترین حکومت نے پائلٹ واپس کرکے امن نوبل پرائز جیتنے کی ناکام کوشش کی وہیں پر چائنہ بالکل الٹ انداز میں انڈیا کے اندر گھس کر بیٹھ گیا جس سے اب مذاکرات اس کی شرائط پر ہوں گئے جبکہ عمران خان صاحب یہ موقع گنوا چکے اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے جب تک پاکستان پر نواز شریف جیسے ڈپلومیٹ وزیراعظم کی حکمرانی رہی مودی کو کشمیر اور گلگت بلتستان میں گھسنے کی جرات نہ ہوئی نواز شریف مودی کے آگے خود کو بیوقوف ظاہر کرکے ایک طرف لاہور میں اس سے ملاقاتیں کررہے تھے تو دوسری طرف سی پیک کو عملی جامہ پہنا رہے تھے عمران خان کی نام نہاد ایمانداری اور سچائی پاکستان کو ہر جگہ نقصان پہنچا رہی ہے سیاست میں ایمانداری نہیں ڈپلومیسی چلتی ہے

امریکہ کی سیاست کو بھی ایک دشمن کی تلاش ہے جرمنی روس اور القاعدہ کے انہدام کے بعد اب ممکنہ ہدف چائنہ لگ رہا ہے چائنہ کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کو امریکہ اپنی سولو سپر پاور کے لیے خطرہ محسوس کررہا ہے اور ٹرمپ نومبر کے الیکشن میں چائنہ کارڈ کھیلنے کے لیے پہلے ہی گراونڈ بنا رہے ہیں۔ دوسری طرف جاپان اور آسٹریلیا بھی ایشیا پیسفک میں چائنہ کے بڑھتے ہوئے رسوخ کے آگے انڈیا کو کھڑا کرنا چاہتے ہیں جبکہ چائنہ مزید دس بیس سال تک بغیر کسی جھمیلے کے دنیا بھر میں اپنا معاشی اثرو رسوخ مزید پھیلانا اور مستحکم کرنا چاہتا ہے اور وہ امریکہ سے سرد جنگ بھی نہیں چھیڑنا چاہتا لیکن مسائل جب گھر کی دہلیز تک پہنچے تو چائنہ نے عملی اقدام سے گریز نہیں کیا زندہ قوم کی یہی نشانی ہوتی ہے امریکہ ایک طرف چائنہ پر معاشی دباو ڈال رہا ہے جبکہ دوسری طرف ہانگ کانگ تائیوان کے بعد انڈین بارڈر پر بھی دباو بڑھانے کی لگاتار کوششیں کر رہا ہے
امریکہ کے بعد چائنہ اور انڈیا کا بالترتیب دفاعی بجٹ دنیا میں سب سے زیادہ ہے مگر جو بڑا بجٹ کا فرق امریکہ اور چائنہ میں ہے ویسا ہی فرق پھر چائنہ اور انڈیا میں ہے 

 مگرچائنہ اتنے بڑے بجٹ کے باوجود ملٹری ایکویپمنٹ ٹیکنالوجی میں امریکہ اور روس سے پیچھے ہے اسی لیے چائنہ جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے روس پر انحصار کرتا ہے  دنیا میں اگر امریکہ کو کسی سے ملٹری تھریٹ ہے تو وہ روس ہے مگر سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے امریکہ روس کو اپنے لیے اتنا بڑا خطرہ نہیں سمجھتا جتنا وہ چائنہ کے بڑھتے معاشی اثر سے خائف ہے۔ 
چائنہ اور انڈیا دونوں روس سے اسلحہ خریدتے ہیں اور دونوں کے روس کیساتھ قریبی تعلقات ہیں بھارت کے روس کیساتھ سرد جنگ کے زمانے سے انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور روس بھی بھارت کی پاکستان کیخلاف جنگوں میں سفارتی حدوں سے بڑھ کر مدد کرتا رہا ہے اور اکہتر کی جنگ میں روس نے بھارت کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ لیکن جب بات چین اور بھارت کے مابین کردار کی آتی ہے تو روس ماضی میں ساٹھ کی دہائی میں بھی عملی طور پر چائنہ انڈیا تنازعہ میں غیر جانبدار رہا تھا عالمی سیاست میں روس اور چائنہ کا گٹھ جوڑ ہے اقوام متحدہ کے پانچ ویٹو رکھنے والے ممالک میں امریکہ فرانس اور برطانیہ الگ دھڑا ہے جبکہ روس اور چائنہ کا دوسرا دھڑا ہے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ 1950کی دہائی میں ہی چین کی جگہ انڈیا کو اقوام متحدہ میں مستقل نشست دلوانے کی کوشش کرچکا ہے تاکہ اقوام متحدہ کے اندر توازن اپنے حق میں کرسکے

حالیہ سالوں میں انڈیا جدید اسلحے کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے حتیٰ کہ روس سے ایس 400 ایئر ڈیفنس اور جدید ہیلی کاپٹرز کی سپلائی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے دوسری طرف امریکہ بھی روس سے خریداری کے حق میں نہیں ہے امریکہ ایس 400 کو اپنے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حامل ففتھ جنریشن ایف 35 کے لیے شدید خطرہ سمجھتا ہے اور جہاں روس کا یہ سسٹم پہنچ جاتا ہے وہاں امریکہ اپنے جدید اسلحے کی سپلائی محدود کردیتا ہے. اور انڈیا کا المیہ یہ ہے کہ وہ اسلحہ تو روس سے ہی خریدنا چاہ رہا ہے جبکہ معاشی تعاون کی توقع امریکہ اور اسکے اتحادیوں سے کررہا ہے انڈیا آنیوالے دنوں میں دو کشتیوں پر سوار ہونے جارہا ہے
پچھلے سال فروری 19 میں پاکستان انڈیا کے بیچ ہونے والی ڈاگ فائٹ میں انڈین ائیر فورس کو بڑی ہزیمت اٹھانا پڑی تھی جب پاکستان نے انڈیا کا مگ لڑاکا طیارہ مار گرایا تھا اور پائلٹ کو بھی پکڑ لیا تھا جس کے بعد انڈیا نے فرانس سے
رافیل فورتھ اینڈ ہاف جنریشن فائٹر ہے  اور راڈار کو دھوکہ دینے والی اسٹیلتھ ٹینالوجی سے لیس ہے اس کا کومبیٹ سرکل 1800 کلومیٹر ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اس کے راڈار سسٹم کو دھوکہ یا جام نہیں کیا سکتا  اس کی ٹارگٹ کو پہلے دیکھنے کی رینج 100 کلومیٹر  اور پہلے حملہ کرنے کی رینج 300 کلومیٹر ہے  رافیل انڈیا سے پہلے فرانس مصر اور قطر کی ائیر فورسز  کے زیر استعمال ہے  


رافیل کے مقابے پاکستان کے پاس F-16 JF-17 فورتھ جنریشن ہیں جورافیل سے ہاف جنریشن پرانے ہیں مگر ایف سولہ کو رافیل پر سپیڈ اور فلائٹ رینج مییں برتری حاصل ہے رافیل اور ایف سولہ کو کچھ معاملات میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل ہے اس لیے فائنل رزلٹس میں پائلٹ کا ہنر اور کارکردگی بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے
رافیل ڈاگ فائٹ میں جے ایف سترہ تھنڈر کو پچھاڑ سکتا ہے مگر تھنڈر کو رافیل کے مقابل یہ برتری حاصل ہے کہ تھنڈر میں کچھ فیچرز چائنہ کے ہائی اینڈ ففتھ جنریشن جے ٹوئنٹی کے شامل کرلیے گے ہیں جن میں سے ائیر ڈیفبس میزائل سسٹم حاصل کر لیا تو پھر انڈیا کو پاکستان پر واضح برتری حاصل ہو جائیگی


انڈیا چائنہ کے ہاتھوں اس ہزیمت کے باوجود اپنے جارحانہ اقدامات سے ہرگز باز نہیں آگے گا عوام میں اور علاقے میں اپنی رٹ بحال کرنے کے لیے اب وہ بہ نسبت کمزور اہداف (نیپال یا پاکستان) کی طرف بڑھے گا اور اپنے مورال کو بحال کرنے کی کوشش کرے گا

نیپال کوہ ہمالیہ میں دو کروڑ اسی لاکھ نفوس کا ملک ہے جس کے چائنہ کی  طرف بلند و بالا برفیلے پہاڑ ہیں اور جنوب میں بھارت ہے نیپال اپنی ضرورت کی ترانوے  پرسنٹ چیزیں انڈیا کے حاصل کرتا ہے


اور نیپال نے اپنی سرحدوں کا ایک نیا میپ بھی جاری کیا ہے جس میں بھارت کے زیر قبضہ کچھ علاقوں کو نیپال کا حصہ ظاہر کیا گیا ہے اور نیپالی پارلیمنٹ نے ایک مشترکہ قرارداد بھی پاس کی ہے کہ  نیپال اپنے ان علاقوں کے حق ملکیت کے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا حالانکہ ماضی میں نیپال  جغرافیائی کیساتھ مذہبی (نیپال بھی ہندو ریاست ہے) و سیاسی(نیپالی کانگریس پارٹی بھارتی کانگریس کی شاخ سمجھی جاتی ہے) حوالے سے بھی بھارت کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا رہا ہے مگر اب چین کیساتھ بہتر ہوتے تعلقات  (چین نے نیپال تک سڑک بنائی ہے اور کٹھمنڈو تک ساڑھے  پانچ ارب ڈالر کی لاگت سے بی آر آئی پروگرام کے تحت ریلوئے لائن بھی بچھانا چاہتا ہے 


جس میں بھارت روڑے اٹکا رہا ہے) کےبعد  نیپال نے بھی اپنی پالیسیوں کو بدلنا شروع کیا ہے اور بھارت کی بلیک میلنگ پالیسی کے آگے کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا ہے گو نیپالی وزیراعظم نے تعلقات بہتر کرنے کے لیے ازرہ تفنن بھارت کو ابھی بھی مذہب کا واسطہ دیا ہے   
پاکستان کو  اپنی معاشی کمزوریوں کا دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹنا بند کرنا ہو گا اور ایک مضبوط پاکستان بن کر انڈیا کو ہر سطح پر جواب دینا ہو گا نہ تو او آئی سی کچھ کرے گی نہ دنیا ہلے گی حکومت کو ٹوئٹر سے باہر نکل کر اصلی دنیا میں واپس آنا ہو گا کشمیر پر قبضہ بھارت نے کیا ہے جبکہ دفاعی پوزیشن پاکستان نے اختیار کی ہوئی ہے وزیر خارجہ موصوف ہر روز قوم کو الٹی میٹم دے رہے ہوتے ہیں کہ بھارت کشمیر میں فالس فلیگ آپریشن کرنیوالا ہے اگر بہتر سال بھی کشمیر پر قوم کا پیسہ جھونکنے کے بعد ہم دفاعی لائن پر کھڑے ہیں تو پھر کم سے کم مستقبل کا تعین ہی کرلیا جائے کشمیریوں کو اپنے بل بوتے پر سیاسی جدوجہد آزادی کی جنگ لڑنے دیا جائے برصغیر کے مسلمانوں کا شروع دن سے المیہ ہی یہی رہا ہے کہ انھوں نے ہندووں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیشہ بیرونی طاقتوں  (افغانستان ایران عرب) سے امید لگائے رکھی اور جب اخیر خود پر فیصلے کی گھڑی آئی تو اکثریتی علاقے خودغرضانہ طور پر ہندوستان سے الگ ہوگے جبکہ ہندوستان میں رہ جانیوالے مسلمان اپنے ہی دیس میں بدیسی ہو گے ان کے مستقبل کا خیال کسی آزادی کے لیڈر نے عملی طور پر شاید کیا متحدہ ہندوستان اگر بڑی غلطی ہوتی تو ہندوستان کی ادھوری تقسیم اس سے کہیں بڑی غلطی بن کر سامنے آئی ہے جسکا خمیازہ برصغیر کا ہر شخص بھگت رہا ہے

یہ بات طے ہے کہ اگر چین بھارت میں تناوبڑھتا ہے تو یہ ورلڈ وار تھری بنتا چلا جائیگا جس میں لگ بھگ پوری دینا شامل ہوتی چلی جائیگی

No comments:

Post a Comment