Monday, December 28, 2020

From 300 BC to 1500 AD

تین سو قبل مسیح سے پندرہ سو عیسوی

یونانی فلسفہ کے استخراجی طریقہ کار کے برعکس مسلمان سائنسدانوں نے عملی اور تجرباتی سائنس کو اپنایا جو آگے چل کر یورپ میں جدید سائنس کی بنیاد بنی اورجس کی بدولت یورپ باقی دنیا سے بہت آگے نکل گیا حالانکہ پیندرہویں صدی تک یورپ معاشی یا تہذیبی کسی طور چین اور مشرق سے آگے نہ تھا بلکہ عالمگیر کے دور تک سونے کی چڑیا ہندوستان دنیا کی بڑی معاشی طاقت تھا اور دنیا کی مجموعی پیداوار کا چوتھائی ہندوستان میں پیدا ہوتا تھا مگر پھر اہل یورپ نے جدید سائنس کو اپنا کر دنیا ہی بدل ڈالی

آج ہولسٹین گائے پچیس لیٹر دودھ دیتی ہے جبکہ ہندوستانی گاوماتا آج بھی پانچ لیٹر دودھ ہی دیتی ہے دیش کی دھرتی جو بقول شیخوپورہ کے گلشن باورہ کے ہیرے موتی اگلتی تھی وہ آج فی ہیکٹر تین ٹن (بارانی علاقوں میں دو ٹن) گندم پیدا کرتی ہے جبکہ یورپ نے فی ہیکٹر پیداوار اس سے دوگنی کرلی ہے


جدید سائنس کو اپنائے بنا کوئی قوم اپنے وسائل کو بڑھا نہیں سکتی جبکہ پاکستان میں ایک بڑا طاقتور طبقہ قدیم نظام تعلیم کا پرجوش حامی ہے حالانکہ سائنس نہ تو مذہب کی نفی کرتی ہے اور ناں ہی مذہب سائنس کا رستہ روکتی ہے اس طبقہ نے محض اپنی اجارہ داری بچانے کی خاطر اور اپنے جدی پشتی اداروں کو بچانے کی خاطر لوگوں کو جدید تعلیم اور علمی معیشت سے برگشتہ کررکھا ہے

پاکستان میں ایک طرف آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف وسائل بڑھنے کی بجائے گھٹتے چلے جا رہے ہیں ایک طرف افزائش نسل کو تو ثواب دارین قرار دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب افزائش وسائل کے لیے درکار جدید سائنس کو اینٹی مذہب گردانا جارہا ہے


رائٹ برادران کے 1903 میں جہاز اڑانے سے بہت پہلے ابن فرناس جہاز اڑانے کا خیال پیش کرچکا تھا جس نے خود کو مصنوعی پر لگا کر 875 میں ایک مینار سے باقاعدہ اڑنے کی کوشش کی مگر دس منٹ کی اڑان کے بعد ہی دم نہ ہونے کے سبب زمین پر گر گیا ایسی صورت میں جہاز کا خالق کس کو کہہ سکتے ہیں رائٹ یا فرناس؟ 


سائنس ثبوت کے بنا ہی آگے بڑھتی ہے اور ثبوت یہ ہے کہ رائٹ برادران کا جہاز آج بھی اڑ رہا ہے اگر محض خیالات کی عملداری ہوتی تو یونانی فلسفہ کبھی بھی فوت نہ ہوتا یہاں رائٹ برادران کو فرناس پر ویسی ہی فوقیت حاصل ہے جیسی گلیلو کو کوپرنیکس پر ہے 

No comments:

Post a Comment