تین سو قبل مسیح سے پندرہ سو عیسوی
یونانی فلسفہ کے استخراجی طریقہ کار کے برعکس
مسلمان سائنسدانوں نے عملی اور تجرباتی سائنس کو اپنایا جو آگے چل کر یورپ میں
جدید سائنس کی بنیاد بنی اورجس کی بدولت یورپ باقی دنیا سے بہت آگے نکل گیا
حالانکہ پیندرہویں صدی تک یورپ معاشی یا تہذیبی کسی طور چین اور مشرق سے آگے نہ
تھا بلکہ عالمگیر کے دور تک سونے کی چڑیا ہندوستان دنیا کی بڑی معاشی طاقت تھا اور
دنیا کی مجموعی پیداوار کا چوتھائی ہندوستان میں پیدا ہوتا تھا مگر پھر اہل یورپ
نے جدید سائنس کو اپنا کر دنیا ہی بدل ڈالی
آج ہولسٹین گائے پچیس لیٹر دودھ دیتی ہے جبکہ
ہندوستانی گاوماتا آج بھی پانچ لیٹر دودھ ہی دیتی ہے دیش کی دھرتی جو بقول شیخوپورہ
کے گلشن باورہ کے ہیرے موتی اگلتی تھی وہ آج فی ہیکٹر تین ٹن (بارانی علاقوں میں دو ٹن) گندم پیدا کرتی ہے جبکہ یورپ
نے فی ہیکٹر پیداوار اس سے دوگنی کرلی ہے
جدید سائنس کو اپنائے بنا کوئی قوم اپنے وسائل
کو بڑھا نہیں سکتی جبکہ پاکستان میں ایک بڑا طاقتور طبقہ قدیم نظام تعلیم کا پرجوش
حامی ہے حالانکہ سائنس نہ تو مذہب کی نفی کرتی ہے اور ناں ہی مذہب سائنس کا رستہ
روکتی ہے اس طبقہ نے محض اپنی اجارہ داری بچانے کی خاطر اور اپنے جدی پشتی اداروں کو
بچانے کی خاطر لوگوں کو جدید تعلیم اور علمی معیشت سے برگشتہ کررکھا ہے
پاکستان میں ایک طرف آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے
تو دوسری طرف وسائل بڑھنے کی بجائے گھٹتے چلے جا رہے ہیں ایک طرف افزائش نسل کو تو
ثواب دارین قرار دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب افزائش وسائل کے لیے درکار جدید
سائنس کو اینٹی مذہب گردانا جارہا ہے
رائٹ برادران کے 1903 میں جہاز اڑانے سے بہت پہلے ابن فرناس جہاز اڑانے کا خیال پیش کرچکا تھا جس نے خود کو مصنوعی پر لگا کر 875 میں ایک مینار سے باقاعدہ اڑنے کی کوشش کی مگر دس منٹ کی اڑان کے بعد ہی دم نہ ہونے کے سبب زمین پر گر گیا ایسی صورت میں جہاز کا خالق کس کو کہہ سکتے ہیں رائٹ یا فرناس؟
سائنس ثبوت کے بنا ہی آگے بڑھتی ہے اور ثبوت یہ ہے کہ رائٹ برادران کا جہاز آج بھی اڑ رہا ہے اگر محض خیالات کی عملداری ہوتی تو یونانی فلسفہ کبھی بھی فوت نہ ہوتا یہاں رائٹ برادران کو فرناس پر ویسی ہی فوقیت حاصل ہے جیسی گلیلو کو کوپرنیکس پر ہے
No comments:
Post a Comment