Translate

Showing posts with label Urdu Blog. Show all posts
Showing posts with label Urdu Blog. Show all posts

Tuesday, June 28, 2022

Energy Dilemma of Pakistan and Future of Electric Vehicles?

پاکستان میں بجلی کا بحران!

اس کائنات یا مزید کائناتوں میں اربہا سیارے ہوں گے، شاید کہیں کسی اور سیارے میں بھی زندگی ہو گی، مگر ہم نہیں جانتے اور نہ فی الوقت ہم وہاں شفٹ ہو سکتے ہیں، اس لیے جس سیارے پر ہم فی الوقت موجود ہیں تو کم از کم ہم کو اس کی قدر کرنی چائیے، اس میں زندگی جیسی سہولت کی حفاظت کرنی چائیے ناکہ ہم اسی جہاز میں سوراخ کرنا شروع کردیں جس جہاز میں ہم سفر کررہے ہیں،

ضرورت ایجاد کی ماں ہے، اور ہر ایجاد انسان کی سہولیات میں اضافہ کرتی ہے، مگر اگر اس سہولت کی قیمت پورے سسٹم کی تباہی ہو تو کیا ایسی سہولت کو ہم جاری رکھ سکتے ہیں یا اس کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں، مانا انسان خود غرض ہے، مگر باشعور بھی تو ہے؟ کیا شعور چھوٹے فائدے اور بڑے فائدے میں تمیز نہیں کرسکتا؟

انسان افریقہ سے نکلا تو پوری دنیا میں دور دراز علاقوں میں پھیلتا چلا گیا، جب آبادیاں بڑھیں تو ایک دوسرے کی طرف آمدورفت بھی بڑھی اور تجارتی لین دین بھی شروع ہو گیا، اس ٹرانسپورٹ کے لیے انسان نے پہیہ ایجاد کیا (3500 قبل مسیح عراق)، انسان کافی عرصہ تک تو اس پہیے کو گھوڑے، گدھے یا خچر سے دوڑاتا رہا،  لیکن وقت کیساتھ بڑھتی ضروریات، بڑھتی تجارت کے بڑھتے وزن کے سبب انسان اب اس پہیے کو زیادہ تیزی سے گھمانا چاہتا تھا، انسان نے گھوڑے سے آگے سوچنا شروع کیا، 


 پہلے پہل انسان نے بھاپ کے اسٹیم انجن ایجاد کیے، پھر فاسل ایندھن کی دریافت کے بعد فاسل ایندھن سے چلنے والے انجن ایجاد کیے، شروع میں فاسل ایندھن سستا بھی تھا وافر بھی تھا اور اس کے انجن کے نتائج بھی سب سے بڑھیا تھے، انسان نے باقی متبادل ٹیکنالوجیز کو ایک طرف رکھتے ہوئے فاسل ایندھن کے انجن کو ہی واحد فورس کے طور پر اپنا لیا، اور فاسل ایندھن کا شئیر 85٪ تک جاپہنچا. لیکن گزرتے وقت کیساتھ فاسل ایندھن کے سائیڈ ایفیکٹ بھی سامنے آنے لگے. ان میں سے سب سے بلند تھا، ماحولیاتی آلودگی! 

جب فوسل ایندھن، پیٹرولیم، مٹی کا تیل، قدرتی گیس یا کوئلے کو جلایا جاتا ہے، تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پیدا کرتے ہیں جو فضا میں داخل ہو کر ماحولیاتی تبدیلی یعنی گرمی کا سبب بنتی ہے۔ نیچے دیے گے گراف کیمطابق پہلے ہی ٹمپریچر 1.5 سے 2 ڈگری بڑھ چکا ہے،

لیکن انسان چونکہ فطرتاً خود غرض واقع ہوا ہے تو انسان نے بڑھتی آلودگی کو سیریس نہیں لیا، لیکن اب جب فاسل ایندھن کی قیمتیں انتہا درجے بڑھ گئی تو فطرتاً پھر انسان متبادل کم قیمت ٹیکنالوجی کی طرف متوجہ ہو گا. اب فاسل ایندھن کی بڑھتی قیمتیں ماحول کی بہتری کے لیے ایک انمول موقع بھی بن سکتی ہیں، بڑھی ہوئی قیمتیں یقیناً کنزیومر کو متبادل توانائی کی جانب پش کریں گی، مارکیٹ کے بدلتے رحجان کے پیش نظر سرمایہ دار بھی سولر اور ونڈ پاور پر تیزی سے سرمایہ کاری کریں گے. اور بالآخر گلوبل وارمنگ 1.5 ڈگری سیلسیس نیچے آسکے گی، اور ایکو سسٹم برقرار رہ سکے گا.

عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ کے مطابق فضائی آلودگی سے ہر سال دنیا بھر میں تیس لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

پاکستان بھی ماحولیاتی تبدیلیوں متاثر دس خطرناک ترین ممالک میں سے ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تنزلی سے قحط سالی سے زرعی زمین میں کمی اور اس کا غیر زرعی استعمال، مناسب پانی کی کمی، صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل، جنگلات کا کٹاؤ، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے ہر سال پاکستانی معیشت کو تقریباً پانچ سو ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے.ایک تحقیق کے مطابق 2025 تک پاکستان کی آبادی تقریباً 23 کروڑ 40 لاکھ کیساتھ تقریباً 30 لاکھ مزید گاڑیاں بشمول موٹرسائیکلیں اور رکشے بڑھ جایں گی. ایک تحقیق کے مطابق 2100 تک پاکستان میں درجہ حرارت تقریباً 7.2 ڈگری درجے تک بڑھ جائے گا، جس کی وجہ سے زرخیز زمینیں بنجر ہونے جبکہ کچھ علاقوں میں رہنا بھی ممکن نہ رہے گا۔ 

اس لیے پاکستان کو جلد از جلد ہوش کے ناخن لینے چائیں۔

متبادل ماحول دوست توانائی میں پن بجلی سب سے بہتر سمجھی جاتی ہے، اور پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں،  
پاکستان اکنامک سروے کی تحقیق کیمطابق پاکستان پانی سے 60،000 میگاواٹ بجلی بنا سکتا ہے. پاکستان میں پانی گلیشیر سے 65 سے 75٪ جبکہ بارش سے 25 سے 35٪ حاصل ہوتا ہے. پاکستان دنیا میں پانی استعمال کرنے والے ممالک میں 4 نمبر پر ہے اور پاکستان دنیا کے ان 15 ممالک میں بھی شامل ہے جن کو مستقبل قریب میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوسکتا ہے، پاکستان ہر سال دریاوں سے 14.5 کروڑ ایکڑ فیٹ پانی حاصل کرتا ہے، لیکن پاکستان اس میں سے فقط 10٪ پانی ہی سٹور کرپاتا ہے جبکہ بقیہ پانی کو سمندر برد کردیتا ہے. انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے اعدادوشمار کیمطابق پاکستان ہر سال 22 ارب ڈالر کا پانی ضائع کر دیتا ہے. 
صرف کٹزارا ڈیم سے 15،000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، جنرل ایوب نے ورلڈ بینک سے درخواست کی تھی کہ پاکستان میں ڈیم بنانے والی جگہوں کی نشاندہی کرکے دیں، 1968 میں ورلڈ بینک کی ٹیم نے کٹزارا ڈیم کی نشاندہی کی تھی، یہ اسکردو سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے شیگر اور دریائے سندھ کے سنگم پر واقع ہے، کٹزارا ڈیم کی سب سے بڑی خوبی اس ڈیم کی عمر جوکہ 1000 سال ہو گی، مگر افسوس پاکستان میں الیکش ٹو الیکشن سیاسی معاشی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، اگر اس طرح کے ڈیمز بنائے گے ہوتے تو پاکستان میں پانی اور ماحول کی صورتحال کافی بہتر ہوتی۔
Reference may be made to Dr Pieter Lieftnick's report — pages 283 and 296

 بہرکیف پانی سے بجلی کی پیداوار کے لیے میگا پراجیکٹس کی ضرورت ہوتی ہے اور اس بجلی کی سب سے بڑی پرابلم اس بجلی کو کنزیومر تک پہنچانا ہے، جس کے لیے کھمبے اور تاروں کی لمبی لائن لگانی پڑتی ہے، جو جگہ بہ جگہ مختلف موسمیاتی اثرات یا حادثات میں خراب بھی ہوتی رہتی ہے اور اس کی مرمت دیکھ بھال بھی کافی مہنگی پڑ جاتی ہے، دوسری جانب لمبی لائنوں کے پھر لائن لاسز بھی بڑھتے جاتے ہیں. 

بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے ایمرجنسی میں کیے گے پرائیویٹ بجلی (IPP's) کے منصوبے:

کیا پاکستان میں بجلی کی بڑھتی قیمتوں کے ذمہ دار پرائیویٹ بجلی کے پیداواری منصوبے ہیں؟

جب ریاست پاکستان کے حکمران اپنی ضرورت کی بجلی بنانے میں ناکام رہے، تو پھر بجلی کی بڑھتی مانگ اور لوڈشیڈنگ کا اچانک حل نااہل حکمرانوں پرائیویٹ بجلی پیداواری کے منصوبے نکالا اور 1994 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے 17 نجی بجلی کی کمپنیوں سے معاہدے کیے جس سے وقتی طور پر بجلی کی کمی تو پوری کرلی گئی مگر یہ معاہدے مستقبل کے مہنگائی بم بننے لگے، کیونکہ یہ معاہدے ڈالر اور درآمدی ایندھن سے منسلک تھے، یعنی جب جب بیرونی ایندھن امپورٹ کرنا تھا تو نتیجتا" ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھنی تھی اور جب ڈالر نے مہنگا ہونا تھا تو لامحالہ درآمدی ایندھن کی لاگت بڑھنی تھی۔ یعنی یہ ایک ایسا گھن چکر میں معاہدہ تھا جس میں شکاری نے خود پھنس جانا تھا۔ اگر اسی پر بس کی جاتی تو بھی گردن شاید بچ جاتی مگر ن لیگ نے 1998 میں ان معاہدوں پر اعتراض کیا مگر پھر کیا ہوا کہ 2015 میں اس سے بھی چار قدم آگے چلے گے اور پاکستان کے انرجی سیکٹر کو بند گلی میں دھکیلنے کا پورا بندوبست کردیا۔ جب پاکستان کی ضرورت سے بھی زیادہ چین کی پرائیویٹ بجلی کمپنیوں سے بجلی خریدنے کے معاہدے کرلیے، یوں تو ساری دنیا ایسے منصوبے بناتی اور عمل کرتی ہے لیکن پاکستان کے اس منصوبے میں کچھ ایسی انوکھی باتیں تھیں جو آگے چل کر صارفین کی خودکشیوں کا سبب بننے جارہی تھیں۔

سب سے پہلی جو بری بات تھی وہ یہ کہ اس منصوبے میں بجلی درآمد شدہ فاسل فیول سے پیدا کی جانی تھی، یعنی کہ ایک طرف پاکستان کے فاسل درآمدی بل میں اضافہ ہونا تھا تو دوسری طرف دنیا میں جب بھی فاسل ایندھن کی قیمتیں بڑھنی تھیں تو پاکستان میں بجلی مہنگا ہونا لازم تھی۔

دوم: حکومت نے یہ بجلی پرائیویٹ سرمایہ داروں سے ڈالرز میں خریدنی تھی، جس کا سیدھا مطلب تھا کہ جب ڈالر مہنگا ہونا تھا تو پاکستان میں بجلی مہنگا ہونا لازم ہو گیا۔

 سوم: واپڈا ان بجلی گھروں کی پیدا شدہ بجلی کو خریدنے کا پابند ہو گا، بالفرض واپڈا یہ بجلی نہیں خریدتا تو حکومت پاکستان پیدا شدہ بجلی کی قیمت ادا کرنے کی پابند ہو گی،

چہارم: حکومت پاکستان ان بجلی گھروں سے بجلی وصول کرے یا نہ کرے ریاست ان بجلی گھروں کو ان کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کیمطابق ادائیگی کرنے کی پابند ہو گی۔

اگر درج بالا شقوں کو دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ریاست نے انرجی پالیسی کو اس پرائیویٹ پالیسی کے ہاتھوں باندھ دیا۔ اب ایک طرف ریاست اس بجلی کی موجودگی میں متبادل سستی بجلی پیدا نہیں کرسکتی تھی تو دوم ریاست بجلی کی قیمتوں کے تعین کے بنیادی حق سے محروم ہو گی۔ اب ڈالر اور فاسل ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کے انوسار بجلی کی قیمتیں بڑھنا لازم تھا تو سیاسی جماعتوں نے اپنا ووٹ بینک بچانے کی خاطر اس کا حل سبسڈی نکالا۔ یعنی حکومت ان پرائیویٹ بجلی گھروں سے مہنگی بجلی خرید کر عوام کو سبسڈی پر سستی بجلی فراہم کرتی رہی، جو وقت کیساتھ ساتھ گردشی قرضے کا بم بنتی چلی گی۔

شاید یہ کھیل مزید جاری رہتا مگر آئی ایم ایف نے اس کھیل کو بند کرنے کا نوٹس دے دیا۔ اگر وقت کیساتھ ساتھ بتدریج بجلی مہنگی ہوتی رہتی تو اب اچانک اضافے پر عوام خود کشیوں پر مجبور نہ ہوتے، مگر ووٹ کی سیاست پاکستان کے پاور سیکٹر کو لے ڈوبی۔ 

اب بجلی تو ہے مگر اسے خریدنے کی سکت نہیں ہے!

پرائیویٹ بجلی پالیسی کی ہسٹری

آئی پی پیز اور ان کی متعلقہ رقوم کی فہرست جولائی 2023 تک یہ ہے۔

کمپنی کے نام اور رقم

  1. ACT ونڈ (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 40 ملین
  2. اے جے پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 10 ملین
  3. اپولو سولر ڈیولپمنٹ پاکستان لمیٹڈ 257 ملین روپے
  4. آرٹسٹک انرجی (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 75 ملین
  5. اٹلس پاور لمیٹڈ 2700 ملین روپے
  6. اٹک جنرل لمیٹڈ روپے 2750 ملین
  7. بیسٹ گرین انرجی پاکستان لمیٹڈ 137 ملین روپے
  8. چنار انرجی لمیٹڈ 15 ملین روپے
  9. چائنا پاور ہب جنریشن کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ 9210 ملین روپے
  10. چنیوٹ پاور لمیٹڈ 350 ملین روپے
  11. کریسٹ انرجی پاکستان لمیٹڈ 184 ملین روپے
  12. درال خواڑ HPP روپے 100 ملین
  13. اینگرو پاورجن قادر پور لمیٹڈ 1000 ملین روپے
  14. اینگرو پاورجن تھر (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 4310 ملین
  15. فوجی کبیر والا پاور کمپنی لمیٹڈ 500 ملین روپے
  16. ایف ایف سی انرجی لمیٹڈ روپے 100 ملین
  17. فاؤنڈیشن پاور کمپنی ڈہرکی لمیٹڈ 2500 ملین روپے
  18. فاؤنڈیشن ونڈ انرجی-I لمیٹڈ 350 ملین روپے
  19. فاؤنڈیشن ونڈ انرجی II (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 350 ملین
  20. گل احمد ونڈ پاور لمیٹڈ 400 ملین روپے
  21. ہالمور پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ 1600 ملین روپے
  22. حمزہ شوگر ملز لمیٹڈ 20 ملین روپے
  23. ہڑپہ سولر (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 15 ملین
  24. ہوا انرجی (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 50 ملین
  25. Huaneng Shandong Ruyi Energy (Pvt) Ltd Rs10004mn
  26. ہائیڈرو چائنا داؤد پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ 295 ملین روپے
  27. جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز لمیٹڈ 20 ملین روپے
  28. جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز لمیٹڈ 70 ملین روپے
  29. جھمپیر پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 50 ملین
  30. کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ-یونٹ-2 8750.63 ملین روپے
  31. کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ-یونٹ-3 2668.49 ملین روپے
  32. کروٹ پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 631 ملین
  33. کوہ نور انرجی لمیٹڈ 800 ملین روپے
  34. کوٹ ادو پاور کمپنی لمیٹڈ 4250 ملین روپے
  35. لال پیر پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 2000 ملین
  36. لاریب انرجی لمیٹڈ 125 ملین روپے
  37. لبرٹی ڈہرکی پاور لمیٹڈ 1500 ملین روپے
  38. لبرٹی پاور ٹیک لمیٹڈ 2050 ملین روپے
  39. لکی الیکٹرک پاور کمپنی لمیٹڈ 5500 ملین روپے
  40. ماسٹر ونڈ انرجی لمیٹڈ روپے 50 ملین
  41. میٹرو پاور کمپنی لمیٹڈ 50 ملین روپے
  42. نارووال انرجی لمیٹڈ 2500 ملین روپے
  43. نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ 9000 ملین روپے
  44. نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ 13000 ملین روپے
  45. نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ 2200 ملین روپے
  46. نشاط چونیاں پاور لمیٹڈ 1600 ملین روپے
  47. نشاط پاور لمیٹڈ 2000 ملین روپے
  48. اورینٹ پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ 1600 ملین روپے
  49. پاک جنرل پاور لمیٹڈ 2500 ملین روپے
  50. پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (مالاکنڈ-III) 250 ملین روپے
  51. پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ 8317 ملین روپے
  52. پنجاب تھرمل پاور پرائیویٹ لمیٹڈ 750 ملین روپے
  53. قائد اعظم سولر پاور پرائیویٹ لمیٹڈ 50 ملین روپے
  54. قائداعظم تھرمل پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 7000 ملین
  55. روش پاک پاور لمیٹڈ 1750 ملین روپے
  56. آر وائی کے ملز لمیٹڈ 20 ملین روپے
  57. سچل انرجی ڈویلپمنٹ (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 139 ملین
  58. سیف پاور لمیٹڈ 2250 ملین روپے
  59. سیفائر الیکٹرک کمپنی لمیٹڈ 2500 ملین روپے
  60. سیفائر ونڈ پاور کمپنی لمیٹڈ 15 ملین روپے
  61. سٹار ہائیڈرو پاور لمیٹڈ 100 ملین روپے
  62. ٹیناگا جنراسی لمیٹڈ روپے 600 ملین
  63. تھل انڈسٹریز کارپوریشن لمیٹڈ 50 ملین روپے
  64. تھل نووا پاور تھر (پرائیویٹ) لمیٹڈ 1302 ملین روپے
  65. تھر کول بلاک-1 پاور جنریشن کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ 3325 ملین روپے
  66. تھر انرجی لمیٹڈ 2716 ملین روپے
  67. حب پاور کمپنی لمیٹڈ 2000 ملین روپے
  68. تھری گورجز فرسٹ ونڈ فارم پاکستان (پرائیویٹ) لمیٹڈ 25 ملین روپے
  69. تھری گورجز سیکنڈ ونڈ فارم پاکستان لمیٹڈ 98 ملین روپے
  70. تھری گورجز تھرڈ ونڈ فارم پاکستان (پرائیویٹ) لمیٹڈ 110 ملین روپے
  71. ٹریکن بوسٹن کنسلٹنگ کارپوریشن (پرائیویٹ) لمیٹڈ 25 ملین روپے
  72. ٹریکن بوسٹن کنسلٹنگ کارپوریشن (پرائیویٹ) لمیٹڈ 25 ملین روپے
  73. ٹریکن بوسٹن کنسلٹنگ کارپوریشن (پرائیویٹ) لمیٹڈ 25 ملین روپے
  74. اوچ پاور لمیٹڈ روپے 1000 ملین
  75. Uch-II پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ روپے 7000 ملین
  76. UEP ونڈ پاور (Pvt) Ltd Rs149mn
  77. یونس انرجی لمیٹڈ 100 ملین روپے
  78. Zephyr Power (Pvt.) Limited Rs40mn
  79. زورلو انرجی پاکستان لمیٹڈ۔ 25 ملین روپے

کل 141.99 بلین روپے

حال ہی میں حکومت نے گردشی قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے  انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو 142 ارب روپے کے واجبات کو ادا کیے ہیں۔

پرائیویٹ بجلی پالیسی کا نتیجہ اور پالیسی کے مضمرات

ڈائنامک ماڈل کے نتائج کی بنیاد پر، پاکستان کے بجلی کے نظام کی حرکیات کے حوالے سے اس پالیسی کے کئی اہم مضمرات سامنے آتے ہیں:

(i) یہ ماحول دوست نہیں ہے، 

(ii) بجلی کے نرخ طویل مدت تک بڑھتے دکھائی دیتے ہیں، (iii) بجلی کی طلب اور رسد کے درمیان فرق کم ہوتا نظر نہیں آتا، اور 

(iv) یہ درآمد شدہ فرنس آئل پر انحصار بڑھاتا ہے۔


گورنمنٹ آف پاکستان کا بجلی کا آرگنائزیشن چارٹ


بجلی مہنگی ہونے کی سدا بہار بڑی وجہ "بجلی چوری"

بجلی کی ترسیل کا نظام
پاکستان میں 8 بڑے گرڈ سٹیشنز ہیں جن میں ایک پشاور، ایک صوبہ سندھ، ایک بلوچستان اور پانچ گرڈ سٹیشنز صوبہ پنجاب میں واقع ہیں۔ بنیادی طور پر پاکستان میں 50 ہرٹز کی فریکوئنسی استعمال ہوتی ہے، اگر بجلی کی سپلائی 50 اعشاریہ آٹھ سے اوپر ہوتی ہے تو پھر سسٹم ٹرپ کرجاتا ہے یعنی وہ بند ہوجاتا ہے اور اگر بجلی کی ترسیل 50 سے کم یعنی 49 پر آتی ہے تب بھی وہ گرڈ یا سسٹم ٹرپ کر جاتا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی ترسیل یا ٹرانسمیشن کا کام نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے پاس ہے۔ این ٹی ڈی سی 550 کے وی، 220 کے وی اور 120 کے وی کی ٹرانسمیشن لائنوں اور گرڈ سٹیشنوں کی تعمیر اور دیکھ بھال کرتی ہے۔ اس وقت این ٹی ڈی سی کے زیرِ انتظام 500 کے وی کے 17 گرڈ سٹیشن ہیں جو 500 کے وی کی ٹرانسمیشن لائنوں سے منسلک ہیں۔ ان ٹرانسمیشن لائنوں کی لمبائی 8 ہزار 388 کلومیٹر ہے۔ اس کے علاوہ 220 کے وی کے 140 گرڈ سٹیشن 11 ہزار 611 کلومیٹر کے ٹرانسمیشن سسٹم سے منسلک ہیں۔مگر پاکستان میں بجلی کی پیداوار پر جس قدر توجہ دی گئی اتنی توجہ بجلی کی ترسیل یعنی بجلی گھروں سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں تک فراہمی پر نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے کہیں بجلی کی ترسیل کا نظام اوور لوڈ ہے تو کہیں گنجائش سے کم استعمال ہورہا ہے۔ دونوں وجوہات کی وجہ سے صارفین کو بجلی کے اضافی بلوں کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔

ذرائع کیمطابق سال 2022 میں بجلی چوری اور لائن لاسز 589 ارب کے لگ بھگ رہے
حکومت نے بجلی فراہم کی 3781 ارب روپے
بجلی کے بل وصول ہوئے 3192 ارب روپے
حکومت کا خسارہ 589 ارب روپے
سب سے زیادہ بجلی چوری پشاور، سکھر، حیدرآباد، کوئٹہ اور قبائلی علاقوں میں ہوتی ہے، جہاں 737 ارب روپے کی بجلی مہیا کی جاتی ہے جبکہ بل صرف 489 ارب روپے وصول ہوتے ہیں۔
پھر اس چوری شدہ بجلی کا خسارہ حکومت ان لوگوں پر ڈال دیتی ہے جو بل ادا کرتے ہیں۔


ایک اور مسئلہ ضرورت سے زائد بجلی کی پیداوار: 
ترقی کرتی ہوئی معیشت کو توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہر 10 سال بعد بجلی کی پیدواری صلاحیت میں 50 فیصد تک اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ تو کیا گیا، لیکن بجلی کے استعمال میں اس سطح پر اضافہ نہیں ہو سکا۔ اس کے علاوہ بجلی کی پیداوارنجی شعبے کے حوالے کرنے، یعنی پرائیویٹائزیشن کی وجہ سے بجلی کی پیداواری لاگت بڑھتی رہی۔ معاشی ترقی کی شرح انتہائی کم ہونے اور بجلی کی پیدواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے انڈسٹریل اور تجارتی استعمال میں بھی اضافہ نہیں ہو سکا، بلکہ ڈومیسٹک یا گھریلو استعمال میں بھی اس تناسب سے اضافہ نہیں ہو سکا، جس کی توقع تھی۔
اس وقت پاکستان میں لگ بھگ 41 ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگے ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان کی بجلی کی ضرورت جو موسم گرما میں پیک پر لگ بھگ 23 سے 24 ہزار میگا واٹ ہوتی ہے جبکہ موسم سرما میں گھٹ کر 10 سے 12 ہزار تک آجاتی ہے۔ جبکہ معاہدوں کیمطابق پاکستان پرائیوٹ بجلی بنانے والے پلانٹس سے بجلی لے یا نہ لے ان کو ان کی کپیسٹی کے حساب سے پیمنٹ کرنی ہی پڑتی ہے۔ پرائیوٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت لگ بھگ 25 ہزار میگا واٹ ہے.
مزید براں پاکستان کی بجلی کی ترسیل کی صلاحیت بھی پیداوار سے بہت کم ہے، تو پھر ترسیل کے نظام کو بہتر بنائے بنا پیداوار بڑھانے کا جواز بنتا نہیں۔
پاکستان میں فی الوقت بجلی کے پیداواری ذرائع:

درج بالا فیگرز کیمطابق پاکستان کل بجلی کا 40٪ خود تیار کررہا ہے جبکہ بقیہ 60٪ بجلی پاکستان درآمد کررہا ہے، سیدھی سی بات ہے پاکستان بجلی تک میں خود کفیل نہیں ہو سکا ہے، اب جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے یا آئل گیس کوئلہ مہنگا ہوتا ہے تو پاکستان میں بجلی مہنگی ہو جاتی ہے، اور یہ سب پاکستان کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔بجلی پیدا کرنے والے تمام ذرائع میں سب سے سستی بجلی نیوکلیئر پاور پلانٹس سے حاصل ہوتی ہے جس کی فی یونٹ قیمت 1.16روپے ہے۔ جو مجموعی پیداوار کا محض 8 فیصدی ہے۔


ملک میں سستی توانائی کی شدید قلت ہے، مزید یہ کہ تھرمل بجلی دن بہ دن مہنگی ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ ہے کہ فاسل ایندھن کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ پاکستان پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، پاکستان اکنامک سروے کیمطابق پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ:

پاکستان اقتصادی سروے کے اعداد و شمار ، پاور سیکٹر کا سرکلر قرض

2008 میں ، 161 بلین

2013 میں ، 450 بلین

2018 میں ، 1.148 ٹریلین

مارچ 2022 ، تک 2.467 ٹریلین روپے ہو چکا ہے جبکہ

تخمینہ ہے کہ 2025 تک یہ 4 کھرب تک پہنچ جائے گا، تو ایسے میں حکومتی سستی بجلی ناممکن ہو جائے گی۔ حکومت بجٹ 2022 میں بجلی مزید مہنگی کرنے جا رہی ہے۔

 یکم جولائی سے فی یونٹ بجلی 3 روپے 50 پیسے مہنگی ہو جائے گی

یکم اگست سے فی یونٹ بجلی مزید ساڑھے 3 روپے مہنگی ہوجائے گی،

 یکم اکتوبر 2022 سے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں مزید 91 پیسے فی  یونٹ اضافہ کیا جائے گا اور یکم اکتوبر سے بجلی کا فی یونٹ بڑھ کر25 روپے ہو جائے گا۔

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قیمت بڑھانے سے بجلی کے گردشی قرضے کم ہو جایں گے یا بجلی کے بقیہ مسائل بھی حل ہو جایں گے؟ تو جواب ہے نہیں، بلکہ یہ اضافہ محض ٹیکس کولیکشن کا ہتھیار ثابت ہو گا، جبکہ بجلی کے مسائل جوں کے توں برقرار رہیں گے، اس کی وجہ ہے کہ تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد پاکستان نے بجلی کی انرجی کی کوئی پائیدار پلاننگ ہی نہیں کی، ہر حکومت ڈنگ ٹپاو پالیسی بناتی ہے جو پاور سیکٹر کے مسائل حل کرنے کی بجائے مزید گھمبیر کر دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایل این جی گیس کا گردشی قرضہ بھی 650 ارب روپے سے اوپر جا چکا ہے۔ گیس بھی عالمی مارکیٹ میں نایاب ہوتی جارہی ہے، 

تھرکول میں کوئلے کے بے انتہا ذخائر کی عوام کو خوشخبری بہت سنائی جاتی ہے لیکن حقائق دیکھیں تو دلی دوراست، 


تھرکول کے کوئلے سے بجلی کا پہلا منصبہ 660 میگا واٹ کا 2020 میں آپریشنل ہوا تھا، جو اب بڑھ کر 1320 میگا واٹ پیداوار تک پہنچ چکا ہے، لیکن پاکستان کوئلے سے ٹوٹل 5280 میگا واٹ بجلی بنا رہا ہے اس طرح بقیہ 3960 میگا واٹ بجلی امپورٹڈ کوئلے سے بنائی جا رہی ہے، کوئلے کی قیمت بھی عالمی مارکیٹ میں دن بدن بڑھتی جارہی ہے، 

درج بالا حقائق سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پاکستان سستی اور ماحول دوست توانائی پیدا کرنے میں تاحال ناکام ہے، پانی کی بجلی سستی اور ماحول دوست ہے لیکن اس کے لیے درکار بڑے فنڈز اور زیادہ درکار وقت کا پاکستان متحمل نہیں، فاسل ایندھن سے تیارکردہ بجلی دن بدن مہنگی ہوتی جارہی ہے اور یہ ماحول دوست بھی نہیں ہے۔ ایسے میں بالآخر سوئی یقینا سولر انرجی پر ہی جاکر ٹکتی ہے، 

سولر انرجی

سورج زمین کے قریب ترین ستارہ ہے۔ 150 ملین کلومیٹر

شمسی توانائی تب سے موجود ہے جب سے سورج موجود ہے یعنی 5 ارب سال سے۔ لیکن انسان اس کو ہزاروں سال سے ہی بروے کار لا رہا ہے، انسان نے سردی سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنے گھروں کے منہ جنوب کی طرف رکھنے شروع کیے.

سورج کی روشنی میں بے پناہ طاقت ہے اور ہم اس سے اپنی سوچ سے بھی زیادہ توانائی حاصل کرسکتے ہیں۔

دنیا تیزی سے شمسی توانائی کی طرف جا رہی ہے، 

چین اس وقت سولر انرجی میں 253 گیگا واٹ کیساتھ سرفہرست ہے، امریکہ 76 گگا واٹ، جاپان 67، جرمنی 53 اور بھارت 40 گگا واٹ پیداوار کیساتھ 5 نمبر پر ہے، اس فہرست میں پاکستان کا دور دور تک کوئی نام نشان نہیں ہے،



ساری دنیا سولر انرجی پر بھرپور توجہ دے رہی ہے، امریکہ، یورپی یونین، آسٹریلیا اور بھارت تو سولر پینل کی درآمد پر 50٪ سبسڈی دے رہے ہیں، چین نے 2010 میں ہی سولر بجلی کی اہمیت کے پیش نظر ہنگامی بنیادوں پر لوگوں کو خصوصی پیکج اور رعایتں دی. بھارت 2030 تک 450 گیگا واٹ سولر بجلی کے ٹارگٹ پر کام کررہا ہے، جس سے بھارت 2040 تک اپنی کل بجلی کا 40٪ سولر پر کنورٹ کرچکا ہو گا. مگر پاکستان میں گنگا الٹی ہی بہتی ہے پاکستان کا اس طرح کا نہ کوئی پلان ہے اور نہ کوئی ٹارگٹ، کچھ لوگوں نے اپنی ہمت سے سولر پینل لگائے تھے وہ نیٹ میٹرنگ کے ذریعے واپڈا کو بجلی دے رہے تھے، واپڈا ان سے بجلی 9 روپے میں لے کر آگے 16 روپے میں بیچ رہی تھی، لیکن اس کے باوجود پاکستان ماحول دوست بجلی کو توجہ دینے کو تیار نہیں، دنیا سولر پینل کی بجلی بنانے کی استعداد کار دن بدن بڑھا رہی ہے، جو کچھ سال پہلے 16٪ تھی، اب 26٪ تک بڑھ چکی ہے اور امید ہے اگلے چند سالوں میں یہ 60٪ ہو جائے گی، پھر واپڈا کے کھمبے تاریں بجلی گھر سب بیکار ہو جایں گے، 

لیکن پاکستان میں قابل تجدید بجلی کا شئیر اس وقت نہ ہونے کے برابر ہے تقریبا 3٪. 

پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے مطابق، 2020 تک، فاسل ایندھن کا حصہ کل بجلی کی پیداوار میں تقریباً 63 فیصد ہے، اس کے بعد پن بجلی 29 فیصد، جوہری توانائی 5 فیصد، اور قابل تجدید توانائی تقریباً 3 فیصد ہے۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے مطابق، مالی سال 22 میں کل نصب شدہ صلاحیت تقریباً 43,775 میگاواٹ (میگاواٹ) تک پہنچ گئی۔


 جیواشم ایندھن، بشمول تیل، گیس، اور کوئلہ، ملک کی بجلی کی پیداوار کا ایک اہم حصہ ہے، جس کی مجموعی صلاحیت تقریباً 26,683 میگاواٹ ہے۔ تاہم، قابل تجدید توانائی کے ذرائع، خاص طور پر شمسی اور ہوا، نے رفتار حاصل کی ہے، جس سے پاکستان کے توانائی کے مکس میں تنوع پیدا ہوا ہے۔


 شمسی توانائی کی تنصیبات میں قابل ذکر نمو دیکھنے میں آئی ہے، جس کی تنصیب کی صلاحیت FY22 تک 2,368 میگاواٹ سے زیادہ ہے، جو شمسی توانائی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور صلاحیت کی عکاسی کرتی ہے۔

ستمبر 2023 تک، پاکستان میں 700 واٹ کے سولر پینل کی قیمت روپے کے درمیان ہے۔ 55,000 سے روپے 90,000


 قیمت کی یہ حد کئی عوامل سے متاثر ہوتی ہے، بشمول برانڈ، قسم، معیار، کارکردگی، اور شمسی پینل کی متوقع عمر۔


 700 واٹ کا سولر پینل اپنی اعلیٰ پیداوار، کارکردگی، خلائی اصلاح اور لاگت کی تاثیر کے لیے مشہور ہے۔

 حالیہ برسوں میں، پاکستان نے شمسی توانائی کے منصوبوں میں، ملکی اور غیر ملکی دونوں طرح کی خاطر خواہ سرمایہ کاری دیکھی ہے۔ اس نے قابل تجدید توانائی کے لیے ایک فنانسنگ اسکیم متعارف کرائی ہے تاکہ نجی شعبے کے صارفین کو قابل تجدید بجلی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے فنانسنگ دستیاب ہو سکے۔ فروری 2022 تک، اسٹیٹ بینک نے قابل تجدید توانائی میں 1,375 میگاواٹ کی مشترکہ صلاحیت کے ساتھ 1,175 سے زائد منصوبوں کو 74 ارب روپے (تقریباً 400 ملین ڈالر) فراہم کیے تھے۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کیمطابق پاکستان سولر سے 40 گیگا واٹ بجلی بنا سکتا ہے. 
سولر انرجی کی حوصلہ افزائی کے لیے سولر پینلز پر عائد ٹیکس کو جلد از جلد ختم کیا جانا چاہیے۔ محکمہ توانائی پنجاب کی جانب سے گھروں کو سولر پینل دینے کی تجاویز حکومت پنجاب کو پیش کردی گئی ہیں،وفاقی حکومت کیساتھ مشاورت کے بعد سولر پینل کی تقسیم کے منصوبے کو حتمی شکل دی جائے گی۔سبسڈی پرسولر پینل دینے کیلئے صارفین کے گھروں کا انتخاب بجلی کے بلوں کو دیکھ کر کیا جائے گا۔

بجٹ 2022 دستاویز کے مطابق بینک 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو آسان اقساط پر سولر پینل دیں گے۔ اس سے ماحول دوست بجلی کو فروغ ملے گا اور مہنگے تیل اور گیس کی درآمد میں کمی آئے گی۔ لیکن سولر پالیسی اپناتے وقت ماضی کی غلطیوں کو بھی سامنے رکھنا چاہیے، جس حکومت نے 2015 میں مہنگی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگائے اور پھر جن کو بجلی پیدا کیے بنا ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور وہ منصوبے آج پاکستان کے گلے پڑے ہوئے ہیں، وہی حکومت آج سولر پینلز امپورٹ کے منصوبے بنا رہی ہے، یہ تو پھر آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق ہو گا، اس ٹیکس چھوٹ سے حکومت کے من پسند لوگ فائدہ اٹھایں گے، اپنی جیبیں گرم کریں گے اور بدلے میں ڈالر اور تیزی سے ملک سے نکل جایں گے، اس چیز سے بچنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ سولر پینل امپورٹ کرنے کی بجائے ان کو اپنے ملک میں تیار کرنے کے منصوبے لگائے، اپنے ملک میں اس کے لیے خام مال بھی دستیاب ہے، اس طرح ڈالرز کا اخراج رک جائے گا اور ملک سولر پینل میں خودکفیل بھی ہو جائے گا. دوسری طرف ایسی خبریں بھی سننے کو ملتی ہیں کہ چین کی کچھ کمپنیاں اپنے سولر پلانٹ لگا بجلی کے بلوں کے ذریعے اپنے اخراجات اور منافع وصول کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں، اس سے بھی امپورٹ بل میں کمی لائی جاسکتی ہے، لیکن سوال آخر وہی کہ پھر اس سب میں وفاقی وزیر اور سرخ قلم کے ہاتھ کیا آئے گا؟ 

سولر پینلز ناصرف گھروں کی بجلی بنانے کے آ سکتے ہیں بلکہ اب سولر پینلز سے لیس سولر کاریں بھی مارکیٹ میں آ رہی ہیں۔

کیا بیٹریوں کے بغیر بجلی ذخیرہ کرنا ممکن ہے؟

 جی ہاں، بیٹریوں کے استعمال کے بغیر بجلی ذخیرہ کرنا ممکن ہے۔ توانائی ذخیرہ کرنے کی بہت سی جدید ٹیکنالوجیز تیار کی گئی ہیں جو مقامی طور پر دستیاب، محفوظ، اور کم لاگت کے طریقے استعمال کرتی ہیں۔


فاسل ایندھن کا متبادل، سولر انرجی

پاکستان روزانہ 56 ملین لیٹر فاسل ایندھن استعمال کرتا ہے جس کی لاگت 3.3 بلین بنتی ہے پاکستان فاسل ایندھن کے استعمال کنندہ میں دنیا میں 33 ویں نمبر پر ہے۔ فاسل ایندھن کے استعمال کی تفصیل:

موٹر سائیکلیں 23 ملین ۔

کاریں 5 ملین

کھپت کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

ٹرانسپورٹ 79٪۔

پاور سیکٹر  11.84%

صنعتیں 7.38٪۔

حکومت 1.54 فیصد۔

گھروں میں 0.15٪۔

دنیا تیزی کیساتھ فاسل سے سولر انرجی پر شفٹ ہو رہی ہے، یورپ نے 2035 کے بعد فاسل ایندھن والی گاڑیوں پر پابندی لگا دی ہے۔البتہ پاکستان نے 2030 تک 30٪ گاڑیوں کو الیکٹرک پر منتقل کرنے کی پالیسی بنا رکھی ہے۔ فاسل ایندھن کی بڑھتی قیمتوں نے فاسل ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کی پر کلو میٹر کاسٹ حد درجہ بڑھا دی ہے، اور اگر روس نے تیل گیس کی ترسیل روک دی تو تیل کی قیمت 400 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے۔

پیٹرول کار 1300 سی سی شہر کے اندر 11 کلومیٹر کی اوسط سے چلنے والی  کی قیمت 20 روپے / کلومیٹر ہے۔

پٹرول کار 660 شہر میں 17 کلومیٹر کی اوسط سے چلنے والی کی قیمت 12 روپے فی کلومیٹر پڑ رہی ہے۔

ہائبرڈ کار 25 کلومیٹر کی قیمت 10 روپے / کلومیٹر

پلگ ان ہائبرڈ کار 40 کلومیٹر لاگت 5 روپے / کلومیٹر

پاکستان میں چونکہ ابھی چارجنگ کی سہولت بہت ہی قلیل ہے 


تو فی الوقت پہلا آپشن ہائبرڈ گاڑی کو لیتے ہیں؛

ہائبرڈ کاریں

ہائبرڈ گاڑی 10 سے لے کر 50٪ تک فیول کی بچت کرتی ہے، 

ہائبرڈ گاڑیوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: عام ہائبرڈ کار اور پلگ ان الیکٹرک کار۔

ایک عام ہائبرڈ کار میں دو انجن ہوتے ہیں ایک پٹرول جبکہ دوسرا بیٹری سے چلنے والی موٹر۔ بجلی کے نظام میں ایک چھوٹی بیٹری ہوتی ہے جس کی طاقت ایک سے تین کلوواٹ ہوتی ہے۔ گاڑی چلنے کے دوران بیٹری کو ساتھ چارج بھی کرتی رہتی ہے، بریک لگانے سے پیدا ہونے والی توانائی سے بھی بیٹری کو چارج کیا جاتا ہے، گاڑی میں موجود کمپیوٹر سسٹم گاڑی کے چلنے کے دوران درکار قوت اور سپیڈ کیمطابق گاڑی کو پٹرول یا پھر بیٹری سے چلاتا ہے، سگنکل وغیرہ پر گاڑی کو بیٹری ٹرانسفر کردیا جاتا ہے، شہر کے اندر ہائبرڈ گاڑی بہت پٹرول کی بچت کرتی ہے۔ لیکن چھوٹی بیٹری اور چھوٹے الیکٹرک میکنزم کیوجہ سے گاڑی پٹرول پر زیادہ انحصار کرتی ہے خاص کر ہائی ویز یا پہاڑی علاقے میں جہاں گاڑی کو زیادہ پاور کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر ایک عام ہائبرڈ کار کی فیول ایوریج یا رینج 25 سے 30 کلومیٹر فی لیٹر ہو تو اس کا فی کلومیٹر خرچ 8 سے 10 روپے بنتا ہے۔


دوسری قسم کی گاڑیاں پلگ ان ہائبرڈ ہیں، ویسے تو آجکل ہر کوئی مکمل الیکٹرک کار کی بات کررہا ہے، لیکن پلگ ان ہائبرڈ کار ہو سکتا ہے کہ اس وقت آپ کو مکمل سوٹ کرے. اگر آپ بڑے جغرافیے کے ملک میں رہتے ہیں اور دور دراز کے سفر کرتے ہیں تو پلگ ان کار آپ کے لیے بہترین آپشن ہوسکتا ہے. عام ہائبرڈ کار کی بجائے پلگ ان کار میں دوران سفر گاڑی کو چارج کرنے کا الگ سے سسٹم موجود ہوتا ہے جو ساتھ ساتھ بیٹری کو چارج بھی کرتا ہے، ان گاڑیوں میں 10 سے 15 کلو واٹ گھنٹہ کی بڑی بیٹری ہوتی ہے۔ چارجنگ پورٹ سے اس گاڑی کو گھر پر یا کہیں چارجنگ سٹیشن پر چارج بھی کیا جا سکتا ہے۔



اگر ایک پلگ ان ہائبرڈ کار پوری طرح سے چارج ہو تو اس کے پٹرول کی رینج فی لیٹر 30 سے ​​50 کلومیٹر کے درمیان ہو سکتی ہے، یعنی فی کلومیٹرخرچ چار سے سات روپے میں پڑتا ہے


پاکستان میں فی الحال ہائبرڈ گاڑیوں کی پیداوار شروع نہیں ہوئی لیکن انڈس موٹر کارپوریشن نے 2023 میں پہلی ہائبرڈ کار 'ٹویوٹا کراس' متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔

الیکٹرک کاریں

ووکس ویگن کی آٹو ڈرائیو الیکٹرک کا

ایک الیکٹرک گاڑی مکمل بجلی پر ہی چلتی ہے، اس میں گئیر آئل انجن آئل وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوتا، بس بجلی سے چلنے والی موٹریں ہوتی ہیں، الیکٹرک کار کا مینٹیننس خرچہ بالکل کم ہوتا ہے بہ نسبت پٹرول کار کے، اور پٹرول انجن کے مقابلے میں اس کی یکلخت رفتار رفتار کہیں زیادہ ہوتی ہے کیونکہ پٹرول انجن پٹرول انجیکٹ سے دھماکہ سے پسٹن سے توانائی کو ٹائروں تک پہنچنے میں وقت درکار ہوتا ہے جبکہ الیکٹرک کار میں بس کرنٹ کی رفتار سے یہ کام ہوتا ہے۔

شنگھائی میں ٹیسلا کی گیگا فیکٹری دنیا کی سب سے بڑی فیکٹری ہے جو روزانہ کی بنیاد پر 2000 گاڑیاں تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آٹو موٹیو انڈسٹری میں اگلا انقلاب پیٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کو الیکٹرک گاڑیوں سے بدلنا ہے۔ الیکٹرک کار کا مین آئٹم بیٹری ہے، پرانی تیزاب والی بیٹری کم پاور جبکہ وزن اور حجم زیادہ رکھتی ہیں، اس کے مقابلے میں لیتھیم بیٹری کم وزن جبکہ زیادہ پاور رکھتی ہے، اب دنیا اس سے آگے قلن ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہی ہے جو لیتھیم بیٹری سے پچاس فیصد زیادہ طاقت رکھتی ہے 
قلن بیٹری بنانے والی کمپنی 1،000 کلومیٹر رینج کا دعویٰ کر رہی ہے. مزید برآں یہ بیٹری 10 منٹ میں چارج کی جاسکے گی. 

اس وقت پاکستان میں دستیاب الیکٹرک کاریں

MG ZS EV 44.5 kWh 320 kilo meters PKR 6.25
Audi e-Tron
BMW iX 100

سولر کار ایک ہی چارج پر 700 کلومیٹر سے زیادہ چلتی ہے، سولر اور الیکٹرک بیٹریاں۔ یورپی ماڈل کی قیمت تقریباً 2.5 لاکھ یورو ہے، لیکن کمپنی ایک کم لاگت والے ماڈل کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جو 30,000 یورو سے شروع ہوگی۔ توقع ہے کہ کار 2024 یا 2025 کے آخر تک مارکیٹ میں آئے گی۔

الیکٹرک کار فی کلومیٹر لاگت۔

فاسٹ چارجنگ 7.5 روپے فی کلومیٹر،

ہوم چارجنگ 4 روپے 

شمسی چارجنگ 1.5 روپے

دنیا میں سب سے زیادہ بائیکس ایشیا میں پائے جاتے ہیں، ایشیا میں شاید ہی ایسا کوئی گھر ہوتا ہے جس میں بائیک موجود نہیں ہوتی، کیونکہ بائیک کم خرچ برق رفتار چھوٹی کارآمد سواری ہے. ایشیا میں فی کس بائیک کا تناسب اگر 70٪ ہے تو برطانیہ میں یہ محض 7٪ تک گر جاتا ہے. ماہرین کیمطابق فاسل ایندھن کی بڑھتی قیمتوں کے سبب الیکٹرک بائیکس کی فرخت 2030 تک ڈبل یعنی 30 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی. اس وقت چین دنیا میں سب سے زیادہ الیکٹرک بائیکس بنا رہا ہے. مسئلہ پھر چارجنگ سٹیشن اور چارجنگ کے وقت کا ہے، تائیوان نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ آپ کسی بھی بیٹری سٹور پر جاکر پرانی بیٹری دے کر نئی بیٹری لے سکتے ہو، 

پاکستان 20 ملین موٹر سائیکلوں کو الیکٹرک پر منتقل کر کے پیٹرول کے درآمدی بل کو کم کر سکتا ہے۔ 




منی وین کو برقی وینوں سے بدل کر اندرون شہر کاربن فری ماحول کو ممکن بنایا جا سکتا، ہر سال پلوشن سے ہزاروں جاندار مر جاتے ہیں بیماریاں الگ جنم لیتی ہیں، خاص کر پاکستان کو ملین شہری آبادی والے شہروں کو فورا کاربن فری بنانے کے منصوبے کا اعلان اور عمل شروع کردینا چائیے ۔



پاکستان کی الیکٹرک پالیسی 2019

وفاقی کابینہ نے اس پالیسی کی منظوری نومبر 2019 میں دی تھی۔ اس پالیسی کا مقصد نقل و حرکت کے نظام میں 2025 تک پانچ لاکھ الیکٹرک موٹرسائیکلز اور رکشے، ایک لاکھ الیکٹرک کاریں، وینز اور چھوٹے ٹرک لانا ہے۔ 

پاکستان میں پالیسیاں فقط کاغذوں میں بنتی ہیں ان پر عملدرآمد اور سنجیدگی نہیں ہوتی، اور پھر معاشی سیاسی استحکام بھی نہیں ہوتا، حکومت بدلتے ہی معاشی پالیسیاں بھی بدل جاتی ہیں. جبکہ دوسری طرف دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں فاسل ایندھن کی بجائے صرف الیکٹرک وہیکل کی پیداوار کا اعلان کرچکی ہیں. دنیا میں اس وقت الیکٹرک وہیکل کا شئیر محض 5٪ ہے جو 2025 میں 20٪ اور 2040 تک 50٪ تک ہوجانے کا امکان ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں آپ صحیح طرح سے اس کی پیشن گوئی نہیں کرسکتے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں آزاد منڈی آزاد تجارت میں انسانی فطرت کا بڑا عمل دخل ہے، انسان اس معاملے میں ریوڑ کی نفسیات جیسا رویہ ظاہر کرتے ہیں، اس لیے اگر ان کا رحجان الیکٹرک وہیکل کی طرف ہوگیا تو پھر سڑک پر فاسل کار آپ کو شاید نظر آئے گی. اس وقت سب سے اچھی بات جو ہے کہ الیکٹرک ٹیکنالوجی ترقی کررہی ہے تو دوسری طرف فاسل ایندھن انتہا درجے مہنگا ہوچکا ہے جو شاید الیکٹرک وہیکل کے انقلاب کا سبب بن جائے گا. انشاءاللہ. 

تاہم فی الحال الیکٹرک کار کی قیمتیں زیادہ ہیں اور چارجنگ کی سہولیات کا فقدان ہے۔الیکٹرک وہیکل چارجنگ یونٹس لگانے والی کمپنی ’گو‘ کے مطابق اٹلی سے درآمد کرنے پر وہیکل چارجنگ ایک یونٹ 50سے 55لاکھ کا پڑے گا۔ جو اب ڈالر بڑھنے کے سبب دوگنا مہنگا ہو جائے گا، 

پاکستان جیسا ملک جو فاسل ایندھن امپورٹ کرتا ہے اور فاسل ایندھن کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے بالکل نکلتی جارہی ہیں ایک طرف روس اور یوکرین کی جنگ کے سبب عالمی مارکیٹ میں تیل گیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو دوسری طرف پاکستان کے تجارتی خسارے کے سبب ڈالر کی قیمت بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے، نتیجتا تیل اور گیس کی قیمتیں پچھلے ماہ سے تقریبا ڈبل ہو چکی ہیں، اور یکم جولائی سے مزید 60 سے ستر روپے مزید مہنگا ہونے جارہا ہے،


  

ابھی دہ ماہ پہلے میں سوچ رہا تھا کہ گھر سے یو پی ایس اتروا دوں لیکن اب سولر پینلز لگوانا مجبوری بنتا جا رہا ہے کیونکہ اتنی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے کہ یو پی ایس چارج ہی نہیں ہوتا اور بجلی پھر چلی جاتی ہے۔

ساتھ ہی دل کررہا ہے کہ اپنی پٹرول پر چلنے والی گاڑی پر اچھا اور موٹا سا کوور چڑھا کر اس کو بھول جاوں تآنکہ روس اور یوکرین کی جنگ بند نہیں ہوتی، 

پاکستان شدید ماحولیاتی آلودگی کا بھی شکار ہے تو پاکستان کو سنجیدگی اور مستقل مزاجی سے الیکٹرک پالیسی بنا کر ان مسائل کے پائیدار حل تلاش کر فکس کرنے ہوں گے، لیکن سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے ہوتے ہوئے فی الوقت پاکستان میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا، لیکن ایک بات کنفرم ہے اگر روس اور یوکرین کی جنگ 6 ماہ اور چلتی رہی (یا پھر کامیاب مذاکرات میں روس پر پابندیاں ختم نہیں ہوتی) تو یہ فاسل ایندھن کے خاتمے اور سولر انرجی کے لیے انقلاب ثابت ہو سکتا ہے. آزاد منڈی ناجائز منافع خوری کو زیادہ دیر برداشت نہیں کرتی جو ملک اس وقت فاسل ایندھن سے بےجاہ منافع کمارہے ہیں وہ بھول رہے ہیں کہ اگر دنیا نے 2040 تک متبادل انرجی پر شفٹ ہونا تھا تو اب شاید وہ 2030 تک ہی ہوجائے گی. 



حوالہ جات:

پاکستان میں شمسی ذرائع سے بجلی کی زیادہ پیداوار کیوں نہ کی جا سکی؟

بجلی مہنگی کیسے ہوئی؟ تحریر : رؤف کلاسرا

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 2

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 3

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 4

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 5

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 6

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 7

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 8

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 9

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 10

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 11

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 12

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 13

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 14

بجلی مہنگی کیسے ہوئی حصہ 15

متبادل توانائی، انرجی بحران کا حل

بجلی کے بلوں میں کمی ممکن ہے

پاکستان میں بجلی اس قدر مہنگی کیوں ہے؟

پاکستان میں بجلی کے ٹرانسمیشن نظام کا اضافی بلوں سے کیا تعلق ہے؟

ریلیف کے بجائے قیمتوں میں دوبارہ اضافہ: 589 ارب کی سالانہ بجلی چوری آپ کے بل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟

IPP's معاہدوں کی تجدید ملکی مفاد میں نہیں

پٹرول بجلی اور گیس

کوپ 28: پہلی بار عالمی سطح پر فوسل فیول ترک کرنے پر اتفاق، مگر کیا یہ ’نشہ‘ چھوٹ پائے گا؟

آئی پی پیز۔ سیاسی جماعتوں کی معاشی واردات

آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے

حکومت اور آئی پی پیز کے درمیان ہونے والے معاہدے کی تفصیلات سامنے آ گئیں

آئی پی پیز: اشرافیہ کا بل عوام کیوں دیں؟

انرجی کا بحران

نجی پاور کمپنیاں اور مہنگی بجلی

پاکستان میں بجلی کے ٹرانسمیشن نظام کا اضافی بلوں سے کیا تعلق ہے؟


References: 

Essay on Energy Crisis in Pakistan

The History of Private Power in Pakistan

Two decades of flawed policies: Power producers make billions in Pakistan

Independent power producers & economic growth of Pakistan | By Muhammad Nadeem Bhatti

Private Power and Infrastructure Board ANNUAL REPORT 2020

Circular debt payment: here is the list of IPPs and their respective amounts

The History and Problems Faced by Independent Power Producers in Pakistan (1990-2015)

Independent power (or pollution) producers? Electricity reforms and IPPs in Pakistan

How to Store Solar Energy Without Batteries

Solar Panel Connection with UPS: A Comprehensive Guide

Financial globalisation and WAPDA

Pakistan Economic Survey ENERGY

Saturday, June 25, 2022

China Economic Friend or Trade Enemy of Pakistan?

 چین معاشی دوست یا تجارتی دشمن؟

 فروری 2009ء میں پاکستان اور چین نے آزاد تجارتی معاہدہ کیا جس سے دونوں ممالک کی تجارت جو 2002ء میں صرف 1.3ارب ڈالر تھی، 2020ء میں بڑھ کر 20ارب ڈالر تک پہنچ گئی جس میں چین سے پاکستان کو 18 ارب ڈالر اور پاکستان سے چین کو 2 ارب ڈالر کی ایکسپورٹس ہوئیں۔ اس معاہدے سے چین نے 60 فیصد اور پاکستان نے صرف 4فیصد فائدہ اٹھایا لیکن پاک چین FTA کے دوسرے مرحلے میں چین نے پاکستان کو 363 اشیاء ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی اجازت دی ہے جس سے 2021ء میں دونوں ممالک کی تجارت بڑھ کر 27.82 ارب ڈالر ہوگئی جس میں چین سے پاکستان ایکسپورٹ 24.23ارب ڈالر اور پاکستان سے چین ایکسپورٹ 69 فیصد اضافے سے 3.6 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔



چینی قرضے

سنہ 2000 سے لے کر سنہ 2017 تک چین نے پاکستان کو 34 ارب 40 کروڑ ڈالرز کا قرض دیا ہے، سی پیک سے قبل سنہ 2002 سے 2012 کے دوران ، چین سے 84 فیصد قرضہ پاکستان میں مرکزی حکومتی اداروں کو دیا گیا تھا۔ لیکن چین نے سی پیک کے منصوبے کے اعلان کے بعد حکمت عملی بدلتے ہوئے وفاقی حکومت کے علاوہ بھی حکومتی اداروں کو قرض دیا۔



چین پاکستان اقتصادی راہدری یعنی سی پیک کی مد میں دی گئی 90 فیصد رقم قرضوں می شکل میں ہے اور پاکستانی حکومت پر ذمہ داری ہے کہ وہ ان قرضوں کو سالانہ 3.76 فیصد کی اوسط سود کے ساتھ ادا کرے۔ 



چینی قرضوں کی شرح سود عموماً 4 فیصد کے قریب ہوتی ہے جو بینکوں کی شرح سود کے برابر ہے تاہم عالمی بینک یا فرانس اور جرمنی جیسے ممالک کے قرضوں سے چار گنا زیادہ ہے۔

اسی طرح عالمی سطح پر دیکھا جائے تو چینی قرضہ لوٹانے کی مدت بھی عموماً کم ہوتی ہے یعنی اکثر دس برس سے کم۔ اس کے مقابلے میں دیگر ادارے یا ممالک ترقی پزیر ممالک کو جو ریاعتی قرضے دیتے ہیں وہ 28 برس کے لیے ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ چین کے سرکاری بینک وغیرہ جو قرض دیتے ہیں اس میں یہ شرط شامل ہوتی ہے کہ قرض لینے والا ملک کسی آف شور اکاؤنٹ میں کم از کم اتنی رقم ضرور رکھے گا، جو چین قرض نہ لوٹانے کی صورت میں نکلوا سکتا ہو۔

پاکستان نے مارچ میں 2.3 ارب ڈالرز چین کو قرض واپس کر دیا تھا۔ جون کے مہینے میں دوبارہ وہی قرض لیا جا رہا ہے۔ اس کی شرائط بھی زیادہ سخت ہیں۔ چین نے پاکستان کو پابند کیا ہے کہ قرض لینے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں رہنا ضروری ہے۔ ورلڈ بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک کے بعد پاکستان نے سب سے زیادہ قرض چین سے لے رکھا ہے، جس کے سود کی ادائیگی بروقت کی جا رہی ہے۔

 

اورنج لائن اور سی پیک جیسے پراجیکٹس کے قرضے بڑے مہنگے ثابت ہوئے ہیں اور اس طرح کے پراجیکٹس کی 'مینٹیننس کاسٹ' یا دیکھ بھال کی لاگت بہت زیادہ ہوتی ہے جو کہ شرح سود سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اور یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ان بڑے منصوبوں سے ہم کتنا اور کب کمائیں گے۔ 

اورنج لائن ٹرین 1.6 ارب ڈالر کی لاگت میں آدھا قرض چین سے حاصل کیا گیا ہے، پنجاب حکومت 2024 سے 2036 تک اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کا قرض ادا کرے گی۔ پنجاب حکومت 12 سال تک سالانہ 19 ارب پہلی ملکی لائٹ ریل کے قرض پر سود کے طور پر ادا کرے گی۔ اندرونی و بیرونی قرضوں میں اتار چڑھاؤ سے اورنج  ٹرین کی قسط میں بھی اضافہ ہو گیا۔ اورنج ٹرین کے قرض کی قسط 17 ارب روپے سے بڑھ کر 20 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔  اورنج ٹرین کے لئے 165 ارب روپے کے قرض کی ادائیگی تلوار بن کر لٹکنے لگی۔  اگر ہم میٹرو کا ٹکٹ 240 روپے رکھیں تو بھی ہم بڑی مشکل سے قسطیں ادا کرسکیں گے‘ ہم 20 روپے چارج کر کے قرضہ کیسے ادا کریں گے؟

 پاکستان کو ملک چلانے کے لیے اگلے سال تقریباً 41 ارب ڈالر قرض لینے ہوں گے اور اگر اسی طرز پر معیشت چلائی گئی تو دو سالوں میں یہ ڈیمانڈ 80 ارب ڈالر سے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ ان حالات میں چین کی جانب سے پاکستان کو اصلاحات کروائے بغیر قرض دینا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ اس وقت پاکستان پر قرضوں کا سب سے بڑا بوجھ چین کے قرضوں کا ہے


چین سے ملنے والے قرض پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں۔ چین کے باقی دنیا کی نسبت پاکستان کے ساتھ کیے گئے معاہدے زیادہ سخت ہیں۔ مارچ کے مہینے میں پاکستان کے مشکل حالات کے باوجود چین نے پاکستان سے قرض واپس لیا تھا۔ چینی قرضوں پر کوئی چیک اینڈ بیلنس بھی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جس مقصد کے لیے قرض دیے جاتے ہیں اس کے نتائج دیکھے بغیر اگلا قرض دے دیا جاتا ہے جو  کرپشن اور مس مینجمنٹ کا باعث بن رہے ہیں

آئی ایم ایف اور CPEC

آئی ایم ایف میں 25 فیصد شیئر امریکہ کا ہے اس لیے ہر کام میں ان کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔

آئی ایم ایف کی سود کی شرح یا ریٹ آف انٹرسٹ بہت کم ہوتا ہے، تقریباً ایک فیصد۔ وہ قرضوں کی واپسی میں زیادہ سے زیادہ چار سال تک کی چھوٹ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف صورت حال کو دیکھتے ہوئے ان کا قرضوں کی واپسی کا عرصہ بھی بہت لمبا ہوتا ہے

آئی ایم ایف کا قرضہ بنیادی طور پر بیلنس آف پیمنٹ (ادائیگی کے توازن) کے لیے ہوتا ہے۔ بیلنس آف پیمنٹ کی مشکلات اس وقت ہی دور ہوں گی جب ہماری برآمدات بڑھیں گی اور ہماری قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت میں بہتری آئے گی۔

پاکستان میں سنہ 1980 سے آئی ایم ایف کے 14 مالی پروگرام چل چکے ہیں جن میں سنہ 2013 میں تین سال کے لیے لیا جانے والا 6.7 ارب ڈالر کا قرض بھی شامل ہے۔



ازراہ تفنن: سب سے پہلے آئی ایم ایف جانے کا شرف محترم عظیم لیڈر جناب ایوب کو حاصل ہوا. اس کے بعد تو جیسے پاکستانی جغادری لٹیرے سیاستدانوں کے ہاتھ خفیہ خزانہ لگ گیا. جب بھی ڈالرز کی ضرورت محسوس ہوئی ملک میں معاشی اصلاحات کرنے کی بجائے آئی ایم ایف سے الٹی سیدھی شرائط پر ڈالرز پکڑے اپنی حکومت کے ڈنگ ٹپائے اور پھر اگلی آنیوالی حکومت جانے اور آئی ایم ایف کی شرائط جانیں. یہ ملک 64 سال سے قرضوں کی بیساکھیوں پر چل رہا ہے اور اب تو آئی ایم ایف جانا اور ڈالرز حاصل کر لینا باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کا کوئی عظیم چیمپین لیڈر بھی آئی ایم ایف کے کلرکوں کے جوتوں کی خاک برابر نہیں" 

آئی ایم ایف کے مطابق چینی حکومت کی جانب سے فراہم کردہ قرضہ 23 ارب ڈالر ہے جبکہ چینی کمرشل بینکوں کی جانب سے فراہم کردہ قرضہ تقریباً 7 ارب ڈالر ہے۔

حقیقت میں اصل دوست آئی ایم ایف ہے نہ کہ چین۔ اگر ملک میں چھ ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا ہو رہا ہے تو وہ آئی ایم ایف ہی کی بدولت ہے۔ پاکستان کو چین سے لیے گئے مہنگے قرضوں اور معاہدوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ 

 آئی ایم ایف چین کے قرضوں کے حوالے سے ماضی میں بھی اعتراضات کرتا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے چینی آئی پی پیز کو 50 ارب روپے کی ادائیگی پر آئی ایم ایف نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف اگلے مرحلے میں پاکستان پر چین سے مزید قرض لینے پر پابندی لگانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس سے پاکستان کے لیے وقتی طور پر مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں لیکن اس سے معاشی سمت درست ہونے میں مدد مل سکتی ہے

چین پاکستان کے ساتھ دوستی کا دعویدار ہے لیکن حقیقت میں پاکستان اس کے قرضوں کے بوجھ میں جکڑ گیا ہے۔ سری لنکا کے ڈیفالٹ کرنے کی ایک بڑی وجہ چینی کمرشل قرضے بھی ہیں۔ پاکستان کا چین پر بڑھتا ہوا انحصار پاکستان کو سری لنکا جیسی صورت حال سے دو چار کر سکتا ہے۔

قرضوں کے اثرات اور نتائج

مسئلہ قرضوں کا نہیں مسئلہ یہ ہے کہ ہماری قرضے کو سروس یا ادا کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری برآمدات نہیں بڑھ رہیں اور ہم نے اس کی طرف توجہ بھی نہیں دی اور مہنگے قرضے لیے۔ ہمارا ڈیٹ لیول یونان کے مقابلے میں بہت کم ہے ان کا تقریباً 300 فیصد تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال جاپان ہے جس کا ڈیٹ لیول تقریباً 250 فیصد کے قریب ہے۔ مسئلہ زیادہ قرضوں کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ ہم نے قرض لے کر منافع بخش منصوبوں میں لگانے کی بجائے سیاسی پروجیکٹز اور اپنی عیاشیوں میں اڑا دیے۔

نوٹ: درج بالا حقائق مختلف سورسز سے کاپی کیے گئے ہیں،

https://www.independenturdu.com/node/115626
https://cpec.punjab.gov.pk/urdu/faqs
https://cpecinfo.com/%D8%B3%DB%8C-%D9%BE%DB%8C%DA%A9-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B3%D8%A7%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%D8%B5%D9%88%D9%84/
https://urdu.geo.tv/latest/277490-
https://www.independenturdu.com/node/110536
https://www.dawnnews.tv/news/1049873

Wednesday, May 18, 2022

پاکستان پانچ فیصد گروتھ سے ترقی کیوں نہیں کر سکتا؟

 درحقیقت موجودہ صورتحال میں پاکستان 5٪ گروتھ ریٹ سے ترقی کر ہی نہیں سکتا؟

پاکستان کی موجودہ ڈالر ریزرو کی صورتحآل فقط 3٪ تک گروتھ کی متحمل ہی ہے، کیونکہ گروتھ کو5٪ کرنے کے لیے پھر اضافی درآمدات جیسے مشینری وغیرہ کرنا درآمد کرنا پڑتی ہے نتیجتاً جس کے لیے اضافی ڈالرز درکار ہوتے ہیں۔ جن کے لیے پھر مزید قرضہ لینا پڑتا ہے۔ اور ملک مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا ہے. 

لیکن ترقی پذیر ممالک کے لیے 3٪ گروتھ کی شرح انتہائی کم ہے، جو کم از کم 5٪ سے تو اوپر ہی ہونی چائیے. تب کہیں جاکر ملک اپنے عوام کو غربت سے نکال کر ان کی حالت بہتر بنا سکتا ہے۔

جنوبی ایشیا کے ممالک کی ترقی کی شرح، پاکستان اس میں کہاں کھڑا ہے


پاکستان پچھلے 30 سالوں سے لگاتار ڈالرز کی کمی کا شکار ہے، یعنی درآمدات زیادہ ہیں جبکہ ان کو خریدنے کے لیے درکار ڈالرز کم ہیں، 
Years Exports Imports Difference
1985-86 3,070 5,634 -2,564
1986-87 3,686 5,380 -1,694
1987-88 4,455 6,391 -1,936
1988-89 4,661 7,034 -2,373
1989-90 4,954 6,935 -1,981
1990-91 6,131 7,619 -1,488
1991-92 6,904 9,252 -2,348
1992-93 6,813 9,941 -3,128
1993-94 6,803 8,564 -1,761
1994-95 8,137 10,394 -2,257
1995-96 8,707 11,805 -3,098
1996-97 8,320 11,894 -3,574
1997-98 8,628 10,118 -1,490
1998-99 7,779 9,432 -1,653
1999-2000 8,569 10,309 -1,740
2000-2001 9,202 10,729 -1,527
2001-2002 9,135 10,340 -1,205
2002-2003 11,160 12,220 -1,060
2003-2004 12,313 15,592 -3,279
2004-2005 14,391 20,598 -6,207
2005-2006 16,451 28,581 -12,130
2006-2007 16,976 30,540 -13,564
2007-2008 19,052 39,966 -20,914
2008-2009 17,688 34,822 -17,134
2009-2010 19,290 34,710 -15,420
2010-2011 24,810 40,414 -15,604
2011-2012 23,624 44,912 -21,288
2012-2013 24,460 44,950 -20,490
2013-2014 25,110 45,073 -19,963
2014-2015 23,667 45,826 -22,159
2015-2016 20,787 44,685 -23,898
2016-2017 20,422 52,910 -32,488
2017-2018 23,212 60,795 -37,583
2018-2019 22,958 54,763 -31,805
2019-2020 21,394 44,553 -23,159
2020-2021 25,304 56,380 -31,076
Values are in Million US $


اس سال اندازہ ہے کہ 
ایکسپورٹ سے  30 ارب ڈالرز 
اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے بھیجے گئے پیسوں سے حاصل ہوں گئے 30 ارب ڈالرز 
 یعنی ٹوٹل 60ارب ڈالرز 
جبکہ دوسری طرف اس سال درآمدات 75 ارب ڈالرز تک جا پہنچنے کا اندیشہ ہے، اس طرح پاکستان کو پھر 15 سے 20 ارب ڈالرز کا خسارہ ہو گا، جس کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو پھر مزید قرضے لینا پڑیں گے

پاکستان ٹریڈ ڈویلپمنٹ کے اعداد و شمار


گزشتہ 30 سالوں میں صرف 3 سال ایسے گزرے ہیں جب پاکستان کو ڈالرز کا خسارہ نہیں تھا، 2002 سے 2005 تک 9/11 کے بعد امریکی ڈالرز کی امداد کے عوض پاکستان کے پاس اضافی ڈالرز تھے،


جب ٹریڈ خسارہ بڑھتا ہے تو نتیجتا ڈالرز کی کمی کا خسارہ بڑھتا ہے تو نتیجتا پھر ڈالرز مہنگا ہونا شروع ہو جاتا ہے، جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے تب ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہو جاتا ہے، پھر حکومت ڈالر کو کنٹرول کرنے کے لیے مجبورا سود کی شرح بڑھا کر مارکیٹ کی سرگرمیوں کو سلو ڈاون کرتی ہے۔

اس طرح حکومت اپنے ہی بچھائے جال میں پھنسی رہتی ہے۔ قرضے لوٹانے کے لیے قرضے لینے والا سائیکل کبھی رکتا نہیں۔ اسی مدوجزر میں ڈالر بڑھتا چڑھتا رہتا ہے. 

اس وقت پاکستان کا مسئلہ قرضے اور پھر زیادہ سود والے قرضے ہیں۔ دراصل ماضی قریب میں قرضوں کی واپسی کے لیے عجلت میں زیادہ شرح سود پر قرضے لیے گئے، مزید براں یہ قرض سیاسی شوباز پروجیکٹز میں لگائے گئے جو ملکی پیداوار ، برآمدات یا کمائی میں اضافے کی بجائے ازخود ملک پر بوجھ بنتے چلے گئے۔ گزشتہ تین سالوں میں پاکستان کا سارا ریونیو سود کی مد میں چلا گیا۔ پیچھے بچا کچھ نہیں!

پاکستان کے قرضوں کی صورتحال

پاکستان کو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے اپنے سیاسی فوائد کی بجائے ملکی مفاد کی معاشی پالیسی بنانا ہو گی، 

سبسڈی کلچر کا خاتمہ کرنا ہو گا 2021-22 کے بجٹ میں مختلف قسم کی 682 ارب کی سبسڈی مختص کی گئی تھی اور تو اور میٹرو بس کے کرائے میں ایک ارب کی سبسڈی دی جاتی ہے، ایک طرف سبسڈی کلچر معیشت پر بوجھ بنتا ہے تو دوسری طرف کم قیمت کیوجہ سے برآمدی سمگلنگ شروع ہو جاتی ہے۔ سبسڈی اگر کسی چیز پر ایک دفعہ دے دی جائے تو پھر اس کو ختم کرنا مشکل بن جاتا ہے۔ اس لیے کسی بھی حکومت کو کسی بھی چیز پر سبسڈی سوچ سمجھ کر ہی دینی چائیے۔ سبسڈی دراصل مارکیٹ کو اپنے اصل لیول پر چلنے سے روکتا ہے جو مصنوعی صورتحال کو جنم دیتا ہے۔ اور مصنوعی مارکیٹ جب گرتی ہے تو پھر اس کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملتا، کیونکہ وہ پہلے ہی بیساکھیوں پر چل رہی ہوتی ہے۔

لگثری درآمدات کم کرنا ہوں گی، کیونکہ پھرامیروں کے کھانے کی قیمت غریب ادا کرتے ہیں. 

لگثری اشیا پر عارضی پابندی (عالمی قوانین کیمطابق بیلنس آف پیمنٹ کی مشکلات کے شکار ممالک اس طرح کی عارضی پابندیاں لگا سکتے ہیں) سے لگ بھگ 5 سے 6 ارب ڈالرز بچائے جا سکتے ہیں، جو مصیبت کی اس گھڑی میں بہت بڑا ریلیف ہو سکتا ہے۔


صرف موبائل فون 2 ارب ڈالر کے قریب درآمد کیے جاتے ہیں 

اس کے علاوہ کھانے پینے کی اشیاء 3 ارب ڈالرز کے قریب درآمد کی جاتی ہیں ان چیزوں کو مقامی سطح پر تیار کیا جانا چاہے اور انکی درآمد پر مکمل پابندی ہونی چاہیے، 

پٹرولیم مصنوعات کو سولر یا بیٹری پاور پر کنورٹ کرنا ہو گا پٹرولیم مصنوعات کی درآمد 17 ارب ڈالر سے اوپر ہے، 


پاکستان کو جلد از جلد گاڑیوں کو الیکٹرک ٹیکنالوجی پر کنورٹ کرنا چایئے۔ اور بڑے شہروں میں تو کاربن وہیکل پر بالکل پابندی لگا دینی چائیے۔

تھرمل پاور رینٹل بجلی گھروں سے نجات حاصل کرکے سستی پن بجلی پر جانا ہو گا، 

پاکستان کی درآمدات ملکی معیشت کا 20٪ جبکہ برآمدات 10٪ ہیں. پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر برآمدات کو بڑھانا ہو گا تاکہ تجارتی خسارہ کم سے کم سطح پر آ سکے. 

ہر ملک سیاسی فوائد کی بجائے ملکی مفاد کے فیصلہ کررہا ہے، مگر پاکستان میں اگلے الیکشن کی سیاست کی جاتی ہے، ن لیگ فورا" نظر آنے والے پروجیکٹز پر فوکس کرتی ہے جبکہ پی ٹی آئی جاتے جاتے محض نئی آنیوالی حکومت کو پھنسانے کے لیے پٹرولیم مصنوعات پر خودکش قسم کی سبسڈی دے کر سیاسی فوائد حاصل کرنا چاہ رہی ہے، اور ن لیگ بھی سیاسی نقصان کے پیش نظر مشکل فیصلے کرنے سے کترا رہی ہے، لیکن سیاستدان بھول جاتے ہیں کہ ملک ہے تو سیاست بھی ہوتی رہے گی، کرسی بھی ملتی رہے گی،


 

ایسے سمجھیں پاکستانی معیشت وینٹیلیٹر پر ہے اور ہر کچھ دن بعد آئی ایم ایف کے ڈاکٹر کو اس کو آکسیجن دینی پڑتی ہے. اپنی آمدنی سے زائد لیے گے قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہی ہے، اس کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کے لیے حکومت کو بالخصوص وفاقی سرکاری اخراجات بمطابق آمدن کم کرکے بجٹ خسارہ تو فی الفور ختم کرنا ہو گا اندازہ ہے کہ اس سال بجٹ کا خسارہ 3500 ارب کے لگ بھگ ہو گا. اٹھارہویں ترمیم کے بعد اگر ایک طرف ریونیو کا 57٪ صوبوں کو چلا جاتا ہے تو پھر اسی تناسب سے دوسری طرف وفاق کو اپنے اخراجات بھی کم کرنے چاہیے تھے. یہاں تک کہ دفاعی بجٹ کو بھی صوبوں پر مساوی تقسیم کردینا چاہیے لیکن خاکم بدہن قبلہ اپنے اختیارات اور جاہ و جلال میں کسی قسم کی کمی نہیں کرنا چاہتے. تو پھر قبلہ کی شان و شوکت کو قائم رکھنے کے لیے قرضے تو لینے پڑیں گے. 

موجودہ صورتحال پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے، پاکستانی معیشت میں ترقی کا بے پناہ پوٹینشل موجود ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی ناقص پالیسیاں اس کی راہ کی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، پاکستان کو ایک لانگ ٹرم معاشی پالیسی بنانا ہو گی پھر جس پر سب سیاسی جماعتیں عمل پیرا ہوں تب جاکر پاکستان تیز رفتار گروتھ حاصل کرنے کی پوزیشن میں آ سکے گا، وگرنہ باقی سب اسحاق ڈار کا حسابی ہیر پھیر ہے. 

اور سب سے اہم سیاسی استحکام! پاکستان کو معاشی بحران کیساتھ سیاسی بحران کا بھی شدید سامنا ہے، اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں معاشی استحکام ختم نہیں کیا جا سکتا، ملک میں امن ہو گا تبھی سرمایہ کار مطمئمن ہو گا اور سرمایہ کاری ممکن ہو پائے گی لیکن اس وقت ملک کے سب سے بڑے صوبے میں کوئی حکومت ہی نہیں ہے، وزیراعلی نہیں ہے گورنر نہیں ہے، کسی ایک بھی سیاسی پارٹی کو پالیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہے، وفاق میں دو وزیراعظم ہیں دو وزیر خزانہ ہیں لکین کوئی فیصلہ کرنے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، صدر اپنی رٹ اپنا قانون بنائے بیٹھا ہے، ملک میں سب اتھل پتھل کرکے اب تھرڈ امپائر نیوٹرل بن بیٹھا ہے، ایک طرف ان کے سیاسی تجربات بری طرح فیل ہوئے ہیں تو دوسری ان تجربات کی پیداوار سڑکوں پے دندناتے پھر رہے ہیں اور ملک کو اپنی شرائط اپنی خواہشات کے پورا ہونے تک سیاسی بحران کا شکار رکھنا چاہتے ہیں، کوئی لندن سے بیٹھ کر تار ہلا رہا ہے تو کوئی واشنگٹن کے تار پر ہل رہا ہے، ان موجودہ حکمرانوں کے ہوتے ہوئے سیاسی استحکام ناممکن سا نظر آتا ہے اوپر سے مذہبی اور لسانی انتہاپسندی اور دہشتگردی، ہنوز دلی دور است۔