Translate

Showing posts with label ڈاکٹر گوگل. Show all posts
Showing posts with label ڈاکٹر گوگل. Show all posts

Wednesday, April 22, 2020

انسانوں میں افزائش نسل کے مسائل

انسانوں میں افزائش نسل اور اولاد کا حصول
Fertilisation in Human in Urdu

عورت اور مرد کے ملاپ سے انسانوں کی افزائش نسل کا عمل آگے بڑھتا ہے اس
 ملاپ میں مرد اپنا مادہ عورت کے اندر داخل کرتا ہے جہاں یہ مادہ عورت کے بیضہ سے مل کر بچے کی پیدائش کے عمل کی شروعات کرتے ہیں
نارمل حالات میں شادی کے بعد ایک سے دو سال کے اندر بچہ پیدا ہوجاتا ہے لیکن اگر دو سال تک بچہ پیدا نہ ہو تو پھر اس جوڑے کو بچے کے حصول کیلیئے جلد از جلد اینڈوکائنالوجسٹ سے رجوع کرنا چاہیئے۔ کیونکہ اب جدید طریقہ علاج کی بدولت تقریبا" 70٪ جوڑے اولاد کی نعمت حاصل کر سکتے ہیں۔
 درج ذیل میں اس سارے عمل کو سمجھنے کیلیئے کچھ بنادی معلومات دی جا رہی ہیں تو سب سے پہلے پڑھتے ہیں مردوں کے مسائل کے بارے میں:

مردوں کے جنسی مسائل اور انکے حل

 Men Sexual Problems and their Solutions Urdu
ایک تحقیق کیمطابق بے اولادی کا اکثر سبب مردوں میں پائی جانیوالی ہارمونل بیماریاں اور مردوں کا طرز زندگی ہے مردوں میں ٹیسٹی سٹیرون ہارمون کی کمی بے اولادی کی ایک بڑی وجہ ہے 25-30 سال کی عمر سے، انسان کے ٹیسٹوسٹیرون کی سطح قدرتی طور پر کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس ہارمون کی کمی پوری کرنے کے بارے میں ہم آگے پڑھیں گے، 
مرد جنسی عمل کے دوران ایک مادہ خارج کرتے ہیں جس کو مادہ تولید مادہ منویہ اور انگریزی میں سیمین semen کہتے ہیں۔ بچہ جننے کے سارے عمل میں مرد کی طرف سے بنیادی کردار اسی مادہ کا ہوتا ہے
مادہ تولید کیا ہے؟
What is Semen in Urdu
مردوں میں اسپرم sperm بارہ تیرہ سال کی عمر سے بننا شروع ہوجاتے ہیں اور پچیس سال کی عمر تک یہ اپنے عروج پر ہوتے ہیں پھرپچپن سال کی عمر کے بعد ان میں بتدریج کمی آتی جاتی ہے
مردوں کے سپرم sperm خصیوں testes میں خوراک سے حاصل شدہ پروٹین سے بنتے ہیں اس لیے جن دنوں زیادہ مقدار میں سپرم ڈسچارج کررہے ہوں تو ان دنوں میں پروٹین والی غذائیں گوشت انڈے وغیرہ زیادہ کھائیں خصیوں کو گرمی سے بچایں کیونکہ خصیوں کے لیئ سپرم بنانے کے لیے بہترین ٹمپریچر 34 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے زیادہ گرم پانی سے خصیوں کو نہ دھویں خصیوں کو ڈائریکٹ ہیٹ Heat سے بچایں خاص کر لیپ ٹاپ وغیرہ ٹانگوں پر رکھ کر استعمال نہ کریں اور زیادہ ٹائٹ انڈر وئیر وغیرہ بھی نہ پہنیں
مرد ایک سیکنڈ میں 1500 کے لگ بھگ جبکہ روزانہ لاکھوں سپرم پیدا کرتے ہیں مگر ان سپرم کو بڑا ہونے اور مکمل ہونے میں ایوریج 74 دن لگتے ہیں

یہ دورانیہ مختلف مردوں میں کم زیادہ ہو سکتا ہے سپرم بننے کا عمل خصیوں کے اندر شروع ہوتا ہے جہاں سپرم کی پچاس سے ساٹھ دن تک ابتدائی نشوونما ہوتی ہے پھر سپرم خصیوں سے ملحق نالی میں منتقل ہوجاتے ہیں جہاں دس سے پندرہ دنوں میں سپرم کی نشوونما بالکل مکمل ہوجاتی ہے اور وہ خارج ہونے کے لیے بالکل تیار ہو جاتے ہیں سپرم بننے کے بعد اس نالی epididymis duct میں سٹور ہوتے جاتے ہیں یہ نالی چھ میٹر تقریبا" بیس فٹ لمبی ہوتی ہے اس نالی میں کروڑوں سپرم سٹور ہوتے ہیں جن سے مرد ایک انزال میں محض دو سے پانچ کرورڑ سپرم ہی خارج کرتے ہیں جبکہ بقیہ سپرم مرد اگلے انزال کے لیے روک رکھتے ہیں لیکن اگر ان سپرم کو ایک ہفتے تک خارج نہ کیا جائے تو یہ مرنا شروع ہوجاتے ہیں اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ سپرم کو تین سے پانچ دن تک خارج کردیا جائے تاکہ پھر سے تازے نئے سپرم بنتے رہیں

جدید تحقیق کیمطابق روزانہ سپرم کے انزال سے گو سپرم کی تعداد کم ہوجاتی ہے مگر اس کے معیار میں بہت بہتری آجاتی ہے کیونکہ سپرم زیادہ دن تک خصیوں میں پڑے رہنے سے کمزور ہوجاتے ہیں اس لیے بہتر ہے ایک دن یا زیادہ سے زیادہ دو دن چھوڑ کر سپرم کو ڈسچارج ضرور کریں کیونکہ حرکت میں برکت ہے
Semen Analysis in Urdu
مادہ تولید کی کم از کم  مقدار دو ملی لیٹرضرور ہونی چائیے
مادہ تولید مں سپرم کی تعداد Sperm Count
مادہ تولید میں سپرم کی تعداد کم از کم ڈیڑھ سے دو کروڑ ضرور ہونی چائیے جن میں سے حمل کے لیے محض ایک سپرم درکار ہوتا ہے ویسے تو مرد ایک اخراج میں تقریبا" ایک کروڑ سپرم خارج کرتا ہے مگر انڈے تک صرف کچھ طاقتور سپرم ہی پہنچ پاتے ہیں تاکہ صرف صحتمند اور مضبوط بچے ہی پیدا ہو سکیں
سپرم کی حرکت Sperm Motility or Movement 
جب مرد کے عضو سے مادہ خارج ہوتا ہے تو اس میں موجود سپرم تیزی سے آگے کی طرف حرکت کرکے بچہ دانی میں پہنچتے ہیں مادہ میں موجود سپرمز میں سے تقریبا" پچاس پرسنٹ سپرمز میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ہونی چائیے
سپرم کی حرکت کی سمت اور سپیڈ sperm activity grade 
سپرمز کی حرکت تیزاور سیدھی ہونی چائیے تاکہ یہ انڈے تک پہنچ سکیں
سپرمز کی حرکت کو جانچنے کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن WHO نے صفر سے لے کر چار تک درج ذیل کی سکیل طے کر رکھی ہے
  0 بالکل کسی قسم کی حرکت نہیں
  1 حرکت ہے مگر آگے کی طرف نہیں
  1+ کچھ سپرمز کی کبھی کبھار حرکت
  2 بالکل سلو حرکت اور وہ بھی بے سمت
  2+ سلو حرکت مگر آگے کی طرف
  3- تیز مگر بے سمت حرکت
  3 تیز اور سیدھی آگے کی طرف حرکت
  3+ بہت تیز اور سیدھی آگے کی طرف حرکت
  4 انتہائی تیز آگے کی سمت میں حرکت 

سپرم کی شکل و صورت Sperm Morphology

سپرم  کی ایک دم ہوتی ہے اور ایک سر ۔ دم سپرم کو تیرنے میں مدد دیتا ہے جبکہ بیضوی سر اس کو عورت کے انڈے میں گھسنے میں مدد دیتا ہے سر میں مرکزہ ہوتا ہے اور جینیاتی مواد بھی ہوتا ہے

سپرم سر کی طرف حرکت کرکے انڈے تک پہنچتا ہے اگر اس کی دم صحیح نہیں ہوگی تو وہ تیرتا ہوا بچہ دانی کراس نہیں کر سکے گا اور اگر سر کی شکل صحیح نہیں ہوگی تو وہ انڈے میں گھس نہیں سکے گا
  
سپرم کا انڈے تک کا سفر
The Sperm Journey To Egg in Urdu
سپرم کا مرد کے عضو سے نکل کر انڈے تک کا سفر آسان نہیں ہوتا 
جب سپرم عورت کے اندر داخل ہوتے ہیں تو عورت کا مدافتعی نظام اس کو مارنے کی کوشش کرتا ہے مگر عورت بیضہ کی بارآوری کے دنوں میں بچہ دانی میں ایک خاص مادہ چھوڑتی ہے جو سپرم کو بچہ دانی میں تیرنے میں مدد دیتا ہے اور اسکی حفاظت بھی کرتا ہے، سیکس کی معراج پر عورت آرگیزم پاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ زور سے جھٹکے لیتی ہے، ان جھٹکوں سے عورت کی بچہ دانی پھیلتی اور سکڑتی ہے، جس سے وہ سپرمز کو اوپر کی طرف کھینچتی ہے، مزید وہ آرگیزم کے نتیجے میں بچہ دانی میں مادہ بھی چھوڑتی ہے یہ مادہ بھی سپرمز کے تیرنے میں مدد کرتا ہے. 
عورت کا بیضہ بذات خود بھی نیچے کی طرف کھسکتا ہے اور ایک کیمیکل بھی چھوڑتا ہے جو سپرم کو اپنی طرف کھینچتا ہے. 
کروڑوں سپرمز میں سے صرف چند سو سپرمز ہی ٹیوبز تک پہنچ پاتے ہیں
تیز تیرنے والے طاقتور سپرم آدھے گھنٹے میں ٹیوب تک پہنچ جاتے ہیں جبکہ سست سپرم ٹیوب تک پہنچنے میں کئی دن لگا دیتے ہیں 
سپرم ٹیوب میں پہنچ کر تین سے پانچ دن تک زندہ رہتے ہیں اور اگر اس دوران عورت کی بیضہ دانی سے انڈہ بھی ٹیوبوں میں آجائے تو کوئی ایک سپرم انڈہ سے ملکر حمل ٹھہرنے کا عمل شروع کردیتا ہے
جب ایک سپرم انڈے سے مل جاتا ہے تو انڈے کی خول کی سطح surface بدل جاتی ہے تاکہ مزید کوئی سپرم انڈے میں نہ گھس سکے
سپرم کو انڈے کو حاملہ کرنے میں چوبیس گھنٹے لگتے ہیں
حاملہ ہونے کے بعد انڈہ تین سے چار دن تک ٹیوب میں ہی ٹھہرتا ہے پھر وہ بچہ دانی میں آجاتا ہے

کون سا ہارمون مادہ تولید کی پیداوار کرتا ہے
What Hormone Produces Sperms in Urdu 
ٹیسٹوسٹیرون  ہارمون مردوں میں جنسی صلاحیت کو کنٹرول کرتا ہے یہ ہارمون مرد کے خصیوں میں بنتا ہے  جبکہ اس کا کچھ تھوڑا حصہ ایڈرینل گلینڈذ میں بھی بنتا ہے دماغ کے اندر موجود  پیچوٹری گلینڈز اسکی پروڈکشن کو کنٹرول کرتا ہے دماغ  پیچوٹری گلینڈز کو بتاتا ہے کہ کتنا ٹیسٹوسٹیرون ہارمون بنانا ہے پھر پیچوٹری گلینڈ خصیوں کو اتنی مقدار میں  اسکی پروڈکشن کے لیے ہدایت کرتا ہے

ٹیسٹوسٹیرون ہارمون اور سپرم کی پیداوار کیلیئے مفید غذائیں
Testosterone-Boosting Foods in Urdu
خشک میوہ جات بادام اخروٹ سے اسپرم کی پیداوار بڑھتی ہے اور ساتھ ہی ان کی مادہ تولید میں تیرنے کی صلاحیت  بھی بڑھتی ہے
حالیہ تحقیقات میں سائنسدانوں نے لائیکوپین کو سپرم کے لیے بہت موزوں پایا ہے لائیکوپین سپرم کی تعداد اور معیار کو ستر پرسنٹ تک بڑھا سکتا ہے درج ذیل سو گرام خوراکوں میں موجود لائیکوپین کی مقدار
سورج سے خشک شدہ ٹماٹر: 45.9 ملی گرام
ٹماٹر پوری: 21.8 ملی گرام
امرود: 5.2 ملی گرام
تربوز: 4.5 ملی گرام
تازہ ٹماٹر: 3.0 ملی گرام
ڈبے میں بند ٹماٹر: 2.7 ملی گرام
پپیتا: 1.8 ملی گرام
گلابی انگور: 1.1 مگرا
پکی میٹھی سرخ مرچ: 0.5 ملی گرام
    
ٹماٹر کے لائیکوپین کے مردوں کیلئے فائدے
 Benefits of tomato lycopene for men in Urdu
ٹماٹر میں لائیکوپین کثیر مقدار میں ہوتا ہے اور لائیکوپین سے طاقتور اسپرم بنتے ہیں ان کی جسامت حرکت اور سپیڈ میں اضافہ ہوتا ہے کچے ٹماٹروں کی بجائے پکے ہوئے ٹماٹروں میں لائیکوپین زیادہ ہوتا ہے،

کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں جن مردوں کو روزانہ چودہ ملی گرام لائیکوپین بارہ ہفتے تک دیا گیا تو ان کے مادہ تولید میں چالیس فیصد تک بہتری آئی. 14 ملی گرام کیپسول میں تقریبا 200 گرام ٹماٹروں کے برابر لائیکوپین ہوتا ہے،
کچے ٹماٹر کی بجائے پکے ٹماٹر میں لائیکوپین زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے، اس کے بجائے بھی ٹماٹر کی پیسٹ یا کیچپ بنا لی جائے وہ اور بہتر ہے، مزید براں لائیکوپین والے کیپسول بھی لیے جاسکتے ہیں. 
اویسٹرز، کستورا مچھلی
کستورا مچھلی جنسی اشتہا کے لیے سب سے زیادہ مشہور ہے اس میں بہت زیادہ زنک ہوتا ہے جو مردانہ ٹیسٹورون ہارمونز کو بہت بڑھاتا ہے اور ان کی ترتیب بھی صحیح کرتا ہے کستورا مچھلی ایک خول میں بند ہوتی ہے

مچھلی میں موجود اومیگا تھری سپرمزکی تعداد بڑھانے کیساتھ ساتھ خون کی گردش بڑھا کر مردانہ قوت میں بھی اضافہ کرتا ہے
اخروٹ ہیجان اور شہوت میں اضافہ کرتا ہے اخروٹ میں موجود زنک سپرمز کی پیداوار کے لیے بہت بہترین ہے. 
میتھی کے مردوں کیلئے فائدے
Fenugreek increase Sperm and Testosterone in men in Urdu 
ایک سٹڈی میں کچھ مردوں کو روزانہ 500 ملی گرام میتھی 12 ہفتوں تک دی گئی تو ان مردوں میں سے 90 پرسنٹ مردوں میں ٹیسٹورون لیول اور سپرم میں چھیالیس فیصد تک کا اضافہ دیکھنے میں آیا

سیکس نہ کرنے کے نقصان ڈاکٹڑ طاہرہ رباب حفیظ

مادہ تولید کے اجزا اور انکے کام
ریٹھا مادہ تولید کے لیے بہترین پھل ہے


ریٹھا عام ملنے والا سستا پھل ہے اس کی تاثیر گرم و خشک اور یہ زہر کش ہوتا ہے اس کے علاوہ ریٹھا مردانہ سپرم کی تعداد معیار اور انکی تیز تیرنے کی صلاحیت بھی بڑھاتا ہے۔
 
انڈہ مردانہ طاقت کے لیے کتنا فائدہ مند ہے؟
Egg benefit for sperm count
انڈہ ایک مکمل غذا ہے جہاں اس کے اور بہت سے فائدے ہیں وہیں سپرم کے لیے بھی یہ بہت مفید ہے سپرم پروٹین سے بنتے ہیں اور انڈہ پروٹین سے بھرپور ہوتا ہے انڈے میں وٹامن ای اور زنک ہوتا ہے جو سپرم کے تیرنے اور حرکت کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتے ہیں۔ 
مارچوب کے فائدے
Asparagus Benefits for Sperm in Urdu

مارچوب ایک سبزی ہے اس کو انگریزی میں ایسپریگس کہتے ہیں اس مین کیلوریز کم ہوتی ہیں مگر وٹامن اے بی 6 سی اور ای ہوتے ہیں اور اس میں فولیٹ بھی پایا جاتا ہے
تربوز میں شامل سٹرولائن کیمیائی مادہ خون کی نالیوں میں ویاگرا کی گولی کی طرح کام کرتا ہے اور اشتہا کو ایک دم بڑھا دیتا ہے
انار کو محبت کا سیب کہا جاتا ہے اس میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ خون کے جوش کو بڑھا دیتا ہے جس سے اشتہا بڑھ جاتی ہے 
دیگر غذاوں میں سامن مچھلی سیپ کستورا پالک اناج لوبیا دالیں زیتون کا تیل ڈارک چاکلیٹ بیریز کیلے لہسن انڈے گاجریں سبز پتوں والی سبزیاں کدو کے بیج جنسنینگ  گوشت مفید ہیں

تحقیق کیمطابق خوراک کا بہت جلد سپرمز کی صحت پر اثر پڑتا ہے اس لیے اچھے سپرمز کے لیے اپنی خوراک اور لائف سٹائل پر ضرور توجہ دیں. 
اس کے علاوہ باقاعدہ ورزش بہت ضروری ہے
اچھی نیند بہت ضروری ہے
اور قد کے حساب سے متناسب وزن بھی ضروری ہے
ذہنی تناؤ کی سطح کو کم سے کم کریں۔تناؤ کی اعلی سطح آپ کی طویل مدتی صحت کے لیے برا ہے اور آپ کے ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کو کم کر سکتی ہے۔

کچھ دیر سورج کی روشنی حاصل کریں یا وٹامن ڈی سپلیمنٹ لیں۔ وٹامن ڈی 3 سپلیمنٹس ٹیسٹوسٹیرون کی سطح کو بڑھا سکتے ہیں، خاص طور پر بزرگوں اور ان لوگوں میں جن کے خون میں وٹامن ڈی کی سطح کم ہے۔
وٹامن اور منرل سپلیمنٹس لیں۔ وٹامن ڈی اور زنک ٹیسٹوسٹیرون کو فروغ دینے والے کے طور پر سب سے بہتر ہیں۔
ٹیسٹوسٹیرون ہارمون کیلیئے نقصان دہ غذائیں
Harmful foods for Males in Urdu
میٹھی چیزیں  چیونگم ٹوتھ پیسٹ اور بعض دیسی ادویہ میں استعمال ہونے والی مٹھاس  لیکوریس یا ملٹھی وغیرہ جسم میں مردانہ ہارمون ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار کو کم کرتی ہیں اس لیئے مرد حضرات کو ان چیزوں کو اعتدال سے ہی استعمال کرنا چاہئیے
ان کے علاوہ نشہ الکوحل وغیرہ بہت نقصان دہ ہیں
موبائل فون پینٹ کی اگلی جیب میں نہ رکھیں اس کی ریڈی ایشن سے سپرم متاثر ہوسکتے ہیں 
لیپ ٹاپ کو بھی گود میں یا ٹانگوں پر رکھ کر استعمال نہ کریں کیونکہ اس کی ہیٹ بھی سپرمز کو متاثر کر سکتی ہے
تنگ انڈروئیر یا ٹائیٹ پینٹ پہننے سے گریز کریں 
ہر قسم کے نشے الکحل اور سگریٹ نوشی وغیرہ سے پرہیز کریں 
خود کو موٹاپے سے بچا کر رکھیں 
اسرائیل کی ہیبریو یونیورسٹی آف یروشلم اور امریکہ کے ماؤنٹ سنائی سکول آف میڈیسن کی جانب سے کی گئی تحقیق کیمطابق گذشتہ 50 برسوں کے دوران مردوں کے سپرم کاؤنٹ میں 51 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔  سنہ 1970 میں مردوں میں اوسطاً 101 ملین ایسے رپروڈکٹیو سیلز فی ملی میٹر سیمن موجود تھے تاہم یہ اوسط اب گر کر 49 ملین تک جا پہنچی ہے۔مردوں میں اس کی کوالٹی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور تولیدی صلاحیت کے حامل خلیوں میں گذشتہ دہائیوں کے دوران کمی دیکھنے میں آئی ہے۔موٹاپے کے باعث ایڈیپوز ٹشوز کی گروتھ میں اضافہ ہوتا ہے، جس سے ایسا مواد خارج ہوتا ہے جو ٹیسٹاسٹیرون نامی ہارمون کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔ یہ سپرم بنانے میں سب سے زیادہ اہم ہارمون ہے۔ تحقیق کے مطابق گذشتہ دہائی میں لیپ ٹاپ کو گود میں رکھنے کی عادت سپرم کاؤنٹ میں کمی کا باعث بن سکتی ہے

لیپ ٹاپ کو گود میں رکھ کر استعمال نہ کریں کیونکہ لیپ ٹاپ کی ہیٹ خصیوں تک پہنچ سکتی ہے جو خصیوں میں موجود سپرمز کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ سپرم کی پیداوار تقریباً 93.2ºF (34ºC) پر ہوتی ہے۔ یہ جسم کے عام درجہ حرارت 98.6ºF (37ºC) سے 5.4ºF (3ºC) درجے کم ہے۔ جب خصیوں کا درجہ حرارت زیادہ ہو جاتا ہے تو سپرم کے معیار کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ خاص طور پر، سپرم کی تعداد اور حرکت پذیری (نطفہ کی تیرنے اور انڈے تک پہنچنے کی صلاحیت) میں کمی آ سکتی ہے۔
تو کیا ٹھنڈک سپرمز کے لیئے بہتر ہو سکتی ہے؟
1984، 2001، 2013، میں چھوٹے پیمانے پر کیے گئے مطالعات کیمطابق مصنوعی ٹھنڈک کچھ مردوں کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ تاہم، ان مطالعات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی بڑی طبی آزمائش نہیں ہوئی ہے۔
صحتمند سپرمز کے حصول کے لیے خصیوں کا خاص خیال رکھیں
خصیوں کو باقاعدگی سے چیک کرتے رہیں کہیں ان میں کوئی سوزش وغیرہ تو نہیں
باقاعدگی سے غسل کریں اور انفیکشن سے بچنے کے لیے صاف انڈرویئر اور کپڑے پہنیں۔
ڈھیلا، آرام دہ لباس پہنیں۔ یہ بہتر سپرم اور ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار کے لیے آپ کے خصیوں کے گرد درجہ حرارت کو کم رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
صحت مند وزن کو برقرار رکھیں۔ موٹاپا خصیوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ 
باقاعدگی سے ورزش اور صحت مند غذا صحت مند وزن کو برقرار رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔
محفوظ جنسی عمل کریں۔

کیگل ورزش (kegel Exercise) 
مردوں کے لیے Kegel مشقیں مثانے کے کنٹرول کو بہتر بنانے اور ممکنہ طور پر جنسی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہیں۔

کیگل ورزش کمر کے نچلے پٹھوں کو مضبوط بناتی ہے جو مثانے اور آنتوں کو سپورٹ کرتے ہیں ان کی مضبوطی جنسی عمل کو مضبوط کرتی ہے

کیگل ورزش کے طریقے 

مردانہ طاقت
ایک کہاوت ہے کہ مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھا نہیں ہوتا، آپ تب تک جوان رہتے ہیں جب تک آپ خود کو جوان سمجھتے ہیں، ایک سروے میں 65 سال سے زائد عمر کے 2000 لوگوں پر تحقیق سے پتہ چلا کہ ان میں سے 52٪ سیکس کی خواہش رکھتے تھے، ان میں ہر دس بوڑھے فرد میں سے ایک فرد نے ایک سے زائد پارٹنر کیساتھ جنسی تعلق رکھے ہوئے تھے،

مردوں کے عضو خاص کا تناو
Erection Physiology in Urdu
مرد کی بنیادی جنسی صلاحیت عضو خاص کا تناو ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ سپرم کو بچہ دانی میں منتقل کرتا ہے۔  تناو کے پیچھے ہارمونز، دل، پھیپھڑے، خون کی شریانیں، اعصابی نظام اور ذہنی رحجانات کارفرما ہوتے ہیں. تناو میں کمی بنیادی طور پر شریانوں میں خون کے نامناسب بہاو سے پیدا ہوتی ہے، تناو میں کمی کی وجوہات میں دل کی بیماری، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر،اعصابی کمزوری، ڈپریشن اور ہارمونز کی کمی ہو سکتی ہیں ڈھلتی عمر کیساتھ مرد کی تناو کی صلاحیت میں بتدریج کمی آتی جاتی ہے تاہم مرد اپنی عمر کے اخیر سے اخیر حصے تک بھی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے 

اس عضو میں کوئی ہڈی نہیں ہوتی اور یہ محض خون کی سپلائی کے پریشر سے اکڑ جاتا ہے جس وقت یہ تناو کی حالت میں ہوتا ہے تب دل دماغ کے علاوہ صرف عضو کو خون کی سپلائی کررہا ہوتا ہے 
اکثر مرد غلطی کرتے ہیں ہیجان کو سیکس کی خواہش سمجھ لیتے ہیں اور جلدی میں فرض اتار لیتے ہیں حالانکہ جس طرح عورت کو سیکس کیلیے تیار ہونے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے بعینہ مرد کے جسم کو بھی وقت درکار ہوتا ہے. 

عورتوں کا آرگیزم؟
یہ جاننا مشکل ہے کہ کتنی خواتین انزال کرتی ہیں۔ کچھ عورتیں جب orgasm تک پہنچ جاتی ہیں تو گاڑھا، دودھیا، سفید یا سرمئی سیال انزال کرتی ہیں۔ لیکن سبھی ایسا نہیں کرتیں، اور کچھ خواتین کو شاید کو تو اسکا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کرتی ہیں۔  2017 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کیمطابق تقریباً 70 فیصد خواتین ایسا کرتی ہیں۔ جبکہ کچھ اور تخمینوں کیمطابق 10% سے 50% خواتین ایسا کرتی ہیں۔ کچھ کیسوں میں، سیال پیچھے کی طرف بہتا ہے، اس لیے ان خواتین کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا انزال ہو رہا ہے۔ مختلف عورتوں میں انزال کی مقدار بھی مختلف ہوتی ہے۔


https://www.askmen.com/dating/love_tip_300/365_love_tip.html

عورت کا تولیدی نظام
The female reproductive system in Urdu
عورت کا تولیدی نظام مرد کے بہ نسبت پیچیدہ ہوتا ہے


عورت کا تولیدی نظام بیس سال سے تیس سال کی عمر تک اپنے عروج پر ہوتا ہے پھر ڈھلتی عمر کیساتھ بتدریج کم ہوتا چلا جاتا ہے 

عورت کے تولیدی نظام میں اولین کردار عورت میں انڈے کی بارآوری کا ہوتا ہے، عورتوں میں دو بیضہ دانیاں ہوتی ہیں، جن میں انڈے بنتے ہیں اور ایسے ہارمون (ایسٹروجن اور پروجیسٹرون) بھی بنتے ہیں جو عورتوں کے ماہواری نظام کو کنٹرول کرتے ہیں،
عورت ہر ماہ تقریباً ایک بیضہ خارج کرتی ہے، یہ بیضہ مکمل بننے میں 9 مہینے لگتے ہیں. 


عورت کا ماہواری نظام اٹھائیس سے تیس دن کا ہوتا ہے اس دوران عورت کی بیضہ دانی میں ایک دفعہ انڈہ بنتا ہے یہ انڈہ عموما ماہواری کے حساب سے مختلف عورتوں میں مختلف ایام میں پیدا ہوتا ہے
جن کو ماہواری چھبیس دن بعد آتی ہو ایسی عورتو ں میں گیارہویں سے لے کر چودھویں دن تک بیضہ دانی میں انڈے کا اخر اج ہو تا ہے
جن عورتو ں کو اٹھائیس دن بعد ما ہواری آتی ہو ان کی بیضہ دانی سے انڈے کا اخراج تیرھویں دن سے سولھویں دن تک ہوتا ہے
جن کو ماہواری تیس دن بعد آتی ہو ان کی بیضہ دانی میں انڈے کا اخراج ماہواری کے پندرھویں دن سے لے کر اٹھارہویں دن تک ہوتا ہے



انڈہ کی پیدائش اور بیضہ سے ٹیوبز تک منتقلی کی کچھ علامات
  • پیٹ کے نچلے حصے میں ہلکا درد پڑتا ہے
  • عورت کو چھوٹے پیشاب کے راستے لیس دار چپکتی انڈے کی سفیدی کے جیسی جھلی کا اخراج ہوتا ہے
  • نچلے دھڑ کا ٹمپریچر بڑھا ہوا محسوس ہوتا ہے
  • عورت کو ملاپ کی شدید خواہش ہوتی ہے

 Ovulation kit test strips Procedure in Urdu
اس کے علاوہ انڈے کی پیدائش کو آولوشن ٹیسٹ سٹرپ سے بھی جانچا جا سکتا ہے انڈے کی پیدائش سے بارہ سے چھتیس گھنٹے پہلے عورت کے جسم میں لوٹینائزنگ ہارمون کا لیول بڑھ جاتا ہے جس کواس سٹرپ کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے



Price of Ovulation Test Strip Pack Rs. 620 in Pakistan D.Watson Islamabad
اس سٹرپ سے ہارمون لیول چیک کرنے کا مفید وقت صبح سے شام تک کا ہے سٹرپ سی چیکنگ ماہواری شروع ہونے والے دن سے ساےویں یا آٹھویں روز شروع کریں اور پھر اگلی ماہواری آنے تک چیک کرتے رہیں کہ جب تک اس سٹرپ میں علامات ظاہر نہ ہو جایں 
چیک کرنے کیلیئے عورت اپنے پیشاب کے تین چار قطرے سٹرپ کے سرے پر ڈال دے اور پھر تین سے چار منٹ تک انتظار کرے
سٹرپ پر دو نشان C یعنی کنٹرول اور T یعنی ٹیسٹ بنے ہوتے ہیں سٹرپ پر قطرے ڈالنے کی تھوڑی دیر بعد پہلے C پر سرخ خون جیسی گاڑھی لائن بن جائے گی اور پھر اگر اسی طرح کی گاڑھی لائن T پر بھی بن جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ہارمون لیول بڑھا ہوا ہے اور انڈے کی پیدائش جلد متوقع ہے اور یہی بہترین وقت ہے عورت اور مرد ملاپ کریں تو حمل ٹھہرجاتا ہے۔ اگر سٹرپ پر صرف ایک لائن C پر ظاہر ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ابھی عورت کے اندر ہارمون لیول نارمل ہے اور انتظار کریں اگر دونوں نشانات پر کچھ ظاہر نہ ہو تو ٹیسٹ دوبارہ صحیح طریقہ سے کریں اس ٹیسٹ مسلسل دہراتے رہیں جب تک سٹرپ پر دونوں نشانات پر دونوں سرخ لائنیں ظاہر نہ ہو جایں
نوٹ: یہ ٹیسٹ صرف ہارمون کے لیول کے بڑھنے کو ظاہر کرتا ہے جو جسم میں انڈے کی پیدائش سے متعلق افعال کو سرانجام دینے کیلیئے بڑھ جاتا ہے 
انڈہ بیضہ دانی میں بنتا ہے اور پھر بچہ دانی میں آجاتا ہے جہاں یہ تقریبا" بارہ سے چوبیس گھنٹوں تک زندہ رہتا ہے جس کے بعد زائل ہو جاتا ہے اگر اس دوران مرد کے اسپرم بچہ دانی میں آکر اس سے مل جایں تو حمل ٹھہر جاتا ہے

بچہ تھیلی میں سانس کیسے لیتا ہے؟
انسان پانی میں ڈوبنے سے مر جاتا ہے لیکن رحم میں موجود بچہ پانی کی تھیلی میں ڈوب کر محفوظ رہتا ہے.

جب کوئی پانی میں ڈوبتا ہے تو وہ پانی کے اندر سانس نہیں لے سکتا۔ وہ سانس تب لے گا جب اس کے ناک/ منہ کے ذریعے اس کے پھیپڑوں میں ہوا داخل ہوگی اور  پھر باہر نکلے گی۔ لیکن ڈوبتے ہوئے آدمی کے ناک اور منہ میں ہوا کی بجائے پانی جا رہا ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا دم گھٹ جاتا ہے، اور وہ ڈوب کر مر جاتا ہے۔

جبکہ جو بچہ رحمِ مادر میں موجود ہے وہ اپنے پھیپڑوں کے ذریعے سانس نہیں لے رہا، بلکہ اس کی گیسز (آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ) کا تبادلہ تو "پلاسینٹا" کے ذریعے اس کے اور اسکی ماں کے خون کے درمیان ہوتا ہے۔ جبکہ سانس لینے کا عمل پیدائش کے بعد شروع ہوگا۔ 

رحم میں بچہ ایک تھیلی (amniotic sac) میں بند ہوتا ہے جس میں مائع بھری ہوتی ہے (amniotic fluid)۔ اس مائع میں 95 فیصد سے زیادہ تو پانی ہی ہوتا ہے اور اسکے علاؤہ کچھ اور مادے جیسے پروٹینز، کاربوہائیڈریٹس، نمکیات ہارمونز اور کچھ خلیے وغیرہ۔ 

یہ مائع بچے کے پھیپھڑوں میں اور اس کے منہ کے ذریعے اسکے نظام انہضام میں بھی جاتا ہے۔ بلکہ یوں جاکر ڈیولپمنٹ میں فائدہ بھی دیتا ہے۔ 

جو مائع بچے کے نظام انہضام میں جاتا ہے، اس کا کچھ حصہ بچے کے خون میں جذب ہوکر اسکے گردوں میں بھی جاتا ہے اور جب گردے ایکٹو ہوچکے ہوتے ہیں تو اس مائع کو پیشاب کی صورت میں خارج بھی کرتے ہیں۔ یعنی جو مائع نظام انہضام میں گیا (یعنی بچے نے نگل لی تھی) وہ پیشاب  کے راستے واپس بھی آتا ہے، بلکہ ڈیولپمنٹ کے آخری دنوں میں اس مائع کا زیادہ تر حصہ بچے کے پیشاب پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ 

جو مائع پھیپڑوں میں گئی وہ نارمل مقدار میں ہو تو جب بچے کے پھیپھڑے ایکٹو ہوںا شروع ہوتے ہیں تو خود ہی بچے کے خون کے پریشر کی وجہ سے ماں کے خون میں چلی جاتی ہے۔ البتہ اگر زیادہ مقدار میں ہو تو پیدائش کے بعد بچے کی سانس میں مسلہ ڈال سکتی ہے، اس لیے اسے مختلف طریقوں سے کلئیر کیا جاتا ہے۔


بچہ لڑکا یا لڑکی کیسے ہوتی ہے؟
اب سائنس ثابت کر چکی ہے کہ انسانی بچے کے 46 کروموسومز میں سے دو کروموسوم جنسی کروموسوم کہلاتے ہیں کیونکہ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ بچہ لڑکا پیدا ہوگا یا لڑکی۔لڑکی میں دونوں کروموسوم XX ہوتے ہیں جن میں سے ایک ماں کی طرف سے اور ایک باپ کی طرف سے آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں لڑکوں کے دو کروموسوم XY ہوتے ہیں ان میں سے X کروموسوم ماں سے اور Y کروموسوم باپ سے آتا ہے۔اس لیے روایتی لوگوں کا یہ کہنا کہ لڑکا اور لڑکی کا فیصلہ ماں کرتی ہے سائنسی حوالے سے درست نہیں۔
بچہ لڑکا ہو یا لڑکی یہ مرد کے کرموسومز پر انحصار کرتا ہے مرد میں xy جبکہ عورت میں xx کروموسومز ہوتے ہیں اگر مرد کا x کرموسومز عورت کے x سے ملے تو بچہ لڑکی ہو گا اور اگر مرد کا y کروموسومز عورت کے x کروموسومز سے ملے تو بچہ لڑکا ہو گا
جن مردوں کے سپرم میں Y کرموسومز زیادہ ہوں تو اس کے لڑکے زیادہ پیدا ہوں گے
اگر مرد میں X کرموسومز زیادہ ہوں تو اس کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوں گی
اگر مرد کے سپرم میں XY دونوں کروموسومز ہوں تو لڑکا یا لڑکی دونوں کے برابر چانس ہوں گے


عالمی ادارہ صحت کے مطابق انسان کروموسومز کے 23 جوڑوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ خواتین اور مردوں میں بالترتیب 46 ایکس ایکس اور 46 ایکس وائی کروموسومز ہوتے ہیں۔ ایکس وائے فیمیل کے طور پر پیدا ہونے والے لڑکوں کے جسمانی اعضا بالکل لڑکیوں جیسے ہوتے ہیں مگر بلوغت میں انھیں ماہواری نہیں آتی

بچہ ایکس کروموسوم ماں سے لیتا ہے اور ایکس یا وائے کروموسوم والد سے لیتا ہے۔ جینیاتی نقص اس صورت میں واقع ہوتا ہے اگر وہ والد سے ایک ایکس اور وائے کروموسوم لینے کے بجائے دو ایکس یا وائے کروموسوم حاصل کر لے اور ایکس یا وائے کروموسوم کی تعداد دو کے بجائے تین ہو جائے۔
ٹیسٹوسٹیرون/اینڈروجن کی ذیادتی کی صورت میں پیدائش سے قبل ہی لڑکی کے جسم میں اینڈروجن یا ٹیسٹوسٹیرون نامی میل ہارمون کی زیادتی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کا جسمانی عضو لڑکوں جیسا ہوتا ہے جبکہ ان کے بریسٹ ڈویلپ نہیں ہوتے اور بعد میں داڑھی بھی اُگ آتی ہے۔ اندرونی طور پر ایسے بچوں کا جسم لڑکیوں سے مشابہت رکھتا ہے کیونکہ ان میں اووریز موجود ہوتی ہیں
جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو بچوں کے ماہر ڈاکٹر کو اس کا مکمل طور پر معائنہ کرنا چاہیے، اس میں بچے کے جنسی اعضا کو چیک کرنا بھی شامل ہے تاکہ یہ جانکاری حاصل کی جا سکے کہ جنسی اعضا غیر معمولی تو نہیں۔
اگر آپ کو بچے کے جنس سے متعلق نہیں پتا چل رہی تو اس کا کیریو ٹائپنگ نامی خون کا ٹیسٹ ہو سکتا ہے جس سے جینیاتی طور پر بچے کے لڑکا یا لڑکی ہونے کا پتا چل سکتا ہے۔
لڑکی کے لڑکوں جیسے دکھنے یا لڑکے کے لڑکیوں جیسا دکھائی دینے کی صورت میں جنس کی تبدیلی کے لیے بلوغت کے بعد ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ بلوغت کے بعد ہی جسمانی اعضا اپنی اصلی شکل میں آتے ہیں اور ماہر پلاسٹک سرجن ہی اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ جسمانی اعضا کو سرجری کی ضرورت ہے یا نہیں۔

 
جڑواں بچے کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ 

جڑواں بچے اس وقت ہو سکتے ہیں جب دو الگ الگ انڈے رحم میں فرٹیلائز ہو جائیں یا جب ایک ہی فرٹیلائزڈ انڈا دو ایمبریو میں تقسیم ہو جائے۔
تیس سال سے زائد عمر خاص کر 30 کی دہائی کے اواخر میں عورتیں ایک سے زائد انڈہ خارج کرتی ہیں اس لیے ایک سے زائد بچوں کی پیدائش کا چانس بڑھ جاتا ہے. 
ڈاکٹر ان وجوہات کو ابھی تک پوری طرح سے نہیں سمجھ پائے ہیں کہ جڑواں حمل کیوں ہوتے ہیں۔ تاہم، کچھ عوامل جڑواں بچوں کو جنم دینے کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں، جیسا کہ:
 عورت کی عمر
 جڑواں بچوں کی خاندانی تاریخ ہونا
 حمل کے لیے لی گئی ادویات

ہم شکل جڑواں بچے تب ہوتے ہیں جب ایک ہی انڈہ ٹوٹ کر دو میں تقسیم ہوجاتا ہے
جبکہ دو الگ الگ انڈوں سے پیدا ہونے والے جڑواں بچے اس قدر ہم شکل نہیں ہوتے. 
جہاں جڑواں بچوں کی پیدائش حیران کن خوشی کا باعث ہے وہیں پر اس کے کچھ رسک بھی زیادہ ہیں. جیسا کہ
قبل از وقت پیدائش 
بچوں کا کم وزن
ڈاکٹروں کو کیسے پتا چلتا ہے کہ کسی عورت کی کی Delivery نارمل ہو گی یا آپریشن سے؟ اور کيا يہ سچ ہے کہ کچھ ڈاکٹر نارمل Delivery کو بھی جان بوجھ کر آپريشن کو ترجيع ديتے ہے ؟ 


یہ سچ ہے کہ کچھ پرائیویٹ ڈاکٹرز پیسے کمانے کے لئے جان بوجھ کر آپریشن تجویز کرتے ہیں جب کہ ہمارے یہاں گورنمنٹ ہاسپیٹلز میں انتہائی کوشش کی جاتی ہے کی نارمل ڈلیوری کی جائے 
مگر کبھی کبھار کوئی ایسی سچویشن سامنے آجاتی ہے جس کے لیے آپریشن ضروری ہو جاتا ہے جیسے کہ خواتین کی ہڈی کا معاملہ جو ڈیلیوری کے وقت کھلنی چاہیے وہ نہیں کھل پاتی ہے یہ ایسا ہی کوئی مسئلہ ۔۔
کبھی کبھی لیبر ڈلیوری میں اتنا ٹائم لے لیتی ہے کہ بچے کا دم گھٹنے لگ جاتا ہے 
کبھی بچے کی پوزیشن ٹھیک نہیں ہوتی جس کی وجہ سے نارمل ڈلیوری میں بچہ پھنس سکتا ہے 
 کبھی پلیسنٹا سامنے آ جاتا ہے جس کی وجہ سے ہے بچے کی جان جا سکتی ہے اور زہر پھیل سکتا ہے 
کبھی بچے کا پاخانہ نکل جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے کسی اورگن میں جانے کا خطرہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچہ ایبنارمل ہو سکتا ہے 
کبھی ماں کا بلڈپریشر شوٹ کر جاتا ہے جو ماں اور بچے دونوں کے لیے نقصان دہ ہے 
کبھی بچے کی دھڑکن بالکل زیرو ہوتی دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ سے فورن آپریٹ کرنا پڑتا ہے 
یہ بالکل سچ ہے کہ پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ او پریٹ کیے جاتے ہیں لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ پہلے بہت سی خواتین کی جان نارمل ڈلیوری کے وقت چلی جاتی تھی کیوں کہ اگر مند رجہ بالا مسائل میں سے کوئی عورت یا بچے کے ساتھ پیش آیا ہوا تو داای کے پاس جدید آلات اور معلومات کی کمی کی وجہ سے بچے یا ماں کی جان چلی گئی ہو
 اسی طرح پیدا ہوتے ہی بچوں کی اموات میں بھی پہلے کے مقابلے میں کمی آئی ہے 

بچے کی پیدائش پر موسم کے اثرات
The effects of weather on Fertilization in Urdu
دنیا میں ہر مخلوق کا ارتقائی وجدان ہوتا ہے اور پیدائش کا ایک مخصوص موسم ہوتا ہے انسانوں میں بھی یہ رجحان موجود ہےتحقیق میں اس حوالے سے بتایا  گیا  کہ سرد مہینوں میں مردوں کے اسپرم زیادہ طاقتور ہوجاتے ہیں اسی طرح سردیوں میں  دن کی روشنی کا دورانیہ کم ہونے کی وجہ سے خواتین کا تولیدی نظام بھی بہتر ہوجاتا ہے

جوبچے گرمیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کا وزن سردیوں میں اوسطاً سال کے اولین پانچ مہینوں میں پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے زیادہ  ہوتا ہے دوسری طرف جو عورتیں  گرمیوں میں حاملہ ہوتی ہیں ان میں جسمانی وزن میں اضافے کا امکان زیادہ ہوتا ہے
 
افزائش نسل، اب اگلے مرحلے میں
دنیا کی پہلی ’مصنوعی مادر رحم سہولت اب حقیقت بن گئی ہے جس میں سالانہ 30 ہزار بچے بالکل مصنوعی طریقے سے  منصوعی مادر رحم (پوڈ) میں 9 ماہ گذار کر پیدا ہوں گے، مصنوعی مادر رحم فیکٹری میں بچے پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی یا طریقہ کار کو ایکٹو لائف (EctoLife) کا نام دیا گیا ہے۔اس کے لئے جین ایڈیٹنگ ہوگی جوCRISPR Cas-9  ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کی جائے گی. اس ٹیکنالوجی کے تحت والدین کو ’’مینو‘‘ سے بچے کی خصوصیات (جیسے آنکھوں کا رنگ، قد اور طاقت وغیرہ) کا انتخاب کرنے کا بھی موقع ملے گا اور والدین اپنی پسند کے بچے ’’ڈیزائن‘‘ کرسکتے ہیں۔ایکٹو لائف کے ذریعہ بانجھ جوڑے، بچے پیدا کرسکیں گے اور وہ ان کی فیکٹری میں بچہ پیدا کرکے حقیقی حیاتیاتی والدین بن سکتے ہیں۔

جہاں سائنس اور بیشمار نئے کہان دریافت کررہی ہے وہی سائنس افزائش نسل کے لیے بھی نئے جہان دریافت کررہی ہے۔
حوالہ جات
بچہ پیدا نہ ہونا، اکثر ایسا مرد کی وجہ سے ہوتا ہے


Reference 

Thursday, November 28, 2019

خون کی کمی اینیمیا کو دور کریں

خون کیا ہے؟

  جانداروں کے جسم کی شریانوں میں ایک گاڑھا سیال گردش کر رہا ہوتا ہے اس کو خون کہتے ہیں اس کو دل پمپ کر کے جسم کے پور پور تک پہنچاتا ہے۔ خون جاندار میں پٹرول کی حیثیت رکھتا ہے اس سے جاندار کی حیات چلتی اور اس کی کمی سے جاندار مر جاتا ہے۔ 
ایک صحتمند انسان میں تقریبا" پانچ لیٹر خون ہوتا ہے ۔ اگر اس میں سے دو لیٹر خون نکل جائے تو دل خون کے گردشی ںظام کو قائم رکھنے میں ناکام ہو جاتا ہے جس سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ خون بنیادی طور پر تین قسم کے خلیات پر مشتمل ہوتا ہے

سرخ ذرات یا خلیات 

خون میں موجود سب سے اہم سرخ ذرات ہوتے ہیں ان کو ہیموگلوبن کہتے ہیں ان کی مقدار خون میں سب سے زیادہ تقریبا" نوے پرسنٹ ہوتی ہے۔ یہ ہڈیوں کے گودے میں آئرن فولاد کی مدد سے بنتے ہیں ایک سرخ خلیہ تقریبا" ایک سو بیس دن تک زندہ رہتا ہے۔ اس کی کمی سے جاندار کے جسم کو آکسیجن اور خوراک کی ترسیل بند ہو جاتی ہے جس سے جاندار کی موت ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سرخ ذرات پورے جسم سے ہائیڈروجن گیس جذب کر کے پیپھڑوں تک پہنچاتے ہیں اور پیپھڑوں سے تازہ آکسیجن جسم کو فراہم کرتے ہیں۔ایک صحت مند جسم میں ہیموگلوبن یعنی سرخ خلیات (ریڈ بلڈ سیلز) کا لیول گیارہ یا بارہ 11-12 ہوتا ہے۔  اس کی کمی کو اینیمیا کہتے ہیں۔ 

سفید خلیات
یہ خلیات جاندار کے جسم میں جنگجو کی طرح جراثیموں کیخلاف لڑتے ہیں اس جنگ میں سفید خلیات کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے جو پھر جسم سے پیپ کی شکل میں نکلتے ہیں۔ 
تھرامبوسائٹس پلیٹلیٹس
یہ خون کو بہنے سے روکتے ہیں یہ خلیے جھلی کی طرح خون میں گردش کرتے رہتے ہیں۔جب جسم میں کہیں زخم ہوتا ہے تو یہ ذرات زخم پر فورا" ایک پتلی تہہ جسے انگلش میں کلوٹ کہتے ہیں بنا دیتے ہیں۔ اور خون کو بہنے سے روکتے ہیں ان کی مقدار ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ کے درمیان ہوتی ہے۔ اگر ان کی تعداد پچاس ہزار سے کم ہو جائے تو زخم کی صورت میں خون کی بلیڈنگ نہیں رکے گی اور اگر ان کی تعداد بیس ہزار سے کم ہو جائے تو انسانی جلد بہت نازک ہو جاتی ہے کہ انسان شیو تک نہیں کر سکتا۔


خون میں سرخ خلیات کمی کی وجوہات

آئرن کی کمی کسی بھی عمر کے مرد یا عورت میں ہو سکتی ہے فولیٹ, وٹامنز بی بارہ اور منرلز کی کمی، گوشت، انڈے اور ہرے پتے والی سبزیوں کا استعما ل نہ کرنا ، خاتون کا حمل میں ہونا۔ معدے کی صحت کا خراب ہونا اور آنتوں کا صحت مند نہ ہونا، غذا میں صرف سبزیوں کا استعما ل کرنا،وغیرہ خون میں سرخ ذرات کی کمی کا باعث بن سکتے ہیں
خون میں سرخ خلیات کی کمی کی نشانیاں
جسمانی کمزوری، جسم میں درد، چہرے کا رنگ اُڑ جانا، سانس کا پھولنا، چکر آنا، ہاتھوں اور پاوؤں میں سنسناہٹ محسوس ہونا، زبان میں درد یا سوجن کا آجانا، پاؤں اور ہاتھوں کا ٹھنڈا رہنا، ناخنوں کا ٹوٹنا، سر میں درد کی شکایت رہنا، بار بار بھوک لگنا، کھانا کھانے کے بجائے مٹی، برف یا کچے اناج کھانے کا دل چاہنا


آئرن کی کمی پوری کریں
انسانی جسم کو150سے200ملی گرام آئرن کی ضرورت ہوتی ہے، آئرن اور وٹامن سی سے بھر پور غذائیں جو خون بنانے میں مدد دیتی ہیں جیسے پھلیاں، کدو اور اس کے بیج، کشمش و دیگر خشک میوہ جات، انڈے ، مچھلی، دلیہ، بھیڑ، مرغی اور گائے کے گوشت،مالٹے، انگور، چکوترے، اسٹرابیریز، کیوی، امرود ، اناناس، خرپوزہ، کیلا، پپیتا، آم،بروکولی ، لال اور ہری شملہ مرچ، پھول گوبھی ، ٹماٹر اور ہرے پتے والی سبزیوں کا استعمال بڑ ھا دیں
مزید براں آئرن سے بھرپور غذائیں جیسے ٹماٹر کشمش، خشک خوبانی، شہتوت، کجھور، انار، تربوز، آلو بخارا،  کلیجی، چنے، دالیں، پالک وغیرہ کا استعمال کریں

جگر خون نہیں بناتا تو خون بنتا کہاں ہے؟
خون بنانے کے کارخانہ ہڈی کا گودا (Bone Marrow) ہوتا ہے وہی ہڈی کا  گودا یا نلی جو ہم شوق سے نہاری یا بریانی میں ڈال کر کھاتے ہیں۔ 
ہڈی کا گودا  خلیوں (Cells) کا ترتیب شدہ مرکب ہوتا ہے اور یہ جانوروں اور پرندوں میں خون کے خلیے پیدا کرنے کے کارخانے ہوتے ہیں۔ ہڈی کے گودے میں مختلف طرح کے خلیے ہوتے ہیں جن میں سب سے اہم stem cell ہوتے ہیں۔ 
ایک بالغ انسان میں ہڈی کا گودا زیادہ تر ریڑھ کی ہڈی، سینے کی ہڈیوں یا نچلے دھڑ کی ہڈیوں میں ہوتا ہے۔ یہ انسانی جسم کے کل وزن کا 5 فیصد ہوتا ہے۔ ہڈی کے گودے میں روزانہ تقریباً 500 ارب خلیے بنتے ہیں۔
ہڈی کا گودا دو طرح کا ہوتا ہے سرخ اور پیلا۔ سرخ گودے میں خون کے خلیے بنتے ہیں جبکہ پیلا گودا چربی کے خلیے (Adipocytes) بناتا ہے اور ساتھ ہی ہڈی، کارٹیلج اور دیگر جسم کے دیگر خلیے۔
ہڈی کا سرخ رنگ والا گودا (Red Bone Marrow) خون کے سفید  خلیات، سرخ  خلیات اور پلیٹ لیٹس (Platelets) پیدا کرتا ہے۔ 
ہڈی میں موجود پیلے رنگ کا گودا (Yellow Bone marrow) اس وقت فعال (Active) ہوتا ہے جب خون کے  خلیات بنانے کی اضافی ضرورت پڑے۔ 
جب آپ چھوٹے ہوتے ہیں تو آپکے جسم کی ہڈیوں میں سرخ گودا زیادہ ہوتا ہے جیسے جیسے آپ بڑے ہوتے ہیں پیلا گودا بڑھتا جاتا ہے۔
 اس میں کئی غذائی اجزا جیسے کہ وٹامن بی 12، وٹامن اے، وٹامن ای اور فاسفورس مناسب مقدار میں ہوتے ہیں جو خون اوراعصابی نظام (Nervous System) کے لیے مفید ہیں ایسے ہی گودا کھانے سے قوتِ مدافعت بھی بہتر ہوتی ہے تاہم گودا مناسب مقدار میں کھانا چاہیے کیونکہ اس  میں بے حد فیٹ ہوتے ہیں جو کولیسٹرول، ہائی بلڈ پریشر کا باعث اور دل کے امراض کا باعث بن سکتے ہیں۔

خون کے گروپ۔۔ بلڈ گروپ ۔۔ Blood Type
اس وقت انسانی خون کی 30 مختلف سسٹم system کے تحت درجہ بندی کی جا سکتی ہے جس میں روزمرہ زندگی میں ABO اور Rh (یعنی Rhesus ) سسٹم سب سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ ABO سسٹم میں خون کے چار گروپ ہوتے ہیں یعنی AB, B, A اور O جبکہ Rh سسٹم ان ہی چاروں گروپ کو positive یا negative میں تقسیم کر دیتا ہے جس سے یہ آٹھ گروپ بن جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ABO سسٹم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلڈ گروپ کا دارومدار خون کے سرخ خلیوں پر A اور B اینٹی جن antigen کی موجودگی یا غیر موجودگی پر ہوتا ہے۔ ایٹی جن antigen اس کے لیے لفظ immunogen بھی استعمال ہوتا ہے، امیونوجن سے مراد کوئی بھی ایسا سالمہ ہوتی ہے کہ جو اگر جسم میں داخل (یا پیدا) ہو جائے تو وہ جاندارکے جسم میں ایک غیر ہونے کا احساس اجاگر کرتا ہے اور اس کو غیر اور خطرناک سمجھتے ہوئے جسم کا مدافعتی نظام متحرک ہو کر اس کے خلاف لڑنے اور اس کو ختم کرنے کے لیے ایسے اجسام بناتا ہے جنکو ضد (antibodies) کہتے ہیں۔

٭جن لوگوں کا بلڈ گروپ A ہوتا ہے ان کے خون کے سرخ خلیات RBC پر A اینٹی جن (antigen) موجود ہوتا ہے جبکہ ان کے پلازمہ میں اینٹی B اینٹی باڈی (antibody) پائ جاتی ہے جو حاملہ ماں سے اس کے بچے تک نہیں پہنچ سکتی۔ 
٭جن لوگوں کا بلڈ گروپ B ہوتا ہے ان کے خون کے سرخ خلیات RBC پر B اینٹی جن (antigen) موجود ہوتا ہے جبکہ ان کے پلازمہ میں اینٹی A اینٹی باڈی (antibody) پائ جاتی ہے جو حاملہ ماں سے اس کے بچے تک نہیں پہنچ سکتی۔ 
٭جن لوگوں کا بلڈ گروپ AB ہوتا ہے ان کے خون کے سرخ خلیات RBC پر A اورB دونوں اینٹی جن موجود ہوتے ہیں جبکہ ان کے پلازمہ میں دونوں اینٹی باڈی نہیں پائ جاتیں ۔
٭جن لوگوں کا بلڈ گروپ O ہوتا ہے ان کے خون کے سرخ خلیات RBC پردونوں اینٹی جن موجود نہیں ہوتے جبکہ ان کے پلازمہ میں دونوں اینٹی باڈی پائی جاتی ہیں۔
اینٹی A ۔۔ antibody خون کے ان سرخ خلیات RBC پر عمل کرتی ہے جن پر A اینٹی جن موجود ہوتا ہے اور انہیں باہم چپکا کر agglutinate توڑنے کا سبب بنتی ہے۔ اسی طرح اینٹی B ۔ antibody بلڈ گروپ B کے سرخ خلیات کی دشمن ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Rhesus یا Rh سسٹم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن لوگوں کا بلڈ گروپ positive ہوتا ہے ان کے خون کےسرخ خلیات RBC پر Rhesus اینٹی جن موجود ہوتا ہے جبکہ ان کے پلازمہ میں اینٹی Rhesus اینٹی باڈی antibody نہیں پائ جاتی ہے۔ 
جن لوگوں کا بلڈ گروپ negative ہوتا ہے ان کے خون کے سرخ خلیات RBC پر Rhesus اینٹی جن antigen موجود نہیں ہوتا ہے اور ان کے پلازمہ میں بھی اینٹی Rhesus اینٹی باڈی antibody نہیں پائ جاتی۔ یعنی اینٹی Rhesus اینٹی باڈی قدرتی natural اینٹی باڈی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی negative شخص کو پہلی دفعہ positive خون لگ جائے تو بلڈ ری ایکشننہیں ہوتا مگر اب اس شخص میں اینٹی Rhesus اینٹی باڈی بن جاتی ہیں جو آئندہ positive خون کے لگائے جانے پر جان لیوا ری ایکشن کر سکتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ Rhesus یا Rh سسٹم اور حمل ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک positive بلڈ گروپ کی خاتون کے حمل میں بچے کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
ایک negative بلڈ گروپ کی خاتون کے پہلے حمل میں بچے کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا خواہ وہ positive بلڈ گروپ کا بچہ ہو یا negative کا۔ مگر جب ایک negative بلڈ گروپ کی حاملہ خاتون positive بلڈ گروپ کے بچے کو جنم دیتی ہے تو دوران زچگی بچے کے کچھ سرخ خلیے ماں کے دوران خون میں شامل ہو کر ماں میں اینٹی Rhesus اینٹی باڈی antibody بنانے کا سبب بنتے ہیں (جو حاملہ ماں سے اس کے بچے تک پہنچ سکتی ہیں) اور مستقبل میں ہونے والے حمل کے دوران ماں کے جسم میں پرورش پاتے بچے کے سرخ خلیات کو توڑنے اور حمل ضائع ہونے کا سبب بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ negative بلڈ گروپ کی خاتون اگر positive بلڈ گروپ کے بچے کو جنم دے تو اسے جلد از جلد اینٹی Rhesus اینٹی باڈی کا انجکشن (مثلا RHEOGRAM ) لگا دیا جاتا ہے جو ماں کے خون میں داخل شدہ بچے کے سرخ خلیات کو تباہ کر دیتا ہے اور ماں کے جسم کو خود اینٹی Rhesus اینٹی باڈی بنانے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس طرح مستقبل میں ہونے والے حمل کے دوران اس ماں کے جسم میں پرورش پاتے بچے کو خطرہ نہیں رہتا۔ 
اگر positive بلڈ گروپ کے بچے کی پیدائش کے بعد negative بلڈ گروپ کی خاتون کو یہ اینٹی Rhesus اینٹی باڈی کا انجکشن نہ لگے تو اس کے ہر اگلے positive بلڈ گروپ کے بچے کا دوران حمل مرنے کا خطرہ بڑھتا چلا جائے گا۔
۔۔۔negative بلڈ گروپ کی خواتین کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ negative 
بلڈ گروپ کے کسی مرد سے شادی کریں۔ اس طرح بچے بھی negative بلڈ گروپ کے ہوں گے اور حمل کے خطرات سے محفوظ رہینگے۔

۔۔۔۔۔۔۔ انتقال خون Transfusion ۔۔۔۔۔۔۔
جب کسی مریض کو خون دیا جاتا ہے تو مریض کی اپنی اینٹی باڈی اور انتقال شدہ سرخ خلیات کے درمیان ری ایکشن کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے جبکہ مریض کے اپنے سرخ خلیات اور انتقال شدہ اینٹی باڈی کے درمیان ری ایکشن کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔
ویسے تو ہر مریض کو وہی خون دیا جاتا ہے جیسا کہ خود اس کا اپنا خون ہے مگر کبھی کبھی جب مریض کے گروپ کا خون دستیاب نہ ہو تو دوسرے گروپ کا خون بھی (احتیاط کے ساتھ) دیا جا سکتا ہے مگر اس کے کچھ قواعد ہیں

۔۔negative 
گروپ کے مریض کو positive گروپ کا خون نہیں دیا جا سکتا البتہ positive گروپ کے مریض کو negative خون دیا جا سکتا ہے۔ 
۔۔AB 
گروپ کے مریض دوسرے گروپ کے لوگوں کا خون لے سکتے ہیں مگر انہیں خون دے نہیں سکتے۔
۔۔O 
گروپ کے لوگ دوسرے گروپ والوں کو خون دے سکتے ہیں مگر خود کسی دوسرے گروپ کا خون قبول نہیں کر سکتے یعنی O گروپ کے مریض کو صرف O گروپ کا ہی خون لگ سکتا ہے۔
۔۔A
گروپ کا انسان گروپ B کو اور B گروپ کا انسان گروپ A کو خون نہ دے سکتا ہے اور نہ لے سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
زیادہ تر ممالک میں گروپ O positive اور A positive بکثرت پایا جاتا ہے جبکہ گروپ AB negative بہت ہی کمیاب ہوتا ہے یعنی ایک فیصد کے لگ بھگ یا اس سے بھی کم۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ وراثت ۔۔۔۔۔۔۔
اگر ابا اور امی دونوں کا بلڈ گروپ O ہے تو بچوں کا گروپ بھی O ہوتا ہے۔ یعنی A, B یا AB نہیں ہو سکتا۔

اگر ابا اور امی دونوں کا بلڈ گروپ AB ہے تو کسی بھی بچے کا بلڈ گروپ O نہیں ہو سکتا۔ ہاں B,A اور AB ہو سکتا ہے۔

اگر ابا اور امی میں سے کسی ایک کا بلڈ گروپ AB ہے اور دوسرے کا O تو بچوں میں سے کسی کا بھی بلڈ گروپ AB یا O نہیں ہو سکتا۔ بچے یا تو A ہوں گے یا B۔

اگر ابا اور امی دونوں کا بلڈ گروپ negative ہے تو بچوں کا گروپ بھی negative ہوتا ہے۔ مگر اگر والدین positive ہوں تو بھی ان کے بچے negative ہو سکتے ہیں۔
ویسے تو ہر انسان کا بلڈ گروپ ساری زندگی ایک ہی رہتا ہے مگر انتہائ شاذ و نادر مثالیں دستیاب ہیں جن میں liver transplant اور bone marrow transplant کے بعد مریض کا بلڈ گروپ بدل گیا۔

Monday, November 18, 2019

بڑھے ہوئے پیٹ کو کم کریں

 بڑھا ہوا پیٹ اور توند سے چھٹکارہ پانے کے لیے


مردوں کا جسم جب چربی کو ذخیرہ کرنا شروع کرتا ہے توسب سے پہلے پیٹ میں چربی اکٹھی ہونا شروع ہوتی ہے۔ اس چربی کو طبی زبان میں ورسیکل فیٹ کہتے ہیں. یہ چربی بہت خطرناک ہوتی ہے کیونکہ یہ پیٹ کے اعضاء کوور کرلیتی ہے. جب پیٹ چربی سے بھر جاتا ہے پھر جسم جگر، لبلبے اور مسلز میں چربی کو جمع کرنے لگتا ہے جس سے شوگر، ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول اور امراض قلب جیسے امراض سامنے آتے ہیں. 
 تحقیق کے مطابق جب مرد بہت زیادہ کھاتے ہیں اور ورزش سے دوری اختیار کرلیتے ہیں توپیٹ میں چربی جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے جب پیٹ چربی سے بھر جاتا ہے تو  
توند میں چربی کا ذخیرہ کرنے والے مقام پر جگہ کی تنگی ہوجاتی ہے اور وہ پھول جاتی ہے۔
اس کے علاوہ  نمک میٹھی اشیا اور قبض سے بھی توند نکل آتی ہے۔ سونے کی کمی بیشی یعنی   پانچ گھنٹے سے کم یا آٹھ گھنٹے سے زیادہ نیندبھی اس کی وجہ بن سکتی ہے۔کھانا کھا کر بیٹھے رہنا بھی اس کی بڑی وجہ ہے۔ پانی کم پینے سے بھی جسم میں چربی جمنا شروع ہو جاتی ہے
ذہنی تناو  ٹینشن سے جسم میں ایک ہارمون کورٹیسول کی مقدار بڑھ جاتی ہے یہ ہارمون پیٹ میں چربی اکٹھی 
کرنا شروع کر دیتا ہے 
یہ  بڑھی ہوئی چربی بلڈ پریشر اور زیابیطس وغیرہ کا سبب بن سکتی ہے۔
 بڑھے ہوئے پیٹ کا سب سے بہترین اور فوری حل ورزش ہے  جب آپ  ورزش یا جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں تو سب سے پہلے توند سے ہی چربی گھلتی ہے جو جسمانی وزن میں کمی بھی لاتی ہے۔
آپ 10 سیکنڈ کے ساتھ شروع کر سکتے ہیں اور پوز کو ایک وقت میں 30 سیکنڈ یا 1 منٹ تک کر سکتے ہیں۔  جب آپ یہ محسوس کرنے لگیں کہ آپ کے کولہے گر رہے ہیں یا آپ کا جسم سیدھا نہیں ہے تو ، تھوڑا سا آرام کریں اور دوبارہ  شروع کریں


پیٹ کم کرنے کا ہفتہ وار پلان 

پیٹ کم کرنے کی کچھ خاص ورزشیں
عمودی ٹانگوں کو اٹھانا (کرنچ)

یہ پیٹ کم کرنے کی بہت مفید ورزش ہے یہ پیٹ کے اردگرد پٹھوں کو مضبوط کرتی ہے، اور پیٹ کی چربی کو کم کرتی ہے، یہ کمر کے نچلے حصے کے لیئے بھی بہترین ورزش ہے، یہ پوزیشن ورزش کے بعد آپ کے جسم کو ریلیکس بھی کرتی ہے،


بڑھا ہوا پیٹ جہاں پر بھدا لگتا ہے وہیں پر ورزشی پیٹ سکس پیکس مردانہ وجاہت میں اضافہ کرتا ہے اور عورتوں کی کمر کو دلکش بناتا ہے پیٹ کے اردگرد کے پھولے عضلات ورزش سے خوبصورتی میں ڈھل جاتے ہیں 

 



سٹار ایبس ایک طاقت سے بھرپور ورزش ہے ہر روز 15 سے 20 منٹ  100 اسٹار ایبس سے بڑے ہوئے پیٹ کو شکل میں لا سکتے ہیں۔

اسٹار ایبس ورزش کا طریقہ
اپنی پیٹھ کے بل لیٹ جائیں۔ اب، اپنے بازوؤں کو پیچھے سے کھول کر وی بنائیں۔ اپنی ٹانگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں۔
اپنی ٹانگیں اور ہاتھ اٹھائیں۔ اپنے کور کو سخت کریں اور اپنے اوپری جسم اور ٹانگوں کو اٹھانے کی کوشش کریں۔ جب آپ کی ٹانگیں آپ کے سینے کے قریب جاتی ہیں تو اپنے گھٹنوں کو موڑیں، اور اپنے ہاتھوں سے انہیں گلے لگانے کی کوشش کریں۔ اپنی دونوں ٹانگوں اور ہاتھوں کو بیک وقت پکڑ کر سیدھا کریں۔

حوالہ جات:
سکس پیک ایبس بنانے میں مددگار چند آسان طریقے