پاکستان میں معاشی بہتری اور تحریک انصاف کی پالیسیاں
معجزوں
کے انتظار میں بیٹھی قوم کو معلوم ہونا چاہئیے کہ دور دور تک تبدیلی کے کوئی آثار
نہیں حکومت آئی ایم ایف کے قرض در قرض چنگل میں بری طرح پھنس چکی ہے اور دور
دور تک اس سے نکلنے کے آثار نظر نہیں آتے. گواس سے پہلے بھی حکومتیں آئی ایم ایف
کے پاس جاتی رہی ہیں مگر ترقیاتی کاموں کی بندش جیسی سخت شرائط پہلی دفعہ لاگو ہوئی
ہیں جنکے نتیجہ میں ملکی ترقی کا پہیہ گھومنا بند ہوگیا ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی میں سستی اور بروقت میسر توانائی بنیادی کردار ادا کرتی ہے. توانائی جیسے پٹرول
بجلی گیس وغیرہ
حکومت اپنے اخراجات اور سرکاری نظام کو چلانے کے لیئے پٹرولیم
مصنوعات پر تقریبا ففٹی پرسنٹ ٹیکس لے رہی ہے
بجلی اور گیس کا بنیادی مسئلہ اس کی چوری اور لائن لاسز ہے جبکہ حکومت اس کی چوری اور ضیاع کو روکنے کی بجائے اس کوبھی صحیح بل جمع کروانے
والوں پر ڈال دیتی ہے. اس طرح پٹرول ڈیزل گیس بجلی کی قیمتیں ان کی اصل قیمت سے کئی
زیادہ بڑھ جاتی ہیں. اور پھر مہنگی توانائی کی بدولت ملک میں بننے والی چیزوں کا
خرچ آمدن سے بڑھ جاتا ہے تو مجبورا پھر لوگوں کو وہی چیزیں چائنہ سے سستے داموں
امپورٹ کرنا پڑتی ہیں اس طرح امپورٹ بڑھتی جاتی ہیں اور ایکسپورٹ گھٹتی جاتی ہیں امپورٹ
کی ادائیگی کے لیئے ڈالر کم پڑ جاتے ہیں اور بالآخر ڈالر پھر مہنگا ہونا شروع
ہوجاتا ہے ابھی بھی ڈالر کو حکومت نے محض
امپورٹز کو روک کر ہی کنٹرول کیا ہوا ہے سو جب تک ملک میں گیس بجلی پٹرول ڈیزل سستے نہیں ہو جاتے تب تک یہی صورتحال برقرار رہے گی اور ایکسپورٹز نہیں بڑھ پائیں گی
اٹھارویں
ترمیم کے بعد ملکی آمدنی کا ستاون پرسنٹ صوبوں کے پاس چلا جاتا ہے مگر اس کے
باوجود وفاقی حکومت نہ اپنے اخراجات میں کمی کرنے کو تیار ہے نہ سٹاف کو کم کررہی
ہے اور دفاع کا سارا ملبہ بھی وفاقی حکومت کے سر پر ہے حالانکہ اسے بھی صوبوں پر
تقسیم کر دیا جانا چاہیئے
دوسری
اور سب سے زیادہ خطرناک صورتحال حکومت نے پیسے اکٹھے کرنے کے لیئے بنک کو سود
خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے جس سے بنک لون وغیرہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکے
ہیں جبکہ سرمایہ دار سرمایہ مارکیٹ میں لگانے کی بجائے بینک ریٹ سے ہی مستفید ہو
رہے ہیں
اوورآل
اس حکومت کی معاشی پالیسیوں میں کچھ نیا نہیں ہے قرضے بھی محض قرضے اتارنے یا پھر
اپنے بجٹ اخراجات وغیرہ پورے کرنے کیلیئے لیے جا رہے ہیں اور جغادری لوگ خان کو بس
سبز باغ دیکھا دیتے ہیں اور خان وہی باغ عوام کو دیکھا دیتا ہے
No comments:
Post a Comment