Translate

Friday, January 19, 2024

ایران مقابل پاکستان جائزہ

 ایران مقابل پاکستان! 

پاکستان اور ایران کے بیچ 900 کلومیٹر بارڈر کو گولڈ سمتھ لائن کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا تعین 1871 میں گولڈ سمتھ نے کیا تھا۔ سرحد کے دونوں طرف بلوچ قبائل آباد ہیں جو اس لائن کو نہیں مانتے اور دونوں ممالک میں عسکری کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔سرحد پر ایرانی طرف بلوچ سنی اقلیت آباد ہے، جو ایران کی مرکزی حکومت سے ناراض اور مرکزی حکومت پر مسلک کی بنیاد پر امتیازی سکول برتنے کا  الزام لگاتی ہے۔ امریکہ کے کاؤنٹر ٹیرارزم ادارے کے مطابق جیش العدل نامی تنظیم ان ہی بلوچوں کے حقوق کی بات کرتی ہے۔ 

1979 کے ایرانی انقلاب سے قبل تک ایران اور پاکستان دونوں مغربی بلاک میں تھے اور 1970 میں شاہ ایران نے بلوچستان کے شرپسندوں کیخلاف کارروائی میں پاکستان کی مدد بھی کی تھی۔ مگر انقلاب کے بعد ایران مغرب مخلاف بن گیا جبکہ پاکستان بدستور مغربی بلاک کا حصہ ہے۔سویت یونین کے خلاف ’افغان جہاد‘ میں ایران اور پاکستان دونوں سویت یونین کے مخالف تھے، تاہم ایران نے ’شمالی اتحاد‘ (جو زیادہ تر شیعہ ہزارہ آبادی ہے) جبکہ پاکستان نے ’مجاہدین‘ کا ساتھ دیا تھا۔

ایران دنیا میں پہلا ملک تھا جس نے تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کو تسلیم کیا تھا جبکہ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے 1979 کے انقلابِ ایران کے بعد وہاں کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔



دونوں ممالک کی ملٹری سٹرینتھ!

گو گلوبل فائر انڈیکس پر پاکستان ملٹری سٹرینتھ 9 نمبر پر ہے اور ایران کی 14، 























مگر دو ہمسایہ ممالک کی جنگ محض ہتھیاروں کی بہتات سے طویل مدت کے لیے نہیں جیتی جاسکتی، اس میں اور بھی بہت سے فیکٹرز ہیں جیساکہ ملک کی اکانومی، قدرتی وسائل، ملک کا دوسرے ممالک پر ٹیکنالوجی اور اشیاء کا انحصار، ملک کی سٹریٹجیک لوکیشن، ملک کا مذہب، قومیت و لسانیاتی گروپ اور آبادی وغیرہ

ایران پاکستان سے دوگنا بڑا ملک ہے جبکہ پاکستان ایران سے آبادی میں تین گنا بڑا ملک ہے

ایران کی اکانومی پاکستان سے بڑی ہے اور ایران تیل و گیس کے ذخائر سے مالامال ہے جن میں قدرتی گیس کے دنیا میں دوسرے بڑے اور تیل کے تیسرے سب سے بڑے ثابت شدہ ذخائر شامل ہیں۔ جبکہ پاکستان 17 ارب ڈالرز کا تیل درآمد کرتا ہے 

ایران کی ایکسپورٹ 107 اور امپورٹ 54 ارب ڈالرز ہیں اس لحاظ سے ایران کو ڈالرز کی کمی نہیں ہے. جبکہ پاکستان کی ایکسپورٹ 28 اور امپورٹ 50 سے اوپر ہیں اوپر سے پاکستان کے بیرونی قرضے، اس طرح پاکستان ہمیشہ ڈالرز کی کمی کا شکار رہتا ہے جن کے لیے پھر imf اور امریکہ، سعودی دوبئ وغیرہ کا محتاج رہتا ہے. 

ایران کی طاقت ہے اس کا مذہبی جنون اور قدیم تہذیبی تفاخر، ایران 3200 سالہ قدیم تاریخ رکھتی ہے اور یونان کے بالمقابل دوسری سپر پاور رہی ہے. سائرس یا ذوالقرنین (550 قبل مسیح) کے عروج اور اس کے دو صدیاں بعد ڈیریئس (ڈیریئس نے 522 قبل مسیح میں سائرس کے بیٹے بارڈیا سے ایک خونریز انداز میں اقتدار چھین لیا) کی موت کے درمیان، فارس کی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں عظیم اسکندر یونانی نے 323 میں ایران کے بادشاہ دارا کو شکست دی تھی. 

ایران میں اسلام کی آمد

ایران قدیم مذہبی تاریخ بھی رکھتا ہے، زرتشت نے یہاں 15 سے 10ویں صدی قبل مسیح زرتشت مذہب کی بنیاد رکھی. جو اسلام کی آمد تک ایران کا سرکاری مذہب تھا. 633 عیسوی نے خالد بن ولید رضی اللہ نے ایرانی صوبہ میسوپوٹیما موجودہ عراقی علاقے میں ایرانی سلطنت کو پہلی شکست دی، پھر ان کی ٹرانسفر کے بعد 636 میں حضرت سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ نے جنگ قادسیہ میں ایرانی فوجوں کو فیصلہ کن شکست دی، بعدازاں 642 میں حضرت عمر رضی اللہ نے افواج کو پورے ایران پر کنٹرول کے احکامات جاری کیے اور پھر بتدریج ایران مکمل طور پر مسلمان ہوتا چلا گیا. 

مذہبی اعتبار سے ایران میں 99٪ مسلم ہیں 

ان میں سے 90٪ شیعہ

جبکہ 9٪ سنی ہیں

ایران کی سنی سے شیعہ بننے کی تاریخ 

عباسی خلفا نے اسلامی ریاست کا دارالحکومت دمشق سے بغداد منتقل کیا، عباسی خلافت سنی مسلک تھی، 16ویں صدی تک آذربائیجان اور ایران سنی مسلک تھے، مگر پھر 1500 میں ایک شیعہ حکمران شاہ اسماعیل صفوی نے ایران پر قبضہ کرلیا اور ایران کو بزور بازو شیعہ بنانا شروع کردیا، اس نے سنیوں کو 2 آپشن دیے، شیعہ ہوجاو یا پھر مرجاو. شاہ اسماعیل نے ترکی میں بھی موجود شیعوں کو اکسانا شروع کیا جس کے جواب میں عثمانی بادشاہ سلیم نے اسے شکست فاش دی. صفوی شیعہ حکمرانوں نے ایران پر 222 سال حکومت کی. 

ایران کی ماڈرن شدید مذہبی ریاست کا قیام

1979 میں ایران میں مذہبی انقلاب آیا جس کے بعد ایران ماڈرن مذہبی انتہا پسند مملکت کے طور پر ابھرا. اور تب سے لے کر اب تک ایران خطے میں مذہبی چھیڑ چھاڑ اور اپنے نظریات کو ٹھونسنے کی کوششیں کرتا نظر آرہا ہے، انقلاب سے فورا بعد سے ایران عراق کیساتھ 8 سالہ جنگ لڑ چکا ہے جس میں عراق کو مغربی بلاک سمیت عربوں کی حمایت بھی شامل تھی مگر ایران اس جنگ میں فتح یاب رہا تھا۔

دوسری پاکستان میں 85 سے 90٪ سنی اور  10 سے 15٪ شیعہ ہیں، مگر پاکستان مذہبی فرقوں کے حوالے سے ایران کی طرح مستحکم نہیں ہے، فرقہ پرستی پاکستان کا ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے اور اس میں متعدد اوقات بلکہ اکثر اوقات ہی مذہبی تحریکیں سرگرم رہی ہیں، مختلف مکتبہ فکر کی سیاسی جماعتیں بھی سیاست میں اچھا خاصا اثر رکھتی ہیں. دنیا بھر میں شیعہ ایران کے بعد سب سے زیادہ پاکستان میں ہیں، 90 کی دہائی میں پاکستان میں بھی شیعہ سنی فسادات ہو چکے ہیں۔ اور ایرانی انقلاب کے بعد سے پاکستان سعودی عرب کے زیادہ قریب رہا ہے۔

ایران میں لسانی گروہ

فارسی بان 60 سے 65٪

آذربائیجانیز 15 سے 17٪

کرد 7 سے 10٪

بلوچ 2٪

ترک 1٪

پاکستان میں گرچہ پنجابی اکثریتی گروہ ہے لیکن بحیثیت مجموعی پاکستان کی گروہی درجہ بندی خاصی متنوع ہے، 

حالیہ تنازعہ کی وجہ

بلوچستان کا علاقہ پاکستان (بلوچستان) اور ایران (سیستان) دونوں طرف پھیلا ہوا ہے، ایران الزام لگاتا ہے کہ پاکستان کے علاقے سے ایران پر حملے ہوتے ہیں اسی طرح پاکستان کا بھی یہی موقف ہے، بجائے اس مشترکہ مسئلہ پر مشترکہ لائحہ عمل بنانے کہ ایران نے پاکستان کے اندر کارروائی کر ڈالی اور اوپر سے کارروائی پر ڈھٹائی، چاروناچار پاکستان کو بھی جوابی کارروائی کرنی پڑی، جس کے بعد اگر سنجیدہ کوشش سے معاملے کو ہینڈل نہیں کیا جاتا تو معاملہ سنگین رخ اختیار کرسکتا ہے جو جنگ سے لے کر طویل مدتی کراس بارڈر چھیڑخانی میں بدل سکتا ہے، اور ایران کے پاس اس طرح کے کاموں کے لیے فضول پیسہ بھی ہے اور انتہاپسندانہ عزائم بھی ہیں، جبکہ پاکستان مشرقی مغربی بارڈر کے بعد ایک اور بارڈر کو غیرمحفوظ ہرگز نہیں بنانا چاہے گا. اور اس سے خطے میں امن کی دشمن قوتوں اور تنظیموں کو بہت بڑا موقع مل جائے گا، ماضی میں ایسی تنظیوموں کی سوویت یونین، عراق، افغانستان اور بھارت حمایت کرتے رہے ہیں، اور بھارت تو اب بھی حمایت کرتا رہتا ہے۔

ایران اس حملے سے کیا چاہتا ہے؟

ایران کا حملہ اس قدر اچانک اور عجیب وقت میں سامنے آیا ہے کہ لوگ حیران ہیں کہ کہیں ایران نے بلوچستان کو اسرائیل تو نہیں سمجھ لیا؟

جب سے غزہ جنگ چھڑی ہے ایران پر ایران کے اندر سے غزہ کے لیے مدد وغیرہ کا دباو بھی ایک فیکٹر ہوسکتا ہے،

اسی ہفتے میں ایران نے عراق اور شام مپر بھی ایسے حملے کیے ہیں۔

ایران نے اس وقت اپنے لیے کئی محاذ کھول رکھے ہیں، شام، حزب اللہ، حماس، یمن اور پھر امریکہ سے مستقل معاندانہ تعلقات، ٹرمپ کے دور میں بھی ایران امریکہ کے جنگ کے خطرات بڑھ گئے تھے اور اب بھی بائیڈن نے ایران کو جنگ کی دھمکی دی ہے. ان حالات میں ایران کا پاکستان پر حملہ بالکل غیرمنطقی لگتا ہے. لیکن جب کوئی ریاست انتہاپسندی کے رستے پر چل نکلتی ہے تو پھر وہ بلنڈر پر بلنڈر کرتی چلی جاتی ہے.

دنیا اس بارے کیا چاہتی ہے؟

یمن حوثی باغی بحیرہ احمر سے گزرنے والوں بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کو ایران سپورٹ کرتا ہے۔ مغرب سے مشرق کو نہر سویز سے گزر کر یہ شارٹسٹ روٹ ہے، اگر یہ روٹ بند ہوتا ہے تو بحری جہازوں کو مجبورا جنوبی افریقہ کے نیچے سے چکر کاٹ کر جانا پڑے گا، اس سے لامحالہ روٹ کی لینتھ بڑھے گی، ٹائم ٹریول وقت بڑھے گا، انشورنس کی قیمتیں بڑھیں گی اور پھر نتیجتا تجارتی اشیا کی قیمتیں بڑھیں گی، 



جہاں دنیا پہلے ہی یوکرین اور غزہ کی جنگ کیوجہ سے مہنگائی کا سامنا کررہی ہے وہیں اس نئی وجہ سے قیمتیں مزید اوپر جائیں گی۔ تو پاکستان بھارت، ملائیشیا، انڈونیشیا، آسٹریلیا، چین اور جاپان تک کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ یہ روٹ ڈسٹرب ہو اور مہنگائی مزید بڑھے۔ امریکہ اور برطانیہ نے روٹ کی بحالی کے لیے متعدد ممالک پر مشتمل ایک ٹاسک فورس بھی بنائی ہے اور بحیرہ احمر میں اپنی بحری بیڑے بھی بھیجے ہیں۔ اب مغرب ایران کے پاکستان پر بلااشتعال حملے کو مغربی رائے عامہ کو ایران کیخلاف ہموار کرنے کے لیے استعمال کرے گا، دوسری طرف اسرائیل بھی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہے گا اور مغربی رائے عامہ کو ہموار کرکے ایران کو ایک شرپسند ریاست کے طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوششوں کیخلاف حتمی کارروائی کے لیے تیار کر سکتا ہے، اور امریکہ بھی یقینا ایسا ہی چاہے گا۔ امریکہ نے فورا ایک بیان میں پاکستان پر ایران کے حملے کی مذمت کی ہے اور اسے پاکستان میں مداخلت قرار دیا ہے،

پاکستان اس بارے اب کیا چاہے گا؟

دوسری جانب پاکستان ہرگز ایران سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہے گا، لیکن ایرانی اقدام ایسا ہے کہ پاکستان اس پر چپ رہ نہیں کیونکہ پھر اسی نوعیت کے مزید اٹیک کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جو پاکستان کی ملکی سلامتی کیلیے ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا. کیونکہ پاکستان نہ تو شام ہے، یمن ہے اور نہ ہی عراق، پاکستان اس طرح کہ ایڈوانچرز سے نپٹنا بخوبی جانتا ہے اور پاکستان نے بھارت کی ایسی دراندازی کو کوششوں کو ٹکر دے کر اپنی اہلیت ثابت کر رکھی ہے، اگر ایران حملے پر معذرت کرلیتا تو بھی شاید معاملہ نہ بڑھتا مگر ایران کی ڈھٹائی نے پاکستان کو جواب کے لیے مجبور کردیا، ایسی بھی خبریں ہیں کہ ایران پاسداران انقلاب نے اس حملے پر خوشی کا طبل بجایا ہے، تو ایسی صورتحال میں پاکستان کے پاس جوابی کارروائی کے علاوہ کوئی رستہ بچتا نظر نہیں آتا، آخری خبریں آنے تک پاکستان نے بھی ایرانی علاقے سیستان میں پاکستان مخالف عسکریت پسندوں پر حملے کیے ہیں۔



پاکستان ملٹری سٹرینتھ میں ایران سے بہتر پوزیشن میں ہے اور اگر کوئی ایڈوانچر ہوتا بھی ہے تو پاکستان اولا ضرور برتری میں رہے گا لیکن مسئلہ طویل مدتی جنگ کا ہے کہ جس میں پھر پاکستان الجھا رہنا نہیں چاہے گا لیکن جنگ ایک ایسی چیز ہے جو جب چھڑ جائے تو پھر اپنے پیرامیٹرز خود طے کرتی ہے. اس لیے اس تنازعہ کا واحد حل سنجیدہ مذاکرات ہیں اگر یہ چنگاری بھڑک اٹھی تو پھر اس چنگاری کو بہت جگہوں سے ہوا ملے گی اور چنگاری آگ بن جائے گی.