Translate

Thursday, July 14, 2022

Beggar! can be a king?

جب ہم کسی پبلک پلیس پر ہوں اور کوئی مانگنے والا آن دھکمے، اور ہم خیرات دینے کے موڈ میں نہ ہوں، تو ہم دل ہی دل میں سوچ رہے ہوتے ہیں کہ بھکاری کسی طرح خود ہی ٹل جائے اور معاف کردو بابا کہنے کی نوبت نہ آئے.

یہاں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی لگ رہی ہے،
پاکستانیوں کے لیے یہ عبرت کا مقام ہے، یہ شخص وہ شخص ہے کہ جن کے عقائد اور نظریات ہم نے اپنائے، ان کی جنگ کو اپنی جنگ سمجھا، ان کے خاطر ہم نے اپنے ملک کو دہشتگردی کی آماجگاہ بنا دیا، ملک کو جہنم بنا دیا،
لیکن خود اس شخص نے 180 ڈگری کا ٹرن لیتے ہوئے اسرائیل سے دشمنی کو دوستی اور تجارتی مراسم بھی بدل لیا، اسرائیل سے فری ٹریڈ معاہدے کرکے اسرائیلی سرمایہ داروں پر اپنے دروازے کھول دیے، دوسری طرف اپنی لبرل سرمایہ کار دوست پالیسیوں کے سبب روسی سرمایہ دار دنیا جہان سے دوبئی کا رخ کررہے ہیں، کیونکہ یورپ امریکہ نے ان پر پابندیاں لگا دی ہیں، 
اس وقت دوبئی میں سرمایہ کاری کا بوم آیا ہوا ہے، سوچنے کی بات ہے کہ دوبئی ہی کیوں؟
جواب بہت سادہ ہے، سب سے پہلے امن، پھر سیاسی استحکام، پھر سرمایہ دار دوست پالیسی. تو پیسہ تو پھر آپ کے پاس کھچا چلا آئے گا.

ترکی اپنے علاقائی فروعی ایشوز کو پس پشت ڈال کر سعودی عرب سے اپنے تعلقات ازسرنو بہتر کررہا ہے، اسرائیل سے اپنے تعلقات کو بہتر بنا رہا ہے، کم ازکم اپنے ہیرو رول ماڈل ارطغرل کے خالق طیب ایردگان سے ہی معیشت سیکھ لو۔
پاکستان نے تینوں درج بالا چیزیں موجود نہیں ہیں، بلکہ یہاں تو کوئی پیسے لے کر بھی آنے کو تیار نہیں ہے.
سب سے پے بات کرتے ہیں امن کی، تو امن شروع دن سے ہماری پالیسی رہا ہی نہیں، بلکہ شاہین آج بھی بحر ظلمات میں گھوڑا دوڑانے کا تیار بیٹھا ہے، گھوڑا اس لیے کہ پٹرول بہت مہنگا ہوگیا ہے. باقی بحر ظلمات کی تلاش جاری ہے، شاہین تو پتھر اکھاڑو تو تیار بیٹھا ہے،
سیاسی استحکام بھی شروع دن سے ہی پاکستان کا مسئلہ بن گیا تھا، پے در پے وزرائے اعظم کی تبدیلیاں خلافت پر منتج ہوئیں، کیونکہ خلافت کا درس بھی مفکر پاکستان دے جا چکے تھے، جس کے عین مطابق ایک شاہین نے پارلیمنٹ پر بسیرا کرلیا، وطن عزیز میں پہلے عام الیکشن 23 برس گزر جانے کے بعد ہی ممکن ہو پائے، اور چونکہ سیاسی نظام کی عدم دستیابی کے باعث سیاستدان بھی میچور نہیں ہو پائے تھے، اس لیے سیاستدانوں نے بھی جمہوری الیکشن کے نتائج کو جمہوری طور پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا، اور ملک دولخت ہوگیا،
تیسری اور اہم سرمایہ کار دوست پالیسی. چونکہ پاکستان کے پیدا ہوتے ہی موروثی فیوڈلز وغیرہ نے اشرافیہ کی سیٹ پر قبضہ کر لیا، تو بزنس مین ایک قابل نفرت شخصیت قرار دی جانے لگی، جب 60 سے 70 کی دہائی میں بزنس مین آگے بڑھنے لگے، تو بائیس خاندانوں کی فلم چلا دی گئی، بزنس مین تب پاکستان سے بھاگا کہ پھر کبھی واپس نہ آیا. رہی سہی کسر خاموش شاہینوں نے سپرپاور کو شکست دینے میں نکال دی، اب ہم فاتح تو ہیں لیکن یہ کیسے فاتح ہیں جو کشکول لیے دنیا بھر میں بھیک مانگتے پھرتے ہیں؟ پاکستان کے 22 کروڑ عوام سے ایک بھی ڈیکلئیرڈ بلینئر نہیں ہے، وجہ، ہمارے دماغوں میں بزنس مین سے نفرت بیٹھا دی گئی ہے، کہ بزنس مین ضرور ایک چور شخص ہے اور وہ ہماری نظریاتی (بے تیغ لڑنے والا مجاہد) اور اخلاقی (مولانا کے سادگی کے درس) آئیڈیالوجی میں فٹ نہیں بیٹھتا. بزنس مین اپنا سرمایہ وہاں لگائے گا جہاں اس کو منافع کیساتھ اپنے سرمائے کی واپسی یقینی ہوگئی. جن ممالک نے اپنے ملک کو امن کا گہوارہ بنایا ہے آج وہ اپنے امن کو کیش کررہے ہیں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے عوض اپنے ملک کا ویزہ اور رہائش دے رہے ہیں؛ سرمایہ کاری ویزا $؛ 
 مونٹی نیگرو 2.5 لاکھ
 پرتگال 3.5 لاکھ
 ترکی 4 لاکھ
 متحدہ عرب امارات 5.5 لاکھ
 امریکہ 8 لاکھ
 مالٹا 10 لاکھ
 برطانیہ 25 لاکھ
 جبکہ پاکستان میں کوئی پیسے لے کر بھی نہیں آنا چاہتا. بلکہ یہاں سے خود پاکستانی اپنا سرمایہ ان ممالک میں لے جاتے ہیں، ریٹائرڈ بیوروکریٹ، ریٹائرڈ جنرلز اور سیاستدان سب پیسہ پاکستان سے اکٹھا کرتے ہیں جبکہ اپنی آخری حصے کی زندگی گزارنے ان ممالک چلے جاتے ہیں، سارا مال ساتھ لے جاتے ہیں جبکہ پاکستانیوں کو محض آخرت کے درس بھیجواتے رہتے ہیں، 
 ہمیں اپنی سوچ اور اپنی پالیسیوں بارے سوچنا چاہیے؟ اپنی آئیڈیالوجی کو ازسرنو تشکیل دینا چاہیے. جو ہمعصر وقت کے تقاضوں کو پورا کرتی ہو.
علاقوں پر قبضے کرنے کا وقت گزر گیا، سامراج دم توڑ چکا، نوآبادیاتی نظام اپنی موت مرچکا، اپنے عقائد نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی تراکیب پرانی ہوچکیں، اب ممالک اپنی پالیسیاں اپنے معاشی مفادات کیمطابق مرتب کررہے ہیں. کیونکہ دنیا کی آبادی روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے جبکہ دنیا کے وسائل گھٹتے چلے جارہے ہیں تو انسان فطرتاً خود غرض ان وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا لینا چاہتا ہے.
مگر پاکستان کی سوئی آج بھی وہیں آئیڈیلزم پے اٹکی ہے، کرپشن کرپشن کرپشن؟ 
ایف پی سی سی کے مطابق پاکستانیوں کے پاس 20 ارب ڈالر کی کرپٹو کرنسی ہے
گلوبل کرپٹو انڈیکس کے مطابق پاکستان بھارت اور ویتنام کے بعد 3 نمبر پر ہے
غیر سرکاری ذرائع کے مطابق درجن سے زائد پاکستانی ارب پتی ہیں۔
لیکن دنیا کے ارب پتیوں کی لسٹ میں ایک بھی پاکستانی شامل نہیں ہے.
یہ پاکستان کے کمزور اور کرپٹ سسٹم کی علامت ہے، جہاں ایک طرف سرمایہ دار ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنے اثاثے چھپاتے ہیں تو دوسری طرف منفی پروپیگنڈہ کے زیر اثر سرمایہ کار کو ویلن بنا کر پیش کیا جاتا ہے، لیکن انڈر کارپٹ سب چل رہا ہے، اس سے تو بہتر ہے سیاسی انتقام کے احتسابی ادارے ختم کردیے جایں چور چور کے شغل ختم کردیے جایں، تاکہ ملک میں سرمایہ کاری کلچر فروغ پاسکے. اور 22 کروڑ ہجوم بھی اکیسویں صدی میں داخل ہوسکے.

No comments:

Post a Comment