Translate

Saturday, July 30, 2022

پاکستان کا معاشی و سیاسی بحران 2022

پاکستان کا معاشی و سیاسی بحران
یہ ملک بھی بیچیں گے
اثاثے بھی بیچیں گے
لیکن ملک کو دیوالیہ پن سے پھر بھی نہ بچا پایں گے، کیونکہ دیوالیہ پن کی بنیاد انھوں نے بہت پہلے ہی رکھ دی تھی اب بس رسمی کارروائیاں چل رہی ہیں.
جس دن PDM نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی اس دن ڈالر 178 کا تھا
جب حکومت لی اس دن 182 کا تھا
آج ڈالر 250 پر بھی نہیں مل رہا،
پی ٹی آئی نے 3.5 سال میں 55 روپے ڈالر مہنگا کیا تھا جبکہ ن لیگ نے فقط 3.5 ماہ میں ڈالر 68 روپے مہنگا کردیا ہے.
اگر باقی دنیا کے حالات دیکھیں تو پھر پاکستان کی صورتحال مزید بگڑتی نظر آتی ہے.
پاکستانی اشیاء کا سب سے بڑا امپورٹر (9 بلین ڈالر) امریکہ معاشی بحران کا شکار ہورہا ہے نتیجتاً جس کا اثر پاکستان پر پڑے گا. ایک طرف پاکستان کی برآمدات خطرے میں پڑیں گی دوسری طرف امریکہ میں ڈالر پر شرح سود بڑھنے سے ڈالر مزید مہنگا ہوگا.
کورونا کی عالمی وبا کے بعد اچانک روس یوکرین کی جنگ دنیا کے لیے بڑی آفت سے کم ہرگز نہیں. روس پر لگائی گئی پابندیاں عالمی منڈی کے توازن کو بری طرح متاثر کررہی ہیں، دنیا کا تقریباً ہر ملک متاثر ہورہا ہے لیکن پہلے ہی قرض اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے شکار ممالک تیل گیس کی بڑھتی قیمتوں کے آگے ہارتے محسوس ہورہے ہیں. جبکہ جنگ کی کچھ سمجھ آ نہیں رہی، کہ کب اور کیسے ختم ہوگی. عالمی طاقتوں کی پاور پالیٹکس میں البتہ کمزور ممالک رگڑے جارہے ہیں.
پاکستان کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ 17 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے جو دن بدن مزید بڑھ رہا ہے، 

سنتے تھے پاکستان زرعی ملک ہے، لیکن جب اعدادوشمار دیکھتے ہیں تو پاکستان 9 ارب ڈالر کی زرعی اجناس درآمد کرتا ہے، درست اور جدید زرعی پالیسیوں سے اس 9 ارب ڈالر کے خسارے سے کم از کم جان چھڑائی جا سکتی ہے،
سنا تھا پاکستان میں 5 دریا بہتے ہیں جن سے 60 ہزار بجلی پیدا کی جا سکتی ہے، لیکن اعداد و شمار دیکھیں تو پتہ لگتا ہے کہ پاکستان 14 ارب ڈالر کا فرنس آئل وغیرہ صرف بجلی پیدا کرنے کے لیے درآمد کرتا ہے، حکمرانوں نے اس طرح کے منصوبے لگانے کی بجائے پانی اور سولر سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے لگائے ہوتے تو آج پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ صفر کے برابر ہوتا، اور ڈالر بھی قابو میں ہوتا۔ 
پاکستان کو اس سال 41 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں. آخری امید IMF سے ابھی تک کوئی مثبت خبر نہیں آئی ہے بلکہ آخری خبروں تک IMF کی شرائط بڑھتی چلی جارہی ہیں.
حال ہی میں دیوالیہ ہونے والے ملک سری لنکا کا اگر جائزہ لیں تو اس کی دیوالیہ ہونے سے 5 ماہ قبل کی صورتحال اور پاکستان کی آج کی صورتحال بالکل ایک جیسی ہے. سری لنکا 51 ارب ڈالر کا مقروض ہے، جبکہ اس سال اس نے 7 ارب ڈالر قرض واپس کرنے تھے، سری لنکا کی ڈالر کمائی کا بڑا حصہ غیر ملکی سیاحت جو کہ سالانہ 4.4 ارب ڈالر تھی، لیکن ایسٹر کے موقع پر دہشت گردی کے واقعے سے غیر ملکی سیاحت میں کمی واقع ہوئی، پھر کورونا آ گیا، سری لنکا ابھی ان دو مسائل سے نہیں نپٹ پایا تھا کہ روس یوکرین جنگ اس کی ڈوبتی معیشت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا، تیل کی بڑھتی قیمتوں کے آگے سری لنکا کے ڈالر کم پڑ گے تیل کی قیمتیں یکایک 40 ڈالر فی بیرل سے بڑھکر 120 ڈالر تک پہنچ گئی اس اچانک اضافے نے سری لنکا جیسے ترقی پذیر ممالک کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا، سری لنکا کی کرنسی (114٪ گری) اور ڈالر ذخائر تیزی سے گرنے لگے، اور 1 ارب ڈالر تک پہنچتے پہنچتے سری لنکا ڈیفالٹ کرگیا، یاد رہے سری لنکا کی آبادی 2 کروڑ ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے زائد ہے، اس حساب سے پاکستان کی ضروریات بھی سری لنکا سے کئی گنا زیادہ ہیں، اگر سری لنکا 1 ارب ڈالر پر ڈیفالٹ کر سکتا ہے تو پاکستان کے ذخائر بھی 8 ارب ڈالر تک گر چکے ہیں۔
کچھ معاشی ماہرین سری لنکا کے ڈیفالٹ کی وجہ چین کے قرضوں کو قرار دیتے ہیں، جیسا کہ مثال کے طور سری لنکا نے چین سے ایک بندرگاہ تعمیر کرنے کے لیے چین سے قرض لیا، لیکن منصوبہ ناکام ہونے کی صورت میں سری لنکا کو وہ بندرگاہ 99 سال کے لیے چین کے حوالے کرنا پڑ گئی،
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان بھی وہی غلطیاں کررہا ہے جن کی وجہ سے سری لنکا دیوالیہ ہوا؟ تو جواب کافی حد تک مماثل ہے۔
پاکستان نے بھی چین سے بے تحاشا مہنگے کمرشل قرض لیے جبکہ ان سے کوئی قابل منافع پروجیکٹ نہ لگائے بلکہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے میٹرو اور موٹروے جیسے پروجیکٹ لگائے، آج انھی قرضوں کی ادائیگی پاکستان کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے. پاکستان کو 41 ارب ڈالر قرضوں اور ان قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے چائیں، جبکہ جن ممالک اور بینکوں سے قرض ملنے کی توقع ہے انھوں نے اس کو IMF ڈیل سے نتھی کردیا ہے، جبکہ IMF تاحال پاکستان کو بس چکر لگوا رہا ہے، 
سری لنکا کے قرضے ملکی GDP کا 119٪ ہو گئے تھے جبکہ پاکستان کے قرضے بھی اس وقت ملکی GDP کے 88٪ تو ہو ہی گئے ہیں، پاکستان کے قرضوں کی مختصر تاریخ (بلین روپے)
1971 = 50
1977 = 86
1988 = 630
1999 = 1,442
2008 = 6,400
2013 = 15,334
2018 = 29,000
2022 = 52,000
اگر درج بالا اعداد کو دیکھیں تو 2008 تک پاکستان کے مجموعی قرضے 6 ہزار کے لگ بھگ تھے جبکہ حالیہ 10 سے 12 سالوں میں ان میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے، اس اضافے کو ہم اگر حکمرانوں اور پاور پالیٹکس کے ساتھ جوڑ کردیکھیں تو اس عرصے میں پاکستان میں تین بڑی سیاسی جماعتوں کی حکومتیں تبدیل ہوئی ہیں، اور ان تینوں میں ابھی تک اقتدار کی کشمکش چل رہی ہے۔ اسی کشمکش میں یہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر سیاسی سبقت لے جانے کی خاطر معاشی پالیسیاں بھی سیاسی فوائد کے تناظر میں بناتی رہی ہیں، جس کے نتیجے میں معیشت مستحکم ہونے کی بجائے مزید خراب تر ہوتی چلی جا رہی ہے؟ جب کوئی حکومت دور رس مستحکم معاشی پالیسی اپنانے کی بجائے الیکشن ٹو الیکشن معاشی پالیسی اپناتی ہے تو ایسی پالیسی ملکی معیشت پر بوجھ بن کر سامنے آتی ہے۔ 
پاکستان نے افغانستان کو پاکستان سے خریداری روپوں میں کرنے کی سہولت دی تھی، جو اب ایک معاشی مفاد کی بجائے سیاسی سکورنگ کا فیصلہ بن کر سامنے آ رہا ہے، افغانستان بیرونی امپورٹ بذریعہ پاکستان کررہا ہے جس کی قیمت پاکستان 2 سے 4 ارب ڈالرز میں ادا کررہا ہے. ڈالرز کی سمگلنگ اس کے علاوہ ہے، 

ن لیگ سی پیک کا کریڈٹ لیتی نہیں تھکتی اور اس کو اپنی الیکشن مہم کے لیے استعمال کرتی ہے، جبکہ IMF سی پیک کا ناصرف ناقد رہا ہے بلکہ کسی طور پاکستان کو اس کی سزا بھی دے رہا ہے.
اگر IMF سے جلد معاہدہ نہ ہوا تو ڈالر 300 تک جاسکتا ہے، کرنٹ اکاونٹ خسارے کو کنٹرول نہ کیا گیا تو بھی ڈیفالٹ مستقل خطرہ بن جائے گا اس سال نہ سہی تو اگلے سال، یعنی ہر سال معیشت وینٹی لیٹر پر ہی ہو گی،
عالمی مالیاتی ادارے یا ملک اوائل میں غریب ممالک کی مدد کے لیے ان کی استعداد سے بڑھ کر قرض دیتے ہیں جو بالآخر غریب ممالک پر مستقل بوجھ بن جاتے ہیں، پھر غریب ممالک ان قرضوں کی واپسی کے لیے مزید قرض لیتے ہیں ایسے وہ ان ممالک اور مالیاتی اداروں کے معاشی غلام بن کر رہ جاتے ہیں، گزشتہ حکومت نے 52 ارب ڈالر کے قرض لیے جن میں سے 36 ارب ڈالر محض قرضوں کی واپسی میں چلے گئے، پاکستان اس وقت اپنی کل آمدنی کا 40٪ قرضوں اور سود کی واپسی پر خرچ کرتا ہے پاکستان کو 2022-23 میں 4 ہزار ارب فقط سود کی مد میں ادا کرنے ہیں، پاکستان اس وقت قرضے کے سائیکل میں پھنس چکا ہے، جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔  قرض اتارنے کے لیے قرض لیے جارہے ہیں لیکن جب مزید قرض ملنا بند ہوں گے تب ملکی اثاثے بکنا شروع ہوں گے، لیکن یہ سلسلہ روکے گا نہیں، بلکہ ا
بھی پاکستان کے ادارے بیچنے کی بات ہورہی ہے پھر شاید نیوکلیئر اثاثوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں. 
معاشی استحکام کو ہم امن اور سیاسی استحکام سے جدا کرکے نہیں دیکھ سکتے، مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں دونوں ہی عنقا ہیں، دونوں ہی روز اول سے پاکستان کا مسئلہ رہے ہیں،
امن اور سرمایہ کاری کا چولی دامن کا ساتھ ہے، امن اپنے ساتھ معاشی خوش حالی کو بھی لے جاتا ہے،
جنگی بدامنی وطن عزیز کو گھٹی میں ملی (پاکستان آزادی کے فورا بعد کشمیر کی جنگ آزادی میں کود پڑا) ، پھر مفاد پرست لوگ اپنے اقتدار اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کو پے در پے پرائی جنگوں میں جھونکتے رہے، کبھی کشمیر کو شہ رگ بنا کر تو کبھی کمیونزم کی جنگ کو اسلامی جہاد بنا کر، کبھی مشرق میں عسکری ٹریننگ کیمپ بنائے تو کبھی مغربی بارڈر کو کلاشنکوف کلچر کی آماجگاہ بنا دیا گیا۔  اب کبھی مغرب سے یلغار اٹھتی ہے تو کبھی مشرق سے انقلاب، اور اس بیچ امن ندارد ہو جاتا ہے،
رہی بات سیاسی استحکام کی تو نہ ہم سدھرے نہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آئے، کبھی خربوزے پے چھری گری تو کبھی خربوزہ چھری پے آن گرا، کبھی بوٹ گردن پے تو کبھی تلوے بوٹ پے،
سیاسی عدم استحکام کا نوحہ بھی پرانا ہے، ابھی مملکت بابرکت کو بنے چند سال ہوئے تھے، کہ نہرو جی نے پھبتی کسی تھی کہ اتنی جلدی تو میں اپنی دھوتی نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی اپنا وزیراعظم بدل لیتے ہیں،
شاید پاکستانی روز اول سے کسی مسیح کی تلاش میں ہیں کہ روز اس تلاش بسیار میں لیڈر ہی بدل لیتے ہیں، مگر مسیح! کہ نہ کل آیا نہ آج آیا۔ 
سیاسی عدم استحکام یوں تو پرانا مرض ہے لیکن حالیہ سیاسی عدم استحکام 2017 میں میاں نواز شریف کی نااہلی سے شروع ہوتا ہے، جب پاکستان کے مایہ ناز پولیٹیکل سائنسدانوں نے شبانہ روز محنت شاقہ سے پاکستان کی پولیٹیکل لیبارٹری میں ایک نیا تجربہ کیا، گو حسب سابقہ تجربہ ناکام رہا، مگر اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز پولیٹیکل انجنئیرز کا ردعمل تھا، جنہوں نے اپریل 2022 میں اپنی پالیسیوں پر یکایک 180 ڈگری کا ٹرن لیتے ہوئے ملک کو عدم استحکام کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا (سو چوہے کھا کہ بلی کا حج قبول نہیں ہوتا)، اب صبح حمزہ حلف اٹھاتا ہے تو رات 12 بجے چوہدری پرویز الہی وزیراعلی قرار پاتا ہے، نیوٹرلز کے اس عجیب و غریب یوٹرن نے ملکی سیاست کو کسی گلی محلے کے تھڑے کی سیاست میں بدل کے رکھ دیا ہے، دن دہاڑے بولیاں لگ رہی ہیں، عدالتیں سیاسی فیصلے کررہی ہیں جبکہ الیکشن کمیشن مبہم سیاسی چالیں چل رہا ہے، اس قدر بے یقینی کا دور ہے کہ منجھے ہوئے تجزیہ کار گنگ ہیں، سیاسی جماعتیں موزیکل چئیر گیم کھیل رہی ہیں اور اس کھیل تماشے میں وہ بھول گئی ہیں کہ ملک کس نازک معاشی دور سے گزر رہا ہے، ہر گزرتے دن کیساتھ معاشی ناو گہرے سے گہرے پانی میں اترتی جا رہی ہے، ڈالر کے ذخائر تیزی کیساتھ گھٹتے چلے جا رہے ہیں،درآمد کنندگان آج کے ڈالر کے ریٹ پر زیادہ سے زیادہ بکنگ کروا رہے ہیں تو بینکس بھی اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈالرز پر زیادہ سے زیادہ منافع بٹور رہے ہیں، سٹیٹ بینک IMF کے نمائندے کے طور پر ہنسی خوشی تماشہ دیکھ رہا ہے، جبکہ IMF ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح گھات لگائے بیٹھا ہے کہ پھل کب پک کر اس کی جھولی میں گرتا ہے۔
اس وقت ملک میں ڈالر لیکویڈٹی کرنچ آیا ہوا ہے، امپورٹرز زیادہ سے زیادہ درآمدی مال کی بکنگ کروانا چاہ رہے ہیں تو وہیں پر پھر بینک بھی ڈالرز کے من پسند ریٹ پر ہی ایل سیز کھول رہے ہیں،  
اگر درآمدات کی بکنگ کی نفسا نفسی کو دیکھا جائے تو شاید اگست میں نقارہ بج جائے گا کیونکہ جب کرنسی استحکام کھو دیتی ہے تو پھر سٹے باز ڈالرز خرید کر ذخیرہ کرنا شروع کردیتے ہیں جو افراتفری اور نفسا نفسی کا باعث بنتا ہے، اگر اگست کے تیسرے ہفتے میں IMF سے قسط نہیں ملی تو اگست ایک دفعہ پھر پاکستان کی تاریخ میں امر ہو جائے گا؟ 

No comments:

Post a Comment