Translate

Thursday, January 11, 2024

پاکستان میں سیاسی دھاندلی کی تاریخ اور طریقے

 پاکستان میں سیاسی دھاندلی کی تاریخ اور طریقے

بات چاہے ڈیموکریسی (جمہوریت) کی ہو یا الیکشن (انتخابات) کی، تانا بانا قدیم یونانی یا رومن تہذیب سے ہی ملتا ہے۔ ڈیمو کا مطلب لوگ اور کریسی کی معنی طاقت کے ہیں، یعنی ''لوگوں کی طاقت۔" کہا جاتا ہے کہ ابتدائی جمہوریت کا خاکہ یونانی تہذیب کی ہی دین ہے۔
الیکشن کا سرا بھی قدیم یونان اور روم سے ہی جا ملتا ہے۔ایتھنز ایک جمہوری ریاست تھی۔ یہاں انتخابی اصلاحات جمہوری طرز پر کی گئی تھیں اور اس کا سہرا کلائس تھینیز(Cleisthenes) کے سر جاتا ہے، جو قدیم ایتھنز کا قانون ساز تھا۔ اس نے تقریباً پانچ صدی قبل مسیح میں ایتھنز کا آئین بنایا اور جمہوریت کی بنیاد رکھی۔ایتھنز کے آئین کے مطابق انتخابات میں ریاست کے تمام مرد شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل تھا۔ اسی لیے محققین نے کلائس تھینیز کو ''بابائے جمہوریت‘‘ کا خطاب دیا۔
برصغیر میں قرون وسطیٰ کے بنگال میں ''پالا سلطنت" کو بھی سنہرا دور کہا جا سکتا ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں شہنشاہ گوپال کو انتخابات کے ذریعے منتخب کیا گیا تھا
سترہویں صدی عیسوی سے یورپ اور اٹھارہویں صدی سے شمالی امریکہ میں الیکشن منعقد کرانے کا آغاز ہوا۔ جمہوریت جیسے نظام حکومت میں بھی خواتین کو حق رائے دہی سے بیسویں صدی تک محروم رکھا گیا تھا اور یہ بنیادی اور انسانی حق خواتین نے بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کیا۔

ووٹ کی ہندوستانی تاریخ!

500 ق م سے چندر گپت موریہ کے عہد تک پنچایت کو یہاں خاص درجہ حاصل تھا، جس کے لیے اگرچہ ووٹ کا تصور نہیں تھا مگر جمہور کی قبولیت کی بغیر پنچایت کی عمل داری اپنا جواز کھو دیتی تھی۔

ہندوستان میں ہزاروں سال سے بادشاہتیں، راجواڑے، نوابی نظام قائم رہا، اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے حکومت کی، جب کہ 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد انگلستان نے ہندوستان کو اپنی نوآبادی بنا لیا۔

پھر ہندوستان میں قدم رکھتے ہیں انگریز۔اس دوران دنیا کے متعدد علاقوں میں جمہوریت قائم ہو گئی۔ برطانوی پارلیمنٹ نے پہلی بار 1909 کے انڈین کونسلز ایکٹ کے ذریعے مقامی باشندوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ مقامی سطح پر اپنے نمائندوں کا چناؤ کر سکیں جسے ’منٹو مارلے‘ اصلاحات کا نام دیا گیا۔ لارڈ منٹو اس وقت انڈیا کے گورنر جنرل تھے جبکہ لارڈ مارلے برطانوی کابینہ میں وزیرِ ہند تھے۔ آج پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں جمہوریت کی جو شکل نظر آتی ہے وہ انگریز کی دی ہوئی ہے اور اس کی جڑیں ہمیں 1920 کے انتخابات میں ملتی ہیں، جن میں ہندوستانیوں کو پہلی بار ووٹ کا محدود حق ملا تھا۔1921 کی مردم شماری کے تحت ہندوستان کی آبادی 25 کروڑ سے زائد تھی مگر ہندوستان میں جن افراد کو کونسل آف سٹیٹ کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، ان ووٹروں کی تعداد 17 ہزار اور ایوانِ زیریں کے لیے ووٹروں کی تعداد 11 لاکھ 28 ہزار تھی۔

صرف وہی لوگ ووٹ دے سکتے تھے، جو کسی جائیداد کے مالک ہوں، انکم ٹیکس یا میونسپل کمیٹی کے ٹیکس دہندگان ہوں۔

صرف وہی لوگ امیدوار بن سکتے تھے جو خوش حال جاگیر دار یا تاجر ہوں، اس سے قبل وہ مرکزی یا صوبائی سطح پر قانون سازی کا تجربہ رکھتے ہوں، میونسپل کارپوریشن یا کسی یونیورسٹی سینیٹ کے رکن ہوں۔

پاکستان کی انتخابی تاریخ!

پاکستان جب آزاد ہوا تو جنوبی ایشیا کی اس نئی ریاست کے پاس آئین نہیں تھا جبکہ اس کے امور چلانے کے لیے متحدہ ہندوستان کے 1935 کے آئین میں ترامیم کرکے اسے عبوری آئین کے طور پر ملک میں نافذ کیا گیا، 

پاکستان کے قیام سے پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 26 جولائی 1947 کو پاکستان کی نئی دستور ساز اسمبلی کا حکم نامہ جاری کیا جس کی رو سے طے پایا کہ 1945 کے انتخابات میں مسلمان حلقوں اور وہ علاقے جو پاکستان کا حصہ بننے جا رہے ہیں، وہاں سے کامیاب ہونے والے ارکان ہی پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے اراکین تصور ہوں گے۔

یوں قائم ہونے والی اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 69 تھی جن میں سے 44 کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ اس کا افتتاحی اجلاس 10 اگست کو سندھ اسمبلی کی عمارت میں ہوا تھا جس میں جوگندر ناتھ منڈل کو اسمبلی کا عارضی صدر منتخب کیا گیا، 

یہ طے ہوا کہ یہی دستور ساز اسمبلی پاکستان کا نیا آئین بنائے گی اور جب تک یہ آئین نہیں بن جاتا 1935 کا ایکٹ ہی پاکستان کا عارضی آئین تصور ہو گا۔

اس وقت لیاقت علی خان نے ایک قرار داد تیار کی، اس مسودے کو ’قرارداد مقاصد‘ کا نام دیا گیا، پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949 کو قرار داد مقاصد کی منظوری دی، جس کے مطابق مستقبل میں پاکستان کے آئین کا ڈھانچہ یورپی طرز کا نہیں ہوگا بلکہ اس کی بنیاد اسلامی جمہوریت و نظریات پر ہوگی۔ خیال رہے کہ 2 مارچ 1985 کو صدر محمد ضیاء الحق نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعہ آئین پاکستان میں 8ویں ترمیم کی تھی، جس کے مطابق قراردادِ مقاصد کو آئین پاکستان میں شامل کر لیا گیا تھا۔

تاریخی اعتبار سے بات کریں تو پاکستان میں اتنخابی دھاندلی کئی سطحوں پر ہوئی ہے جس میں ریاستی ادارے، اسٹیبلشمنٹ، پولنگ افسران، اور ظاہر ہے کہ سیاسی جماعتیں اور امیدوار ملوث رہے ہیں۔ 

سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً ہی بعد انتخابات میں دھاندلی کا جھرلو محمد علی جناح کی زندگی میں ہی پھرنا شروع ہو گیا تھا جب دادو ضلع کے انتخابات میں جی ایم سید بمقابلہ قاضی محمد اکبر تھے

1947 سے 1958 کے درمیان پاکستان میں قومی سطح پر براہ راست انتخابات نہیں ہوئے۔ صوبائی انتخابات کبھی کبھار ہوئے۔ جنکی کریڈیبلٹی مذاق سے زیادہ نہ تھی۔

1951 میں میجر جنرل اکبر خان نے بغاوت کی ناکام کوشش کی، جو اس وقت جنرلز ہیڈ کوارٹر (GHQ) آرمی کے چیف آف جنرل اسٹاف تھے۔  یہ منتخب حکومت کے خلاف پہلی سازش تھی۔

پاکستان بننے کے بعد پہلے انتخابات مارچ 1951 میں پنجاب اسمبلی کی 197 نشستوں کے لیے ہوئے۔جن میں 7 جماعتوں نے حصہ لیا اور ووٹرز لسٹ میں صرف ایک ملین ووٹر تھے۔ لیکن ان انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 30 فیصد سے بھی کم رہی۔ دسمبر 1951 میں سرحد اسمبلی کے، مئی 1953 میں سندھ اسمبلی کے انتخابات ہوئے جن میں مسلم لیگ کو اکثریت حاصل ہوئی۔

البتہ اپریل 1954 میں جب مشرقی پاکستان اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو بنگالی قوم پرست جماعتوں کے اتحاد جگتو فرنٹ کے ہاتھوں مسلم لیگ کو پہلی بھر پور انتخابی زک پہنچی کیونکہ مسلم لیگ بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دینے کے حق میں نہیں تھی۔

سن 1951 سے 1954 تک کے عرصے میں ہونے والے ان انتخابات کا معیار کیا تھا اس کا اندازہ جھرلو کی اصطلاح سے ہو سکتا ہے جو پہلے پہل پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی کی نشاندھی کے لیے استعمال ہوئی۔ 

سیاسی انجینئرنگ کی پہلی کوشش اپریل 1953ء میں گورنر جنرل کے ہاتھوں وزیر اعظم ناظم الدین کی حکومت کی برطرفی اور اکتوبر 1954ء میں دستور ساز اسمبلی کی تحلیل تھی ۔ گورنر جنرل غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954 کو اس وقت اسمبلی توڑ کر ملک بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی۔ جب چھ دن بعد ملک کے پہلے آئین کا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا جانے والا تھا۔

اگر یہ دو اقدامات نہ اٹھائے جاتے اور نہ ہی سپریم کورٹ ان کی توثیق کرتی تو پاکستان کے پاس 1954ء میں آئین ہوتا عام انتخابات کا انعقاد ہوجاتا۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کانسٹن ٹائن نے گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا، جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس منیر نے قرار دیا کہ پاکستان ایک آزاد ملک نہیں ہے اور برطانوی کراؤن کا نمائندہ گورنر جنرل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دے۔ بینچ میں موجود واحد اختلافی نوٹ جسٹس اے آر کارنیلیس نے لکھا،

 ملک کا پہلا آئین 29 فروری 1956 کو منظور کیا گیا جبکہ اسے 23 مارچ 1956 کو نافذ کردیا گیا، جس میں ریاست کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔

1956 میں انتخابی اصلاحات کی تجاویز دینے والے سرکاری کمیشن نے اعتراف کیا کہ پاکستان بننے کے بعد سات برس کے عرصے جتنے بھی صوبائی انتخابات ہوئے وہ جعل سازی، فراڈ اور مذاق سے زیادہ نہیں تھے۔

ایوب خان نے پہلے اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا کی حمایت کرتے ہوئے، اور پھر 1956 ء کا آئین معطل کرکے مارشل لا لگاتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 

1960 کا ریفرنڈم: پاکستان کے آئین کے آرٹیکل اڑتالیس کی ذیلی شق چھ میں ریفرنڈم کا تذکرہ کیا گیا ہے اور آئین کے اس آرٹیکل کے تحت اگر صدر کسی وقت اپنی صوابدید پر یا وزیر اعظم کے مشورے پر یہ سمجھے کہ یہ مناسب ہوگا کہ قومی اہمیت کے کسی معاملے پر ریفرنڈم کے حوالے کیا جائے تو صدر اس معاملے کو ایک سوال کی شکل میں جس کا جواب یا تو’ہاں‘ یا ’نہیں‘ میں دیا جاسکتا ہو ریفرنڈم کے حوالے کرنے کا حکم دے گا۔ جنرل ایوب خان نے 1960 میں ریفرنڈم کرایا اور اس میں 95.6 فیصد کامیابی کے بعد صدارتی نظام میں تبدیلیاں کیں اور آئندہ 5 سال کے لیے ملک کے صدر منتخب ہوگئے۔

جنوری 1962 میں ملک کے دوسرے آئین کو حتمی منظوری دے دی، مذکورہ آئین کے مسودے پر صدر ایوب خان نے یکم مارچ 1962 کو دستخط کیے اور اسے 8 جون 1962 کو نافذ کردیا گیا،نئے آئین میں ریاست کو ریپبلک آف پاکستان قرار دیا گیا ملک کے دونوں حصوں، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو دو صوبے قرار دیا گیا.دونوں صوبوں میں برابر تقسیم کیا گیا، دوسرے آئین میں ملک کا طرز حکومت صدارتی رکھا گیا۔صدر 5 سال کے لیے منتخب کیا جانا تھا جبکہ وہ ریاست کا چیف ایگزیکٹو ہوگا اور اس کے پاس ملک کے تمام انتظامی معاملات پر فیصلوں کا اختیار ہوگا،

سن 1962 اور سن 1965 ميں کرائے جانے والے انتخابات ميں عوام نے براہ راست رائے شماری ميں حصہ نہيں ليا بلکہ لوکل گورنمنٹ کے اراکين نے پارليمانوں کے چناؤ ميں حصہ ليا۔

1964ءتک ایوب خان نے محسوس کیا کہ ملک نسبتاً کنٹرولڈ جمہوریت کیلئے تیار ہے۔ ان کی طرف سے مسلط کردہ آئین کے تحت، ملک (جس میں اس وقت کا مشرقی پاکستان بھی شامل تھا) کو 80,000 چھوٹے انتخابی حلقوں میں تقسیم کیا گیا جن میں سے ہر ایک میں تقریباً 200-600ووٹر تھے، محترمہ فاطمہ جناح متحدہ اپوزیشن کے نامزد امیدوار کے طور پر فیلڈ مارشل کے خلاف الیکشن لڑنے میدان میں اتریں۔مس جناح نے مغربی پاکستان کا آٹھ روزہ دورہ کیا۔ پشاور سے کراچی تک پورے راستے بھرپور، ہنگامہ خیز استقبال کیا گیا، میڈیا نے حزب اختلاف کو ’’سماج دشمن‘‘، اسکی سرگرمیوں کو ’’ناپاک‘‘ اور اسکے مشن کو ’’افراتفری پھیلانا‘‘ قرار دیا۔ اپوزیشن کی میڈیا تک رسائی، مہم چلانے کی آزادی، اور پولنگ اور پریزائیڈنگ افسران کی تقرری کے بارے میں بھی تنازعات تھے۔ اپوزیشن نے رپورٹ کیا کہ ووٹروں، پولنگ ایجنٹوں، کارکنوں اور حامیوں کوپورے ملک میں اغوا، دبائو اور جبر اور گرفتاریاں کا سامنا ہے۔ جب پاکستان میں 2جنوری 1965کو انتخابات ہوئے تو نتائج کے مطابق ایوب کو واضح، بھرپور، بلکہ زبردست فتح حاصل ہوئی، جنرل ایوب کے دور حکومت میں 7 اکتوبر 1958 سے 25 مارچ 1969 تک وزیراعظم کی نشست خالی رہی۔

30 جون 1970 کو اس وقت کے صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا) اور بلوچستان کی صوبائی حیثیت بحال کر دی گئی، ساتھ ہی سابق ریاست بہاولپور کو پنجاب میں ضم کر دیا اور کراچی کو سندھ کا حصہ قرار دے دیا گیا، اس کے علاوہ مالاکنڈ ایجنسی قائم کی گئی، اس میں سابق سرحدی ریاستوں سوات، دیر اور چترال کو شامل کیا گیا۔

پاکستان کی تاریخ کے پہلے براہ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات 1970ءمیں ہوئے۔ خفیہ ایجنسیوں نے جنرل یحییٰ خان کو رپورٹ دی کہ کوئی سیاسی جماعت اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور طاقت کا مرکز جنرل یحییٰ ہی رہیں گے۔شیخ مجیب کو مغربی پاکستان کے تمام حلقوں میں صرف سات امیدوار ملے جب کہ بھٹو کو مشرقی پاکستان میں ایک امیدوار بھی نہیں مل سکا۔ سن 1970 کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف اور غیر جانبدار انتخابات قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن دھاندلی بعد از انتخابات یوں ہوئی کہ ان میں اکثریتی طور پر جیت کر آنیوالی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے سے بزور طاقت روک دیا گیا، اگرچہ 1970 کے انتخابات کا نتیجہ پاکستان کی تقسیم کی صورت میں نکلا لیکن آج تک کسی نے ان الیکشنز کی شفافیت پر سوال نہیں اٹھایا اور عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف انتخابات تھے۔

تیسرا آئین 14 اگست 1973 کو ملک میں نافذ کیا گیا اور اسی روز ذوالفقار علی بھٹو نے نئے آئین کے تحت وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔آئین میں پہلی مرتبہ ملک میں پارلیمنٹ کو ایوان بالا یعنی سینیٹ اور ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں تقسیم کیا گیا، آئین میں اسلام کو ریاست کا مذہب اور ریاست کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا گیا، 

 سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان میں قائم ہونیوالی اسمبلی کی مدت 1978 میں مکمل ہونی تھی مگر مقبولیت کے خبط میں مبتلا بھٹو نے اسمبلی ایک سال قبل ہی تحلیل کرکے 1977 میں عام انتخابات کروا دیے، بھٹو شاید ویسے بھی جیت جاتے مگر انتخابات میں بدترین دھاندلی کے الزامات لگے ،جھرلو کی اصطلاح 1977 کے انتخابات پر وجود میں آئی،  پاکستان نيشنل الائنس نے مغربی صوبے بلوچستان ميں جاری ملٹری آپريشن کی سبب وہاں اليکشن ميں حصہ نہيں ليا۔ پاکستان نيشنل الائنس نے اليکشنز ميں دھاندلی کے الزا مات عائد کرتے ہوئے صوبائی انتخابات کا بائيکاٹ کر دیا تھا۔ اور شہروں میں حکومت کے خلاف بھرپور تحریک شروع ہوگئی۔ خاصی خونریزی کے بعد جولائی کے پہلے ہفتے میں پی این اے اور بھٹو حکومت میں سمجھوتہ ہوگیا کہ آنے والے اکتوبر میں ایک نمائندہ عبوری حکومت کے تحت دوبارہ انتخابات کرائے جائیں گے۔ لیکن پانچ جولائی کی صبح جنرل ضیا الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔ ستمبر 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔18 مارچ 1978ء کو ہائی کورٹ نے انہیں سزائے موت کا حکم سنایا جبکہ 6 فروری 1979 کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کردی، 4 اپریل 1979 کو انہیں راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو 3 سال 10 ماہ اور 21 دن تک ملک کے وزیراعظم رہے۔

1977 کے انتخابات کے بارے میں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان ( وسیم سجاد کے والد) نے بعد میں یہ تبصرہ کیا کہ حکمراں جماعت کے امیدواروں نے اپنی مقتدر پوزیشن اور سرکاری مشینری کے اندھا دھند استعمال سے انتخابی عمل کو تباہ کردیا۔

جنرل ضیا الحق:

1979 میں تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ 1981 میں مجلس شوریٰ قائم کر کے وہ سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ 

 1979ء میں بلدیاتی انتخابات صدر جنرل ضیاء الحق نے فوج کی نگرانی میں کروائے تھے۔ اس سے پہلے 4 اپریل 1979ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو زندگی سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی فعال انڈرگرائونڈ قیادت نے جنرل ضیاء الحق کی سوچ و فکر اور نظریہ جمہوریت کو ناکام بنانے کے لیے''عوام دوست‘‘ کے نام سے گروپس بنوا کر اپنے ورکروں کو انتخابی میدان میں اتارا تھا۔ حیرت انگیز طور پر صدر ضیاء الحق کے ہم خیال امیدواروں کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے بلدیاتی ایکٹ 79 ء سے انحراف کرتے ہوئے ایک خصوصی مارشل لاء آرڈر کے تحت ''عوام دوست ‘‘ منتخب نمائندوں کے انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا۔ 

اسی طرح 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں صدر ضیاء الحق کے خصوصی احکامات کے تحت ہر گروپ کی باقاعدہ جانچ پڑتال کرائی گئی اور انتظامیہ کے مقررکردہ ریٹرننگ افسروں نے حکومت کی ایما پر ایسے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے‘ جن کے بارے میں ذرا سا بھی شک گزرا کہ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا۔ 

ضیاء الحق جو 90 دن میں اقتدار کی عوام کو منتقلی کے وعدے پر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے تھے انہوں نے دو مرتبہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرکے انہیں منسوخ کردیا تھا۔کیونکہ بقول ان کے وہ ایسی انتخابی فضاء قائم کرنا چاہتے تھے جس میں مثبت نتائج حاصل ہوسکیں اور منتخب نمائندوں کا قبلہ بھی درست ہو۔

پاکستان میں 19 دسمبر 1984 کو ضیاء الحق کی صدارتی مدت میں پانچ سال کی توسیع کے لیے ایک ریفرنڈم کرایا گیا۔

حزبِ اختلاف کے اتحاد ایم آر ڈی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ریفرنڈم کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ شاعرِ عوام حبیب جالب نے ریفرنڈم کے دن کے بارے میں کہا:

شہر میں ہو کا عالم تھا جن تھا یا ریفرنڈم تھا

تاہم اسلام آباد سے الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ ریفرنڈم میں ڈالے گئے 90 فیصد سے زائد ووٹ صدر ضیا الحق کے حق میں پڑے ہیں

فروری 1985 میں جنرل ضیاء الحق کے سائے تلے غیر سیاسی جماعتوں کے تحت الیکشن ہوئے جو پارٹی بنیاد پر نہ ہوئے اور متحدہ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے باعث نسبتاً شفاف تھے، تاہم سنہ 1985 کا الیکشن تو نرالا ثابت ہوا۔ الیکٹ ایبلز اور برادری کلچر کی راہ ہموار ہوئی۔ لیکن پھر 29 مئی 1988 کو قومی اسمبلی کو برخاست کر کے جونیجو کی حکومت ختم کر دی ۔

ضیاالحق 11 سال اقتدار پر قابض رہے، انہیں ملک میں رواداری اور روشن خیالی کی جگہ انتہا پسندانہ اقدار کے فروغ کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ 17 اگست 1988 کو وہ فوجی جہاز کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔

1988 میں ملک میں تیسرے عام انتخابات ہوئے، گو جنرل ضیا الحق یہ الیکشن بھی غیر جماعتی بنیادوں پر کروانے کا اعلان کرچکے تھے مگر بہاولپور حادثے میں ان کی موت سے منظر نامہ بدل گیا اور وطن عزیز دوبارہ جمہوریت کی پٹری پر چڑھ پایا۔ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 16 اور 19 نومبر 1988ء کو منعقد ہوئے۔بے نظیر پیپلز پارٹی کی قیادت کررہی تھیں،اپریل 1986ء میں وطن آمد کے بعد سے بے نظیر ملکی سیاسی منظرنامے پر چھائی ہوئی تھیں۔ الیکشن رزلٹ جنرل ضیا کی 11 سالہ آمرانہ پالیسیوں کا بدلا تھے جس میں پیپلز پارٹی وننگ پارٹی بنی۔ سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم نسبتاً پُر امن رہی۔

پیپلز پارٹی نے چھوٹی جماعتوں اور آزاد گروپوں سے اتحاد کرتے ہوئے حکومت بنائی۔ 4 دسمبر 1988 کو بھٹو ایک مسلم ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔

1990ءکے انتخابات میں پی پی پی کو شکست دینے کے پورے انتظامات کرلیے گئے تھے۔ جنرل اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی نے مہران بنک کے چودہ کروڑ روپے پی پی پی مخالف اُمیدواروں میں تقسیم کیے۔ آئی جے آئی نے 106 نشستیں جیت لیں۔ پی پی پی اور دیگر سیاسی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی اے صرف 44 نشستیں حاصل کرسکا۔

1993کے شروع میں وزیراعظم نواز شریف نے صدر کی اسمبلی توڑنے کی شق کو ختم کرنے کی کوشش کی جوابا" صدر اسحاق خان نے اسمبلی ہی اڑا دی۔

اکتوبر 1993 میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا، جس میں پی پی پی نے انتخابات میں سب سے زیادہ 86 نشستیں حاصل کیں لیکن وہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی جبکہ مسلم لیگ (ن) 73 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔

پھر 1997ء کا الیکشن کسے یاد نہیں، جب نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ دیا گیا اور اس بھاری مینڈیٹ کا انتخاب سے پہلے ہی سب کو پتا تھا۔ اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے اپنے دوستوں اور بے نظیر کے مخالفوں پر مشتمل معراج خالد کی قیادت میں ایسی نگران حکومت بنائی جس کا ٹاسک صرف اور صرف بے نظیر کو شکست دے کر نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ دینا تھا۔ اور ایسا ہی ہوا، نجم سیٹھی نے اپنے جیو کے پروگرام میں تسلیم کیا تھا کہ وہ 97 کی نگران حکومت کا حصہ تھے اور ان کا ٹاسک نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ دلوانا تھا۔ جب یہ حقیقت ان پر آشکار ہوئی تو انھوں نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا۔ یاد رہے 1997 کا الیکشن 3 فروری کو ہوئے تھے، اور اس میں پیپلزپارٹی کو صرف 18 سیٹ تک محدود کیا گیا تھا

جنرل پرویز مشرف:

نواز شریف نے 2 سینئر جرنیلوں کو کراس کرکے 1998 میں پرویز مشرف کو چیف بنایا، 12 اکتوبر 1999 کو مشرف نے عنان حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لی اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک حکومت تشکیل دے دی،30 جون کو 2002 کو  کروائے گئے ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں وہ پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہو گئے۔

پاکستان میں 12ویں قومی اسمبلی کے انتخاب کے لیے 10 اکتوبر 2002 کو عام انتخابات ہوئے۔یہ انتخابات پرویز مشرف کی فوجی حکومت میں ہوئے تھے۔ سنہ 2002 کے الیکشن میں بی اے کی شرط لگا کر بعض سیاست دانوں کو سیاسی عمل سے باہر رکھا گیا۔ مرکزی دھارے کی دو جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) (پی ایم ایل این) پر کئی پابندیاں عائد تھیں اور ان کے قائدین بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جلاوطن تھے۔ پابندیوں سے نمٹنے کے لیے، پی پی پی نے امین فہیم کی سربراہی میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز (PPPP) تشکیل دی، جو اپنی جانب سے الیکشن لڑے۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) پارٹی کی دو دھڑوں میں تقسیم کا شکار ہے: ایک وہ جو شریف کا وفادار رہا اور جاوید ہاشمی کی قیادت میں الیکشن لڑ رہا تھا، اور دوسرا وہ جو مشرف کی حامی پاکستان مسلم لیگ بنانے کے لیے الگ ہو گیا تھا۔ (ق) لیگ میاں محمد اظہر کی قیادت میں۔ مسلم لیگ (ق) کے ابھرنے سے ملک میں کثیر الجماعتی سیاست کا آغاز ہوا، جس سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان دہائیوں پر محیط دو جماعتی نظام کا خاتمہ ہوا۔ نو تشکیل شدہ PML-Q - جسے صدر مشرف کی حمایت کی وجہ سے کنگز پارٹی کہا جاتا ہے - نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔


الیکشن 2008 جزوی طور پر منصفانہ تھے، لیکن جیتنے والی جماعت کو تب تک اقتدار منتقل نہ کیا گیا جب تک اس نے مشرف کے سیف ایگزٹ کی یقین دہانی نہ کروا دی گئی. فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی جانب سے 2008 کے قومی انتخابات کے بارے میں جاری کردہ رپورٹ میں ایک دلچسپ تبصرہ درج ہے۔

ادارے نے جن 246 حلقوں کا دورہ کر کے اعداد و شمار مرتب کیے، ان میں سے 61 حلقے ایسے تھے جہاں پڑنے والے ووٹوں کا تناسب 100 فیصد سے زیادہ تھا۔ بلکہ کچھ حلقے تو ایسے تھے جہاں 112 فیصد تک ووٹ ڈالے گئے۔

2013 کے انتخابات پر تحریک انصاف نے بدترین دھاندلی کے الزامات لگا کر ملک گیر تحریک چلائی اور 11 مئی 2013 کے انتخابات میں بین الاقوامی مداخلت کے منظر بھی دیکھنے میں آئے، مڈل ایسٹ کے بعض ممالک، یورپی یونین اور بھارت نے بعض سیاسی پارٹیوں کے ساتھ روابط رکھے ہوئے تھے اور عالمی مبصرین نے بھی عالمی ضابطہ اخلاق کے بر عکس ہی اپنی کارکردگی دکھائی اور 11 مئی 2013 کے انتخابات پر ہر سیاسی پارٹی نے دھاندلی زدہ قرار دیا اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور نگران حکومت نے بادی النظر میں معاونت بھی کی، غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ 11 مئی 2013 کے الیکشن میں یقینا دھاندلی ہوئی اور ہر امید وار نے منظم دھاندلی کی، امیدواروں کا جہاں زور چلا انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ریٹرننگ آفیسرنے اپنی اپنی پسندکی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو کامیاب کرانے میں بڑی تعداد میں بیلٹ پیپرز الیکشن کمیشن آف پاکستان کی منظوری کے بغیر پرنٹ کرائے اور پنجاب کے 93 ریٹرننگ آفیسران نے الیکشن سے ایک دن پہلے ہی تمام پولنگ سٹیشن بھی تبدیل کر دیئے جو ان کے اختیارات میں نہیں تھا اور الیکشن کمیشن کی اندرونی مشینری نے نہایت ہی لاپروائی کا مظاہر کیا۔



فافن کی ایک رپورٹ کے مطابق 2013 کے انتخابات میں 35 حلقوں میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد ہارنے اور جیتنے والے امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹو کے فرق سے زیادہ تھی۔

پاکستان میں عام انتخابات بدھ 25 جولائی 2018 کو ہوئے۔

سنہ 2018 کے الیکشن میں نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز شریف قید و بند میں تھے اور اُن کی پارٹی کو توڑا گیا۔حنیف عباسی اور دانیال عزیز کو نا اہل کر دیا گیا تھا۔

الیکشن سے پہلے کے پول رزلٹ:


 

2018 الیکشن رزلٹ:


انتخاب کے انعقاد میں تاخیر کا حربہ

قومی اسمبلی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 1977 سے 2023 تک 10 بار قومی اسمبلی کے عام انتخابات کا انعقاد ہو چکا ہے۔

ملک میں 1973 کے متفقہ آئین میں یہ طے پایا تھا کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد ضروری ہے، تاہم 8 ویں قومی اسمبلی، 12 قومی اسمبلی اور 13 قومی اسمبلی کے عام انتخابات میں 90 دنوں سے زیادہ تاخیر کی گئی، 

8 ویں قومی اسمبلی کے 16 نومبر 1988 کو ہونے والے انتخابات 171 دنوں، 

12ویں قومی اسمبلی کے 10 اکتوبر 2002 کو ہونے والے انتخابات 91 دنوں، 

جبکہ 13 ویں قومی اسمبلی کے 18 فروری 2008 کو ہونے والے عام انتخابات 95 دنوں کے بعد ہوئے

دھاندلی کے 163 طریقے

اپنے نمائندوں کے ذریعے انتخابات کی نگرانی کرنے والی سماجی تنظیم ’پتن ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن‘ نے 2022 میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں انتخابی دھاندلی اور ووٹنگ پر اثرانداز ہونے کے کل 163 طریقے رائج ہیں۔  

26 طریقے انتخابی عمل کے دوران اپنائے جاتے ہیں

75 طریقے پولنگ ڈے پر،

51 پولنگ سے پہلے اور

11 پولنگ کے بعد استعمال کیے جاتے ہیں۔

اور تمام آزمودہ طریقوں میں طاقت یا پیسے کا استعمال کیا جاتا ہے۔

الیکٹیبلز الیکشن دھاندلی کے اہم کردار

الیکٹیبلز کون ہوتے ہیں،

الیکٹیبلز بنیادی طور پر وہ امیدوار ہوتے ہیں جو پارٹی نظریات وغیرہ کے قطع نظر اپنا ووٹ بینک رکھتے ہیں، یہ جس پارٹی سے بھی کھڑے ہوں ان کا ووٹ بینک ان کیساتھ ادھر ہی جاتا ہے، الیکٹیبلز میں بنیادی طور پر لینڈ لارڈ، ذات برادری یا پھر مذہبی اثر والے امیدوار ہوتے ہیں، اور یہ لوگ اپنے حلقوں میں نسل در نسل جیتتے آتے ہیں، یا پھر ان میں وقتی طور پر پیسے والے الیکٹیبلز بھی شامل کرسکتے ہیں جو اپنے پیسے کے زور پر ووٹ خرید لیتے ہیں۔  

ضیا الحق کے غیر جماعتی الیکشنز نے پارٹی ووٹ بینک کو شدید نقصان پہنچایا اور ذات برادری کی سیاست کو مضبوط کیا، مشرف کے 2002 کے الیکشنز میں بھی الیکٹیبلز کو مضبوط کیا گیا، 

اگر ملک میں سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی نظریاتی ووٹ بینک مضبوط ہو گا، اور پھر ووٹ جماعت کو اس کی کارکردگی کی بنیاد پر ملے گا، پارٹی مقبول ہو گی تو کھمبے کو بھی ووٹ مل جایں گے،

مگر اشرافیہ اور مقتدرہ کو یہ سچویشن سوٹ نہیں کرتی، بلکہ مقتدرہ عوام کو کنٹرول کرنے کی بجائے چند الیکٹیبلز کو کنٹرول کرنا آسان سمجھتی ہے، اور چونکہ الیکٹیبلز اس نظام کے بینیفشری ہیں لہذا وہ بھی یہی چاہتے ہیں،

نتیجتا" سیاسی جماعتیں ایسے لوگوں کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہو جاتی ہیں، لیکن یہ لوگ جیتنے کے بعد پارٹی پالیسی کی بجائے اپنے مفاداتی ایجنڈے پر عمل پیرا رہتے ہیں، اور غیر سیاسی قوتوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں،

پارٹی کے اپنے نظریاتی ورکر کا استحصال ہوتا ہے، وہ پارٹی سے دور ہوتا چلا جاتا ہے، نتیجتا" پارٹی نظریاتی سیاست سے پاور پالیٹکس کی طرف نکل جاتی ہے۔ پھر پاور پالیٹکس میں سیلیکشن عوام کی بجائے غیر سیاسی قوتیں کرتی ہیں۔ 

23 وزرائے اعظم مجموعی طور پر 18193 سے زائد دن عہدے پر فائز رہے، جو اوسطا" فی وزیراعظم 2 سال بنتا ہے۔ کوئی بھی وزیراعظم اپنی آئینی 5 سال کی مدت مکمل نہ کر سکا۔ 

جبکہ 4 فوجی آمروں نے ملک پر 12116 دن تک حکومت کی۔ جو فی آمر اوسطا" 8 سال تین ماہ بنتا ہے۔

اگر مجموعی مدت کے حوالے سے دیکھیں تو 60٪ سول جبکہ 40٪ آمریت رہی، اب اگر اس 60٪ کی مزید چھان بین کریں تو اس میں سے ہائبرڈ اور لنگڑی لولی جیسی حکومتوں کے دورانیے کو مائنس کریں تو دورانیہ آمریت کی فیور میں چلا جاتا ہے۔

الیکشن 2024:

الیکشن 2024 گزشتہ الیکشنوں کی دھاندلی کی ریہرسل لگ رہا ہے، گو زمانہ جدید کیساتھ اس میں کچھ نئے فیکٹر شامل ہوئے ہیں، آواز کو اٹھانے اور پھر دبانے کے چند نئے پیٹرن دیکھنے کو ملے ہیں، اور دونوں ہی اپنی طاقت کی پنجہ آزمائی کے زبردست مرحلے میں ہیں، بظاہر دبانے والوں کا پلڑا بھاری لگ رہا ہے، لیکن جیت بالآخر سوشل میڈیا والوں کی ہونی ہے کیونکہ سوشل میڈیا ایک اوپن سورس پلیٹ فارم ہے، جس کو یک جنبش ڈیلیٹ کرنا ناممکن ہے (پی ٹی اے کے مطابق 2018ء میں 5 کروڑ 50 لاکھ موبائل براڈ بینڈ سبسکرائبرز جبکہ 5 کروڑ 50 لاکھ براڈ بینڈ انٹرنیٹ صارفین تھے لیکن نومبر 2023ء کے اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں 12 کروڑ 60 لاکھ موبائل براڈ بینڈ صارفین جبکہ 12 کروڑ 90 لاکھ براڈبینڈ انٹرنیٹ صارفین ہیں)، اس کے لیے آپ کو اپنے سسٹم کو 60 اور 80 کی دہائی میں لے جانا ہو گا، یا پھر آپ کو اپنا اولڈ فیشنڈ طریقہ کار بدلنا ہو گا،

 ووٹ ٹرینڈ کمپیریزن

اگر 2013 سے 2018 کے الیکشن کا موازنہ کریں تو جو ووٹ چینج نظر اتا ہے وہ ن لیگ کا 2 ملین کم ہوا

ایم کیو ایم کا 1.7 ملین کم ہوا

پیپلزپارٹی و دیگر ووٹ ان چینجڈ رہا

جبکہ پی ٹی آئی 9.2 ملین بڑھا

اور تحریک لبیک کا 2 ملین بڑھا

2013 سے 2018 میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں 20 ملین کا اضافہ ہوا، اس لحاظ سے بڑا فرق نئے ووٹر کی سوچ میں آیا. جو موسٹلی پی ٹی آئی اور پھر قدرے تحریک لبیک کی طرف گیا. 



2013 اور 2018 کے الیکشن رزلٹ کا تقابل

پی ایم ایل این 126 > 64

پی پی پی 33 > 43

پی ٹی آئی 28 > 116

ایم کیو ایم 19 > 6

جے یو آئی ایف 11 > 11

پی ایم ایل ایف 5 > 2

جے آئی 2 > 2

اقوام متحدہ کی رپورٹ کیمطابق پاکستان دنیا کے 237 ممالک میں 20.4 سال کی اوسط عمر کے ساتھ 46 واں ینگ آبادی والا ملک ہے۔


اسی طرح اب 2018 کے مقابلے میں 21 ملین نئے ووٹرز رجسٹرڈ کیے گے ہیں. اگر ان کا ٹرن آوٹ 10 ملین بھی رہتا ہے تو یہ نیا ووٹ قابل توجہ ہو سکتا ہے. اس نئے ووٹر میں سے بھی 57 ملین ووٹر 35 سال سے کم ایج کا ہے، جبکہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں 35 سال سے زائد العمر ہیں،



یہ ینگ ووٹ کیا سوچ رکھتا ہے گزرتے وقت کیساتھ کیا رنگ اختیار کرتا ہے، بدظن ہوتا ہے یا پھر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ووٹ پول کرتا ہے، اور پھر دیکھنا ہو گا ارباب اختیار اس ووٹ کو الیکشن رزلٹ میں کیسے ہینڈل کرپاتے ہیں؟


حوالہ جات:

انتخابی اصلاحات اور مستقبل

پاکستان میں انتخابات کی تاریخ

پاکستان میں انتخابات کی کہانیاں

عام انتخابات کی مختصر تاریخ

1977 کے انتخابات اور آج کا سیاسی منظرنامہ: جب الیکشن کمیشن کی ’سجی سجائی دکان کو لوٹا گیا‘

پاکستان: آمریت بمقابلہ منتخب نمائندے

پاکستان میں پہلے عام انتخابات ہونے میں 23 سال کیوں لگے؟

الیکشن کی سیاست وسعت اللہ خان کی زبانی

پاکستانی انتخابات، تاريخ کے آئینے میں

Reference 


No comments:

Post a Comment