کامیابی کیسے ملتی ہے؟
کامیابی تھالی میں رکھ کر نہیں ملتی،
رنگ لانے کے لیے گھسنا پڑتا ہے۔
جب ہارنے لگو تب وہاں سے دوبارہ لڑنا پڑتا ہے.
انھوں نے وشو ودیالیہ ہریدوار سے کیمسٹری میں بیچلر آف سائنس کے ساتھ گریجویشن کی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک سال تک کیمسٹ کے طور پر کام کیا۔ پھر اچھی نوکری کی تلاش میں دہلی چلے آئے۔
جہاں ایک پلے دیکھنے کے دوران ان کے دل میں اداکاری کا خیال آیا۔ انھوں نے نیشنل سکول ڈرامہ میں داخلہ لے لیا، اداکاری کا کورس مکمل کرنے کے بعد 1999 میں وہ ممبئی چلے آئے۔ جہاں ان کی لمبی جدوجہد (Struggle) کی شروعات ہوئی۔
وہ آج ایک نامور اداکار اور سپر سٹار ہیں، لیکن اس کے پیچھے ان کی کامیابی کی بہت ہی انسپائرینگ اور متاثر کن جدوجہد ہے۔
ممبئی پہنچ کر پہلے تو ان کو سرفروش اور منا بھائی ایم بی بی ایس جیسی فلموں میں چھوٹے موٹے پیچھے کھڑے ہونے والے رول ملے۔ لیکن وہ کوئی پراپر رول حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ 2003 میں انھوں نے عرفان خان کیساتھ ایک شارٹ فلم بائپاس میں کام کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ڈراموں میں کوئی کام حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔
ممبئی میں وہ ایک شئیرڈ روم میں 4 لوگوں کیساتھ رہتے تھے، اس دوران وہ چھوٹے موٹے پلے وغیرہ سے گزر بسر کرتے رہے، لیکن 2004 میں ان کی معاشی حالت بالکل پتلی ہوگئی، وہ روم کا کرایہ تک دینے سے رہ گئے، ان کو روم سے نکلنا پڑا، انھوں نے ایک سینئر سے روم میں رہنے کے لیے درخواست کی، سینئر نے ان کو اس شرط پر ساتھ رکھنے پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ سینئر کے لیے کھانا بنائے گا۔ صاف بولیں تو وہ ایک کک کی نوکری جیسے ہی تھا۔
لیکن جب عزم بڑے ہوں تو ان کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد بھی بڑی اور کٹھن ہوتی ہے۔ نواز الدین صدیقی سائنس میں گریجویٹ تھے، وہ ایک کیمسٹ تھے، چاہتے تو انھیں آسانی سے دوبارہ کیمسٹ کی نوکری مل سکتی تھی، مگر یہاں نواز الدین نے استقامت دیکھائی اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے اپنی انا، عزت نفس اور ڈگری کے تقدس تک کو گروی رکھ دیا۔
2004 سے 2007 تک ان کو بلیک فرائیڈے جیسے چھوٹے موٹے رول ملتے رہے، 2009 میں ان کو ایک گانے میں مختصر رول ملا۔ 2010 میں ان کو ایک فلم پیپلی لایئو میں ایک صحافی کا رول ملا جس میں ان کو بطور اداکار اپنی شناخت کرانے کا موقع ملا۔ 2012 میں ان کو پتنگ فلم میں کام کرنے کا موقع ملا، جس میں ان کی پرفارمنس کو سراہا گیا اور ان کو تھمبس اپ ٹرافی سے نوازا گیا۔ فلم نے امریکہ کینیڈا وغیرہ میں زبردست کامیابی حاصل کی۔
2013 میں ان کو گینگز آف وصی پور کے دوسرے پارٹ میں لیڈنگ رول کرنے کا موقع ملا، 2013 میں ہی ان کی فلم لنچ باکس کینز فلم فیسیٹول میں پیش کی گئی جہاں نواز الدین نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے۔ 2013 میں ہی ان کو بیسٹ سپورٹنگ اداکار کا ایوارڈ بھی ملا۔ 2016 میں رمن راگھو 2.0 میں ان کے کام پر انھیں اسپین میں فانسائن ملاگا ایوارڈ اور ایشیا پیسیفک اسکرین ایوارڈز ملے۔ 2018 میں فلم منٹو میں انھوں نے شاندار کارکردگی دیکھائی جس پر انھیں 2018 کے ایشیا پیسیفک اسکرین ایوارڈز میں بہترین اداکار کا اعزاز ملا۔ نیٹ فلیکس پر ان کی سکیرڈ گیمز سیریز کو بہت پزیرائی ملی، مشہور زمانہ ناول دی الکیمسٹ کے مشہور مصنف پاؤلو کوئلہو نے بھی ان کے کام کی تعریف کی۔
اب نواز الدین صدیقی نیشنل و انٹرنیشنل فلموں میں لیڈنگ رول کررہے ہیں، وہ انڈین فلم انڈسٹری کے سپر سٹار بن چکے ہیں لیکن انھوں نے اپنی جنم بھومی سے اپنا رشتہ نہیں توڑا،
نواز الدین صدیقی اتر پردیش میں اپنے آبائی شہر بدھانہ کے کسانوں کی زندگیاں بہتر بنانے کا عزم رکھتے ہیں، وہ کسانوں کو جدید زرعی ٹیکنالوجیز سے متعارف کروانے کے لیے کوشاں ہیں، انھوں نے وہاں آبپاشی کے نئے طریقے رائج کیے ہیں جو کسانوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں۔ 2021 میں انھوں نے اپنی شوٹنگز کو بریک دیکر اپنا کافی سمے بدھانا میں بیتایا۔
ایک حالیہ انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ "میرے اپنے خاندان میں، میری دادی ایک نچلی ذات سے تھیں۔ لوگوں نے آج بھی ان کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا، "حقیقت یہ ہے کہ میں مشہور ہوں لیکن ان کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ یہ ان کے اندر پیوست ہے یہ ان کی رگوں میں ہے۔ اور وہ اسے اپنا فخر سمجھتے ہیں۔‘‘
حوالہ جات
https://www.bbc.com/urdu/articles/cv2kr1zz8zvo
https://www.koimoi.com/bollywood-news/nawazuddin-siddiqui-recalls-getting-dragged-by-collar-when-tried-eating-with-lead-actors-of-films-junior-artists-eat-separately-the-supporting-artists-have-their-own-space/
No comments:
Post a Comment